• 24 اپریل, 2024

والدہ محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ

والدہ محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم شریف احمد پیرکوٹی صاحب آف حافظ آباد کا ذکر خیر

تعارف

محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ، مکرم محمد عبداللہ صاحب کی بڑی بیٹی تھیں۔ مکرم محمد عبداللہ صاحب چک چٹھہ اور ڈاہرنوالی (ضلع حافظ آباد) پر مشتمل ایک مشترکہ جماعت کے صدر تھے۔آپ کی شادی مکرم شریف احمد پیرکوٹی صاحب کلاتھ مرچنٹ حافظ آباد سے ہوئی۔ آپ کے ہاں شادی کے 5سال بعد اولاد ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے انہیں 5بچوں سے نوازاجن میں 2 لڑکیاں اور 3لڑکےشامل ہیں۔

ماں تو نام ہی پیاراور محبت کا ہے۔ ہماری والدہ بھی بس پیار ہی پیارتھیں۔مزاج بہت دھیما تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی کسی بہن یا بھائی کو مارا ہویا غصہ میں ڈانٹا ہو البتہ ان کے پیارکی مارہی کافی تھی جو اثر کرجاتی تھی۔ پڑوس اور عزیزو اقارب سبھی سے پیارتھا ۔ان سے ملنا جلنا انہیں اچھا لگتا تھا۔ جب کبھی بھی حافظ آباد سے ربوہ آتیں تو سارے عزیز وں کے پاس جاکر ان سے ملنا اور ان کی خیریت دریافت کرنا ان کا معمول ہوتا۔

ناخواندہ تھیں لیکن خداکے فضل سے قرآن کریم پڑھ لیتی تھیں۔ روزانہ نماز فجر کے بعد دھیمی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ رمضان کے بابرکت ایام آتے تو دویاتین مرتبہ قرآن کریم کا دور ضرور مکمل کرتیں۔ روزوں سے تو عشق تھا۔ صحت بہت اچھی تھیں۔ ہمیشہ رمضان کے روزے رکھتی تھیں۔ اور اس کے بعد شوال کے روزے بھی۔

آپ کو اچار اور مربے بنانے کا شوق تھا۔ اکثر آم،گاجر اور آملہ کے مربے بنایا کرتی تھیں۔ خود بھی کھاتیں اور آنے جانے والوں کو بھی کھلاتی تھیں۔ بہت نفیس طبع اور بے حد صفائی پسند تھیں۔

ہم بچے اکثرعلمی مقابلہ جات میں انعامات لیتے تھے۔ ہم نے یہ انعام کبھی خود نہیں کھولے بلکہ امی جان کو جاکر دیتے وہ انعامات کھولتیں۔ بے حد خوش ہوتیں اور دعائیں دیتیں۔

آپ نے ہمیشہ اپنی بیٹیوں کے کان میں یہی ڈالا کہ بیٹیوں کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر ضرور ہونا چاہئے تاکہ زندگی میں بوقت ضرورت کام آسکے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان کی ایک بیٹی مکرمہ منصورہ مبشر صاحبہ نے سلائی کڑھائی کے کورس کئے اور سوشل ویلفئیر کے شعبہ میں کام کیا۔ مکرمہ مبارکہ شریف صاحبہ نے ایل ایچ وی کا کورس کیا اور عملاً سرکاری نوکری بھی کی۔

خاوند کی عزت اور اطاعت

میاں بیوی کا رشتہ بہت نازک ہوتاہے جو اکثر شکایات اور عدم اطاعت کا شکار ہو جاتا ہے۔ والد صاحب اوروالدہ صاحبہ کے درمیان احترام اور محبت کا مثالی تعلق تھا۔ اس تعلق میں والدہ صاحبہ کا بہت بڑا کردارتھا۔ ان کو والد صاحب سے کسی معاملہ میں اختلاف ہوا تواس کا ہلکا پھلکا اظہار کیا اور پھر بات مان لی۔

