• 23 اپریل, 2024

تفسیر سورۃ الفیل (از افادات تفسیر کبیر)

سورۃ الفیل مکی سورۃ ہے اور اس کی پانچ آیات ہیں۔اس سورۃ کا قریبی ترتیب کے حوالہ سے پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں بتایا گیا تھا کہ وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ (الھمزة 2) یعنی عیب چینیاں کرنے والے، دوسروں کو نقصان پہنچانے والے اور تکلیفیں دینے والے جو اپنے مال اور دولت پر گھمنڈ کرتے ہیں وہ تباہ اور برباد کر دئیے جائیں گے۔ آنحضرت ﷺ کےدشمن مالدار تھے، دولتمند تھے، بڑی بڑی تجارتیں تھیں چنانچہ ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ ضرور غالب آئیں گے۔ جس وقت آپ ﷺ کے غالب آنے کی اللہ تعالیٰ خبر دے رہا تھا اس وقت یہ بات بظاہر ناممکن معلوم ہوتی تھی۔ لہٰذا سورۃ الھمزۃ میں جو دعویٰ اللہ نے کیا ہے اس کی دلیل اس سورۃ الفیل میں یہ بیان فرمائی ہے کہ جس اللہ نے بے سرو سامانی کے عالم میں خانہ کعبہ کو ابرہہ کے لشکر سے بچایا تھا اور بغیر کسی ظاہری سامان کے اس کی حفاظت کے سامان پیدا کئے تھے وہ اب بھی محمد ﷺ کو غالب کرے گا اور آپ کے دشمنوں کو تباہ و برباد کردے گا۔

دوسرا تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ مکہ والوں کو بتانا مقصود تھا کہ اصحاب الفیل کی تباہی کی ایک وجہ مکہ کا بچانابھی تھا مگر اصل غرض محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت تھی۔ تیسرا تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ لوگ اکثر یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اگلے جہان کے عذاب سے لوگوں کو ڈرانے کا کیا فائدہ ہے؟ اسی لئے سورۃ الھمزۃ میں جس آگ میں کفار کے ڈالے جانے کا ذکر ہے اس کی عملی شکل اس سورۃ (الفیل) میں اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ اصحاب الفیل کی تباہی دراصل دنیوی عذاب تھا اور جس خدا نے دنیا میں تمہیں عذاب دکھا دیا ہے تواخروی عذاب سے تم کیونکر منہ موڑ سکتے ہو۔

خانہ کعبہ کی بنیاد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں

قرآن کریم کے ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عالم ِعلم المبداء و المعاد کا ذکر اپنی صفات رب العالمین اور مالک یوم الدین میں فرمایا ہے اور پھر پورے قرآن کریم میں اس علم کے نور کی کرنیں متعدد پیشگوئیوں اور دنیاوی حقیقتوں کے بیان کی صورت میں بکھیر دی ہیں۔ اس عالم الغیب خدا نے مکہ کی ابتداء سے حضرت محمد ﷺ کے زمانہ تک کی تاریخ بھی مختلف مواقع پر نہایت پُر حکمت انداز میں پیش فرمائی ہے چنانچہ خانہ کعبہ کا اول ترین نام بکۃ بیان فرماتا ہے۔ اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کی خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے کی گئیں دعاؤ ں کو نہایت دلکش انداز میں پیش فرماتا ہے جہاں آپ نے یہ دعا کی کہ رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (البقرة 130) اور ساتھ ہی یہ بھی دعا کی کہ وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجۡنُبۡنِیۡ وَ بَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ (إِبراهيم :36) پس اس دعا کی قبولیت کے آثار فوراً ہی شروع ہوگئے جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہؑ کو اس بے آب و گیاہ وادی میں صرف اللہ کے سہارے چھوڑا تو ایک طرف آبِ زمزم کا چشمہ جاری ہوا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے جرہم قبیلے کی آباد کاری کے سامان پیدا کئے جو یمن سے تجارت کی غرض سے یہاں سے گذرتے تھےاور پانی میسر آنے پریہاں مستقل رہائش اختیا ر کرلی۔ حضرت اسماعیل ؑجن کو حضرت ابراہیم ؑاس وادی میں بےسروسامان چھوڑگئے تھے خدا نے نہ صرف ان کی زندگی کے سامان پید اکئے بلکہ اسی قبیلہ جرہم کی ایک لڑکی سے انکی شادی ہوئی اور خدانے اس ایک جان کو بچا کر آئندہ نسلوں کی بنیاد بھی رکھ دی جن میں اس عظیم وجود نے پید اہونا تھا جس نے حضرت ابراہیمؑ کی متذکرہ بالا دعاکا مصداق بننا تھا یعنی حضرت محمدﷺ۔

غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو دعائیں آپ ﷺ کے وجود بابرکت سے بیک وقت پوری ہوئیں۔اول یہ کہ میری نسل سے اس عظیم الشان وجود (محمد ﷺ)کو پیدا فرما، دوم یہ کہ اس خانہ کعبہ کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اس کی حفاظت فرما۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا سے قریباً 2200 سال بعد تک کسی کو اس خانہ کعبہ پر حملہ کا خیال نہ آیا اور وہ محفوظ چلا آیا اور مستند ترین روایت کے مطابق جس سال حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے اسی سال بلکہ آپ کی پیدائش سے صرف 50دن قبل ابرہہ نے خانہ کعبہ پرحملہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اسےعبرت ناک سزا دی۔ پس آپ ﷺ کی پیدائش کے ساتھ ہی خانہ کعبہ پر حملہ ہونا اور دشمن کا نیست و نابود کیا جانا محض اتفاق نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی دونوں دعائیں یعنی آپ کی ذریت سے اس عظیم الشان وجود کا پیدا ہونا اور خانہ کعبہ کی حفاظت کا سامان بغیر کسی ظاہری ساز و سامان کے ہونا دربارِ ایزدی میں شرفِ قبولیت پا گئیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ہر سورۃ سے قبل نازل ہونا

1۔ بسم اللہ ہر سورۃ کے مضامین کھولنے کی کنجی ہے۔

2۔ قرآن کریم کی ہر سورۃ میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہوتی ہے جو غیرمعمولی ہومثلاً عقیدہ کے لحاظ سے، یا پیشگوئیوں کے لحاظ سے، یا تاریخ کے لحاظ سےیا دنیوی قانون کے لحاظ سے۔ اس لئے ہر سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے نام سے ہے تاکہ اس کی سند ہر مضمون کے بیان کے ساتھ ر ہے۔

3۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر سورۃ سے پہلے اپنے آپ کو بطور گواہ کے پیش کرتا ہے۔پس قرآن کریم کی یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ ہر ٹکڑا سے پہلے بسم اللہ نازل کرکے یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ اس کا ہر ٹکڑا میری طرف سے ہےاور یوں قرآن کریم کے ہر ٹکڑے پر مہر لگا دی ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں توکل علی اللہ کی تفسیر اور تین زمانوں کا ذکر

اس چھوٹی سی آیت میں تینوں زمانوں کی حکومت اور سلطنت اللہ تعالیٰ کی پیش کی گئی ہے۔ جیساکہ بسم اللہ میں فرماتا ہے کہ حال اللہ کا ہے۔ یعنی جس زمانہ میں ہوں اور جو کام بھی کرنا چاہتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جس کے قبضہ ِتصرف میں حال کا زمانہ ہے۔ پھر الرحمٰن کے لفظ میں ماضی کی حکومت اور سلطنت اللہ تعالیٰ کی بیان فرمائی گئی ہے۔ رحمانیت میں آسمان کی پیدائش، پانی، زمین کی پیدائش، خود انسان کا اپنا جسم اور اسکے قویٰ، جمادات اور نباتات وغیرہ شامل ہیں۔اور رحمانیت کے وسیع تر معانی میں یہ بات داخل ہے کہ دنیاکی ہر چیز فائدہ مند ہے کیوں کہ رحمانیت کسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ پھر آخر پر الرحیم رکھ کر بتایا کہ اللہ ہی کہ تصرف میں مستقبل کا زمانہ ہے کیونکہ رحیم کا معانی ہے ایسی ذات جو سچی کوشش کا بہترین اور بار بار نتیجہ خیز بدلہ دیتا ہے۔اس لئے رحیم کا لفظ مستقبل کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے۔یوں اس چھوٹی سی آیت میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کی بادشاہی اور سلطنت اللہ تعالیٰ کی بیان فرمائی گئی ہے۔ (الفيل2)

یہاں آنحضرت ﷺ کو نہایت پر حکمت انداز میں مخاطب کے ضمائر استعمال کرکے مخاطب کیا گیا ہے الم تر میں فرما یا کیا تو نے دیکھا نہیں۔ پھر فرمایا رَبُّک تیرے رب نے، رب الکعبۃ نہیں فرمایا۔ پس اس سورۃ کا مرکزی نقطہ آپ ﷺ کے گرد ہی گھومتا ہے اور دراصل یہ بتایا گیا ہے کہ اصحاب الفیل کے حملہ سے خانہ کعبہ کو آپﷺ کے وجود کی خاطر بچایا گیا ہےجو مقصودِ کعبہ ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کےمطابق موعود نبی کی بعثت کی وجہ سے۔ پھر کیف کا لفظ رکھ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ غور کرو کہ اللہ نے کن غیر معمولی حالات میں خانہ کعبہ کے سامان پیدا کئے تھے اور اب جبکہ آپﷺ جو مقصودِ کعبہ ہیں ان کی حفاظت کے بھی غیر معمولی سامان بہم پہنچائے جائیں گےاور وہ لازماً اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے۔

