• 20 اپریل, 2024

’’آؤ حسن یار کی باتیں کریں‘‘

آج میں ایک ایسی عظیم ہستی کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہوں جس کے احسانات کا کائنات کا ایک ایک ذرہ بار تلے دبا ہوا ہے۔ یہ ہستی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے۔ جو خود پیدا نہیں ہوا لیکن ساری کائنات اور ما فیھا اس کی پیدا کردہ ہے۔

آج میں نے اس موضوع کو اس لئے چُنا ہے کہ ہم مخلوق بھی اسی ذات کی مرہون منت ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک پر اس ذات اعلیٰ کے بے شمار انگنت احسانات و انعامات ہیں۔ان احسانات کا گاہے بگاہے اپنی نجی و جماعتی محافل و مجالس میں ذکر ضروری ہے۔یہ بھی شکر الٰہی کا ایک طریق ہے۔

اگر اللہ کی صفت ’’رحمٰن‘‘ ہی کو لیں جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے اس کی پیدائش سے قبل اس کے آرام و آسائش اور اس کی آسانیوں کے لئے ایسی چیزیں بنا دیں جو اس کی ضرورت میں سے تھیں۔جیسے آسمان، زمین، سورج، روشنی، اندھیرا، ہوا، پانی اور درخت وغیرہ وغیرہ تو اِسی پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔ اقلام کی سیاہی ختم اور صفحات ناپید ہو سکتے ہیں مگر اس کی صفت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے درس القرآن میں ہر سورت کے آغاز پر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا الگ سے ترجمہ کیا ہے۔ جن کی تعداد 113 ہے۔ جو صفت الرحمٰن اور الرحیم کی وسعت معانی کی طرف دلالت کرتے ہیں۔ اور یہ 113 تراجم ہمارے الفضل لندن آن لائن میں شامل اشاعت ہوچکے ہیں۔

اس بحربیکراں مضمون میں آگے بڑھنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عنوان میں لفظ ’’یار‘‘ کی وضاحت ہوجائے۔ یہ لفظ دوست، مددگار، پیارے، چہیتے، رفیق، ساتھی اور معشوق و محبوب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے لئے ’’وَلِیٌّ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جیسے فرمایا أَنتَ وَلِيِّي فِی الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (یوسف:102) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہےکہ تو (اللہ) ہی میرا ولی دوست حمایتی ہے دنیا میں اور آخرت میں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی ولی کا ترجمہ دوست ہی کیا ہے۔

’’اللہ‘‘ اس کا ذاتی نام ہے اور ’’تعالیٰ‘‘ اس کی بڑائی کے لئے ساتھ لگایا جاتا ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کہنے میں بڑی برکات ہیں‘‘ اور 99 اس کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص زندگی میں ان کو مدنظر رکھے گا اور ان کا مظہر بننے کی کوشش کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

ایک اور موقع پر سرورکائنات سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان ،اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں یہ استعداد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں یہ استعداد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظلّی طور پر اپنا سکے۔

(مسند احمدجلد دوم ص323)

