• 18 اپریل, 2024

قبولیت دعا کے لئے دو بنیادی شرطیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بعض معمولی سی باتیں بڑے نتائج پیدا کرتی ہیں۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑسے میں نے سنا ہے۔ آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اس کا ایک ہی لڑکا تھا۔ وہ لڑائی پر جانے لگا تو اس نے اپنی ماں کو کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جو میں اگر واپس آؤں تو تحفے کے طور پر آپ کے لئے لیتا آؤں اور آپ اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں۔ ماں نے کہا کہ اگر تو سلامت آ جائے تو یہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے۔ لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتائیں۔ ماں نے کہا اچھا اگر تو میرے لئے کچھ لانا ہی چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکو لے آنا۔ میں انہی سے خوش ہو سکتی ہوں۔ اس نے اس کو بہت معمولی سی بات سمجھ کر کہا کچھ اور بتائیں۔ لیکن ماں نے کہا بس یہی چیز مجھے سب سے زیادہ خوش کر سکتی ہے۔ خیر وہ چلا گیا۔ جہاں بھی تھا جب روٹی پکاتا تو جان بوجھ کے اسے جلاتا تھا تا کہ جلے ہوئے ٹکڑے زیادہ سے زیادہ جمع ہوں۔ روٹی کا کچھ حصہ تو خود کھا لیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا۔ کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا تو اس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دئیے۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہاں اماں! میں نے آپ کے کہنے پر عمل تو کیا تھا مگر مجھے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ بات کیا تھی ۔ ماں نے کہا کہ اس وقت جبکہ تم گئے تھے اس کا بتانا مناسب نہ تھا۔ اب میں بتاتی ہوں اور وہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھانا کھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں۔ میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کے لئے تمہیں اس لئے کہا تھا کہ تم ان ٹکڑوں کے لئے ایسی روٹی پکاؤ گے کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے اور جلی ہوئی روٹی کو رکھ دو گے اور باقی کھا لو گے اس سے تمہاری صحت اچھی رہے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔‘‘

بظاہر تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور اگر ماں بچے کو براہ راست کہتی کہ روٹی اچھی طرح پکا کر کھانا تو بچہ کہہ سکتا تھا کہ میں جوان آدمی ہوں بیوقوف نہیں ہوں کہ کچی روٹی کھاؤں گا۔ حالانکہ میں نے اب بھی دیکھا ہے، اس زمانے میں بھی اکثر لوگ جو ہیں یہ بیوقوفی کر رہے ہوتے ہیں اور کچی روٹی کو بڑے شوق سے کھا رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال ماں کی یہ بات اس بچے کو صحت مند رکھنے کا موجب بنی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے (اپنے ایک خطبہ میں مسئلہ بیان کر رہے تھے) کہ دعا کی قبولیت کے سلسلہ میں بھی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بیان کی جا رہی ہیں اور ہمیں پہلے سے یہ باتیں پتا ہیں لیکن پتا ہونے کے باوجود عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دعا کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطیں ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ اور وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ۔ کہ میری بات مانو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ یکم اپریل 2016ء)

پچھلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 01 تا 07 فروری 2020ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