واقعہ اصحاب الفیل اور آنحضرت ﷺ کا باہمی تعلق

(1)سورۃ البقرۃ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے جس نبی کی بعثت کی دعائیں کی تھیں ان دعاؤں کی قبولیت آپ ﷺ کی ذات بابرکت کی صورت میں ظاہر ہونی تھی اس لئے مکہ والوں کو ایک مثالی قوم بنانے کے لئے آپ ﷺ نے تشریف لانا تھا ۔جس کے لئے آپ ﷺ کا بنی اسماعیلی ہونا اور مکہ کا باشندہ ہونا ضروری تھا۔ (وَابْعَثْ فِیْھِمْ میں ان دونوں امور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے)۔

(2) اگر مکہ تباہ ہوجاتا تو یہاں کے باشندے کیونکر یہاں رہتے اور یہ پیشگوئی پوری ہونے کے سامان کیونکر پیدا ہوسکتے تھے۔

(3) مکہ والے جو اس گھر کو اللہ کا گھر قرار دیتے اور اس کا حج اور طواف کرتے تھے ، تو اگر اصحاب الفیل کو تباہ نہ کیا جاتا تو اس گھر کا احترام باقی نہ رہتا۔

(4) پس خانہ کعبہ کو آنے والے موعود (محمد ﷺ) کے ظاہر ہونے اور فاتحانہ شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا چہرہ دنیا کو دکھانے کے لئے محفوظ رکھا گیا ۔

لفظ اصحاب الفیل کے استعمال کی حکمت

اَصْحَابُ الْفِیْلِ کہہ کر اس نکتہ کو بیان فرمایا ہے کہ تیرے رب نے تیری خاطر صرف ابرہہ یا یمن کے بادشاہ کو شکست نہیں دی بلکہ ان کے پیچھے جو یمن کی طاقت تھی وہ بھی تباہ کردی(کیونکہ ہاتھی لانے کا مقصد بھی ابرہہ کا طاقت کا گھمنڈ ظاہر کرنا اور اہل ِمکہ پر رعب ڈالنا تھا)۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یمن کی حکومت آئندہ پھر مکہ کے تباہ کرنے کے لئے لشکر بھیجتی رہتی مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد کسی کو خانہ کعبہ پر حملہ کی جرات نہ ہوئی۔ بعد ازاں نجاشی کی حکومت حبشہ میں تو قائم رہی مگر یمن جہاں انکا اصل اڈہ تھا وہاں ایران قابض ہوگیا اور مکہ پر دوبارہ حملہ کا خیال بھی انکو کبھی پیدا نہ ہوا۔

واقعہ اصحاب الفیل کا تاریخی پس منظر

(یمن کے حالات اور ابرہہ کا یمن کا حاکم مقرر ہونا)

(1)یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے سال کا ہے۔

(2)واقعہ اصحاب الفیل سے کچھ عرصہ قبل یمن پر حمیر (ایک عرب قوم) کی حکومت تھی۔ حمیری بادشاہ یہودی ہونے یا مشرک ہونے کی وجہ سے عیسائیوں کے سخت خلاف تھا۔حمیری بادشاہ نے ایک دفعہ اپنے ملک کے 20,000 عیسائیوں کو خندق کھدواکر زندہ جلا دیا تھا۔ اس وقت عیسائیوں کا دارومدار رومی حکومت پر تھا۔ چنانچہ عیسائیوں نے یمن سے بھاگ کر قیصرِ روم کے پاس پناہ لی اور اس سے عیسائیوں کے اس قتلِ عام کا بدلہ لینے کی درخواست کی۔

(3)قیصرِ روم کے حکم پر حبشہ کے بادشاہ (اصمحہ بن بحر- یہ ہجرت حبشہ کے وقت مسلمانوں کو پناہ دینے والا نجاشی ہی ہے) کو خط لکھا کہ دوس ثعلبان کی مدد کرو ۔ چنانچہ حبشہ کے بادشاہ نے اپنے دو جرنیلوں اریاط اور ابرہہ کو لشکر دے کر یمن پر حملہ کا حکم دیا۔

