• 20 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (یکم اپریل 2022ء)

This Week with Huzoor
نشر کردہ مورخہ یکم اپریل 2022ء

مؤرخہ 27 مارچ 2022ء

اتوار کے روز مجلس خدام الاحمدیہ ناروے کے ممبران مسجد بیت النصر Oslo (اَوزلو) میں اکٹھے ہوئے اور ان کو حضور انور ایدہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ virtual ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ایک مختصر پروگرام کے بعد خدام کو حضور انور ایدہ اللّٰہ تعالیٰ سے مختلف موضوعات پر سوالات کرنے کا موقع میسر آیا۔

وحید احمد صاحب:میرا سوال یہ ہے کہ ہم عاجزی میں کیسے بڑھ سکتے ہیں اور تکبر سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟

حضور انور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
عاجزی انسان میں پیدا ہونی چاہئے۔ پرسوں میں نے خطبہ میں بھی یہ ذکر کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے حوالہ سے کہ جب انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا اور دوسرے سب میرے سے کم تر ہیں۔ میرا علم سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے میرے سے کم ہیں۔ تو اُس وقت تکبر پیدا ہوتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے۔ اگر اللہ پہ ایمان ہے، اللہ پہ یقین ہے اور یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو انسان کی برائیاں ہیں اُن سے سخت نفرت ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن کی اصلاح ہو تو انسان میں تکبر پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ جب پیدا ہو تو استغفار پڑھے انسان کہ میرے میں غلط خیال پیدا ہوا اور شیطان سے پناہ مانگے، اعوذ باللہ پڑھے اور عاجزی دکھانے کی کوشش کرے۔ میں نے پچھلی ملاقاتوں میں بھی اگر آپ لوگ MTA دیکھتے ہوں اور ملاقاتیں دیکھتے ہوں تو کسی کا میں نے جواب بھی دیا تھا۔ ایک بادشاہ تھا۔ عاجزی کا نمونہ تھا اُس کا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اُس کے پاس ایک مولوی آیا۔ وہ اپنے آپ کو بڑا عالم اور ماہر سمجھتا تھا قرآن کریم کے علم کا۔ اور وہ بادشاہ جو تھا وہ قرآن کریم لکھا کرتا تھا، ایک کہانی ہے۔ تو اُس (بادشاہ) نے کوئی لفظ لکھا تو اُس عالم نے جو scholar تھا بڑا اپنے آپ کو سمجھتا اور قرآن اور حدیث کا ماہر، اُس نے کہا یہ لفظ آپ نے غلط لکھا ہے۔ بادشاہ نے اُس کے اوپر دائرہ لگا دیا mark کر دیا۔ اور جب وہ (عالم) چلا گیا تو اُس (بادشاہ ) نے اُس کو مٹا دیا۔ اُس کے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ یہ پہلے آپ نے دائرہ لگایا ہے۔ تو وہ کہتا کہ یہ میں نے صرف اس لئے (کیا) کہ میں اپنے اندر تکبر نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اور اس بات کو بھی کہ یہ مولوی اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھتا ہے چلو اس کی بات رہ جائے میں نے دائزہ لگا دیا تھا۔ لیکن جو میں نے جو لکھا تھا وہ صحیح لکھا تھا۔ اور یہی اصل لفظ ہے بے شک دیکھ لو۔ اور اُس کے بعد میں نے مٹا دیا ہے اُس (دائرہ) کو۔ تو انسان اگر ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور اللہ کو تکبر پسند نہیں ہے اور اگر میرے دل میں کوئی خیال آئے تکبر والا تو اُس کو میں نے دور کرنا ہے اور دعا بھی کرنی ہے اللہ تعالیٰ سے۔ اپنی نمازوں میں بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تکبر نہ پیدا ہونے دے۔ استغفار بھی کریں۔ اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بھی پڑھیں۔ چھوٹی چھوٹی دعائیں ہیں کوئی اتنی مشکل دعا نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ مجھے یاد نہیں ہو سکتیں۔ تو غور کر کے پڑھو ختم ہوجائے گا۔ ایک علم کا ہونا اور اُس کا جاننا اُس میں برائی نہیں ہے۔ انسان کہے کہ میں ٹھیک ہوں اگر بحث میں۔ لیکن جہاں یہ تکبر پیدا ہو جائے کہ میں ہی ٹھیک ہوں باقی سب غلط ہیں یا کوئی بحث ہوئی کسی سے اور وہاں آپ کی جو دلیل تھی وہ صحیح ثابت ہوئی اور دوسرے کی دلیل غلط ثابت ہوئی اور لوگوں نے کہا ہاں آپ کی دلیل صحیح ہے۔ تو آپ میں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ دیکھو میں کتنا علم والا آدمی ہوں۔ میں نے اُس شخص کو نیچے دکھا دیا اور میں اُس سے بحث میں جیت گیا میرا علم اُس سے زیادہ ہے۔ اِن باتوں سے تکبر پیدا ہوتا ہےتو اِن سے بچنا چاہئےاور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ایک شعر میں فرمایا ہے:

بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

کہ آدمی کو انسان سے ہر ایک سے اپنے آپ کو کم سمجھنا چاہئے عاجزی اختیار کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اگر انسان کے دماغ میں یہ ہو ناں کہ میں نے اللہ کو راضی کرنا ہے تو پھر تکبر نہیں آتا۔ اگر انسان کو یہ ہو کہ میں نے دنیا کو دکھانا ہے کہ میں کتنا علم رکھتا ہوں۔ یا دنیا کو دکھانا ہے کہ میرے پاس فلاں چیز ہے اور فلاں آدمی کے پاس نہیں ہے تو اُس سے پھر تکبر پیدا ہوتا ہے۔

نبیل قمر صاحب: حضور میرا سوال یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب Revelation Rationality Knowledge and Truth میں فرماتے ہیں کہ ’’الہام بھی دراصل انسان کی نفسیاتی کیفیت کا ایک عمل ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ عمل صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حکم اور ارادہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔‘‘ میرا سوال یہ ہے کہ ہم ایک دہریہ یا سائنسدان کو کیسے یقین دلا سکتے ہیں کہ ایک انسان کی کوئی کیفیت اُس کی اپنی سوچ ہے یا خدا کا حکم یا مرضی اُس میں شامل ہے؟

حضور انور نے فرمایا: میرا خیال ہے آپ نے اتنا حصہ پڑھ لیا ہے باقی حصہ نہیں پڑھا اس کتاب کا۔

نبیل احمد صاحب: شروع کی ہے

حضور انور: پھر پورا پڑھ لو تو تمہیں جواب مل جائے گا وہاں۔ سارا پڑھیں گے ناں تو جواب مل جائے گا۔ بات یہ ہے کہ سائنسدان کو بھی الہام ہوتا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس پہ بھی ایک مضمون لکھا ہوا ہے۔ چار حالتیں بیان کی ہیں۔ ایک نبی کی روحانی جس کا ارتقاء ہوتا ہے۔ جس کو روحانی ترقی ملتی ہے اور روحانی معیار حاصل ہوتے ہیں اور ایک غیر نبی کی جس کو دنیاوی لحاظ سے معیار حاصل ہوتے ہیں اور بعض جو سائنسدان جو چیزیں ایجاد کرتے ہیں وہ بھی ایک الہامی کیفیت ہی ہوتی ہے اُن کے اوپر وہ بھی وحی کی صورت میں اُن کے دماغ میں آتی ہے اور وہ سوچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُس پہ راہنمائی کر دیتا ہے۔ اگر اردو پڑھنی نہیں آتی ناں تو اِس کا انگلش ترجمہ بھی اس مضمون کا میرا خیال ہے پچھلے سال کے دسمبر کے Review of Religions (ماہانہ رسالہ) اُس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ مضمون بھی ہے۔ تو چھوٹا سا دو تین صفحے ہیں وہ پڑھ لیں گے تو آپ کو جواب بھی مل جائے گا اُس میں کہ غیر نبی کو کس طرح الہام ہوتا ہے اور نبی کو کس طرح ہوتا ہے۔ وہی دلیل آپ دوسروں کو دیں کہ تمہاری جو سوچ ہے وہ جب سوچتا ہے انسان اُس پہ غور کرتا ہے تو وہ الہامی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ قرآن کریم کی آیتیں بھی بعض لوگوں کو الہام ہوجاتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ بہت بڑے نیک آدمی کو ہو عام آدمی کو بھی ہوجاتی ہیں۔ تو اُس کو بتانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے اور نازل کرتا ہے۔ عام جو عقل مند انسان ہے وہ تو سوچ لیتا ہے کہ ہاں اگر مجھے وحی ہوسکتی ہے اس طرح اور نازل ہوا ہے تو نبیوں کو بھی ہوتی ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ بھی اس طرح اپنی شریعت اتارتا ہے اور بتاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل جھکے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی اُن کو فکر ہوتی ہے اُن پہ اللہ تعالیٰ وحی کر کے پھر اُس کے حل بتاتا ہے۔ جس طرح شریعت اتاری اور وہ تو اتارنی تھی کامل شریعت آنحضرت ﷺ پہ بعض تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتا دیں باتیں بعض پرانی شریعتوں کی باتیں وضاحت کر کے بتا دیں آنحضرت ﷺ کو۔ بعض ہوسکتا ہے سوال بھی اٹھے ہوں تو اُن کے جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرما دیئے۔ اسی طرح باقی انبیاء کے ساتھ ہوتا ہے۔ تو وحی اور الہام اسی طرح ہوتا ہے۔ اسی طرح سائنسدان سوچتے ہیں۔ اور سوچنے کے بعد ایک چیز پر جب غور کر رہے ہوتے ہیں تو اُس کے بعد ایک دم اُن کے ذہن میں خیال آتا ہے جو اُن کے ذہن میں خیال آتا ہے جس طرح Archimedes کہتا ہے جی میں نہا رہا تھا اور ایک مسئلہ اُس سے حل نہیں ہورہا تھا۔ اُس نے اُس غسل خانے میں نہاتے نہاتے، اُس کو جو نہاتے وقت خیال آیا کہ مسئلہ اس طرح حل ہوتا ہے۔ اُس نے کہا پالیا پا لیا اور غسل خانے سے باہر نکل گیا نعرے مارتا ہوا کہ میں نے مسئلہ حل کر دیا ہے۔ اسی طرح اور سائنسدان ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ سوچتے ہیں کسی بات کو اور اُس پہ غور کرتے ہیں اور وہ فائدے کے لئے ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے اور اُن کو اُس کا حل سمجھاتا ہے۔ اور جو حل سمجھاتا ہے اللہ تعالیٰ اُسی کا نام الہام ہے وہ secular لوگوں کے لئے الہام ہے وہ روحانیت سے اُس کا تعلق نہیں۔ اس کا دنیا سے تعلق ہے۔ تو یہ چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ ایک روحانیت کی دنیا ایک مادی دنیا۔ جہاں روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے وہاں مادی دنیا میں بھی نئی ایجادیں کرنے والوں کو الہام کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے۔ یہی بات اُن کو کہنی ہے کہ تم جس کو کہتے ہو تمہارے دماغ نے سوچا ہم اُس کو کہتے ہیں کہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے دماغ میں ڈالا۔ اور یہ الہامی کیفیت ہے اور یہی نفسیات انسان کی ہے کہ جب وہ سوچتا ہے تو اُس کا وہ حل اللہ تعالیٰ پھر اُس کو بتا دیتا ہے۔ تو بہر حال حضرت مصلح موعودؓ کا مضمون ہے اس پہ وہ بھی پڑھ لو اور اس کو بھی غور سے پڑھو Revelation والی کتاب کو تو آپ کو جواب تفصیلی بھی وہاں سے مل جائے گا۔

