• 16 اپریل, 2024

آداب معاشرت (کھانے کے آداب) (قسط 11)

آداب معاشرت
کھانے کے آداب
قسط 11

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْہِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِیْ ۚ وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِیْ فَقَدْ ہَوٰی (طٰہٰ: 82)جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے طیّب چیزیں کھاؤ اور اس بارہ میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں : اگر تم میں سے کوئی کھانے لگے تو بِسْمِ اللّٰہِ پڑھے اور اگر بھول جائے تو کہے بِسۡمِ اللّٰہ اَوَّلِہٖ وَاٰخِرِہٖ اللہ کے نام کے ساتھ اس کے آغاز اور آخر میں۔(سنن الترمذی،کتاب الاطعمۃ عن رسول اللّٰہ) آپﷺنے فرمایاکُلْ بِیَمِیْنِک وَ کُلْ مِمَّا یَلِیْکَ اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

(سنن أبی داؤد، کتاب الاطعمۃ،باب الاکل بالیمین)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آنحضورﷺبے صبری اور بے قراری کے ساتھ کھانے کوسخت ناپسند فرماتے تھے۔تہذیب کے خلاف ہونے کے علاوہ بے صبری اور افراتفری سے کھانا نظام ہضم پر بھی بہت بُری طرح اثر انداز ہوتا ہے چنانچہ اطباء کمزور معدہ مریضوں کو خاص طور پر آہستہ آہستہ چبا کر کھانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ کھانے کے دوران برتن میں چاروں طرف ہاتھ مارنا اور بہتر حصوں کی تلاش اور ان تک پہلے پہنچ جانے کی کوشش آنحضورﷺکو سخت ناپسند تھا۔ آپؐ فرماتے ہیں جب کوئی شخص کچھ کھائے تو اسے دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے اور دائیں ہاتھ سے پینا چاہئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں سے پیتا ہے۔

(صحیح مسلم،کتاب الاشربۃ)

آپؐ فرماتے ہیں کھانا اکٹھا کھایا کرو اور اللہ کا نام لے کر کھایا کرو، یُبَارَکْ لَکُمْ فِیہِ اس میں تمہارے لئے برکت پیدا ہوجائے گی۔

(سنن ابی داوود، کتاب الاطعمۃ،باب فی الاجتماع علی الطعام)

آپؐ اپنے کھانے میں دوسروں کو شریک کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایک آدمی کا کھانا دو کے لئے کافی ہوتا ہے اور دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہوتا ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ)

آپؐ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا وہ ہے جس میں زیادہ کھانے والے شامل ہوں۔(صحیح الجامع الصغیر وزیاداتہ، المجلد الأول) آپؐ فرماتے ہیں أَبْرِدُوا الطَّعَامَ …گرم کھانا ٹھنڈا کر لیا کرو، فَإِنَّ الطَّعَامَ الْحَار …یقیناًزیادہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔ (المستدرک علی الصحیحین،کِتَابُ الْأَطْعِمَۃِ)آپؐ فرماتے ہیں البَرَکَۃُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ وَلَا تَاْ کُلُوْامِنْ وَسَطِہِ برکت کھانے کے درمیانی حصہ میں نازل ہوتی ہے فَکُلُوا مِنْ حَافَتَیْہ پس اس کے کناروں سے کھاؤ، اس کے درمیان میں سے نہ کھانا شروع کردو۔

(سنن الترمذی، باب ما جاء فی کراہیۃ الاکْلِ من وسط الطعام)

ہمارے پیارے اِمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ کھانا کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھونے کا حکم آتا ہے۔ آپﷺ کھاناکھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے تھے اور کلّی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کلّی کرتے اور آپﷺ پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر کلی کئے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔ کھانا کھا کر کلّی بھی کرنی چاہئے اور ہاتھ بھی دھونے چاہئیں۔ اور اس سے پہلے بھی تاکہ ہاتھ صاف ہو جائیں۔ اور بعد میں اس لئے کہ سالن کی بُو منہ اور ہاتھوں سے نکل جائے۔ پھر آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ہاتھ دھو کر دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا چاہئے۔‘‘

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰﷺ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ جب کھانا پسند فرماتے تو کھا لیتے اور جب ناپسند فرماتے تھے تو ترک فرما دیتے۔(صحیح البخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبی)آپؐ فرماتے ہیں جب تم کھانا کھاؤ تو اپنے جوتے اُتار لیا کروکیونکہ فَإِنَّہُ أَرْوَحُ لِأَبْدَانِکُمْ ایسا کرنا تمہارے جسم کو تازگی بخشے گا۔ (المستدرک علی الصحیحین کِتَابُ الْأَطْعِمَۃِ)آپؐ فرماتے ہیں ابن آدم نے پیٹ سے زیادہ کسی بدترین برتن کو نہیں بھرا، حالانکہ ابن آدم کے لئے تو اتنے لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں، اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ثُلُثُ طَعَامٍ ایک تہائی کھانا ہو، وَثُلُثُ شَرَابٍ ایک تہائی پانی ہو، وَثُلُثٌ لِنَفْسِہ اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے ہو۔(مسند أحمد کتاب مسند الشامیین،باب حدیث المقدام بن معدی) آپؐ فرماتے ہیں کُلْ وَأَنْتَ تَشْتَہِیْ اس وقت کھاؤ جب کھانے کی رغبت ہو۔وَدَعْ وَأَنْتَ تَشْتَہِیْ اور اس وقت چھوڑ دو جب اور کھانے کی رغبت باقی ہو۔