(4)یمن پر نجاشی کے سپہ سا لاروں کا حملہ ہوا اور رومی حکومت کے دو جرنیل اریاط اور ابرہہ یمن پر قابض ہوگئے۔ دونوں جرنیلوں کے درمیان کچھ عرصہ کے بعد اختلاف پیداہوا اور تو آپس میں جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ ابھی ایک دوسرے کے خلاف لشکر صف آراء ہوئے ہی تھے کہ دونوں نے آپس کے نزاع کو حل کرنے کے لئے لشکروں کی مٹھ بھیڑ کی بجائے باہم ایک دوسرے سے لڑنے کا فیصلہ کیا ۔اس شرط پر کہ جیتنے والا یمن کی حکومت کی باگ ڈور سنبھا لے گا۔ ابرہہ کو کاری ضرب لگی مگر اس کے ایک غلام نے جو اس سے محبت رکھتا تھا اس کی ایسی حالت دیکھی تو اریاط پر ایسا وار کیا کہ وہ جانبر نہ ہوسکا۔ ابرہہ کے زخم کچھ دنوں میں اچھے ہوگئے اور یوں یمن پر ابرہہ کی حکومت قائم ہوگئی۔

(5)نجاشی (بادشاہِ حبشہ)کو جب خبر ملی کہ اس کے دو جرنیل باہم لڑے ہیں اور ایک نے دوسرے کی جان لے لی ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اس بغاوت پر وہ ابرہہ کی پیشانی کے بال کاٹے گا اور اسکے ملک کو اپنے پاؤں تلے روندے گا۔جب ابرہہ کو نجاشی کی اس قسم کا پتہ چلا تو کمال ہوشیاری سے اس نے اپنی پیشانی کے بال کٹوائے اور ایک بوری میں اپنے علاقہ کی مٹی لے کر نجاشی کو بھجوائی اور یہ پیغام دیا کہ یہ لڑائی جو ابرہہ اور اریاط کے درمیان ہوئی تھی یہ باہم اس فیصلہ کی بنیاد پر تھی کہ جو بھی مارا جائے تو دوسرا حکومت کرے اور یہ فیصلہ قطعاً رومی حکومت کے خلاف نہ تھا ۔ پس مجھ سے درگزر کیا جائے اور میری پیشانی کے بال کھینچ کر اور میرے ملک کی مٹی اپنے پاؤں تلے روند کر اپنی قسم پوری کرلیں۔ نجاشی کے حلیم الطبع ہونے کا ذکر کئی تاریخی کتب میں آیا ہے چنانچہ ابرہہ کی اس وضاحت اور اپنی پیشانی کے بال اور مٹی بھجوانے کے بعد نجاشی کے پاس ابرہہ کو معاف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

(6)اس طرح ابرہہ کو یمن کا حاکم مقرر کردیا گیااور جب ابرہہ کو یہ خبر ملی تو اس نے اس خوشی میں کہ بادشاہ نے اس کو معاف کردیا تھا یہ منت مانی کہ وہ ایک بڑا بھاری گرجا تعمیر کرے گا کہ اس کی نظیر پاس کے مما لک میں بھی نہ ملے۔ چنانچہ ابرہہ نے ایک عظیم الشان قلعہ قلیس نامی تعمیر کیا یعنی ایسی عمارت جس کو دیکھنے کے لئے اٹھنے والی نظر کے باعث سر سے ٹوپی گر جائے۔

(7)قلیس گرجا کی تعمیر کے بعد ابرہہ نے اس کی عظمت عربوں میں قائم کرنے کے لئے بعض عرب رؤساء کو بلا کر رشوتیں دیں (جن میں محمد بن خزاعی بالخصوص شامل ہے) کہ عربوں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ خانہ کعبہ کو چھوڑ کر اس گرجا کی زیارت کے لئے ہر سال آیا کریں۔

(8)اب ہم اس واقعہ کے اہم ترین حصہ میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک طرف ابرہہ نے گرجا تعمیر کیا اور عرب جو خانہ کعبہ کی وجہ سے پہلے سے ہی متحد تھے ان کے اتحاد کو توڑنے کے لئے گرجا کی زیارت اور اہمیت کو ان کے دلوں میں پیدا کرنا چاہا۔ دوسری طرف عربوں میں اس وقت حضرت ابراھیم کی دعاؤں کے طفیل )وہ نبی ( جس کی پیشگوئیاں تھیں اس کی آمد کی خبریں گردش کرنے لگیں۔اس کی دلیل یہ ہےکہ عرب کثرت سے اپنے بچوں کا نام محمد رکھنے لگے تھے کیونکہ آنے والے کا نام محمد صحف سابقہ جیسےبرنباس کی انجیل میں موجود تھا۔ تیسری طرف یہود میں بھی استثناء 18/18 کی پیشگوئیوں کے مطابق فاران کے پہا ڑوں پر ‘وہ نبی’ کی آمد کا انتظار ان کو اس قدر بے چین کرنے لگا کہ بعض یہود قبائل مدینہ کے گرد و نواح میں آکر رہائش پذیر ہوئے۔