آنحضورﷺ نے ننانوے صفات یوں گنوائیں۔

اَللّٰہُ (ہر قسم کے نقص سے پاک)، اَلرَّبُّ (پالنے والا)، اَلرَّحْمٰنُ (بہت مہربان)، الَرَّحِیْمُ (نہایت رحم کرنے والا)، اَلْمَلِکُ (بادشاہ)، اَلْقُدُّوْسُ (پاک ذات)، اَلسَّلَامُ (سلامتی والا)، اَلْمُؤْمِنُ (امن دینے والا)، اَلْمُھَیْمِنُ (پناہ دینے والا)، اَلْعَزِیْزُ (غالب)، اَلْجَبَّارُ (زبر دست)، اَلْمُتَکَبِّرُ (کبریائی والا)، اَلْخَالِقُ (پیدا کرنے والا)، اَلْبَارِئُ (نیست سے ہست کرنےوالا)، الْمُصَوِّرُ (صورت بنانے والا)، الْغَفَّارُ (بخشنے والا)، اَلْقَھَّارُ (مکمل غلبہ رکھنے والا)، اَلْوَھَّابُ (بہت دینے والا)، اَلْرَزَّاقُ (روزی دینے والا)، اَلْفَتَّاحُ (کھولنے والا)، اَلْعَلِیْمُ (جاننے والا)، اَلْقَابِضُ (تنگ کرنے والا)، اَلْبَاسِطُ (کشادہ کرنے والا)، اَلْخَافِضُ (پست کرنے والا)، الرَّافِعُ (بلند کرنے والا)، الْمُعِزُّ (عزت دینے والا)، اَلْمُذِلُّ (ذلیل کرنے والا)، السَّمِیْعُ (سننےوالا)، الْبَصِیْرُ (دیکھنے والا)، الْحَکَمُ (فیصلہ کرنے والا)، الْعَدَلُ (انصاف کرنے والا)، اللَّطِیْفُ (باریک بین)، الْخَبِیْرُ (باخبر)، الْحَلِیْمُ (نہایت بردبار)، الْعَظِیْمُ (عظمت والا)، الْغُفُوْرُ (بخشنے والا)، الْشَّکُوْرُ (قدر دان)، الْعَلِیُّ (بلندی والا)، الْکَبِیْرُ (بڑائی والا)، الْحَفِیْظُ (حفاظت کرنے والا)، الْمُقِیْتُ (روزی پہنچانے والا)، الْحَسِیْبُ (حساب لینے والا)، الْجَلِیْلُ (شان والا)، الْکَرِیْمُ (عزت والا)، الرَّقِیْبُ (نگہبان)، اَلْمُجِیْبُ (قبول کرنے والا)، الوَاسِعُ (کشائش والا)، اَلْحَکِیْمُ (حکمت والا)، اَلْوَدُوْدُ (محبت والا)، اَلْمَجِیدُ (بزرگی والا)، اَلْبَاعِثُ (اٹھانےوالا)، اَلشَّھِیْدُ (حاضر)، اَلْحَقُّ (سچا مالک)، اَلْوَکِیْلُ (کام سنبھالنے والا)، اَلْقَوِیُ (زور آور)، اَلْمَتِیْنُ (قوت والا)، اَلْوَلِیُّ (حمایت کرنے والا)، اَلْحَمِیْدُ (خوبیوں والا)، اَلْمُحْصِیُ (گنتی والا)، اَلْمُبْدِئُ (پہلی بار پیدا کرنے والا)، اَلْمُعِیْدُ (دوسری بار پیدا کرنے والا)، اَلْمُحْیْیُ (زندہ کرنے والا)، اَلْمُمِیْتُ (مارنے والا)، اَلْحَیُّ (زندۂ جاوید)، اَلْقَیُّوْمُ (سب کا تھامنے والا)، اَلْوَاجِدُ (پالنےوالا)، اَلْمَاجِدُ (صاحب بزرگ)، اَلْوَاحِدُ (یکتا)، اَلصَّمَدُ (بےاحتیاج)، اَلْقَادِرُ (قدرت والا)، اَلْمُقْتَدِرُ (سب پرمقدور)، اَلْمُقَدِّمُ (آگے کرنے والا)، اَلْمُؤَخِّرُ (پیچھے کرنے والا)، اَلْاَوَّلُ (سب سے پہلا)، اَلْاٰخِرُ (آخری)، اَلْظَاہِرُ (ظاہر)، اَلْبَاطِنُ (چھپا)، اَلْوَالِیُ (کارساز)، اَلْمُتَعَالِیْ (بلند صفتوں والا)، اَلْبَرُّ (احسان کرنے والا)، اَلتَّوَّابُ (رجوع کرنے والا)، اَلْمُنْتَقِمْ (بدلہ لینے والا)، اَلْعَفُوُّ (معاف کرنے والا)، اَلرَّؤُوْفُ (نرمی کرنے والا)، مَالِکُ الْمُلْکِ (بادشاہوں کا مالک)، ذُوالْجَلَالِ (جلال والا)، والاکْرَامِ (اور اکرام والا)، اَلْمُقْسِطُ (انصاف کرنے والا)، اَلْجَامِعُ (اکٹھا کرنے والا)، اَلْغَنِیُّ (بے پرواہ)، اَلْمُغْنِیُ (بے پرواہ کرنے والا)، اَلْمَانِعُ (روکنے والا)، اَلضَّآرُّ (نقصان پہنچانے والا)، اَلنَّافِعُ (نفع پہنچانے والا)، اَلنُّورُ (روشن کرنے والا)، اَلْھَادِیُ (ہدایت دینے والا)، اَلْبَدِ یْعُ (نئی طر ح پیدا کرنے والا)، اَلْبَاقِیُ (باقی رہنے والا)، اَلْوَارِثُ (سب کا وارث)، اَلرَّشِیْدُ (نیک راہ دکھانے والا)، اَلْصَّبُوْرُ (صبر کرنے والا)

