• 25 اپریل, 2024

حفاظت اور پہرہ دینا سنت رسولؐ سے ثابت ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا

(النساء:72)

اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو!اپنے بچاؤ کا سامان رکھا کرو۔پھر خواہ چھوٹے گروہوں میں نکلو یا بڑی جمعیت کی صورت میں۔

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مدینہ آئے تو (خطرے کے باعث) ایک رات آپؐ جاگتے رہے آپ ؐنے خواہش کا اظہار فرمایا کہ کاش میرے صحابہ میں سے کوئی صالح صحابی میرا پہرہ دے۔ اسی اثناء میں ہم نے اسلحہ کی جھنکار سنی تو آپ ؐ نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی خاکسار سعد بن ابی وقاص ہے اور خاکسار آپ کا پہرہ دینے حاضر ہوا ہے اس پر آنحضرت ﷺ نے استراحت فرمائی۔

(ترمذی ابواب المناقب مناقب سعد بن ابی وقاصؓ)

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ انبیاء کی اقوام کے غلبے اور ترقیات کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے دشمن رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ رکاوٹیں دراصل انبیاء کی اقوام کی ترقی کو مزید آگے بڑھانے کا موجب ہی ہوتی ہیں مگر ان مشکل گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حفاظت اور بچاؤ کا سامان کرنا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔ اور یہ عین سنت نبوی ﷺ کے موافق ہے۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور بہادر وجود تھے۔ ایک دفعہ مدینہ کے لوگوں میں (کسی شور کی وجہ ) ڈر پیدا ہوا تو اس آواز کی طرف نکلے کیا دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس طرف سے تشریف لا رہے ہیں۔

آپؐ ابو طلحہ ؓکے ایک سبک رفتار گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور آپؐ کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی۔ آپؐ پہلے ہی معاملہ کی چھان بین کر کے تشریف لا رہے تھے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ڈرو نہیں، خوف کی کوئی بات نہیں۔ نیز فرمایا کہ میں نے تو اس کو سمندر پایا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے صحابی ہی پہلے جا کر خطرے کو چیک کر آیا کرتے تھے۔

گویا خوف کی رات میں ہمارے پیارے نبی ؐ خود پہرے کے لئے جاگ رہے تھے اور تھوڑی سی آہٹ پر بہادری اور شجاعت کا بے مثال نمونہ قائم فرماتے ہوئے تمام لوگوں سے پہلے بے خوف ہو کر اس ممکنہ خطرے کا پتہ کرنے نکل پڑے اور اس کے بعد صحابہؓ نے اس نمونہ کی تقلید کی۔

(مسلم باب شجاعۃ النبی ؐ)

جب اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو فرمایا وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ

(المائدہ:68)

یعنی اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنی ذات سے پہرہ ختم کروا دیا۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ صرف آنحضرت ﷺ کی ذات سے مخصوص تھا۔

آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں آگ ہر گز نہیں چھوئے گی، ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت سے روئی اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دیا۔

(ترمذی باب ما جاء فی الحرسِ)

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچا رہا ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری میں خوب اچھی طرح سے پیوست کر کے (یوں بنا کر) بتایا کہ ایک حصہ دوسرے کے لئے اس طرح تقویت کا باعث ہوتا ہے۔

(بخاری کتاب الصلاۃ باب تشبیک الاصابع فی المسجد)

یعنی ہم میں سے بعض دوسروں کے لئے پہرہ دے کر دینی فرائض سر انجام دینے کے لئے ان کی تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔

مندرجہ بالا روایات سے ہم پر کلی طور پرواضح ہو جاتا ہے کہ پہرہ دینا اور حفاظت کے سامان کرنا نہ صرف سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں:

اِنَّمَا الاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ وَیُتَّقَی بِہٖ

یعنی امام ڈھال ہوتا ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے بچا جاتا ہے۔

(مسلم کتاب الامارہ)

اس ہدایت کی روشنی میں ہمیں اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی اطاعت میں اپنے آپ کو محفوظ کر لینا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ الانفال میں فرمایا ہے۔ وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ

(الانفال:61)

تم ان (دشمنوں ) کے مقابلے کے لئے جس قدر ممکن ہو سکے طاقت اور سواریوں وغیرہ کے ذریعہ سے تیاری کرو۔

پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی لڑائی داؤپیچ کا نام ہے۔ اس میں بہت حکمت اور بیدار مغزی کے ساتھ دشمن سے نبرد آزما ہونا ہے۔ چنانچہ ہمیں سیرت ِ رسول ﷺ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپؐ ہر موقع پر حکمت کے اصولوں کومد نظر رکھتے تھے۔ کسی جنگ کی تیاری کے دوران دشمن پر با لکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے کہ ہمارا کیا ارادہ ہے۔ اکثر آنحضرت ﷺ جب جنگ کے لئے نکلتے تو اگر مشرق کی طرف جانا ہوتا تو شہر سے مغرب کی جانب سے نکلتے اور پورا چکر کاٹ کر میدان جنگ میں پہنچتے اور دشمن کو اپنی اچانک آمد سے حیران کر دیتے۔ چنانچہ حفاظت کی ڈیوٹی اور پہرہ میں ہمیں اپنی تیاریوں کو مخفی رکھنا اور وقت آنے پر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے زور سے دشمن کے حملے کا جواب دینا چاہئے۔

دشمن کے عزائم سے باخبر رہنے والے کے لئے کہا جاتا ہے کہ گویا اس نے آدھی لڑائی جیت لی ہوتی ہے۔ قرآن کے حکم یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا (اٰل عمران:201) کے تحت ہمیں حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے، اپنے ماحول پر نظر رکھنا ہوگی۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:
‘‘ ایک مرتبہ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پہرے کے لئے پھرتا ہوں۔ جب میں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اس نے کہا کہ آگے فرشتوں کا پہرہ ہے۔ یعنی تمہارے پہرے کی کچھ ضرورت نہیں۔ تمہاری فرود گاہ کے ارد گرد فرشتے پہرہ دے رہے ہیں۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا! ‘‘امن است در مکان ِ محبت سرائے ما’’ یعنی ہمارا مکان جو سرائے محبت ہے، اس میں امن ہی امن ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 ص 315)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حفاظتی طور پر بھی خاص نگرانی کاخیال رکھنا چاہئے اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں۔ یہ ہرایک کا فرض ہے۔ اجنبی آدمی یا کوئی ایسا شخص آپ دیکھیں جس پر شک ہو تو متعلقہ شعبہ کو اِطلاع دیں لیکن خود کسی سے اس طرح نہ پیش آئیں جس سے کسی قسم کا چھیڑ چھاڑ کا خطرہ پیدا ہو اور آگے لڑائی جھگڑے کا خطرہ پیداہو۔ لیکن اگر اطلاع کا وقت نہیں ہے پھر اِس کا بہترین حل یہی ہے کہ آپ اُس شخص کے…ساتھ ساتھ ہو جائیں، اُس کے قریب رہیں…ہرشخص اِس طرح سیکیورٹی کی نظر سے دیکھتا رہے تو بہت سارا مسئلہ…اِسی طرح حل ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 30 جولائی 2004ء)


پچھلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 01 تا 07 فروری 2020ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