آپ نے ہمیشہ والد صاحب کوعزت کے ساتھ بلایا۔ خواہ وہ موجودہوں یانہ ہوں۔ ان کے خلاف کوئی نازیبا لفظ نہیں بولا۔ ہمیشہ ’تسی‘ کہہ کر پکارا۔ہمیشہ اچھی مائیں بچوں کے دل میں والد اور گھر کے سربراہ کی عزت بٹھاتی ہیں کیونکہ اگر یہ عزت نہ رہے تونہ والد کی عزت ہوگی اور نہ والدہ کی۔اورنہ ہی گھر میں سکون رہے گا۔ امی جان ہمیشہ ہمیں سمجھاتی تھیں کہ والد صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ان کا کہنا مانو۔ والد صاحب کی طبیعت نسبتاً تیز تھی مگر امی جان نے ہمیشہ بچوں کو ان کی عزت اور اطاعت کا درس دیا۔

مہمان نوازی

بڑی مہمان نواز تھیں۔پوری کوشش ہوتی کہ اپنی بساط کے مطابق آنے جانے والے مہمانوں کی خدمت کرسکیں۔والد صاحب حافظ آباد میں سالہا سال سیکرٹری ضیافت رہے۔دیر ہویا سویر،صبح ہویا شام، والدصاحب کی طرف سے پیغام آتاکہ اتنے مہمان ہیں ان کا کھانا تیارکرناہے۔بس پھر کیاتھا نہ شکوہ ،نہ شکایت،نہ ہی کوئی سوال،سب کچھ چھوڑ چھاڑکر کھانے کی تیاری میں جت گئیں۔یہ نظارے ہم نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ مہمانوں کی خاطر تواضع میں خوشی خوشی سارے انتظامات کئے۔والد صاحب کے بطورسیکرٹری ضیافت ہونے کا سہرا یقیناً امی جان کے سرہے جنہوں نے بہت محنت اور لگن سے حضرت مسیح موعود ؑ کے مہمانوں کی خاطر مدارات کیں اور دعائیں سمیٹیں۔

آپ کی چھوٹی بہن خالہ نصیرہ لطیف صاحبہ ابھی بہت چھوٹی تھیں کہ ہماری نانی جان کا انتقال ہوگیا۔ چونکہ ہماری والدہ صاحبہ سکینہ بیگم گھر میں بڑی تھیں۔ انہوں نے اس بہن کو پالا۔ ہماری خالہ نصیرہ لطیف صاحبہ کہتی ہیں کہ میں چھوٹی سی تھی کہ امی جان وفات پاگئیں پھر آپا سکینہ نے مجھے ماں بن کر پالا، پڑھایا اور پھر شادی کا انتظام کیا۔ آپ نے ساری زندگی میرا ہر طرح سے خیال رکھا۔ میری ہر ضرور ت کا خیال رکھا۔ ان کی بڑی بیٹی مبارکہ شریف صاحبہ میری ہم عمر تھی۔ دراصل یہی میری امی بن گئی تھیں جن کا سایہ شفقت آخری وقت تک میرے سر پر رہا۔ میرے میاں مکرم لطیف احمد پیرکوٹی صاحب وفات پا گئے تو ہر طرح سے میرا خیال رکھا اور مجھے اکیلا محسوس نہ ہونے دیا۔

بچوں کی تربیت کا ایک اچھوتا انداز تھا۔ برادرم مکرم ڈاکٹر مرزا نصیر احمد شریف صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہم چھوٹے تھے تو معمول کچھ اس طرح تھا کہ آپ جب صبح اٹھتیں تو نماز فجرپڑھ کر اونچی آواز میں تلاوت کرتیں۔ آپ نے سب بچوں سے کہا ہوا تھا کہ ناشتہ صرف اس بچے کو ملے گا جو نماز پڑھے گا اور اونچی آواز سے تلاوت کرے گا۔ آپ تو خود نماز اورتلاوت کے معاً بعد کچن میں ہمارے لئے ناشتہ کی تیاری میں مصروف ہوجاتیں۔ ہم تھے کہ خوشی خوشی نماز پڑھتے اور جہاں ہوتے اونچی اونچی آواز سے تلاوت کرتے تاکہ امی جان کو کچن کے اندر ہماری تلاوت کی آواز سنائی دے۔