ڈاکٹر باسل احمد محمود صاحب: میرا نام ڈاکٹر باسل احمد محمود ہے۔ میں وقف نوہوں اور General Medicine اورCardiology میں speicalisation کر رہا ہوں۔ حضور! Emergency Duties کے دوران میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ تو duties کے بعد day shift کے بعد میں نماز اکٹھی پڑھتا ہوں، night shift کے لئے گھر سے پڑھ کے جاتا ہوں۔ تو میری نماز ہوجاتی ہے؟

حضور انور نے فرمایا: اگر تو Emergency اُس وقت موقع پہ ہو تو پھر تو نماز چھٹ گئی اور آپ نے چار جمع کر لیں تو ٹھیک ہے جس طرح آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک دفعہ جنگ کی حالت طاری ہوگئی اور سارا دن جنگ کی حالت رہی اور نماز وں کا وقت نہیں ملا تو آپ ؐ نے شام کو تین نمازیں اکٹھی کر کے پڑھیں۔ ظہر عصر مغرب کے ساتھ۔ یا بعض کہتے ہیں عشاء بھی پڑھی۔ تو بہر حال وہ ایک ہنگامی صورت حال ہے۔ ہاں Emergency Duty آپ کی لگ گئی ہے۔ آپ بیٹھے ہوئے ہیں ہسپتال جا کے اور وہاں بیٹھے ہوئے ہیں آپ کو ضروری تو نہیں آپ Emergency کام بھی کر رہے ہوں۔ آ پ کو بٹھایا ہوا ہے یہاں بیٹھ جاؤ کسی وقت Emergency ہو سکتی ہے تمہیں بلا لیں گے۔ تو اُس وقت آپ ایک مصلیٰ ایک جائے نماز لے جائیں۔ وہاں بیٹھے ڈیوٹی کے دوران بھی اگر آپ کسی کو کہہ دیں تو آپ کو روکے گا تو کوئی نہیں۔ فرش پہ بچھایا اور نماز کا وقت ہوا تو نمازیں دو جمع کر لیں۔ اور جب Emergency اگر آگئی اُس دوران بڑی ضرورت ہے اُس کے لئے کسی انسانی جان کو بچانے کے لئے نماز توڑنا بھی جائز ہے۔ نماز توڑ کے تو جاکے کام کر لیا اور اُس کے بعد اگر اُس میں دیر لگ گئی تو پھر آکے نمازیں جمع کر لیں تو وہ تو جائز ہے۔ لیکن یہ خیال کر لینا کیونکہ میری Emergency ڈیوٹی لگتی ہے اس لئے میں چاروں نمازیں اکٹھی پڑھ جاؤں جان چھوٹے میری، اِکو واری فارغ ہوجاں یہ غلط ہے۔ آپ وہاں کہہ دیں medical room میں اپنے سٹاف کو بتا دیں کہ دیکھو میں نماز پڑھنے لگا ہوں تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہونا چاہئے اور اگر کوئی Emergency آتی ہے تو فوری تم مجھے آواز دینا میں نماز توڑ کے آجاؤں گا۔ انسانی جان بچانے کے لئے نماز توڑنا بھی جائز ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ جی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہوجائے اس لئے میں نمازیں جمع کر لوں اور رات کو ہوسکتا ہے کوئی Emergency آجائے اس لئے میں ساری نمازیں اکٹھی پڑھ کے چلا جاؤں یہ طریقہ غلط ہے۔ ہاں اگر آپ ڈیوٹی پر جائیں مثلاً صبح دس بجے ڈیوٹی لگی ہے آپ کی اُس وقت آپ گئے ہیں اور جاتے ہی آپ کو ایک Emergency کیس مل گیا اور اُس کے بعد دوسرا کیس آگیا اور پھر تیسرا آگیا اور اس طرح رات کے سات آٹھ بج گئے اور آپ کو جو یہ چھ آٹھ دس گھنٹے کی ڈیوٹی ہے وہ اُسی میں گزر گئی تب آپ نمازیں جمع کر لیں وہ جائز ہے۔ پہلے تو یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کسی پہ Emergency لائے ہی نہ۔ ہو سکتا ہے آپ کی نمازیں پڑھنے کی وجہ سے آپ ویسے ہی فارغ بیٹھے رہیں ایمرجینسیاں ہی نہ آئیں۔ اللہ آپ کی دعا سے لوگوں کو نقصان سے محفوظ کر لے۔ تو یہ سوچ جو ہے کہ پہلے ہی کرلوں precautionary measure لے لوں۔ اور وہ بھی precautionary measure ایسا کہ جس کے remote chances ہیں۔ جس کا آپ کو پتہ ہی نہیں ہے آپ کو علم الغیب تو نہیں ناں۔ غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے صرف اُس کو پتہ ہے کہ کتنے مریض آنے ہیں کتنے نہیں آنے۔ اور بیچ میں کوئی نہ کوئی slot تو مل ہی جاتی ہے۔ کتنی کوئی لمبی آپ نماز پڑھ لیں گے؟ زیادہ سے زیادہ دو نمازیں جمع کریں گے دس منٹ سے زیادہ نہیں لگائیں گے۔ تو اس لئے جب موقع آئے تو نمازیں جمع کر لیں۔ اگر فارغ وقت مل جاتا ہے اُس میں سے پندرہ منٹ بھی مل جاتے ہیں تو ظہر عصر جمع کر لیں ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں۔ مغرب عشاء جمع کر لیں کوئی حرج نہیں لیکن کہنا کہ جی کیوں کہ ہو سکتا ہے یہ ہو جائے اس لئے میں چاروں نمازیں جمع کر لوں یہ غلط ہے۔