(9)ابرہہ نے محمد بن خزاعی نامی ایک شخص کو اہلِ عرب کو تبلیغ کرنے کے لئے بھیجا کہ عربوں کو گرجا کی طرف لائے اور خانہ کعبہ کے خیال سے ان کو ہٹائے۔ عرب رؤساء نے اس بات پر اس کو قتل کردیا اور ابرہہ کو پتہ چلا کہ اس کے ایلچی کو قتل کردیا گیا ہے تو اس کو شدید غصہ آیا۔ یہ پہلی وجہ تھی کہ ابرہہ کو خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا خیال آیا۔ دوسری وجہ روایات میں جو کثرت سے بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک عام عرب نے خانہ کعبہ کی عزت کے خیال میں قلیس نامی گرجا میں عین عبادت کی جگہ پر پاخانہ پِھر دیا۔ اس حرکت سے بھی ابرہہ کو عربوں اور بالخصوص خانہ کعبہ کو گرانے کا خیال پیدا ہوا۔ تیسری وجہ جو نسبتاً کمزور روایا ت میں بتائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اتفاق سے عرب کے کچھ نوجوان جو تجارت کے لئے یمن کے پاس سے گزر رہے تھے انہوں نے اس گرجا کے قریب رات کو قیام کیا اور پھر سردی سے بچنے کے لئے آگ جلائی۔ رات کو تیز ہوا نے آگ کی لپٹیں گرجا کی دیوار تک پہنچا دیں اور قیمتی لکڑی سے مزین اور مسجع ہونے کے باعث گرجا کی لکڑی کو آگ لگ گئی اور یہ ابرہہ کے خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کی تیسری وجہ روایات میں بیان کی جاتی ہے۔

(10)یہاں یہ بات بیان کردینا ضروری ہے کہ ان تینوں روایات کو سامنے رکھتے ہوئے عدل و انصاف کے کسی تقاضے کے تحت بھی ابرہہ کو خانہ کعبہ کو گرانے کی اجازت نہیں ہوسکتی تھی۔ اول تو ان تینوں روایات میں عربوں پر حملہ کا جواز تو نکل سکتا ہے مگر خانہ کعبہ کی تعظیم اور عبادت کا مرکز ہونے کے حوالہ سے اس کو بنیادوں سے گرانے کا جواز بہر حال نہیں نکل سکتا۔

ابرہہ کا حملہ

(11)ابرہہ نے اپنے غصہ کی وجہ سے ایک بڑا لشکر جمع کیا اور عربوں پر رعب ڈالنے کے لئے ہاتھی بھی ساتھ لے لئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ابرہہ کے ہاتھی کا نام محمود تھا اور ان کی تعداد آٹھ سے بارہ بتائی جاتی ہے۔ ہاتھیوں کو ساتھ لینے کا مقصد یہ تھا کہ زنجیروں کے ساتھ خانہ کعبہ کو باندھ کر ہاتھیوں کو مخالف سمت میں دوڑایا جائے اور آن کی آن میں خانہ کعبہ کو بنیادوں سے اکھیڑ دیا جائے۔ یمن سے خانہ کعبہ تک حملہ کرنے کی صورت میں ابرہہ کے لشکر کو تین جگہوں پر لڑائی کا امکان ہوسکتا تھا ۔ عملاً صرف دو جگہوں پر لڑائی ہوئی اور مکہ کے سردار حضرت عبد المطلب نے ابرہہ سے ملنے کے بعد پہلے ہی فیصلہ کرلیا کہ اہلِ مکہ ابرہہ کے لشکر کا مقابلہ کرنے سےقاصر ہیں۔ چنانچہ یمن میں پہلی لڑائی صنعاء کے مقام پر ہوئی اور ان کا لیڈر ذونفر حمیری قید ہوا جو سابقہ حمیری شاہی خاندان کا باشندہ تھا۔ دوسرا معرکہ خشم کے مقام پر پیش آیا جہاں کے عرب قبائل نے اکٹھے ہوکر ابرہہ کا مقابلہ کیا مگر اس کی منظم اورپر شوکت فوج کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔خشم طائف اور یمن کے درمیان واقع تھا۔ اس لشکر کی قیادت نقیل بن حبیب الخثعمی کر رہا تھا۔با لآخر جملہ کتبِ تاریخ اس بات پر متفق ہیں کہ ابرہہ کا لشکر مقامِ مغمس تک پہنچا اور پڑاؤ ڈالا۔جو مکہ سے پندرہ سے سولہ میل کے فاصلہ پر ہے۔

