• 25 اپریل, 2024

غزل

کوئی کاری گری کر دے
کل کا ہونا ابھی کر دے

تو جو چاہے تو اے قادر
کھوٹی قسمت کھری کر دے

تیری نظرِکرم پیارے
چور کو بھی ولی کر دے

آج بیمار ہے امت
رحم کر دے بھلی کر دے

خشک ہے دید کا آنگن
آنکھ میں اب نمی کر دے

ہاتھ اُوپر کا ہو میرا
ایسا مجھ کو سخی کر دے

بےنیازی ہو دنیا سے
یوں بھی مجھ کو غنی کر دے

تیرے بس میں ہے انہونی
ختم اب بےبسی کر دے

ہے کڑی دھوپ کا موسم
چھاؤں ٹھنڈی گھنی کر دے

تیری رحمت کا اک چھینٹا
خشک ٹہنی ہری کر دے

میرے گلشن پہ اے مالک
رحمتوں کی جھڑی کر دے

شجرِ طیب کی ہر ٹہنی
پھول کر دے کلی کر دے

میرے آباء کی اے مولیٰ
جاری مجھ سے لڑی کر دے

ہم فقیروں کی کٹیا میں
آ کے جشنِ خوشی کر دے

تیرے در پہ جو لے جائے
راہ مجھ پہ کھلی کر دے

مجھ ظفرؔ کی دعا مانگی
مستجیبا! سنی کر دے

(مبارک احمد ظفر۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 01 تا 07 فروری 2020ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