آپ خود پڑھی لکھی تو نہ تھیں۔ آپ کے پاس جماعت کا کوئی عہدہ تو نہ تھا تاہم آپ کو جماعتی پروگراموں میں شرکت کا بے حد شوق تھا۔ آپ باقاعدگی سے لجنہ کی جماعتی تقریبات میں شریک ہوتیں۔مکرمہ بشریٰ صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ان دنوں حافظ آباد کی صدر لجنہ تھیں۔ ان کی طرف سے پیغام آتا کہ فلاں دن فلاں جگہ کا دورہ کرنا ہے۔ آپ فوری طور پر تیار ہوجاتیں اور ان کے ساتھ جاتیں۔ اور اس نیک کام میں خوشی محسوس کرتیں ۔ صدر صاحبہ لجنہ ہمیشہ آپ کو اپنے ساتھ دوروں پرلے جایا کرتی تھیں۔

دیانت داری

آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی۔آپ بڑی دیانت دار تھیں۔ آپ کی ایمانداری کا ایک واقعہ ہمارے بھائی مکرم ڈاکٹر مرزا نصیر احمد شریف صاحب کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ ہم فیکٹری ایریا میں رہتے تھے۔ دار الرحمت غربی کے بازار ‘منڈی’میں ایک سبزی فروش مکرم محمد حفیظ صاحب دکان کرتے تھے۔ انہیں لوگ پیار سے ‘پھیجا’بھی کہتے تھے۔ میں امی جان کے ساتھ تھا۔ آپ نے اس سبزی فروش سے سبزی لی۔ اس سبزی کی قیمت ادا کی تو بقایا اٹھنی رہ گئی جو آپ کے پاس نہیں تھی۔ دکاندار نے کہا: آپا!کوئی بات نہیں۔ بعد میں دے دینا۔ امی جان نے اٹھنی دینے کا وعدہ کیا اورگھر واپس آگئیں۔ اتفاق سے اگلے روز ہمارے سکول میں تعطیلات ہوگئیں اورہم تین ماہ کے لئے پیرکوٹ ثانی ضلع حافظ آباد آگئے۔ چھٹیاں گزار کر واپس ربوہ پہنچے تو امی جان نے مجھے ساتھ لیااور اس سبزی فروش کے پاس پہنچیں اور کہا:بھائی! ہم رخصتوں کی وجہ سے آپ کی اٹھنی وقت پر نہ دے سکے۔ یہ ہے آپ کی اٹھنی۔ وہ کہنے لگا: آپا!مجھے تو یاد بھی نہیں۔ آپ نے اصرار کر کے کہا: مجھے تو اچھی طرح یاد ہے۔یہ رکھ لو۔ بھائی جان کہتے ہیں کہ بچپن سے یہ واقعہ میرے ذہن پر ثبت ہے کہ کس طرح امی جان نے پوری ایمانداری کے ساتھ وہ اٹھنی اس کے مالک تک پہنچائی۔حالانکہ یہ بظاہر معمولی سی رقم تھی۔

آپ بڑی دلیر خاتون تھیں۔ ہم محلہ بہاولپورہ حافظ آباد میں ایک گھر میں رہائش رکھتے تھے۔ والد صاحب نے گھر میں دودھ کے لیے ایک بھینس پال رکھی تھی ۔ ایک دن بارش شروع ہوئی تو ساتھ ہی اولے پڑنے شروع ہوگئے۔ بھینس اولوں کی شدت کی وجہ سے چھلانگیں لگانے لگی۔ بھینس چاہتی تھی کہ کسی طرح رسہ تڑوا کر برآمدہ میں آجائے۔ والدہ صاحبہ نے اس وقت بڑی بہادری سے کام لیا اور جا کر پوری کوشش کی کہ کسی طرح رسی کھل جائے۔ بھینس کے کھینچنے سے رسی بہت سخت ہوچکی تھی۔ آپ کوشش کے باوجود رسی نہ کھول سکیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چونکہ بارش کی وجہ سے زمین نرم ہوگئی تھی اور بھینس کے زور لگانے کی وجہ سے ‘کلا’باہر آگیا اور بھینس فوری طور پر برآمدہ کی طرف چلی گئی۔ امی جان کا بارش اور اولوں کے درمیان جانور کا رسہ کھولنے کی پوری کوشش کرنا یقیناً ان کی دلیری کی علامت ہے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر قربانیاں

بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر قربانیاں توآپ کا معمول تھا۔والد صاحب کی رہائش گاؤں پیرکوٹ ثانی میں تھی جہاں وہ اپنی والدہ یعنی ہماری دادی جا ن کے ساتھ رہتے تھے۔آپ حافظ آبادشہر میں کپڑے کی دکان کرتے تھے۔آپ نے ہماری امی جان اور بچوں کو تعلیم وتربیت کے لیے ربوہ بھجوارکھا تھا تاکہ ربوہ کے پاکیزہ ماحول میں ان کی تربیت بھی ہواور زیورتعلیم سے بھی آراستہ ہوسکیں۔یہ تعلیم وتربیت گاؤں میں رہ کرممکن نہ تھی۔

آپ کو بڑ ا شوق تھا کہ بچے پڑھ لکھ جائیں۔ آپ کے ہاں بڑی بیٹی ہوئی تو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لاحق ہوئی۔ اس کو اپنے میاں کے کزن مکرم مولوی محمد سعید صاحب سابق انسپکٹر مال کے ہاں چونڈہ ضلع سیالکوٹ بھجوایا جو کہ بعد میں ربوہ شفٹ ہو گئے تھے۔ بڑے بھائی مکرم نصیر احمد صاحب کو جب وہ بہت چھوٹے تھے تو پیرکوٹ ثانی سے قریبی گاؤں اونچے مانگٹ کے سکول میں بھجوایا کرتی تھیں۔ڈیڑھ میل کا فاصلہ تھا۔ اسکو صبح صبح تیار کرتیں۔ ایک تھیلے نما بستے میں سلیٹ،تختی، قاعدہ و غیرہ ڈال کر دیتیں اور روٹی پکا کر اچار یا مربہ کے ساتھ ایک کپڑے میں الگ سے باندھ دیتیں تا کہ کسی نہ کسی طرح ان کا بڑا بیٹا پڑھ جائے۔بعد میں ربوہ بچوں کو تعلیم دلوانے کے مقصد کے لئے شفٹ ہوئے۔

اس دور میں ربوہ میں رہناکوئی آسان کام نہ تھا۔گھر محلہ دارالعلوم میں تھا۔سارے گھر دور دور اور کافی فاصلے پر تھے۔رات کو گیدڑوں اور دوسرے جانوروں کی آوازیں آتی تھی۔والدہ صاحبہ کی بڑی قربانی تھی کہ تن تنہا اپنے بچوں کوپال رہی تھیں۔والد صاحب ہفتہ یادوہفتہ کے بعد ایک بار ربوہ چکرلگاتے تھے۔مگر ہماری والدہ محترمہ پانچ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ہمہ تن مصروف تھیں۔والدہ صاحبہ ہمیں ہنس کربتایاکرتی تھیں کہ جب رات کو گیدڑوں اوردوسرے جانوروں کی آوازیں آتی تو سب بچوں نے ڈر کرکہناکہ ان کی چارپائی امی کے پاس ہو۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ والدہ صاحبہ کی چارپائی جس پر خاکساربھی ہوتاجوابھی چھوٹاتھا درمیان میں ہوتی اور دوسرے سب بچوں کی چارپائیاں اس کے اردگرد ہوتیں۔اس نظارے سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے مجھے یعنی والدہ کو ڈر لگ رہاہے اور سارے بچے مجھے ڈر سے بچانے کے لیے اپنی چارپائیاں میرے اردگرد بچھارہے ہیں۔