(12)مغمس مقام پر پہنچ کر ابرہہ نے اسود بن مقصود حبشی کو خانہ کعبہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے فوج دے کر بھیجا۔ اسود واپسی پر وادی میں چرتے ہوئے چند اونٹ بھی ابرہہ کو خوش کرنے کے لئے ساتھ لے آیا۔ حضرت عبدالمطلب کی ابرہہ سے ملاقات کہ وجہ اسود کی یہی حرکت بنی کہ آپ ابرہہ سے اپنے اونٹ واپس لینے کا مطالبہ کرنے کےلئے تشریف لے گئے۔ ابرہہ پہلے تو مرعوب ہوا پھر محض اونٹوں کے مطالبہ پر کہنے لگا کہ خانہ کعبہ کو چھوڑ کر آپ کو اپنے اونٹوں کی فکر ہے۔ جس پر حضرت عبد المطلب نے فرمایا کہ میں ان اونٹوں کا مالک ہوں اس لئے ان کا مطالبہ کرتا ہو ں خانہ کعبہ کا مالک خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔ابرہہ سے ملاقات کے بعد واپسی پر حضرت عبدالمطلب نے اہلِ مکہ کو بتایا کہ وہ جلد مکہ کو خالی چھوڑ کر قریب کی وادیوں میں چلے جائیں کیونکہ ابرہہ اگلے روز کے خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے آنے والا ہے۔

(13)خانہ کعبہ پر حملہ کے لئے لشکر کی روانگی کے متعلق ابرہہ نے حکم دیا کہ سب سے پہلے ہاتھی نکالے جائیں پھر لشکر ان کے پیچھے پیچھے چلے ۔ مگر سب سے بڑا ہاتھی جو محمود نامی تھا وہ بیٹھ گیا اور الٰہی تصرف کے تحت خانہ کعبہ کی سمت میں چلنے سے انکار کردیامگر اس کا رخ کسی اور سمت میں کیا جاتا تو دوڑنے لگتا۔ اس ہاتھی کے بیٹھ رہنے کی وجہ سے لشکر کو تاخیر ہوئی اور ایک دن مزید رکنا پڑا۔ شام کو ابرہہ کو خبر ملی کہ لشکر میں شدید متعدی چیچک پھیل گئی ہے۔ اگلےدو روز میں لوگوں کی کثرت سے اموات کے باعث لشکر میں گھبراہٹ پھیل گئی۔

خود ابرہہ کو بھی چیچک نے آلیا باوجود اس کے کہ وہ مغمس مقا م سے بھاگ کر یمن کی طرف نکل کھڑا ہوا تھا اور اس کے سارے جسم پر چیچک کےآثار نمودار ہوگئے تھے۔ اسی مرض سے اس کی ہلاکت بھی ہوئی تھی۔ تاریخی کتب میں ابرہہ کی موت کے بارے میں بہت کچھ مبالغہ پایا جاتا ہے۔

ابرہہ کے لشکر میں چیچک پھیلنے کا مزید ثبوت درمنثور کی وہ روایت ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت آتی ہے کہ مکہ میں دو اندھے بھیک مانگ رہے تھے تو آپ ؓ نے استفسار فرمایا کہ یہ کون ہیں تو اس پر کسی نے بتایاکہ یہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے مہاوت ہیں۔ اب طب کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ چیچک ہی وہ مرض ہے جس سے اکثر لوگ اندھے ہوجاتے ہیں ۔ مزید براں یہ کہ روح المعانی میں لکھا ہےکہ ابرہہ کے لشکر کو جو چیچک ہوئی تھی وہ ارض ِ عرب میں پہلی چیچک تھی جو بطورسزا عذاب کی صورت میں تھی۔ (یمن میں چیچک کی مرض عام تھی)۔

واقعہ اصحاب الفیل آنحضرت ﷺ کی خاطر ہی ہوا تھا

(1)2200 سال سے کسی نے مکہ پر حملہ نہیں کیا مگر جس سال آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے اسی سال اصحاب الفیل کا واقعہ پیش آیا ۔

(2)اللہ نے محض دشمن کو ہی نہیں مارا بلکہ اسکی حکومت کو ہی مٹادیاتاکہ آنحضرت ﷺ کے عالمگیر مشن کو دوبارہ ان سے کوئی خطرہ نہ ہو۔