ایک دفعہ حضرت رسول کریمﷺحضرت عائشہؓ سے فرمانے لگے کہ مجھے اللہ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے جس کا نام لے کر دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے اس صفت کا نام پوچھا تو آنحضورؐ فرمانے لگے کہ میرے خیال میں اس کا بتانا مناسب نہیں۔ حضرت عائشہؓ روٹھ کر ایک طرف بیٹھ گئیں کہ اب حضورؐ خود ہی بتائیں گے مگر جب کچھ دیر تک آنحضورﷺ نے کچھ نہ بتایا تو پھر دوبارہ اپنی جگہ سے اُٹھیں۔ حضورؐ کی پیشانی کا بوسہ لے کر منت کرتے ہوئے صفت کا دوبارہ سوال کر دیا۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا: عائشہ! بات دراصل یہ ہے کہ اس صفت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے دنیا کی کوئی چیز مانگنا درست نہیں۔ اس لئے میں تمہیں نہیں بتارہا۔ تب حضرت عائشہؓ ناراض ہو کر وہاں سے اٹھیں۔ وضو کر کے آنحضورﷺکو سُنا سُنا کر بآواز بلند یہ دُعا مانگنے لگیں کہ
’’میرے مولیٰ! تجھے اپنے سارے پاک ناموں اور اچھی صفتوں کا واسطہ وہ صفتیں جو مجھے معلوم ہیں اور وہ بھی جو مجھے نہیں معلوم تو اس بندی سے عفو کا سلوک فرما۔‘‘

آنحضورﷺ قریب بیٹھے مسکرائے جارہے تھے اور فرمایا اے عائشہ! بے شک وہ صفت ان صفات میں سے ایک ہے جو تم نے شمار کرڈالی ہیں۔

(ابن ماجہ کتاب الدعا)

لہٰذا دعا مانگتے متعلقہ صفت کا نام لے کر خدا تعالیٰ کو مخاطب کرنا چاہئے تادُعا جلد قبول ہو۔

اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھنا ایمانیات میں سے ہے۔ حدیث قدسی ہے حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَ أَنَا مَعَہٗ حَیْثُ یَذْکِرُنِی (مسلم کتاب التوبہ) کہ میں اپنے بندے سے اس کے حسن ظن کے متعلق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے اور بخاری میں فَلْیَظُنَّ بِیْ مَاشَا ءَ کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہے کہ جیسا بندہ میرے متعلق گمان کرے ایسا ہی میرا اس سے سلوک ہوتا ہے۔

ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین اور کامل توکل ہو کہ وہ کائنات کل ہے۔ وہ صرف ’’کُنْ‘‘ کہتا ہے کہ ’’فَیَکُوْنُ‘‘ ہوجاتا ہے۔ اس سے اچھی امیدیں وابستہ ہوں۔ اس کی تمام صفات پر یقین رکھے۔ اس کے فضل، رحمت، قادرمطلق، جودو سخا، خیر، بھلائی، مغفرت، قبول توبہ، قبول دعوات اور بلندی درجات کے متعلق گمان رکھتا ہوں تو وہ خدا انسان پر اپنے فضل نچھاور کرتا ہے۔ اور خدامومن کے اعمال پر خوش ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اُس آدمی کو بھی نہیں ہوتی جسے جنگل بیابان میں کھانے پینے سے لدا ہوا گمشدہ اونٹ اچانک مل جائے۔(بخاری کتاب الدعوات) پھر حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں۔اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔

(مسلم کتاب التوبہ)

آیت کریمہ قُل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰه کے تحت حدیث میں آتا ہے کہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے آپ کی وفات سے صرف تین دن پہلے یہ فرماتے سُنا لَا یَمُوْتُنَّ اِلَّا وَھُوَ یُحْسِنُ باللّٰہِ الظَّنَّ (مسلم) کہ تم سے ہرگز ہرگزکسی کو موت نہ آئے مگر وہ اللہ کے ساتھ حسنِ ظن رکھتا ہو۔

یہ ہے وہ نمونہ جو سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰﷺنے ایک مومن کے لئے چھوڑا ۔اس لئے کہ حسن ظن سے انسانی اعمال بہتر ہوئے ہیں ہمارے پیارے رسول حضرت محمدؐ تو اپنے رب اللہ سے اس قدر پیار کرتے تھے کہ دشمن بھی کہہ اُٹھا کہ عَشِقَ محمدٌ رَبَّہٗ کہ محمد تو اپنے رب کا عاشق ہوگیا ہے۔

اس سلسلہ میں ایک اسرائیلی حکایت تحریر کرتا ہوں جو ہمارے اسلامی لٹریچر کا بھی حصہ بن گئی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک چرواہے پر پڑی جو اپنے خدا کے ساتھ باتیں کرتے کہہ رہا تھا کہ اے خدا! اگر تو میرے پاس ہو تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تیری جوئیں نکالوں، تیر ی خدمت کروں۔تجھے کھانے کھلاؤں ۔اگر تو بیمار ہو تو تیری تیمارداری کروں۔ وغیرہ وغیرہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم اکیلے بیٹھے کس سے باتیں کر رہے ہو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے خدا سے باتیں کر رہا ہوں۔ جس نے ہمیں پیدا کیا، زمین و آسمان بنائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم شرک کر رہے ہو۔ آئندہ سے ایسا نہ کہو وہ تو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ وہ ایسی خدمت سے بے نیاز ہے جس کا ذکر تم کر رہے ہو۔ یہ سن کر چرواہا بہت نادم ہوا۔ اس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔

اتنے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی اور شکوہ کیا کہ تم نے ہمارے بندے کو ہم سے جُدا کر دیا۔ تجھ کو دنیا میں لوگوں کو میرے سے ملانے کے لئے بھیجا ہے نہ کہ جُدا کرنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھانپی تو چرواہے کی تلاش میں جنگل میں نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر اُسے تلاش کر ڈالا۔ آپ نے چرواہے سے کہا کہ تمہیں اجازت ہے تم جس طرح چاہو اللہ سے مخاطب ہو اور جس طرح چاہو اسی طرح سے یاد کرو۔

(مثنوی رومی از مولانا جلال الدین رومی جلد اول صفحہ182،174)

اللہ تعالیٰ کی نگاہ تو انسان کے دل کی پاتال تک ہوتی ہے بظاہر اس چرواہے کا خدا کے متعلق ظن بے ادبی محسوس ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے اس بندے کی ادا اور حسن ظن بہت پسند آیا اور ایک نبی کو بھی جھاڑ پلا دی۔

مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک روایت یاد آرہی ہے جو حضرت سید عزیز الدین ؓنے بیان کی ہے۔

ایک مرتبہ حضور علیہ السلام باغ میں تشریف لے گئے تو ایک شخص نے پوچھا کہ حضور بہشت میں کون کون سے دنیاوی پھل ملیں گے؟ آپؑ نے فرمایا کہ آم اور اس کے متعلق یہ بھی نکتہ بیان فرمایا کہ الف سے اللہ مراد ہے اور میم سے محمدؐ۔ اور اس کے صرف دو ہی حرف ہیں اور انہیں سے اصل پھل بنتا ہے، اللہ محمدؐ کی دوستی ہی سے بہشت ملے گی اور یہی سب سے اچھا اور میٹھا پھل ہے۔

اس سے کوئی دھوکہ نہ کھائے کہ حضور کی مراد آم سے تھی بلکہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺکی محبت کے پھل سے تھی۔

(سیرت حضرت سید عزیزالدینؓ ص177)