جاسم قدوس صاحب: میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے والدین آپ کو زندگی میں کچھ بننے کو کہیں تو آپ کو وہی بننا ضروری ہے کہ آپ اپنی مرضی کر سکتے ہیں؟

حضور انور: میرا تو خیال ہے کہ اپنی مرضی کرنی چاہئے۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ والدین کہیں شریف آدمی بنو کہو نہیں میں نے بد معاش آدمی بننا ہے یہ مرضی نہیں جائز۔ ہاں اگر والدین کہیں تم ڈاکٹر بنو اور آپ کہیں نہیں میرا دل چاہتا ہے میں lawyer بنوں یا engineer بنوں یا میں economist بنوں یا کوئی ایسی چیز جو آپ کو دل چاہتا ہے اور آپ کو اس طرف tendancy ہے، inclined ہے اُس طرف زیادہ دماغ تو وہ بننا چاہئے انسان کو جس میں دلچسپی ہو۔ اس لئے میرے سے جب کوئی پوچھتا ہے کہ میں کیا بنوں میرے پاس یہ choice ہے۔ تو میں کہتا ہوں جس میں آپ کو سب سے زیادہ interest ہے وہ پڑھائی کریں۔ کسی پر impose نہیں کیا جا سکتا پڑھائی کے معاملہ میں اور اپنا اپنا ہر ایک کی ایک tendancy ہوتی ہے۔ ہر ایک کی پڑھنے کی inclination ہوتی ہے جس طرف اُس نے جانا ہے۔ جہاں زیادہ inclined ہوں وہاں چلے جائیں۔ ماں باپ کو سمجھادیں ماں باپ کو کیا پتہ کہ کون کون سے نئےنئے علم آگئے ہیں اب۔ اُن کو تو یہی ہے کہ پُتر ڈاکٹر بن جاؤ۔ یہی کہتے ہیں؟

جاسم قدوس صاحب: ہاں جی

حضور انور: دلچسپی جس میں ہو وہی کرنی چاہئے۔ ٹھیک ہے؟

صارم قدوس صاحب: میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ ایک خادم تھے تو آپ جماعت کی کیسے خدمت کرتے تھے؟