جب رات کو گیدڑوں کی آوازیں آتیں تو آپ نہ صرف خود بہادر بنیں بلکہ بچوں میں بھی کوئی خوف نہیں پیدا ہونے دیا۔ کچھ عرصہ ہم محلہ دارالعلوم میں رہے پھر مکرم مرزا حمید اللہ پیرکوٹی صاحب نے ہمیں الفضل والی گلی محلہ دارالرحمت غربی میں تایا جان مکرم محمد عبداللہ صاحب کے گھر میں شفٹ کروایا۔

ذراتصورکی آنکھ سے دیکھیں اکیلی عورت جسے گھرمیں اشیائے خوردونوش کی خریداری کرنی ہے۔کھانا پکاناہے گھر کی صفائی ستھرائی کرنی ہے۔ بچوں کو تیارکرکے سکول بھجواناہے۔ نماز کا وقت ہے تو مسجد کے لیے اٹھانا اورتیارکرکے مسجد بھجواناہے۔اطفال یاناصرات کے پروگرام ہیں تو انہیں تیارکرکے ان کے لئے بجھواناہے۔اس اکیلی خاتون کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے ۔ یہ اکیلے ہی سارے کام خود کررہی ہیں۔بچوں کے کپڑے بھی سیتی ہیں اور موسم سرماآنے پرسویٹر بھی خود بنتی ہیں۔

والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ ایک بار میری ہمسائی کہیں سفر پر جارہی تھی تووہ اپنا ریڈیومجھے دے گئی اورکہاکہ ساری رات اسے چلاکر سوجایا کروتاکہ باہر والے سمجھیں کہ گھر میں کوئی جاگ رہاہے اور ریڈیوسن رہاہے۔یہ تجویز اچھی تھی اور امی جان نے اس پر عمل شروع کردیا۔ساری ساری رات ریڈیو بجتا اور آپ اوربچے آرام سے سوتے رہتے۔

ایک بارعجب لطیفہ بھی ہوا کہ اس ریڈیوکی گھر میں آمد کے بعد والد صاحب حافظ آباد بڑی تاخیر سے پہنچے۔گھرپہنچے تورات بیت چکی تھی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر ریڈیوچل رہاتھا۔دروازے کی آواز بھلا کہاں سنائی دیتی۔والد صاحب نے کافی دیر کے بعد دیوار پھلانگی اور اندرجاکر والدہ صاحبہ کو آواز دی۔ انہوں نے آواز پہچان کراندروالادروازہ کھولااور یوں والد صاحب گھرمیں داخل ہوئے۔

ربوہ میں ابتدائی طور پر ہماری رہائش دارالعلوم میں تھی۔ دو گھر تھے جو ایک ساتھ تھے۔ باقی گھر کافی فاصلہ پر تھے اور الگ الگ تھے۔ یہ حال تھا کہ وہاں سے دریائے چناب دورہی سے نظر آتا تھا۔ کیونکہ گنجان آبادی نہ تھی۔ یہ گھر آجکل کے لحاظ سے جونیئر جامعہ کی پرانی عمارت کے قریب تھا۔ ایک اور جگہ گھر کچھ تھوڑے فاصلہ پر تھا۔ ان دنوں گھر میں پانی کا نل تو نہیں تھا۔ ماشکی لگوایا ہواتھا۔ جو روزانہ پینے کا پانی لاتا اور گھڑے میں ڈال دیتا تھا۔ یہ پانی تو پینے کے کام آتا۔ البتہ گھر کے پاس ایک ’کھوئی‘ تھی جس سے پانی نکالا جاتا تھا۔ یہ پانی کپڑے دھونے کے استعمال میں آتا تھا۔

