• 19 اپریل, 2024

رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا خاص زمانہ ہے

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔اے رضی اللہ عنہ

رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا خاص زمانہ ہے

اب ایک دو روز میں رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے جو رمضان کے مبارک مہینہ کا مبارک ترین عشرہ ہے۔ اس مہینے کے متعلق خداکا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ وہ اس مہینے میں مخلص مومنوں کی دعاؤں کو زیادہ قبول کرتا ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں دعاؤں کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور اپنے قلوب میں خاص طور پر درد و سوز کی کیفیت پیدا کریں تاکہ ان کی دعائیں خدا کے فضل و رحمت کو کھینچنے والی ہوں۔

انسان اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے اور اپنے دوستوں کے لئے تو دعا کرتا ہی ہے اور اسے کرنی چاہئے مگر دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں اسلام اور جماعت کی ترقی کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں۔ اور خدا کے حضور گریہ و زاری کے ساتھ گر کر اس کے فضل و رحمت کے طالب ہوں۔ دراصل غور کیا جائے تو اسلام اور جماعت کی ترقی کے لئے دعا میں لازماً انسان کی خود اپنی دعا بھی شامل ہوتی ہے۔ کیونکہ جب اسلام اور جماعت ترقی کریں گے تو افراد کا قدم بھی لازماً آگے بڑھے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک نظم میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے کیا خوب فرمایا ہے کہ۔ع

’’تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے‘‘

اسی لئے آ نحضرت ﷺ نے درود کی دعا پر بہت زور دیا ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ ان مبارک ایام میں درود بہت کثرت سے پڑھیں اور اسلام اور جماعت کی ترقی کے لئے بہت درد اور سوز سے دعائیں کریں۔ تاکہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی ترقی اور غلبہ کا دن قریب سے قریب تر لے آئے اور رسول اکرم ﷺ کے دینِ متین کا بول بالا ہو۔ آمین

(محررہ 14فروری 1963ء)

(روزنامہ الفضل 16 فروری 1963ء)

فدیہ دینے والے احباب توجہ فرمائیں

رمضان کا مبارک مہینہ آ رہا ہے کیا ہی بابرکت ہوں گے وہ لوگ جنہیں اس مہینہ میں اخلاص اور نیکی اور تقویٰ کی روح کے ساتھ روزے رکھنے اور خاص عبادت اور دعاؤں کی توفیق حاصل ہو۔ قرآن فرماتا ہے وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ۔ لیکن اگر کسی بھائی یا بہن کو لمبی بیماری یا بڑھاپے کی حقیقی معذوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے لئے ہمارے رحیم و کریم آسمانی آقا نے روزے کی جگہ فدیہ ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور سچی نیت سے فدیہ ادا کرنے والا جو بہانہ خوری سے کام نہ لیتا ہو خدا سے وہی اجر پائے گا جو روزہ دار کو ملتا ہے کیونکہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔ پس ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کر کے روزے یا فدیہ کا فیصلہ کرے۔ اگر وہ روزے کی طاقت رکھتے ہوئے روزے کو ٹالتا ہے تو وہ مجرم ہے لیکن اگر وہ حقیقتاً معذور ہے تو وہ خدا کے نزدیک قابلِ معافی ہے بلکہ اگر اس کی نیت پاک ہے اور معذوری حقیقی ہے تو وہ اجر کا مستحق ہو گا۔

مگر یاد رکھنا چاہئے کہ فدیہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو لمبی بیماری یا بڑھاپے کے ضعف کی وجہ سے روزہ رکھنے سے حقیقتاً معذور ہو چکے ہوں۔ ورنہ عارضی بیماری کی صورت میں عِدَّۃٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کا حکم ہے یعنی بیماری یا سفر کی حالت دور ہونے پر انہیں چاہئے کہ دوسرے دنوں میں اپنے روزوں کی مقررہ گنتی کو پورا کریں اور خدائی حساب میں فرق نہ آنے دیں …… اگر فدیہ دینے والوں کے قرب و جوار میں غریب لوگ موجود ہوں جو فدیہ کے مستحق سمجھے جائیں تو انہیں فدیہ دینا بہتر ہے کیونکہ اس میں فدیہ کے ثواب کے علاوہ ہمسایگت کے حق کا ثواب بھی ملتا ہے۔ وَ اَنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

(محررہ 27جنوری 1962ء)

(روزنامہ الفضل ربوہ یکم فروری 1962ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021