ایک دفعہ ایک استاذ نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ آپ میں سے ہر ایک نے ایک مرغی ایسی جگہ پہ ذبح کر کے لانی ہے جہاں آپ کو کوئی نہ دیکھتا ہو۔طلبہ مرغیاں لے کر چلے گئے کسی نے ایسے کونے کدھرے تلاش کئے جو آبادی سے ذرا ہٹ کر تھے کسی نے مسجد کی صف کو اپنے اوپر لپیٹ کر مرغی کو ذبح کیا اور کسی نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق جگہیں تلاش کیں۔جب ایک ذہین و فطین مطیع فرمانبردار طالب علم کے علاوہ سب طلبہ آگئے تو استاذ کو فکر لاحق ہوئی کہ ایک طالب علم نہیں آیا کچھ دیر بعد میں ایک طرف سے شرمندگی سے سر نیچے جھکائے ، زندہ مرغی اور چھری ہاتھ میں پکڑے نمودار ہوا استاد سے کہا کہ استاذ جی! میں نے بہت سی جگہیں تلاش کیں۔میں ادھر بھی گیا ، ا ُدھر بھی ۔گھروں میں بھی کونے کدھرے تلاش کئے۔چھت پر چڑھ کر دیکھا مگر میں آپ کی اس شرط پر پورا نہیں اُتر پایا کہ ایسی جگہ پر مرغی کو ذبح کرنی ہے جہاں کوئی نہ دیکھتا ہو۔مجھے تو ہر جگہ اللہ تعالیٰ نظر آیا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔لہٰذا معذرت کہ میں مرغی ذبح نہیں کر پایا۔

یہ قصہ ہے یا حکایت حقیقت سے اس کا کوئی تعلق ہے یا نہیں تاہم اس میں ایک بہت بڑا سبق ہے اور اس ذہین طالب علم کا اپنے اللہ کے بارے حسن ظن ہے کہ وہ دیکھتا ہے اور جب خدا دیکھتا ہے تو انسان بُرے اعمال کی چوری نہیں کرتا۔

’’آؤ حسن یار کی باتیں کریں‘‘ مکرم چوہدری محمد علی مضطر کی ایک نظم کا عنوان ہے۔ آپ نے گو اس میں حضرت رسول پاکﷺ کی سیرت کو بیان کیا ہے۔ لیکن خاکسار اس مصرعہ کو اپنےاللہ تعالیٰ پر چسپاں کر کے اس مضمون میں اللہ کے بارے میں باتوں کا ذکر کرنے کی درخواست قارئین کرام سے کر رہا ہے۔تا اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ہماری ذات کے ساتھ بیتے واقعات کا تذکرہ ہم اپنے گھروں میں نوجوان نسل کے سامنے کریں اور انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ ایک زندہ ہستی ہے وہ ہمارے بہت قریب ہے وہ ہمیں دیکھتا ہے۔ہمارے اعمال کی جزا سزا دیتا ہے ہمیں اس کے حضور جھکنا چاہئے ۔ اپنی مشکلات اس کے سامنے رکھیں اور ان کے ازالہ و دوری کے لئے دعا کریں اور خدا پر یقین اور اس پر توکل کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ دنیا میں دہریت کی طرف رحجان بہت بڑھ رہا ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ہستی باری تعالیٰ کے حوالہ سے فرمایا ’’۔بڑی اچھی ہے پڑھنی چاہئے ہر احمدی کو‘‘

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’یار‘‘ کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال فرمایا ہے ’’شان اسلام‘‘ کے نام سے اپنے منظوم کلام میں سید کونین حضرت محمد مصطفیٰﷺکا ذکر ’’وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نو ر سارا‘‘ کی ذیل میں ذکر فرماتے ہیں۔ اس کےذیل میں لکھتے ہیں کہ اس عظیم رہنما کے ذریعہ ہم نے ’’یار لامکانی‘‘ سے ملاقات کی ہے۔

؎پردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے
دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے
وہ یار لامکانی ، وہ دلبر نہانی
دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما یہی ہے

(درثمین صفحہ98)

حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جنّ و انس ایک میدان میں اکٹھے ہو جائیں اور مجھ سے حاجات طلب کریں اور میں تمام انسانوں کی حاجات پوری کردوں تو بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی جتنی سمندر میں سوئی ڈال کر اس کو باہر نکالنے سے سمندر کے پانی میں آتی ہے۔