ایک بار یوں ہوا کہ پینے کا پانی ختم ہوگیا تو باجی منصورہ، باجی مبارکہ، ہمسایہ میں ایک ہم عمر بچی اور ہمسایہ کی ایک ادھیڑ عمر عورت اپنی اپنی بالٹیاں لے کر پانی لینے کے لئے نکلیں۔ ان دنوں تعلیم الاسلام کالج کی عمارت کے ساتھ ایک نل تھا۔ جہاں سے لوگ میٹھا پانی بھرتے تھے۔ یہ بچیاں جب پانی لے کرواپس آنے لگیں تو ایک آندھی اٹھی اور طوفان میں بدل گئی۔ چھوٹے چھوٹے پتھر اور کلر کا گرد و غبار تھا کہ کچھ نظر نہ آتا تھا۔ یہ سب آندھی میں گھر سے آگے نکل گئیں۔ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کہاں جانا ہے۔ چاروں ایک جگہ بیٹھ گئیں۔ طوفان کچھ تھما اور بجلی چمکی تو ان کو علم ہوا کہ وہ اپنے گھر سے بہت آگے آگئی ہیں۔ چنانچہ وہ واپس مڑیں اور گھر پہنچیں۔ بالٹیاں ان کے سروں پر تھیں۔ دوسری طرف گھر میں عجیب صورتحال تھی۔ بجلی چلی گئی۔ تین چھوٹے بچے اور والدہ محترمہ تھیں۔ کبھی وہ بچوں کو دیکھتیں اور کبھی دروازہ پر جا کر بچیوں کی راہ تکتیں اور کبھی کھڑکی سے پڑوسیوں سے پوچھتیں کہ کیا بچیاں آگئی ہیں؟ والدہ صاحبہ تینوں جگہ پر چکر لگاتیں اور پریشانی میں دعائیں کرتی رہیں۔ خدا خدا کر کے بچیاں واپس آئیں تو خدا کا شکر ادا کیا۔ ان کے سروں پر بالٹیاں تھیں جس کا پانی گدلا ہوچکا تھا۔ امی جان کہنے لگیں: کم سے کم اس پانی کوتو گرا دیتیں۔ کچھ بوجھ کم ہوجاتا۔ اس طرح امی جان نے تن تنہا اس قسم کے حالات کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور مشکلات سہیں۔

اس طرح کا ایک اور واقعہ باجی منصورہ صاحبہ بیان کرتی ہیں ،یہ بھی اس امر پر ورشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح امی جان نے اکیلے رہ کر ربوہ میں بچوں کو تعلیم دلوانے کے دوران مشکلات کا مقابلہ کیا۔ کہتی ہیں کہ میں، بڑی بہن مبارکہ صاحبہ اور ہمسایہ کی ہم عمر بچی، ہم پڑھنے کے لئے نصرت گرلز ہائی سکول جایا کرتی تھیں۔ ہمارا طریق تھا کہ گھر سے سیدھا تعلیم الاسلام کالج کے پاس ہوتے ہوئے ریلوے لائن کراس کرتیں اور پھر وہاں سے سیدھا آہستہ آہستہ سکول جاتیں۔ ہم بچیاں تھیں۔ ایک دن سکول سے واپسی ہوئی ہم نے ریلوے لائن کراس کی تو اپنے بستے ایک طرف رکھ دیئے اور لائن پر ہی پتھروں سے کھیلنے لگ گئیں۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے کھیلنے میں بہت مزہ آرہا تھا۔ ایک دم کیا دیکھتی ہیں کہ چنیوٹ سے ریل گاڑی ہماری طرف آرہی ہے۔ ڈرائیور نے بھی دیکھ کر ہارن بجایا۔ ہم نے ڈر کر اچانک چھلانگیں لگا دیں اور لائن سے اتر گئیں۔ جونہی ہم لائن سے اتریں ریل گاڑی تیزی سے ہمارے پاس سے گزری۔پھر کیا تھا۔ خوف کے مارے ہمارا برا حال تھا۔ حواس باختہ تھیں۔ شدید گھبرا گئیں اور رونے لگیں۔ بستے اٹھائے اور گھر کی راہ لی۔ امی جان کو بتایا تو انہوں نے ڈانٹا بھی اور پیار سے سمجھایا بھی کہ سکول سے سیدھے گھر واپس آتے ہیں۔ آپ یہی کہتیں کہ اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں دنیا کو کیا منہ دکھاتی کہ ربوہ بچے پڑھانے کے لئے لائی اور یہ کیا ہوگیا۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری والدہ نے کن کن مشکل حالات میں زندگی بسر کی اور اپنے بچوں کو پالا۔