حضور انور نے فرمایا: مجھے تو پتہ نہیں میں نےکوئی خدمت کی ہے یا نہیں بہر حال جو ہمیں ہمارا افسر کہتا تھا جو زعیم کہتا تھا جو منتظم کہتا تھا ہم کام کر دیا کرتے تھے۔ میں زعیم بھی رہا ہوں میں منتظم اطفال بھی رہا ہوں میں ناظم بھی رہا ہوں ربوہ کی مقامی مجلس میں اور مرکز میں بھی رہا ہوں مہتمم کے طور پر بھی رہا ہوں۔ تو جو ہمارے افسر کہتے تھے اس کے مطابق ہم کام کر دیا کرتے تھے یا خود جتنا کچھ ہوتا تھا دماغ کے لحاظ سے کوئی پالیسی بنا دی جماعت کی بہتری کے لئے کس طرح کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کرتے تھے تو یہی کچھ ہوتا تھا۔ باقی کتنی اعلیٰ خدمت کی ہے یہ تو مجھے نہیں پتہ کوئی اعلیٰ کام کیا ہے کہ نہیں کیا۔ بہر حال جو بھی کیا جتنا ہو سکتا تھا کرنے کی کوشش کی۔ آپ لوگوں کو بھی چاہئے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے پورے potential کے ساتھ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ جو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو طاقتیں دی ہیں اُن کے ساتھ کوشش کریں کہ آپ جتنا کام مجلس کا کر سکتے ہیں کریں اور ساتھ ہی یہ بھی کوشش کریں کہ اپنی نمازوں کو باقاعدہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ کام صحیح طرح کر سکیں۔ اللہ سے مدد مانگیں اور نیک نیتی سے کام کریں اُس میں برکت پڑ جاتی ہے۔

صہیب قمر صاحب: میرا سوال یہ ہے کہ اسلام احمدیت کے غلبہ کے سلسلہ میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: پہلی بات تو یہ ہے کہ دعا کریں۔ پانچ نمازیں باقاعدہ پڑھا کریں اور اُس میں دعا کیا کریں نفل پڑھا کریں اور اُس میں دعا کیا کریں اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کا غلبہ ہمیں دکھائے اور ہمیں اُس کا حصہ بنائے۔ پھر اُس کے لئے اپنے دینی علم کو بڑھائیں دینی علم سب سے پہلے تو قرآن کریم کو پڑھنے سے اور اُس کو سمجھنے سے بنتا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابیں ہیں اس زمانہ میں جس میں قرآن کی بھی تشریح ہے حدیث کی بھی تشریح آجاتی ہے وہ حاصل کریں علم۔ پھر علم حاصل کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائیں۔ آپ کا جو عمل ہے وہ اُس کے مطابق ہونا چاہئے جو اسلام کی تعلیم ہے۔ ہمارے عمل اور ہماری باتیں ایک ہونی چاہئیں۔ پھر ہم تبلیغ کریں لوگوں کو جب لوگ دیکھیں گے کہ ہمارے کام بھی اور ہماری باتیں بھی ایک ہیں تو وہ ہماری بات سنیں گے بھی اور اللہ تعالیٰ بھی اُس میں برکت ڈال دیتا ہے تو یہ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ اور اس کے بعد اُس میں برکت ڈالنا اور لوگوں کو اس طرف لے کر آنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہئے۔ دعا سے علم حاصل کر کے علم پر عمل کر کے اور اُس علم کو پھیلا کر یہ ذریعے ہیں جن سے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

