• 25 اپریل, 2024

ورلڈ اکنامک فورم کا 50 واں سالانہ اجلاس

دنیا کا خوبصورت ترین ملک سوئٹزرلینڈ جس کا کل رقبہ 41000 مربع میٹراور آبادی 85 ملین ہے ایک عرصہ تک بینکنگ کے نرم قوانین کی بدولت کالے دھن کے مالکوں کے لئے جنت نظیر بنا رہا۔ ایک عام آدمی کے لئے وہاں خوبصورت پہاڑ آبشاریں، جھیلیں اور قدرتی حسن کےپرکشش نظارے اس ملک کی پہچان ٹھہرے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے کئی ایک ذیلی ادارے خصوصا حقوق انسانی اور ورلڈ ٹریڈ اتھارٹی (UTO) کے سالانہ اجلاسات بھی یہاں منعقد ہوتے ہیں۔ ایک عالمی پہچان ورلڈ اکنامک فورم کے حوالے سے بھی ہے جس کا سالانہ اجلاس ہر سال ماہ جنوری کے آخر میں برف سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان موجود ایک چھوٹی سی وادی ڈیوس (Davos) میں منعقد ہوتا ہے۔ دراصل ڈیوس برفانی پہاڑوں کے درمیان ایک حسین وادیوں پر مشتمل ضلع ہے جس میں 5 چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن کے ساتھ ڈیوس نام ضرور لگایا جاتا ہے۔ اس وادی کا کل رقبہ 283 مربع کلومیٹر اور آبادی محض 15,000 ہے۔ 1890ءمیں جب اس بلندی تک ریل کی پٹری بچھا دی گئی۔ تو موسم سرما کی کھیلوں کے لئے اس علاقے کو ترقی ملنے لگی۔ اب ایک سیزن میں 5 لاکھ سے زائد اسکیٹنگ کے شوقین اپنے ذوق کی تکمیل کے لیے یہاں آتے ہیں ۔زیورک سے ایک گھنٹے کی مسافت پر چند منٹ کے بعد بدلتا نظارہ دلوں کو بہت بھاتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس آخری قصبہ (Davos Platz) کے مشہور ہوٹل (Steigenberger) کے ایک ہال میں منعقد ہوتا ہے. اس سال یہ فورم کا پچاس واں اجلاس تھا جو 21 تا 24 جنوری کو منعقد ہوا جس میں شرکاء کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔

ورلڈ اکنامک فورم کی بنیاد 1971ء میں اکنامکس کے پروفیسرسرکلاؤز شواب نے ڈالی تھی جو 1938ء میں جرمنی کے شہر Ravens Burg) (میں پیدا ہوئے۔ اقتصادیات کے حوالے سے ان کی لکھی کتابیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ 2016ء میں ان کی طرف سے شائع کی جانے والی کتاب، چوتھا صنعتی انقلاب، کا 30 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ بے شمار اعزازات حاصل کرنے والے پروفیسر کلاؤز شواب کے پاس ڈاکٹریٹ کی 17 اعزازی ڈگریاں ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے آئیڈیا کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہوئی اور اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بعد یہ دوسرا بڑا فورم ہے جس میں ہر سال سربراہان حکومت کی اکثریت اجلاس میں شامل ہوتی ہے۔ اب ڈاکٹر شواب ورلڈ اکنامک فورم کے مددگار ادارے بھی معرض وجود میں آچکے ہیں۔ 1998ء میں انہوں نے اپنی بیگم کے ساتھ مل کر شواب فاؤنڈیشن برائے سوشل ورک شروع کی جس کی اب دنیا میں 350 برانچیں ہیں۔ 2004ء میں اکنامک فورم برائے ینگ گلوبل لیڈر کی بنیاد رکھی اس میں 40 سال تک عمر کے نوجوان ذہنوں کی نشوونما کو تقویت دینے کے لئےاقتصادی رابطوں کو بڑھانے پر کام کیا جارہا ہے۔ پھر 2011ء میں 20 سے 30 سال کے نوجوانوں کے لیے ایک ادارہ (Globel Sehapers Community) کے نام سے سے قائم کرچکے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مستقبل کے لیے کیے جانے والے اقتصادی فیصلوں میں نوجوان لیڈر شپ کا عمل دخل بڑھنا چاہئے۔ ورلڈ اکنامک فورم میں اقتصادیات کے علاوہ ٹیکنالوجی، سائنس، سپورٹس، حقوق انسانی، میڈیا کے لئے مستقل کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں جو سارا سال کام کرتی ہیں ان کے اجلاسات کی رپورٹ اور نتائج پر ڈیوس میں ہونے والے اکنامک فورم میں بحث کی جاتی ہے۔ 2006ء میں قائم کی جانے والی انٹرنیشنل میڈیا کونسل کے ممبران کی تعداد 100 ہے جن میں براڈکاسٹ اور پرنٹ میڈیا کے ہائی پروفیشنل ورلڈ میڈیا فگر، چیف ایڈیٹر و پبلشر، کالم نگار شامل ہیں