بچوں کی خاطر ان کی قربانی کا ایک واقعہ ناقابل فراموش ہے ۔بھائی جان مکرم مرزارشید احمد صاحب نے قانون پڑھنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔داخلہ کے لیے چودہ سو روپے کی ضرورت تھی۔ ان دنوں یہ ہمارے لیے بہت بڑی رقم تھی اور والد صاحب کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ یہ رقم آسانی سے میسر ہوسکے۔ عورت کوزیور بے حد پیارا ہوتا ہے۔ خصوصاً جب یہ زیور اس کے والدین نے اس کی شادی کے موقع پر دیاہومگرہم قربان جائیں اس ممتاکے پیارپر، انہوں نے اپنا سونے کا ایک خوبصورت گلوبند بیچ کربیٹے کے داخلے کے لیے انتظام کردیا۔یہ بہت بڑی قربانی تھی جس کا نقش ہم سب کے ذہنوں پر بچپن سے ثبت ہے۔آپ نے اتنی بڑی قربانی کی مگر کبھی جتایا نہیں۔

جب بھائی جان مکرم مرزا رشیداحمد صاحب کام کرنے لگے تو والدہ صاحبہ کو کچھ زیور بنواکردیا توبے حد خوش ہوئیں اور دوسروں کو خوشی سے بتاتیں کہ میرے بیٹے نے بنوا کر دیا ہے۔

ہماری والدہ کی انہی لاتعداد قربانیوں کا ہی ثمرہ ہے کہ ہم سب کافی حد تک اپنی صلاحیت کے مطابق پڑھ گئے۔ ایک بچہ ہومیو ڈاکٹر بنا جسے بعد میں معلم سلسلہ خدمت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک نے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ایک بچی لیڈی ہیلتھ ویزیٹر بنی اورایک بچی سوشل ویلفیئرکے شعبہ کی آفیسر بنی اور ایک بچہ مربی سلسلہ بن کر خدمت کی سعادت پا رہا ہے ۔اگر ہم گاؤں میں ہوتے تو ایسا ہونا ہرگزممکن نہ تھا۔

خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات

آپ ہمیشہ خداکی راہ میں صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔ آپ کو غریبوں کی مدد کا ہمیشہ خیال رہتا۔ یہ مدد آٹا ،چینی، چاول اور کچھ روپیہ پیسہ کی صورت میں ہوا کرتی تھی۔ایک بار جمعہ کے روز خاکساربھی مسجد میں موجود تھا۔مکرم محمود ناصر ثاقب صاحب مربی سلسلہ احباب کو حافظ آبادمیں دو منزلہ مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے لیے نئے منصوبہ سے آگاہ کررہے تھے۔آپ احباب جماعت سے مالی قربانی کامطالبہ کررہے تھے۔امی جان نے اس مالی تحریک پر فوراً لبیک کہا اور تقریر کے دوران ہی اپنے کانوں میں موجود سونے کی دو بالیا ں مربی صاحب کو بھجوادیں کہ یہ ان کی طرف سے مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے لیے عطیہ ہے۔مکرم مربی صاحب اس جذبہ سے بہت خوش ہوئے اوراسے خوب سراہا۔انہوں نے اس کی مثال دے کر احباب جماعت کو مزید قربانی کرنے کی تحریک کی۔

آپ کی وصیت تھی کہ وفات کے بعد ان کے پاس جو زیور موجود ہے وہ صدقہ میں دے دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