(مسلم کتاب البّر والصلۃ)

چودھویں رات کے چاند کی طرح

آنحضورﷺنے ایک رات چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اپنے پروردگار کو اسی طرح بلا روک ٹوک دیکھو گے جس طرح اس چودھویں کے چاند کو دیکھ رہے ہو اگر تم یہ شرف حاصل کرنا چاہتے ہو تو فجر اور عصر کی نماز وقت پر پڑھنے میں کوتاہی نہ ہونے دو۔

(بخاری کتاب التوحید)

نماز کے ذریعہ ذکر الٰہی کی مجلس attend کرنے کا ذکر ہوا ہے تو پہلے آنحضورﷺکا یہ ارشاد بھی تحریر کرتا جاؤں کہ انسان اپنے ربّ اللہ سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے اس لئے سجدہ میں بہت دُعا کیا کرو۔

(مسلم کتاب الصلوۃ)

نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا بڑا کریم اور سخی ہے جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

آنحضورﷺ کا اسوہ

حضرت عائشہؓ نے ایک دن اپنے شوہر نامدار حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے عرض کی کہ آپ اتنا لمبا قیام کرتے ہیں کہ قدم سوج جاتے ہیں۔ جب خدا نے آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دئیے ہیں تو پھر ایسا کیوں تو آپؐ نے فرمایا اَفَلَااَکُوْنُ عَبْدَاً شَکُوْرَاً کیا میں اپنے رب کے فضل و احسان پر اس کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔

(بخاری کتاب التفسیر)

حضرت ربیعہ ابن کعب الاسلمی (اھل الصفہ میں سے) آنحضورﷺ کی خدمت کے لئے آپؐ کے گھر سویا کرتے تھے۔ ایک دن حضورؐ نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مجھ سے کچھ مانگنا ہے تو مانگ لو۔ آپ نےعرض کی کہ یا رسول اللہ!میں صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ جنت میں آپ کا ساتھ میسر ہو تو حضور نے فرمایا کہ فَاَعِنَّی عَلٰی نَفْسِک بِکَثْرَۃِ السَّجُوْدٌ کہ پھر کثرت سجود و صلوۃ سے تم بھی اس بارہ میں میری مدد کرو۔

(مسلم باب فضل السجود والحث علیہ)

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے سے تعلق

آنحضور ﷺ نے حضرت ابن عباسؓ کو ایک سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کے حُسن کے بارہ میں چند باتیں بیان فرمائیں۔ فرمایا

اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ اللہ تعالیٰ تیرا خیال رکھے گا۔
اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھ تو اسے اپنے پاس (سامنے) پائے گا۔
جب کوئی چیز یا مدد مانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ سے مانگ ۔
اللہ تعالیٰ کو خوشحالی میں پہچان وہ تجھے تنگدستی میں پہچانے گا۔

(ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ)

اس ’’یارلامکانی‘‘ پر جس کی قدرتیں اور قوتیں لامتناہی اور ساری کائنات پر محیط ہیں۔ اس کا احاطہ ناممکنات میں سے ہے۔ خاکسار نے احادیث میں سے پھولوں کا ایک گلدستہ تیار کیا ہے اور خصوصاً اس خدا کی طرف رہنمائی کرنے والے کی عظیم شخصیت کے حوالہ سے آپ کی سیرت کے چند پھول جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ورنہ تو اس مضمون کے ایسے حسین اور خوبصورت زاویے ہیں جو بیان ہونے لگیں یا جن پر قلم اٹھایا جائے ناختم ہونے والا ایک سلسلسہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کیسے کروائی۔ یہ الگ مضمون ہے۔ احادیث کا صرف ایک رنگ اس مضمون میں پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ ورنہ احادیث کے حوالہ سے اور بہت سے رنگ بیان ہوسکتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر خلفائے احمدیت کے ارشادات کو الگ سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کی تصویر جو خلفاء کے دلوں پر نقش ہوئی وہ ایک الگ سے داستان ہے۔ پھر جماعت احمدیہ میں ہر فرد کا اپنے خالق حقیقی سے تعلق رہا ہے اب بھی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ کس طرح خدا تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں۔ مشکلات سے نجات دی۔نرینہ اولاد سے نوازا۔ جن مستورات کی گودیں اولاد سے خالی تھیں ان کی گودیں اولاد کے پھولوں سے ہری بھری ہوئیں۔ قرض خواہوں کے قرض اُترےالغرض ہر میدان میں اپنے خدا کو سامنے رکھ کر ’’آؤ حسن یار کی باتیں کریں‘‘ کی محفلیں گھروں میں قائم ہونی چاہئیں۔ اپنی اولادوں کوبتلایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے کون کون سے احسانات کے تلے ہمارا خاندان دبا ہوا ہے۔ ان احسانات و انعامات کا بدلہ دعاؤں ،سجود،عبادات میں شکر الٰہی کر کے ہی اُتارا جا سکتا ہے۔ اس حوالہ سے اولادوں اور آئندہ نسلوں کو اللہ کی طرف مائل کریں اورانہیں شکر گزاربندے بنائیں۔ اور ا پنی اولاد کو بتا دیں کہ آنحضورﷺسے حضرت ام سلمہؓ نے یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ کہ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت قدم رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے۔