(نوادرالمخطوطات،رسالۃرابعۃ)

ہمارے پیارے اِمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ بہت سی بیماریاں جو پیدا ہورہی ہیں اس خوراک کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے۔

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں بَرَکَۃُ الطَّعَامِ… کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ منہ دھونا کھانے کو بابرکت بنا دیتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الاطعمۃ عن رسول اللہ باب ما جاء فی الوضوء)آپﷺفرماتے ہیں فَلَا آکُلُ مُتَّکِئًامیں ٹیک لگائے ہوئے کھانا نہیں کھاتا۔ (سنن الترمذی کتاب الاطعمۃعن رسول اللہ،ماجاء فی کراہیۃ)حضرت انس ؓروایت کرتے ہیں کہ آپﷺ یَتَنَفَّسُ فِی الشَّرَابِ ثَلَاثًا پانی پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ إِنَّہُ أَرْوَی اس طرح پانی پینا انسان کو سیراب کر دیتا ہے، وَأَبْرَا اور پیاس کی شدت کو بجھاتا اور پانی کے مضر اثرات سے بچاتا ہے وَأَمْرَأُ اور نگلنے اور ہضم ہونے میں ممد ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ،باب کراہۃ التنفس فی نفس الاناء ) آپ ﷺ نے مشک کو منہ لگا کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاشربۃالشرب من فم السقاء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ایک سانس میں پانی پینے کی ممانعت کے متعلق فرماتے ہیں:
یکلخت ایک ہی سانس میں پانی پی جانا بھی جہاں انسان کی بے صبری اور بے وقرے پن کو ظاہر کرتا ہے وہاں صحت کے لئے بھی مضر ثابت ہو سکتا ہے چنانچہ آنحضورﷺنے اس بد عادت سے بھی بڑے لطیف انداز میں منع فرمایا۔حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا۔تم ایک دم اونٹ کی طرح پانی نہ پیو۔بلکہ دو تین مرتبہ دم لے کر پیئو اور بسم اللہ کہو۔ جب پانی پینا شروع کرو تو بسم اللہ اور جب دوبارہ برتن منہ سے لگاؤ تو الحمدللّٰہ کہو۔

حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے پانی پیتے وقت پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔ایک شخص نے عرض کیا۔میں پانی میں تنکے پڑے ہوئے دیکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا (ایسی حالت میں)تھوڑا سا پانی پھینک دو۔ پھر اس نے عرض کیا۔میں ایک سانس میں پانی پینے سے سیراب نہیں ہوتا۔ آنحضورﷺنے فرمایا پیالے کو منہ سے علیحدہ کرو اورپھر سانس لو۔

آپؐ نے مریض کو ایسی چیزیں کھانے سے منع فرمایا ہے جو اس کی بیماری میں مضر ہوں لیکن اگربیمار کا کوئی چیز کھانے کودل کرتا اور وہ چیز اس کے لئے مفید بھی ہوتی تو آپؐ اس چیز کا بندوبست کروانے کاحکم دیتے۔ سو آپؐ خیال رکھتے کہ جو چیز ایک انسان کھا رہا ہے وہ اس کے بدن اور روح کے لئے طیب اور مفید بھی ہے کہ نہیں تاکہ حکم خدا وندی کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ… (پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو اور نیک اعمال بجا لاؤ) پر عمل ہوسکے۔آپؐ فرماتے ہیں: إِنَّ اللّٰہَ لَیَرْضَی عَنِ الْعَبْدِ…اللہ تعالیٰ بندے سے صرف اتنی بات پر راضی ہوجاتا ہے کہ جب وہ بندہ کوئی لقمہ کھائے یا پانی کا گھونٹ پئے تو اپنے رب کا شکر ادا کر دے۔

(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار)

آپؐ فرماتے ہیں۔ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تووہ یہ دعا کرے کہ اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا … اے اللہ!ہمارے لئے اس میں برکت عطا فرما اور اس سے بہترین کھلا اور جس شخص کو اللہ دودھ پلائے تووہ یہ دعا کرے کہ اے للہ! ہمارے لئے اس میں برکت عطا فرما اور اس میں مزید اضافہ فرما،کیونکہ کھانے اور پینے دونوں کی کفایت دودھ کےعلاوہ کوئی چیزنہیں کرسکتی۔

(سنن أبی داؤد کتاب الأشربۃ)

آپؐ جب کھانے سے فارغ ہوتے تو فرماتے الْحَمْدُ لِلّٰہ کَثِیرًا … تمام طیب اور مبارک تعریفیں اس خدا تعالیٰ کے لئے ہیں جو کسی کا محتاج نہیں اور سب بندے اس کے اور اس کے رزق کے محتا ج ہیں۔

(صحیح البخاریکتاب الاطعمۃ باب ما یقول اذا فرغ من طعامہ)

آپؐ جب کھاناکھاتے یا پانی پیتے تو فرماتے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَناَ وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔

(کنز العمال فی سنن الاقوال والافعالالباب الثالث:فی شمائل تتعلق بالعادات المعیشۃ)

(حنیف محمود کے قلم سے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

احمدیت کا فضائی دور (ایم ٹی اے- تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان) (قسط 3)