آخری دنوں میں آپ اپنے بیٹے مکرم مرزا رشید احمدصاحب کے پاس لندن میں تھیں۔ بھائی جان کے بچے چھوٹے تھے اور چونکہ وہ پہلے اپنی دادی جان کے پاس نہیں رہے تھے لہذا ان میں جھجک تھی۔ امی جان نے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ بچے میرے پاس نہیں آتے یا میرے ساتھ گھلتے ملتے نہیں۔ آپ نے صورتحال کو اچھی طرح سمجھا بلکہ بھائی جان کو تسلی کے لئے کہا کہ بیٹا !کوئی بات نہیں۔ میں تو ہمیشہ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہوں۔ جب یہ کھیل رہے ہوتے ہیں تو مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے۔

وفات

آخری دنوں کی بات ہے خدا کے فضل سے صحت بہت اچھی تھی۔ آپ اپنے بیٹے مکرم مرزارشید احمد طاہر صاحب کے ہاں لندن میں قریبا چھ ہفتے مقیم رہیں۔ آپ کو روزے رکھنے کی بھی توفیق ملی۔ بھائی جان کہتے ہیں کہ ہرنیا کی وجہ سے ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو میں انہیں ہسپتال لے گیا۔ ر استہ میں معمول کے مطابق باتیں ہوتی رہیں۔ ہر چیز نارمل تھی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کرتے ہی اگلے روز آپریشن کرنے کا کہا۔ شام ہوئی توبھائی جان نے گھر جانے کی اجازت مانگی تو کہنے لگیں: رشید!میرے بعض نئے کپڑے ہیں ان میں سے کچھ کپڑے اپنی بیوی محمودہ کو دے دینا اور کچھ کپڑے میری بہن نصیرہ کو پاکستان بھجوادینا۔ بھائی جان نے کہا کہ آپ کیسی باتیں کررہی ہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ مگر انہوں نے اپنی بات پر اصرار کیاکہ جیساوہ کہہ رہی ہیں ویسا ہی کیا جائے۔ ان کو یقیناً احساس ہوچکا تھاکہ اب ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپریشن تو کامیاب ہو گیا مگراس کے بعد ان کی حالت بگڑ گئی اور آپ اپنے مولا کریم کو پیاری ہوگئیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

آپ کے میاں یعنی ہمارے والد صاحب مؤرخہ 2دسمبر 2009ء کو اپنے مولاکریم کو پیارے ہو گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اس موقع پر آپ نے بڑے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔

آپ مؤرخہ16 اگست 2011ء کو لندن میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں آپ کا جنازہ حاضر پڑھایا۔

پسماندگان

ان کے پانچ بچے ہیں۔
1۔ مکرمہ مبارکہ اختر صاحبہ اہلیہ مکرم محمد شریف قیصر صاحب حال کینیڈا
2۔ مکرمہ منصورہ شریف صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب حال نیو جرسی۔ امریکہ
3۔ مکرم ہو میوڈ اکٹر مرزا نصیر احمد شریف صاحب حال معلم سلسلہ کوٹلی۔ آزاد کشمیر
4۔ مکرم مرزا رشید احمد صاحب حال یوکے
5۔ خاکسار فہیم احمد خادم مربی سلسلہ حال گھانا

اللہ کے فضل سے ان کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی تعداد 22 ہے جس میں سے دو پوتے مکرم مرزا دانیال احمد صاحب اور مرزا سفیر احمد صاحب مربیان ہیں اور ربوہ میں خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں اور ایک نواسہ مکرم اسفند سلیمان صاحب مربی سلسلہ ہیں اورکینیڈا میں خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں اورر ایک پوتا مکرم مرزا ابتسام احمد صاحب اس وقت جامعہ احمدیہ لندن میں زیر تعلیم ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری والدہ محترمہ کو جنت الفردوس کے اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء فرمائے اور ان کی آئندہ نسل کو انکی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔آمین

(از فہیم احمد خادم۔مربی سلسلہ گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2020