ایان احمد صاحب: میرا سوال ہے کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے نقصانات سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا: مضبوط ارادہ سے۔ Determination اگر آپ determined ہیں اس بات پہ کہ میں نے بُری باتیں نہیں دیکھنی اور صرف اچھی باتیں دیکھنی ہیں تو سوشل میڈیا پر جو اچھی باتیں ہیں وہ دیکھیں جو بری باتیں ہیں وہ نہ دیکھیں۔ اس کا اچھا استعمال بھی تو ہے ناں سوشل میڈیا کا وہ اچھا استعمال ہونا چاہئے۔ جماعت کی اپنی ویب سائٹس ہیں اُن کے اوپر جائیں۔ جماعت کی فیس بُک کے اوپر سوال جواب ہوتے ہیں اُس کے اوپر جائیں۔ اپنے دینی علم کو بڑھائیں اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ جو لغویات چیزیں ہیں فضول قسم کی باتیں اِن سے پرہیز کرو۔ ایک مؤمن جو ہے ایک صحیح ایمان لانے والا جو ہے اُس کو جو فضول قسم کی جو باتیں ہیں اُن سے بچنا چاہئے۔ آپ عقل مند آدمی ہیں ماشاء اللہ۔ نوجوان آدمی ہیں۔ سوچ سمجھ کے دیکھو کہ کیا چیز اچھی ہے اور کیا بری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دماغ دیا ہے ناں ہمیں دماغ وہ اسی لئے دیا ہے کہ استعمال کریں۔ پھر آپ لوگ پڑھے لکھے بھی ہیں سکول میں جاتے ہیں کالج میں جاتے ہیں۔ اب سیکنڈری سکول ختم کرنے والے ہیں پھر کالج میں چلے جائیں گے پھر یونیورسٹی میں چلے جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ دماغ دیا ہے اُس کو استعمال کریں دیکھیں کیا بُرا ہے کیا اچھا ہے۔ جو بُرا ہے اُس سے ہم نے بچنا ہے اور یہ پورا پکا ارادہ ہونا چاہئے کہ ہم نے برائیوں سے بچنا ہے اور استغفار بھی کرنی چاہئے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جیسے اور نمازوں میں دعا بھی کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ سےکہ ہمیں برائیوں سے بچا۔ تویہی طریقہ ہے نہیں تو آج کل تو سوشل میڈیا میں برائیاں زیادہ ہیں اچھائیاں کم ہیں تو اچھائیوں کو تلاش کرنے کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑے گی۔ تو جب آپ کی توجہ صرف نیک باتوں کی طرف رہے گی اچھی باتوں کی طرف رہے گی۔ سوشل میڈیا پر بعض سائنس کی سائٹس بھی ہیں اُن کو دیکھیں۔ دوسرا علم بڑھانے کے لئے سائٹس ہیں اُن کو دیکھیں۔ صرف جو فضول باتیں ہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا یا مزاق اڑانا یا اعتراض کرنا یا جماعت پہ اعتراض کرنا یا اسلام پہ اعتراض کرنا اس قسم کی باتیں کوئی جانے کی ضرورت کوئی نہیں۔ ہاں اگر آپ کا دینی علم اتنا بڑھ گیا ہے پکے ہیں دین میں مضبوط ہیں اور قرآن کریم کا بھی علم ہےاور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابیں پڑھ کے اعتراضوں کے جواب دینے کا بھی علم ہے جماعت کا لٹریچر پڑھ کے اعتراضوں کا جواب دینے کا علم ہے پھر اِن جگہوں پہ جا کے اِن کے اعتراضوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ لیکن اُس سے پہلے اپنے دینی علم کو بڑھائیں اور اُس سے بہتر یہ ہے کہ ایسی ویب سائٹس جو ہیں ایسے medias جہاں علم میں اضافہ ہوتا ہے یا جو اچھی باتیں کرنے والے ہیں اُن کی طرف جائیں۔ جماعتی جو سائٹس ہیں اُن کی طرف جائیں اُس میں دیکھیں آپ کیا سیکھ سکتے ہیں۔ تو یہ تو depend کرتا ہے اپنی اپنی سوچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بتا دیا کہ یہ شیطان کی باتیں ہیں یہ میری باتیں ہیں تو آپ نے اب خود فیصلہ کرنا ہے کہ شیطان کی باتیں سننی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں سننی ہیں۔ عقل تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہوئی ہے ناں ماشاء اللہ! اتنے بڑے دماغ ہیں بس اُس کو استعمال کرو خود فیصلہ کیا کرو۔

سلمان ایاز صاحب: میرا سوال یہ ہے کہ برے گناہ کرنے والوں کو اتنی سزا کیوں نہیں دی جاتی اور اچھے لوگوں کو اس دنیا میں بہت سے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اچھے ہوکر اس بات میں کیا حکمت ہے کہ آپ کو اس دنیا میں مزید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟

حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بعض گناہوں کی سزا تو اس دنیا میں دے دیتا ہوں اور بعض جو سزا ہے وہ اگلے جہان میں دوں گا۔ حدیث میں آیا ہے یہ دنیا جو ہے امتحان کی دنیا ہے یہاں امتحان لیا جاتا ہے Examination Hall ہے۔ یہاں صرف paper حل کرنے ہیں مشکل مشکل سوال آتے ہیں۔ اُن کو حل کرو گے تو ٹھیک ہے اگر اُن کو qualify کر لو گے تو پاس ہوجاؤ گے نہیں تو فیل ہوجاؤ گے اور فیل ہونے کا علان یہاں بھی ہو سکتا ہے اور اگلے جہان میں جا کر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ جو دنیا ہے یہ تو تمہاری ستّر اسّی نوّے سال کی دنیا ہے زندگی انسان کی۔ جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے جو لمبا ہزاروں سال چلنے والی زندگی ہے اور پتہ نہیں کتنا لمبا چلنے والی ہے اللہ بہتر جانتا ہے وہ اگلے جہان کی ہے۔ وہاں جاکے اللہ تعالیٰ تمہیں انعام بھی دے گا اور سزا بھی دے گا۔ اور جو گناہ کرنے والے ہیں اُن کو جہنم میں ڈالے گا۔ جو نیک کام کرنے والے ہیں اُن کو جنت میں ڈالے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے لکھا ہے کہ نبیوں پہ تو سب سے زیادہ امتحان آتے ہیں۔ مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ آنحضرت ﷺ پہ تکلیفیں نہیں آئی تھیں؟ آئی تھیں۔ اُس کے مقابلہ میں اُن کے دشمن دندناتے پھرتے تھے ظلم کرتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن دشمنوں کو اس دنیا میں بھی سزا دے دی۔ بعض دشمن تھے اُن کو اس دنیا میں سزا دے دی اور وہ مر گئے ابو جہل وغیرہ جیسے۔ بعض دشمن تھے ابو سفیان جیسے جن کو اس دنیا میں سزا نہیں ملی کوئی اُن کی نیکی پسند آگئی اللہ تعالیٰ نے اُن کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دی اور وہ بخشے گئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں ہے۔ ایک کہتا ہے جی میں جعلی policeman بن کے گیا اور میں نے مرزا صاحب کو بلایا۔ مرزا صاحب جلدی جلدی نیچے اتر رہے تھے اور میرے ڈر کے مارے اُن کا پاؤں پھسلا اور نیچے گر گئے سیڑھیوں سے حالانکہ یہ واقعہ نہیں ہوا تھا ایسا کچھ بھی۔ لیکن پاؤں ایک جگہ پھسلا تھا اُن کا۔ اس بات پہ لیکن گرنے کا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ اور نہ سیڑھیوں سے اتر رہے تھے۔ آپ فرش پر ہی تھے۔ تو بہر حال وہ جو استہزا زیادہ کیا کرتا تھا دو آدمی تھے وہ۔ ایک کو تو اللہ تعالیٰ نے سزا دی کہ وہ اسی طرح چھت پہ تھا اور سو کے اٹھا ایک دم اور اُس کا پاؤں پھسلا اور چھت سے نیچے گرا اور مر گیا۔ ایک تو مزاق اڑانے والے کو سزا دے دی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے۔ اور دوسرا جو مزاق اڑانے والا تھا اُس کو دوسرے رنگ میں اس طرح عبرت بنا دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی ترقی کا زمانہ اُس نے دیکھا اور وہ بڑا کُڑتا تھا جلتا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے مختلف طریقے ہیں سزا دینے کے بھی اور جزاء دینے کے بھی۔ کچھ کو یہاں دے دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی دیتا ہے کچھ کو صرف اگلے جہان میں جا کر دیتا ہے۔ اسی طرح مؤمنوں کو یہاں تکلیفوں سے گزارتا ہے تو اگلے جہان میں جا کے اُن کو جزا بھی بہت دیتا ہے لیکن بہت سارے مؤمن ہیں جن کو اس دنیا میں بھی نواز دیتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے اس دنیا میں اگر آپ غور کریں۔ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یہاں پیدا ہوئے تھے؟

سلمان ایاز صاحب: ربوہ

حضور انور: کب آئے تھے؟

سلمان ایاز صاحب: تین سال پہلے۔

حضور انور: تو یہاں کوئی نہ کوئی سہولیت یہاں ملی ناں۔ یہاں کم از کم نمازیں آرام سے پڑھ سکتے ہو۔ یہاں اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہو۔ تو ٹھیک ہے اُس ابتلاء سے نکال دیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک سہولت دے دی۔ تو یہ reward تو مل گیا آپ کو یہاں بھی۔ ابھی تو جوان ہیں آپ آئندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ اور بھی نواز سکتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے رہیں گے تو اور پھر جب قائم رہیں گے۔ حقیقی مؤمن بن کے رہیں گے تو اگلے جہان میں جا کے اور بھی reward ملے گا۔ اچھا وہاں کیا کرتے تھے ربوہ میں؟

سلمان ایاز صاحب: میں study کر رہا تھا وہاں پہ۔

حضور انور: کیا پڑھتے تھے؟

سلمان ایاز صاحب: کمپیوٹر سائنس

حضورانور:اچھا، کیا کیا ہوا ہے؟ bachelor کیا ہوا ہے؟ ڈگری لی ہوئی ہے کوئی؟

سلمان ایاز صاحب: Masters in Computer Science

حضور انور: Masters کیا ہوا ہے؟ کمال کر دیا ہے شکل سے چھوٹے سے لگتے ہیں۔ یہاں آکے کیا کیا ہے؟

سلمان ایاز صاحب: ادھر آکے ہی Masters Complete کیا ہے اور پھر آگے job۔

حضور انور: ٹھیک ہے تو پھر ماسٹرز تو یہاں آکر کیا ہے تو پھر فائدہ تو ہوا یہاں آکے۔ Reward تو مل گیا۔ بہتر کیا ہے اللہ تعالیٰ نے؟ وہاں کی محنت کو پھل لگایا۔ یہاں reward دے دیا آکے ماسٹرز کروا دیا۔ اور جاب بھی مل گیا ہے یہاں؟

سلمان ایاز صاحب: جی

حضور انور:تو پھر دیکھو اللہ تعالیٰ نے اگر وہاں سے محنت کی تھی اتنی اُس کا reward دے دیا یہاں آکے۔ تو اگر انسان سوچے تو ہر انسان کا ہر لمحہ جو ہے ہر دن جو چڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہی لے کے آتا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ نیک آدمی کو اس دنیا میں نہیں ملتا اور بد آدمیوں کو مل جاتا ہے۔ باقی یہ دنیادار جو ہے یہ دنیاداروں کو تو اللہ تعالیٰ نے دینا تھا۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے یہ دنیادار سمجھتے ہیں کہ اِن کو ہم نے دولت دے دی پیسہ دے دیا اور سہولتیں دے دیں آسائشیں دے دیں تو انہوں نے بڑی ترقی کر لی۔ یہ تو میں اِن کو سزا دینے کے لئے سزا میں ڈالنے کے لے ایک سامان کر رہا ہوں۔ جو گناہ یہ کرتے ہیں اُس کی اُن کو سزا ملے گی۔ چاہے وہ سزا میں اِس دنیا میں دوں یا اگلے جہان میں جاکے دوں۔ اس لئے تم مؤمنو فکر نہ کرو اِن کو ضرور سزا ملے گی تم اللہ کو ہمیشہ یاد رکھو۔

