• 23 اپریل, 2024

والدین کی خدمت میں دین و دنیا کی بھلائی

ارشادات الٰہی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘

اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیت 24 اور 25 میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ’’تیرے رب نے اس بات کا تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور نیز یہ کہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آ جائے تو انہیں ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے ہمیشہ نرمی سے بات کر‘‘۔

اوروالدین کیلئے یہ دعا سکھائی کہ ’’اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کرو اور ان کیلئے دعا کرتے وقت کہا کہ اے میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی‘‘۔

ایک اور جگہ سورۃ النساء آیت37 میں فرمایا: ’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ بہت احسان کرو‘‘۔

پھرسورۃ احقاف آیت 16 میں فرمایا: ’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے احسان کی تعلیم دی تھی کیونکہ اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھایا تھا اور پھر تکلیف کے ساتھ اس کو جنا تھا اور اس کے اٹھانے اور اس کے دودھ چھڑانے پر تیس مہینے لگے تھے‘‘۔

قرآن کریم کی ان جملہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ غیر معمولی حُسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور ایسی تاکید فرمائی ہے کہ کسی بھی لمحے والدین کی خدمت اور ان کی تعظیم سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

والدین کی غیر معمولی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کرنے کی وجہ یہ فرمائی ہے کہ ہمارے والدین نے ہماری پیدائش اور پرورش میں بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کیا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ یہ حق رکھتے ہیں اور اولاد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے اور ان کی غیر معمولی خدمت کی جائے۔

ارشادات نبوی حسن سلوک کا مستحق

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے! آپ نے فرمایا: تیری ماں۔ پھر اس نے پوچھا۔ پھر کون! آپ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا پھر کون ! آپ نے فرمایا : ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار۔

(بخاری، کتاب الادب)

بدقسمت شخص

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مٹی میں ملے اس کی ناک مٹی میں ملے اس کی ناک (یہ الفاظ آپ نے تین بار دہرائے) یعنی ایسا شخص قابل ندامت اور بدقسمت ہے۔ لوگوں نے عرض کیا۔ حضور! کونسا شخص؟ آپ نے فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔

(مسلم، کتاب البر والصلہ)

بہترین نیکی

حضرت ابوعبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی بہترین نیکی یہ ہے کہ والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے جب کہ اس کا والد فوت ہو چکا ہو یا کسی اور جگہ چلا گیا ہو۔

(مسلم، کتاب البر والصلہ)

والدین کیلئے نیکی

حضرت ابواسید الساعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی مسلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کےلئے کر سکوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو‘ ان کیلئے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔

(ابوداؤد، کتاب الادب)

والدین کی خدمت بعض حالات میں اتنی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ حقوق اللہ پر بھی مقدم ہو جاتی ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے مخصوص حالات میں والدین کی خدمت اور اطاعت کو نماز‘ حج اور جہاد پر بھی اوّلیت عطا فرمائی ہے۔ جس کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

مقبول حج اور والدین کی خدمت کا جہاد

والدین کی خدمت و فرمانبرداری کا ثواب گویا حج و عمرہ اور جہاد کے برابر ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کی قدرت نہیں۔

رسول اللہ نے دریافت فرمایا

کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے۔ ؟

اس شخص نے کہا ہاں میری والدہ زندہ ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا
ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرکے اللہ تعالیٰ سے ملو، اگر تم نے ایسا کیا تو تم حج کرنے والے، عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے والے (کی طرح) ہو۔ » (الترغیب و الترہیب)۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے، صحابۂ کرام نے پوچھا ’’یا رسول اللہ ؐ!اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟ آپ نے فرمایا!ہاں، اگرچہ وہ سو بار دیکھے، اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے

(مشکوۃ شریف صفحہ۴۲۱)

چنانچہ حضرت اویس قرنیؓ کی والدہ جب تک زندہ رہیں ان کی تنہائی کے خیال سے حضرت اویس قرنی نے حج نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد حج کا فریضہ ادا کیا۔

(صحيح مسلم – كتاب فضائل الصحابة – إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له أويس)

تاریخ میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ جب تک زندہ رہیں ان کی خدمت کی وجہ سے حضرت ابوہریرہؓ نے بھی حج نہیں کیا۔

حضرت معاویہؓ بن جاھمہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد جاھمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے رہنمائی لینے آیا ہوں۔ حضور ؑنے فرمایا کیا تیری ماں موجود ہے انہوں نے کہا ہاں۔

فرمایا :پھر اس کی خدمت میں لگ جا کیونکہ جنت اس کے قدموں تلے ہے۔

(سنن نسائی حدیث 3106)

مقبول دعائیں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تین دعائیں جو لازماً قبول ہوتی ہیں۔ والد کی دعا۔ مظلوم کی دعا۔ مسافر کی دعا۔