(3)یہودیوں میں کثرت سے بنو اسماعیل میں ’وہ نبی ‘ کی آمد کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں جیسا کہ استثناء 18/18 میں مذکور تھا۔ اسی لئے بعض یہودی قبائل شام کو چھوڑ کر مدینہ اور خیبر میں آبسے تھےکیونکہ انکے اولیاء نے یہی خبریں دی تھیں کہ وہ نبی کے ظہور کا وقت آگیاہے۔

(4)حدیثو ں میں آتا ہے کہ قیصرِ روم نے ستاروں سے اندازہ لگا کر کہا کہ عنقریب نبی مختون پیدا ہونے والا ہے۔

(5)اہلِ عرب بھی محمد نامی نبی کے انتظار میں تھے جس کا ذکر برنباس کی انجیل میں ہے ۔ اسی لئے آپ ﷺ کی آمد سے قبل کثرت سے لوگ اپنے بچوں کا نام محمد رکھنے لگے تھے۔ (جیساکہ پہلے ذکر آچکا ہےکہ محمد بن خزاعی کو ابرہہ نے اپنے ایلچی کے طور پر عرب رؤساء کوتبلیغ کرنے کے لئے بھیجا تھا)۔

پس یہود، عیسائی اور عرب قوم میں آنحضرت ﷺ کی آمد سے قبل آپ کا بے چینی سے انتظار تھا اور دیگر انبیاء کی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی آمد سے قبل آپ کے دوستوں اور دشمنوں کی تیاریاں کروا رکھی تھیں۔ دوستوں میں وہ یہود، عیسائی اور عرب کے باشدے تھے جو آپ ﷺ پر ایمان لے آئے جبکہ دشمنوں میں اول نمبر پر ابرہہ ہے جو خانہ کعبہ کو مٹا کر آپ ﷺ کے آنے کے راستہ کو ہی بند کرنا چاہتا تھا۔

اصحاب الفیل کے واقع میں لطیفہ یہ ہے کہ وہی قوم جس نے اس نبی کو گرانے کی کوشش کی تھی اسی قوم کے زیرِ سایہ نبی رحمت کی قوم نے پناہ لی تھی۔ یمن حبشہ کا صوبہ تھا اور یمن کا گورنر نجاشی کے ماتحت تھا یہ نجاشی وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کےزمانہ تک زندہ رہا۔ اسی نجاشی کے زمانے میں ابرہہ نے مکہ پرحملہ کیا اور اسی نجاشی کے زمانہ میں ہی نبوت کے پانچویں سال اہلِ مکہ نے ہجرت کی اور اس کے پاس پناہ لی۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ اسی نجاشی کا لشکر خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا اور اسی نجاشی نے ہی حضرت محمد ﷺ کے اصحاب کو پناہ دی۔

اعتراض بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کے زیر سایہ پلے بڑھے ہونے پر فخر کیا ہے ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور حضرت محمد ﷺ کی جماعت نے بھی نجاشی کی حکومت میں پناہ لی تھی۔
مزید براں آنحضرت ﷺ اور حضرت موسیٰ کی مشابہتوں میں یہ بھی ہے کہ جیسے حضرت موسیٰ نے فرعون کے گھر میں پرورش پائی ایسا ہی آپ ﷺ کی پرورش بنو ثقیف کے ہاں ہوئی جنہوں نے خانہ کعبہ کو منہدم کرنے لئے اپنے پاس سے راہنما دئے تھے تاکہ ابرہہ کے لشکر کو جلد خانہ کعبہ تک پہنچا دیں۔

أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ

(الفيل 3)

تضلیل کے معانی ہیں گمراہی کی طرف لے گیا یعنی اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو ایسی راہ پر ڈال دیا جس کا حتمی نتیجہ گمراہی تھا۔

فی تضلیل کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اس نے عیسائیوں کا منصوبہ صرف اس وقت باطل نہیں کیا جب وہ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے آئے تھے بلکہ اس نے بعد میں بھی ایک عرصہ دراز تک ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور ان کی قوت کو محض اس لئے کچل دیا کہ آنحضرت ﷺ کو بڑھنے اور پنپنے کا موقع ملے اور آپ کی ترقی کے راستے میں کوئی روک نہ ہوچنانچہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائی ایک لمبے عرصہ تک مغلوب رہے پھر قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق عیسائیوں کو دوبارہ غلبہ حاصل ہوا اور اب الٰہی فیصلہ کے مطابق مسیحیت کی دوسری شکست جماعت احمدیہ کے ہاتھوں مقدر ہے (ان شاء اللہ)۔

وَأَرْسَل عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ

(الفيل 4)

