• 19 اپریل, 2024

ہر احمدي خليفہٴ وقت کي طرف سے کہي گئی بات کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھے

ہر احمدي خليفہٴ وقت کي طرف سے
کہي گئی بات کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھے

مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2022ء پر اختتامی خطاب میںحضور انور نے فرمایا:
ابھي کچھ دير پہلےميں نے لجنہ سے خطاب کيا تھااور انہيں بعض باتوں کي طرف توجہ دلائي تھي۔ يہ باتيں صرف عورتوں کے ليے نہيں ہيں بلکہ اللہ تعاليٰ نے قرآن کريم ميں جس جس جگہ ان باتوں کي طرف توجہ دلائي ہے وہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کر کے يہ نيکياں اپنانے اور ان کي طرف توجہ کرنے کا فرمايا ہے۔ہاں ميں نے بعض مثاليں عورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دي ہيں ان کے ماحول کے مطابق ليکن اکثر مثاليں دونوں مردوں اور عورتوں پر لاگو ہوتي ہيں۔ مثلاً سچائي کے اعليٰ معيار يا عبادتوں کي طرف توجہ ہے تو مردوں کو بھي يہي معيار قائم کرنے کي ضرورت ہےتا کہ جہاں اپني دنيا و عاقبت سنوارنے والے بنيں وہاں اپني اولاد کي تربيت کے ليے بھي نمونہ بن کر ان کي بھي دنيا و عاقبت سنوارنے کا ذريعہ بنيں۔بعض لوگوں کي عادت ہوتي ہےکہ نصائح کا مخاطب اپنے آپ کو نہيں سمجھتےاور دوسرے کے بارے ميں سمجھ کر پھر کہہ ديتے ہيں کہ ديکھا! خليفہٴ وقت نے فلاں جماعت کو يا جماعت کے فلاں طبقہ کو کس طرح سختي سے کہا ہےاور ايسے لوگ تو آ گے سے يہ بھي کہہ ديتے ہيں کہ يہ لوگ تو ہيں ہي ايسے۔ان کي اصلاح ہوني چاہيے تھي۔ يہ لوگ اپنے گريبان ميں نہيں جھانکتے۔حالانکہ چاہيے تو يہ کہ ہر ايک اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے اور اپنے گريبان ميں جھانک کر ديکھے اپنے آپ کو ديکھے کہ ميں کيسا ہوں اور يہ ديکھنا چاہيےکہ جو باتيں دوسروں کو کہي جا رہي ہيں خواہ کسي بھي طبقہ کو خليفہٴ وقت مخاطب ہے، تو وہ اسلامي تعليم کے مطابق بعض امور کي طرف توجہ دلا رہا ہے اور ہم اپنا جائزہ ليں کہ کيا ہم اس معيار پر پورا اتر رہے ہيں جو مختلف نيکيوں کے قائم کرنے اورانہيں اپني زندگيوں کا حصہ بنانے کے معيار ہيں؟ جب يہ بات سمجھ آ جائے کہ خليفہٴ وقت کسي بھي ملک کے احمديوں کو بعض امور کي طرف توجہ دلا رہا ہےيا جماعت کے کسي بھي طبقہ کو مختلف نيکي کي باتوں کي طرف توجہ دلا رہا ہے تو ہم بھي بحيثيت احمدي اپنا جائزہ ليں کہ کيا ہم ميں يہ نيکياں موجود ہيں جن کي طرف توجہ دلائي جا رہي ہے يا ہم ميں يہ کمزورياں تونہيں ہيں جن کے چھوڑنے کي طرف توجہ دلائي جا رہي ہے۔؟ پس اب جبکہ ٹي وي کے ذريعے تمام دنيا رابطوں کے لحاظ سے ايک ہو گئي ہے۔ ہر احمدي ہر بات کا جو خليفہٴ وقت کي طرف سے جماعت کي بہتري کے ليے کہي جا رہي ہے مخاطب سمجھے اور اس پر عمل کرنے کي کوشش کرےتو ايک انقلاب ہے جو ہم اپني حالتوں ميں لاسکتے ہيں۔ پس پہلي بات تو يہ ہے کہ جو باتيں ميں نے لجنہ ميں کي ہيں ان کا انصار اپنے آپ کو بھي مخاطب سمجھيں اور جب مرد اور عورت ايک ہو کر نيکيوں کے اختيار کرنے اور بديوں کے ترک کرنے کيلئے کوشش کريں گےتو پھر ايک انقلاب ہو گا جو ہم اپنے گھروں ميں بھي لا سکيں گے،اپني حالتوں ميں بھي لا سکيں گے،اپنے بچوں ميں بھي لاسکيں گے اور اپنے معاشرہ ميں بھي لا سکيں گے۔