• 20 اپریل, 2024

حاجی عبدالغنی دوالمیال کا احمدیت قبول کرنے کا واقعہ

مکرم حاجی عبدالغنی ایک لمبے عرصے تک دوالمیال جماعت کے امام الصلٰوۃ کی حیثیت سے خدمت دین میں مصروف رہے۔آپ اللہ تعالی کے فضل سے نیک،تقویٰ شعار ،صوم و صلٰوۃ کے پابند اور ہر ایک سےخوش اخلاقی سے پیش آنے والے مشفق وجود تھے ۔آپ بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ کے کردار کی ایک اہم ترین صفت عبادت اور ہر ایک کے لیے دعا میں مصروف رہنا تھا۔آپ غریب پرور ،کثرت سے صدقات دیتے تھے اور آپ کو دعا اور صدقات پر کامل یقین تھا۔

مکرم حاجی عبدالغنی کا احمدیت قبول کرنے کا واقعہ آپ کے بھتیجے مکرم محمد اصغر نے مجھے بتایا جو قارئین کی نظر کرتا ہوں ۔ کہ نیک فطرت لوگوں کو اور تحقیق کرنے والوں کو کس طرح اللہ صحیح راستہ دکھاتا ہے۔

مکرم حاجی عبدالغنی ،مکرم مستری غلام محمد آف دوالمیال جنہوں نے احمدیہ دارالذکر دوالمیال میں قادیان کے مینار کی طرح 1927ءمیں مینار تعمیر کیا تھا ایک مخلص احمدی تھے اور احمدیت میں رنگے ہوئے رشتہ دار تھے۔

مکرم حاجی عبدالغنی کو مکرم مستری غلام محمد ہمیشہ دعوت الی اللہ کیا کرتے تھے ان کو سلسلہ کی کتب اور رسائل دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ان کا مطالعہ کرو تو تمہیں صحیح اسلام کی تصویر نظر آئے گی۔ مکرم حاجی صاحب کے دوسرے تمام رشتہ دار بہت زیادہ احمدیت کے مخالف تھے اور ان کو منع کرتے تھے کہ جماعت احمدیہ کی کتابوں کا مطالعہ ہر گز نہ کیا کرو۔ مستری غلام محمد کے پاس زیادہ نہ بیٹھا کرو اور ان کی باتوں پر دھیان نہ دیا کرو۔ یہ سن کر آپ کو حیرت ہوتی کیونکہ جو آپ نے کتابیں پڑھی تھیں ان میں تو اسلام کی تعلیم قرآن و سنت کے مطابق تھی اور یہ مخالف رشتہ دار کچھ اور ہی کہتے تھے اور آپ سوچتے کہ جب مکرم مستری غلام محمد کو دیکھتا ہوں کہ وہ صوم و صلوۃ کے پابند اور تہجد گذار ہیں ان کی ہر بات دلیل کے ساتھ ہوتی ہے اور میرے دوسرے رشتہ دار کہتے ہیں کہ ان کے پاس نہ بیٹھا کر۔ حاجی صاحب چونکہ نیک فطرت انسان تھے اور حق کو پانے کی جستجو رکھتے تھے پانچ وقت کی نماز کے پابند اور تہجدگزار تھے انہوں نے احمدیہ کتب اور رسائل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور حق ان پر آشکار ہونے لگا اس کے بعد انھوں نےجماعت احمدیہ کی کتب کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دیا اور مکرم مستری غلام محمد نے بھی انہیں خوب دعوت الی اللہ کی۔

آپ جب چھوٹے ہی تھے تو آپ کے والد محمد خان فوت ہوگئے اور آپ کی پرورش آپ کے چچا مکرم فتح محمد نے کی ۔آپ کے چچا جان کا جب رشتہ وعولہ گاؤں میں مکرم فضل کریم کی بیٹی سے طے ہونا قرارپایا ۔مکرم فضل کریم صاحب ایک مخلص احمدی تھے انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ کسی احمدی کو دوں گا ناراض نہ ہونا ۔میں جماعت احمدیہ کی کتب دیتا ہوں فتح محمدکو کہو کہ وہ ان کتابوں کو پڑھے اور اگر وہ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ حق یہی ہے اور احمدیت کی آغوش میں آجاتا ہے تو میں اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دوں گا ورنہ ہرگز نہیں۔