ابابیل کا لفظ Collective Noun کے طور پر استعمال ہوتا ہے جس کے معانی ہیں (1)جماعت در جماعت (2) گروہ در گروہ(3) انسانوں ، حیوانوں اور گرو ہ در گروہ گھوڑوں کے لئے بھی ابابیل کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں کہتے ہیں جاءت الخیل ابابیل یعنی گروہ در گروہ گھوڑے آئے کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے۔
پس ارسل علیھم طیراً ابابیل سے مراد یہ ہے کہ چیچک سے اس لشکر میں سخت موت پڑی اور لاشیں میدان میں چھوڑ کر باقی لوگ بھاگ نکلے۔ اورچاروں طرف سے گدھ، چیل وغیرہ وہاں جمع ہوکر ان کی لاشوں سے نوچ کر گوشت کھانے لگے۔

تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْف ٍمَّأ كُولٍ

(الفيل 5-6)

ترمیھم بحجارۃ من سجیل کے معانی عام محاورہ کے مطابق تو یہ ہیں کہ ان پر سجیل مارتے تھے لیکن معانی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کو سجیل پر مارتے تھے اور چونکہ مردار خور پرندوں کا یہ عام قاعدہ ہے کہ وہ مردے کا گوشت لے کر پتھر پر بیٹھ جاتے ہیں اور گوشت کو بار بار پتھر پر مارتے اور کھاتے ہیں۔ نامعلوم اس کو نرم کرتے ہیں یا اس کی صفائی کرتے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مردار خور پرندے وہاں جمع ہوگئے اور انہوں نے ان کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اور پتھروں پر مار مار کر کھانی شروع کردیں۔ابرہہ کا لشکر جب چیچک سے مر گیا تو مردار خور جانور اکٹھے ہوئے اور انہوں نے ان کی بوٹیاں توڑتوڑ کر اور پتھروں پر مار مار کر کھانی شروع کردیں۔

اس کے بعد کیا ہوا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فجعلھم کعصف ماکولاس نے انہیں دانہ کھائے ہوئے سٹے کی طرح کردیا یعنی بھوسہ بنا دیا ۔ پس ابرہہ کا وہ لشکر جو جنگی ساز و سامان کے لحاظ سے ، منظم ہونے کے لحاظ سے اور عرب قبائل پر رعب ڈالنے کی غرض سے خانہ کعبہ کو نیست و نابود کرنے کی غرض سے نکلا تھا اللہ تعالیٰ نےبغیر کسی انسانی عمل دخل کے ان کو اس سٹے کی طرح کردیا جس کے اندر سے دانہ کیڑا کھا جائے اور باقی صرف بھوسہ رہ جائے۔

قرآن کریم میں کوئی بات بطور قصہ نہیں آئی اس لئے سورۃ الفیل میں یہ عظیم الشان مضمون بیان کیاگیا ہے کہ خانہ کعبہ کا وہ خدا جس نے بغیر ظاہری ساز و سامان کے خانہ کعبہ کی حفاظت کے سامان پیدا کئے وہ ابراہیمی دعاؤں کے ثمر اور مقصودِ کعبہ (آنحضرت ﷺ) کے دشمنوں کو ضرور تباہ و برباد کرے گا۔ اس مضمون کی طرف اشارہ ا لم تر، کیف اور ربک کے الفاظ میں ہے۔اس کی عملی صورت غزوات النبی ﷺ میں سامنے آئی۔

اسی طرح سورۃ الفیل میں مسلمانوں میں یقین پیدا کرنے کے لئے یہ تعلیم سکھائی گئی ہے کہ اے مسلمان! کیا تجھے پتہ نہیں کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا سلوک کیا اور اگر تو جانتا ہےتو اس یقین پر قائم ہو جا کہ آج بھی تیرا خدا وہی ہے نہ تو وہ مفلوج ہوا ہے، نہ بوڑھا ، نہ تو ناکارہ ہوا ہے اور نہ ہی اس کی طاقتیں ماری گئی ہیں۔ اس لئے یہ یقین رکھ کہ وہ خدا ہر مصیبت اور تکلیف میں تیری مدد کرنے پر قادر ہے اور اگر یہ ایمان پیدا ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت کسی قسم کی قربانی کرنے سے روک نہیں سکتی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ محمد کا مدد گار بنائے اور اس راہ میں درپیش ہر تکلیف اور مصیبت میں ہماری مدد فرمائے اور ہر آن ایسے کام کرنے سے بچائے جو اس کا غضب بھڑکانے والے ہوں اور مقصودِ کعبہ (ﷺ) کا حقیقی غلام بنائے رکھے۔آمین

(از ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اپریل 2021