حضرت مسيح موعودؑ نے ايک موقع پر يہ نصيحت فرمائي کہ ’’ہماري جماعت کے ليے خاص کر تقويٰ کي ضرورت ہے خصوصاً اس خيال سے بھي کہ وہ ايک ايسے شخص سے تعلق رکھتے ہيں اور اس کے سلسلہ بيعت ميں شامل ہيں جس کا دعويٰ ماموريت کا ہے تا وہ لوگ جو کسي قسم کے بغضوں، کينوں يا شرکوں ميں مبتلا تھے يا کيسے ہي رُو بادنيا تھے ان تمام آفات سے نجات پاويں‘‘۔ پس اگر ہمارا نعرہ ’’نحن انصار اللّٰہ‘‘ کا ہے تو اپنے نفس کو پہلے پاک صاف کرنا ہو گاتاکہ پھر اس مسيح موعود کے مدد گار بن کر دنيا کو برائيوں اور شرک سے پاک کريں اور خدائے واحد کے نور سے دلوں کو منور کريں جس کو اللہ تعاليٰ نے اس مقصد کے ليے مبعوث فرمايا ہے۔ليکن اگر ہمارے اپنے ہي دل دنيا کي گندگيوں اور غلاظتوں اور لالچوں ميں پڑے ہوئے ہيں تو پھر ہم دنيا کي کس طرح اصلاح کر سکتے ہيں ؟پس اصل کام اب مامورِ زمانہ کے ساتھ جڑ کر انصار اللہ کا يہ ہے کہ دنيا کو خدائے واحد کے آگے جھکانااور حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا۔پس اس کيلئے خود ہميں اپنے اندر جھانکنا ہو گا کہ ہم کس قسم کے انصاراللہ ہيں؟ اپنے اندروني جائزے لينے کي طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں: ’’ميري جماعت سمجھ لے کہ وہ ميرے پاس آئے ہيں۔ اس ليے کہ تخم ريزي کي جائے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جائيں‘‘۔ پس ہر ايک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کيسا ہے اور اس کي باطني حالت کيسي ہے؟ فرمايا ’’اگر ہماري جماعت خدانخواستہ ايسي ہے کہ اس کي زبان پر کچھ ہے اور دل ميں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخير نہ ہوگا۔‘‘ اس عمر کو پہنچ کر خاتمہ بالخير کي بھي فکر ہوتي ہے۔ فرمايا ’’اگر زبان پر کچھ ہے اور دل ميں کچھ ہے تو خاتمہ بالخير نہ ہو گا فرمايا کہ ’’اللہ تعاليٰ جب ديکھتا ہے کہ ايک جماعت جو دل سے خالي ہے اور زباني دعوے کرتي ہے،وہ غني ہے وہ پرواہ نہيں کرتا‘‘۔ پس ہم حقيقي انصار اس وقت بن سکتے ہيں جب عمدہ بنيں اور عمدہ بيج بننے کے ليے اللہ تعاليٰ اور آنحضرت ﷺ کے حکموں پر چلنااور زمانے کا امام اور مامور کي کامل پيروي اور اطاعت کرنا ضروري ہے اور جب يہ ہو گاتو پھر ہم اس بيج کے وہ پھل دار درخت ہوں گے جو دنيا کو نيکيوں کے پھل کھلانے والے ہوں گے۔ ہمارے قول و فعل کا ايک ہونا جہاں ہميں اللہ تعاليٰ کا قرب دلانے والا ہو گا، وہاں ہماري نسل کي اصلاح کا بھي ذريعہ ہو گااور ہميں يہ تسلي ہو گي کہ ہم اپني نسلوں ميں بھي تقويٰ اور نيکي کي جڑ لگا کر جا رہے ہيں۔ وہ پيوند لگا کر جا رہے ہيں جس سے اگلي نسل بھي خدا تعاليٰ کے ساتھ جڑ کر وہ پھلدار درخت بنيں گے جن پر نيکيوں کے پھل لگتے ہيں۔

(روزنامہ الفضل آن لائن 6؍دسمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

نیا سال مبارک، نیا سال مبارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2023