(ترمذی ابواب الدعوات)

اور فرمایا۔ سات اشخاص پر قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں ساتویں نمبر پر فرمایا کہ ایسا مخلص جس نے خلوت (تنہائی) میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی محبت اور خشیت سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

(مسلم کتاب الزکوٰۃ)

ہاں ہاں اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد اور ماتحت عزیز و اقارب کو بھی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ غرغرے سے پہلے ہر سچی توبہ کو قبول کرتا ہے (ترمذی کتاب الدعوات) اگر کوئی شخص کسی کے متعلق یہ کہہ دے کہ فلاں آدمی کو اللہ نہیں بخشے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کون ہو تم جو مجھ پر پابندی لگاتے ہو کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا۔میں نے تو اسے بخش دیا ہے۔ ہاں تمہارے اعمال ضائع ہوگئے جس نے یہ بہتان مجھ پر باندھا ہے۔

(مسلم کتاب البرّ والصلۃ)

ذکر کی مجالس جنت کے باغ

مضمون کے آغاز پر بھی لکھ آیا ہوں کہ اس Topic پر ہروقت ،ہر لمحہ، ہر لحظہ اپنی نجی و دیگر مجالس میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کرنا چاہئے تا ماحول میں بسنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اپنے اللہ کی طرف رغبت پہلے سے زیادہ ہے۔

اب مضمون کا اختتام بھی اسی سے ملتے جلتے مضمون والی حدیث سے کرنا چاہتا ہوں۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ تسبیحات، تکبیرات اور لَاحَوْلَ وَ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ اور اس طرح کے احادیث میں بیان دوسرے مبارک کلمات کا کثرت سےورد ذکر الٰہی ہے۔ جسے کثرت سے کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل کرنا چاہئےاور مزید انعامات اور افضال کا وارث بھی بننا چاہئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہم پر ہونے والے احسانات انعامات اور افضال کا ذکر محفلوں میں کرنا بھی ضروری ہے۔

آنحضورﷺنے فرمایا کہ اے لوگو! جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو۔ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ فرمایا ’’ذکر کی مجالس‘‘۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ صبح اور شام کے وقت بالخصوص اللہ کا ذکر کرو۔ اگر کوئی اپنی اُس قدرومنزلت کو جاننا چاہتا ہے جو اس کی اللہ کے ہاں ہے تو وہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا تصور کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایسی ہی قدر کرتا ہے جیسی اس کے دل میں اللہ کی قدرہے۔

(حدیقۃ الصالحین از حضرت ملک سیف الرحمٰن صفحہ127)

پھر ایک موقع پر ذکر الٰہی کرنے والوں کو زندہ اور نہ کرنے والوں کو مُردہ بلکہ ذکر الٰہی سے معمور گھروں کو زندہ اور ذکر الٰہی سے خالی گھروں کو مُردہ قرار دیا۔

(بخاری کتاب الدعوات)

پھر فرمایا کہ ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ130)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اکتوبر 2020