یہ لوگ نیک فطرت تھے انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ مکرم فضل کریم نے آپ کو سلسلہ احمدیہ کی کتب پڑھنے کے لیے دے دیں۔مکرم فتح محمد نے جب مطالعہ شروع کیا اور مکرم مستری غلام محمد نے جب ان کو دعوت الی اللہ کی تو ان کو احمدیت کی سچائی پر یقین ہونے لگا اور رفتہ رفتہ ان میں احمدیت کی تعلیم گھر کرنے لگی اور آپ نے کچھ ہی عرصہ میں بیعت کرلی اور اس کے بعد آپ کی شادی مکرم فضل کریم کی بیٹی سے ہوگئی۔ مکرم فضل کریم کے بھائی مکرم غلام محمد صاحب بھی نہایت مخلص احمدی تھے ان کی اولاد مکرم خدابخش اور مکرم محمد یوسف بعد میں بھون چلے گئے تھے اور ان کی اولادیں بھی وہیں ہیں۔مکرم فضل کریم صاحب تو ہر سال وعولہ سے سائیکل پر جلسہ سالانہ ربوہ سننے کے لئے جایا کرتے تھے نہایت نڈر اور دلیر احمدی تھے۔احمدیت سے آپ کو عشق کی حد تک پیار تھا ۔جب مکرم حاجی عبدالغنی کے چچا نے بھی احمدیت قبول کرلی تو آپ نے بھی مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور اب آپ نےتہجد میں دعائیں کرنی شروع کر دیں کہ اے اللہ مجھے حق کی تلاش ہے مجھے سیدھا راستہ دکھا آپ کی دعائیں رنگ لانے لگیں۔

رات کو خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے اور انہوں نے ان کو بتایا کہ یہ راہ سیدھی ہے اس پر آجاؤ اور بیعت کر لو یہ خواب مسلسل آپ کو کئی روز تک آتے رہے۔ آپ نے مطالعہ جاری رکھا اور کسی سے ان خوابوں کا ذکر نہ کیا۔ آخر ایک دن رخت سفر باندھا اور بغیر کسی کو بتائے ہوئے ربوہ کو عازم سفر ہوئے اور وہاں جاکر جائزہ لینے لگے اور وہاں کے ماحول اور نماز کی پابندی اور باجماعت تہجد کو دیکھ اور پڑھ کر کر آپ دل سے مطمئن ہوگئے۔ جمعہ والے دن جمعہ پڑھنے کے لیےمسجد مبارک میں پہنچے۔ وہاں جب خطبہ جمعہ دینے کے لیے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ؓ ممبر پر تشریف لائے تو آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور آپ نے پہچان لیا کہ یہی بزرگ میری خوابوں میں آیا کرتے تھے اور مجھے بیعت کرنے کے لیے کہتے تھے۔ آپ کو تو گویا منزل مل گئی اور آپ نے اسی دن بیعت کرلی اور احمدیت کے حصار میں آگئے۔ اس کے بعد آپ نے دم آخر تک احمدیت کے ساتھ وفاکی۔ آپ نے وصیت کر لی۔ آپ ایک لمبے عرصے تک دوالمیال جماعت کے امام الصلٰوۃ رہے اور بڑھ چڑھ کر خدمت دین میں مصروف رہے اور 17 جنوری 2006ء کو دوالمیال میں اپنی جان ،جان آفریں کے سپرد کردی اور جنوری 2006ء کو بہشتی مقبرہ میں قطعہ نمبر 6 لائن نمبر 25 قبر نمبر 11 میں دفن ہوئے ۔آپ کی قبر کے کتبے پر یہ عبارت درج ہے۔ حاجی عبدالغنی صاحب محمد خان صاحب دوالمیال۔ ضلع چکوال ۔ ولادت 1925ء بیعت 1940ء وفات 17 جنوری 2006ء عمر 81سال وصیت نمبر 22103/22-7-1975. دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس کا مقیم بنائے آمین۔


(ملک ریاض احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