محمد فائق صاحب: پیارے حضور! میرا سوال یہ ہے کہ ہم اس طرح کے آج کل کے ماحول میں اپنی اولاد کی نیک تربیت کیسے کر یں؟ میں کچھ عرصہ پہلے پاکستان سے آیا ہوں تو یہاں پہ ماحول کافی different ہے بہت open ہے۔ تو کیا ہم کریں جس سے ہماری اولاد صراط مستقیم پہ چلے؟

حضور انور:یہاں بھی لوگ رہتے ہیں اُن کے بچے اچھے بھی ہیں۔ اُس کے لئے یہ ہے کہ ماں باپ جو ہیں وہ خود اپنا نمونہ بچوں کے سامنے پیش کریں۔ اگر باپ نماز پڑھنے والا ہے اگر باپ قرآن پڑھنے والا ہے اور اپنی بیوی کو بھی کہتا ہے اور بچوں کو بھی کہتا ہے تم نماز بھی پڑھو اور قرآن بھی پڑھو۔ اگر باپ اخلاقی لحاظ سے اچھا ہےاپنی بیوی کو بھی کہتا ہے کہ ہمارے اخلاق اچھے ہونے چاہئیں اور بچوں کو بھی کہتا ہے۔ اگر باپ یہاں کے ماحول کے مطابق بچوں سے دوستی رکھتا ہے اور اُن سے ہر بات share کرتا ہے کہ اُن میں یہ confidence پیداکر دے کہ تم نے باہر سے جو باتیں سننی ہیں مجھ سے آکے share کرنی ہیں اور پھر اُن کو حوصلہ سے سننا ہے اور پھر اُس کو discuss کرنا ہے۔ پھر اُن کے جو doubts ہیں اُن کو remove کرنا ہے۔ تو اِس طرح آپ تربیت کر سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو چھوڑ دیں گے اپنے کام میں مصروف رہیں گے۔ اچھا صرف پیسے کمانے ہیں تو چوبیس گھنٹے میں سے اٹھاراں گھنٹے کام کی دہاڑی کرو۔ بیوی کو کہو کہ تم بھی دس گھنٹے کام کرو پیسے کماؤ تاکہ ہم گھر لے سکیں اور گھر کی Mortgage ادا کر سکیں۔ پھر ہم اتنے پیسے جوڑ سکیں۔ تو پھر جب بچے آئیں گے سکول سے اُن کو فریج میں سے ڈبل روٹی ملے گی ٹوسٹ نکالیں گے سیکیں گے کھا لیں گے۔ کہیں گے نہ باپ پوچھتا ہے نہ ماں پوچھتی ہے۔ نہ ہماری نمازوں کے متعلق اُن کو کوئی فکر ہے نہ انہوں نے کہنا ہے کہ تم نے نماز پڑھی کہ نہیں پڑھی نہ ہم نے اُن کو، ماں باپ کو دیکھا ہے نمازیں پڑھتے ہوئے وہ تو پیسے کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ تو پھر ہم نے کیا کرنا ہے چلو ٹھیک ہے دنیا کا ماحول اس طرح کا ہی ہے اسی طرح رہوں۔ تو یہ تو challenge ہے۔ آپ تو خود اُن کو خود ھکیل رہے ہوں گے ناں اُس میں۔ تو یہ تو محنت کرنی پڑتی ہے۔ تو اگر یہاں آئے ہیں پیسے تو اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے مل جائیں گے تھوڑے سے کم پیسے بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن بچوں پہ توجہ ضرور دینی چاہئے۔ پھر weekend جو ہے اُس میں بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور اگر کوئی جماعتی پروگرام ہے تو اُن کو خود لے کر جائیں۔ وہاں بھی نگرانی رکھیں بچوں کی کہ بچے صحیح ماحول میں رہ کے واپس آگئے ہیں کہ نہیں۔ وہاں کی انتظامیہ کو بھی پتہ ہو کہ ماں باپ ساتھ ہیں اور توجہ دے رہے ہیں۔ وہ بھی محتاط رہیں گے صحیح تربیت کریں گے بچوں کی۔ تو اگر بچےکسی کے یا دوستوں کے گھر جاتے ہیں تو وہاں بھی آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اُن دوستوں کا ماحول کیسا ہے۔ وہاں جا کے کہیں گندی عادتوں میں نہ پڑ جائیں۔ تو یہ تو محنت کرنی پڑے گی آپ کو۔ جب یہاں آئے ہیں جس طرح پیسہ کمانے کے لئے محنت کرنی ہے ناں اُسی طرح بچوں کی تربیت کے لئے بھی محنت کرنی ہے۔ جب وہ محنت کر لیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ! اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔ اور دعا بھی ساتھ کریں گے۔

(ٹرانسکرائب و کمپوزنگ: مدثر احمد۔ مبلغ سلسلہ مڈغاسکر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