• 5 مئی, 2024

انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہوتے ہیں

میں جب مامور ہوا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بہت صاف طور سے قائم کیا۔ کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں اور قرآن شریف کے عین منشاء کے مطابق اور ٹھیک وقت پر ظہور ہوا تھا اور پھر صداقتِ دعویٰ کے ساتھ خدائی نشان بھی تھے تو میں نے سب سے اوّل اس امر کو گروہِ علماء کے سامنے پیش کیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ علماء اس امر کو سب سے پہلے قبول کریں گے۔ میرا خیال تھا کہ یہ لوگ بوجہ علوم دین سے واقفیت رکھنے کے بلا عذر مجھے قبول کر لیں گے۔ کیونکہ میرا دعویٰ عین قرآن و حدیث کے مطابق اور ضرورتِ حَقّہ کے واسطے تھا اور یہ لوگ خود انتظار میں تھے اور تحریراً تقریراً اپنے وعظوں اور لیکچروں میں کہا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں مسیح موعود کا آ جانا یقینی اور قطعی ہے اور علاوہ ازیں کُل علامات جو یہ بیان کرتے تھے میری صداقت کے لیے ظاہر ہو چکی تھیں۔ مگر ہماری وہ امید بالکل غلط نکلی۔ علماء کی طرف سے ہمیں اس دعوت کا جو جواب ملا وہ ایک فتویٰ تھا جس میں ہمیں کافر، اکفر، ضال، مضلّ، دائرۂ اسلام سے خارج، یہود اور نصاریٰ سے بد تر قرار دیا۔ اور لکھا گیا کہ ان لوگوں کو اپنی قبروں میں داخل نہ کیا جائے۔ ان کے جنازے نہ پڑھے جاویں۔ ان کے ساتھ ملاقات نہ کی جاوے۔ ان سے مصافحہ نہ کیا جائے حتٰی کہ یہاں تک تشدد کیا کہ جو ان سے میل جول رکھے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔

پھر ان لوگوں سے یہ جواب پا کر ہمیں خیال آیا کہ تعلیم یافتہ لوگ عموماً بے تعصب اور عناد سے پاک ہوتے ہیں۔ لہٰذا اسی خیال سے ہم نے پھر اپنی دعوت نئے تعلیم یافتہ گروہ کے سامنے پیش کی مگر ان میں سے اکثر کو بے قید پایا اور اکثر کو دیکھا کہ وہ خود اسلام میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اسلام کی تعلیم ایک جاہلانہ اور وحشیانہ زمانہ کی تعلیم تھی اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب اس سے فراغت حاصل کرنی چاہیے اور زمانہ کی رفتار کے مناسبِ حال ترمیم کر لینی چاہیے۔ غرض اس طرح سے اس قوم کے لوگوں سے بھی محرومی ہی ہوئی۔ الّا ما شاء اللہ۔

پھر رؤساء کے گروہ کی طرف اپنی دعوت بھیجی کہ ان کو دنیا کا حصّہ دیا جاتا ہے اور یہ سیدھے سادے مسلمان ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص صدیق حسن خاں نے ہماری کتاب کو چاک کر کے واپس بھیج دیا اور اس طرح سے اپنی قساوت قلبی کا اظہار کیا۔ ان کے بعد ہم نے سمجھا کہ یہ سعادت ہمیشہ ضعفاء ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارا یہ خیال بالکل صحیح نِکلا اور سنّت قدیمہ کے بموجب ضعفاء ہی اکثر ہمارے ساتھ ہوئے جن کو نہ مولویت کا گھمنڈ اور نہ دولت کا تکبر بلکہ سادہ لوح اور پاک نفس ہوتے ہیں۔ اور وہی خدا تعالیٰ کے بھی مقرب ہوتے ہیں۔ چنانچہ اسی گروہ میں سے کئی لاکھ انسان اب ہمارے ساتھ ہیں۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 304تا305۔ ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

دراصل یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں

اگلا پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات