• 24 اپریل, 2024

ہمارا خدا تو دُعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے

میرا صد ہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایسا کریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اس کے مثل ہوتی ہے۔

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ340)

ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دُعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ147 ایڈیشن 1988)

مَیں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سِلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے۔

اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دعائیں خطا جاتی ہیں اور اُن کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو مَیں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے۔ کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے؟ مگر کیا باوجود اسبات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے۔ مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا ۔ بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور رُوحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں۔ مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور پر میسّر آ جاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ اُن سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے۔ تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے یہی قاعدہ دُعا کا بھی ہے۔ یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادۂ الٰہی اس کے قبول کرنے کا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلۂ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے۔ پس سیّد صاحب کی سخت غلطی ہے کہ وہ نظام جسمانی کا تو اقرار کرتے ہیں مگر نظام روحانی سے منکر ہو بیٹھے ہیں۔

(برکات الدعاء۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ11، 12)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اپریل 2021