(بیہقی، صحیح الجامع2032)

اسی لئے قرآن کریم نے والدین کو اولاد کے حق میں دعائیں سکھائی ہیں اور بزرگوں کا یہی وطیرہ ہے۔

حصول جنت

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے ماں اور باپ دونوں کی اطاعت کرتے ہوئے دن کا آغاز کیا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اگر ایک کی اطاعت کی ہو تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے۔ اور جس نے ماں باپ دونوں کی نافرمانی کرتے ہوئے صبح کی اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل چکے ہوتے ہیں اور اگر ایک کی نافرمانی کی ہو تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ کسی نے پوچھا اگر ماں باپ ظالم ہوں تو کیا پھر بھی ایسا ہوگا فرمایا اگرچہ وہ ظالم ہوں اگرچہ وہ ظالم ہوں اگرچہ وہ ظالم ہوں۔

(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب)

عمر اور رزق میں برکت کا گُر

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔

(مسلم کتاب البر والصلہ، مسند احمد)

رضائے الٰہی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خدا کی رضا والد کی رضا میں مضمر ہے اور خدا کی ناراضگی میں پوشیدہ والد کی ناراضگی ہے۔

(شعب الایمان للبیہقی)

وبالوالدین احسانا

والدین کے ساتھ جہاں تک احسان کا تعلق ہے اس کے متعلق یہ قطعی امر ہے کہ انسان اپنے والدین کے احسانات اتار نہیں سکتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک شخص کا پورا مال اس کے والد کی ملکیت قرار دیا۔ یہ ورثے کا اور قانونی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تربیتی اور اخلاقی لحاظ سے اولاد کو ایک زبردست نصیحت تھی چنانچہ ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! میرے پاس مال ہے اور اولاد بھی ہے۔ لیکن میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے۔ اس بارہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو اور تیرا مال سب تیرے والد کا ہے پھر فرمایا تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اس لئے اپنی اولاد کی کمائی سے کھا سکتے ہو‘‘۔

(سنن ابن ماجہ حدیث 2282)

اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے اور آپﷺ چھ سال کے تھے کہ آپﷺ کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئیں۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تقدیر الٰہی کے ماتحت والدین کی براہ راست خدمت کا موقع تو نہیں ملا مگر ان کیلئے آپﷺ کے دل میں محبت کے بے پناہ جذبات تھے۔ جن کے ماتحت آپ مسلسل درد سے ان کے لئے دعائیں کرتے رہے مگر ان کی خدمت کے جذبہ کی تسکین آپ نے رضاعی والدین کی خدمت کر کے حاصل کی۔

حافظ ابن جوزی نے الحدائق میں لکھا ہے کہ حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ مکہ میں آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔

ایک خاتون جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ حضورؐ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ جب وہ حضور کے پاس آئیں تو حضور نے امی امی کہتے ہوئے ان کیلئے اپنی چادر بچھائی جس پر وہ بیٹھ گئیں۔

حضرت ابوالطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ مقام پر گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک عورت آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب چلی گئی۔ حضور نے اس کی بہت تعظیم کی اور اس کیلئے اپنی چادر بچھا دی۔ میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے تو لوگوں نے کہا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں۔

(مسلم کتاب البر والصلہ)

ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے چادر کا ایک گوشہ بچھا دیا۔ پھر رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا گوشہ بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔

حضرت مسیح موعودؑ کی والدین سے محبت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی۔ جب کبھی ان کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔

شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ حضورؑ ایک مرتبہ سیر کی غرض سے اپنے پرانے قبرستان کی طرف نکل گئے۔ راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت ایک لمبی دعا کی۔ حضورؑ جب کبھی حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر کرتے تو آپ چشم پُرآب ہو جاتے۔

حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنی کتاب ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ جلد اول میں بھی حضورؑ کی اس محبت کا ذکر یوں فرمایا ہے کہ خاکسار راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعودؑ اپنی والدہ کا ذکر فرماتے تھے یا آپ کے سامنے کوئی دوسرا شخص آپ کی والدہ کا ذکر کرتا تھا تو ہر ایسے موقعہ پر جذبات کے ہجوم سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور آواز میں بھی رقت کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کا دل جذبات کے تلاطم میں گھرا ہوا ہے اور آپ اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا اور وہ ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں اور سنا گیا ہے کہ آپ کی والدہ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور سب گھر والے آپ کو ماں کا محبوب بیٹا سمجھتے تھے۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنے والد ماجدکے متعلق اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں فرماتے ہیں :۔ ۔ ۔ ۔ تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کردیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اوروہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے۔

٭…٭…٭

(تانیس عمران کاہلوں)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2020