ورلڈ اکنامک فورم میں تقاریر کم اور بحث مباحثہ زیادہ ہوتا ہے۔ مختلف پینل بنا دئے جاتے ہیں جن میں ہر شعبہ زندگی کے ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان مذاکرہ کرایا جاتا ہے۔ جس میں سامعین کو سوال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس سال موسمی تغیرات پر ہونے والی گفتگومیں بہت وقت صرف ہوا ۔اس (Planet) کو کس طرح تباہی سے بچانا ہے؟ اس بار فورم کا خاص موضوع تھا۔ کچھ عرصہ سے دنیا کے اہم ممالک کے درمیان تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے سردجنگ جا ری ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئےدنیا کی نامور تجارتی کمپنیوں کے سربراہان کے درمیان مکالمہ ہوا۔ دنیا کے 1680 بزنس لیڈر وہاں موجود تھے۔ جن ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ان کے سیاسی حل کے لیے ورلڈ ٹریڈ اتھارٹی کا کردار بھی موضوع بحث رہا۔

اقوام متحدہ کے زیر اثر اس ادارے کا غیرجانبدار رہنا نہایت ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی میں کمزور قوموں کو ساتھ لے کر چلنے کا لائحہ عمل بنانے پر بھی غور ہوا.

ورلڈ اکنامک فورم ایک خودمختار پرائیویٹ ادارہ ہے جس کا سالانہ بجٹ 310 ملین ڈالر ہے جو ممبر ادا کرتے ہیں ۔لیکن فورم کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے کمپنی کا بجٹ 5 ملین ڈالر سے زیادہ ہونا چاہیے۔ ممبرشپ فیس کم ازکم 52 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ اگر آپ کمپنی کی ممبرشپ لیں تو 2.5 لاکھ ڈالراور اگر آپ اپنےگروپ آف کمپنیزکو ممبرشپ لے کر دیں تو 5 لاکھ 27 ہزار ڈالر سالانہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیوس کانفرنس میں شرکت کی فیس 19 ہزار ڈالر علیحدہ ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ کانفرنس میں شرکت کے لیے تمام مہمان، سیاسی شخصیات اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ انتظامی اخراجات کا بجٹ 9 ملین ڈالر ہے جس میں ورلڈ اکنامک فورم کا ادارہ محض 2.25 ملین ڈالر ادا کرتا ہے باقی اسپانسرشپ سے پورے کیے جاتے ہیں۔

50 ویں اجلاس کو ہی دنیا کے 140 ہزاروں کی سپانسر شپ حاصل تھی ۔سکیورٹی پر سوئٹزرلینڈ پولیس اور فوج کے 5ہزار اہلکار ڈیوٹی پر تھے۔ جس پر 32 ملین فرانک کے اخراجات وزارت دفاع سوئٹزرلینڈ ادا کرے گی ۔118 ممالک سے 2821 مہمان کانفرنس میں شریک ہوئے۔ جن میں سے 1052 کا تعلق ویسٹرن یورپ، 740 شمالی امریکہ اور باقی کا تعلق پوری دنیا سے تھا ۔کانفرنس کا مختصر اختتامی اعلامیہ یہ تھا کہ کمپنیوں کو ٹیکس کا حصہ انصاف کے ساتھ ادا کرنا چاہئے، کرپشن کرنے والے کے ساتھ کوئی رعایت نہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم حقوق انسانی کے لیے ایڈوکیٹ کا کردار ادا کرتی رہے گی ۔


(عرفان احمد خان۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 01 تا 07 فروری 2020ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