• 26 اپریل, 2024

کچھ دن پہلے ان آنکھوں آگے، کیا کیا نہ نظارا گزرا تھا

انسانی جسم اللہ تعالیٰ کی صناعی کا ایسا شاہکار ہے کہ جس کی حیرت انگیز صلاحیتوں کو مکمل طور پر جاننا اور پھر آحاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ احساسات، جذبات ، ذوق، وجدان، داخلیت یہ سب ایسی کیفیات ہیں جو مرئی نہیں ہیں لیکن انسان کی زندگی انہی کیفیات کا مظہر ہوتی ہے۔

کتنا اچھا لگتا ہے کہ جب دوڑتی ، بھاگتی، بھگاتی اور تھکاتی زندگی کو کچھ دیر کے لئے ماضی کے ایسے دروازے کو کھولا جائے کہ جس کی کلید ہم نے اپنے دل ہی کے اک نہاں خانہ میں ایک قیمتی اثاثہ کی صورت میں محفوظ کر رکھی ہے کہ جس کو ہم کبھی زنگ آلود نہیں ہونے دیتے ، اس کو کبھی دعاؤں سے، کبھی بیتے لمحوں کو یاد کرکے آنسوؤں کی نمی سے، کبھی بے اختیار ہوکریادایام کرتے ہوئے،کبھی اشکوں کی برسات سے تر کرتے ہوئے کہ اس چابی کے لئے آنسوؤں کی نمی وہی کام دیتی ہے کہ جو قفل کو زنگ سے بچانے کے لئے تیل۔

خلافت کی صورت میں خدا کا ہم پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمارا ہر راستہ رضائے الٰہی، عشق رسول ﷺ اورخلافت کے ساتھ مشروط ہے کہ ہم اس مسیح الزماںؑ کے ماننے والے ہیں جس نے اپنے عاشق صادق کی کامل اتباع میں دین اسلام کو زندہ کرتے ہوئے ان رسموں اور رواجوں کے طوق سے ہمیں آزاد کیاہےکہ جن کو دین سے دوری کے سبب ہم دوبارہ پہن چکے تھے،آپ نے خشک ہوتے ہوئے شجر اسلام کو اپنی تڑپ، سوز، رقت اور اپنے قلمی و علمی جہاد سے پھر سے سرسبزو شاداب کردیا ہےاور ہمیں وہ ضابطہ حیات بخشا ہے کہ جو نبی کاملﷺ اور ہادئ امت کی اصل تعلیم ہے۔

یہ خدا تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ وہ تہوار جو اس نے مومنین کو عطا کئے ہیں اور ان کو شایان شان طریق سے منانے کا حکم دیا ہے،ہم جسد واحد کی طرح نبی اکرمؐ کے فرامین اور احکام کی روشنی میں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شرائط بیعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آئمہ جماعت کی نصائح کے مطابق منائیں کہ ان سب احکامات، فرائض، مسائل اور نصائح کامقصودحقیقی روحانی وجسمانی پاکیزگی وبالیدگی ہے اور اس کا خلاصہ ہمدردی، شفقت،رحم،خداترسی، دوسروں کی تکلیف کا احساس اور الخلق عیال اللہ کی عملی صورت ہے۔

کچھ دن پہلے خاکسار کا تحریر کردہ مضمون بعنوان‘‘یاد ہیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں”جس کو الفضل نے زینت بخشی، اس میں میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لیکن سچے احساسات کے ذریعے رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں ربوہ کی رونقوں کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے لیکن

’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘

اسی گزشتہ مضمون میں کوارٹرز دارالصدر میں مقیم سلسلہ کے بعض مبلغین اور بزرگان کا ذکر خیر ہوا تو یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ وہ تذکرہ محض سمندر کا ایک قطرہ ہے، ماضی کے دھندلکوں میں ٹمٹماتی کہکشاں کے چند ہی ستاروں کی ضو ہےاور ان شاءاللہ یہ تذکرے، یہ یادیں ان ہستیوں، میدان عمل کےان شہسواروں کی جانگداز قربانیوں کی طرح ہمیشہ سرسبز و شاداب اور رواں دواں رہیں گی۔

یہ مضمون بھی یادوں سے مُعطر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہمارے پیارے شہر ربوہ کو بفضل تعالیٰ جو امتیازات حاصل ہیں انہی میں سے ایک رمضان المبارک اور عیدین منانے کا وہ منفرد انداز ہے جس کے لئےہم اپنے نصیب پر نازاں ہیں اور رب ذوالجلال کے حضور سجدہ ریز بھی۔

قدرت ثانیہ کے ہر مظہر نےاپنےرنگ اور اپنے انداز تربیت کے ساتھ ہمیں زندگی کو خدا کی رضا کے حصول کامقصد بنانا سکھایا کہ دراصل خلافت کا مقصد ہی مخلوق خدا کو ایک ہاتھ پر باہم اکٹھا کرتے ہوئے شاہراہِ حیات کو خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت و محبت کے سایہ میں بسر کرنا ہے۔

یہی حال ہمارے تہواروں کاہےکہ پھر چاہیے ’’ربوہ کو غریب دلہن کی طرح‘‘ سجانا ہویا عید کو ’’وحانی تجربہ‘‘ کے طور پر منانا ہو، ہم ایسی لذت سے ہمکنار ہوئے کہ دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں، ربوہ کی عیدیں اور ان کا ذکر دامن دل کو یوں مالامال کر دیتا ہے کہ ہم تنہائی میں بھی محفل آباد کرلیتے ہیں۔

میں آنکھیں موندوں تو چشم تصور نظاروں کے اس دیس میں لے جاتی ہے کہ جہاں صَلِّ عَلٰی کی صدائیں گونجتی ہیں،نماز تہجد کے لئےبیدارکرنےکی غرض سے باآواز بلند کیا جانے والا وہ ذکر الٰہی ہےکہ جس کو کرنے میں پیرو جواں اور اطفال سبھی مستعد ہوتے، وہ ایسا بابرکت وقت ہوتا کہ جس کا ہر لمحہ چمکتا دمکتااور باعمل ہوتا، جہاں فَاسْتَبِقُو الْخِیْرَات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر فرد جماعت کی عبادت کا جائزہ اسے مہمیز بھی کرتا، جذبہ مسابقت بھی پیدا کرتا اور کسلمندی، غفلت اور درماندگی کو جھاڑ بھی دیتا کہ ہرمردوزن یکساں مستعد ہوتا کہ پیارے آقا کے ارشاد کی تعمیل میں رمضان المبارک اور جمعۃ الوداع درحقیقت جمعۃ الاستقبال بن جائے۔

خدام واطفال گھروں کے باہر وقار عمل کے لئے نہایت جوش و خروش سے مصروف کار ہوتے،عموماً صفائی کے بعد سجاوٹ اور آرائش کا یہ سادہ سا انداز ہوتا کہ ہر گھر کے سامنے چونے سے حد بندی کردی جاتی ، نالیوں اور کیاریوں کی بھی تفصیلی صفائی کی جاتی، عام طور پر محلہ کی بزرگ خواتین بھی اپنی پر شفقت سی ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ اطفال و خدام سے اپنی نگرانی میں بھی یہ کام کروالیا کرتی تھیں۔

بازاروں میں خریداروں کا رش بڑھنے لگتا تو گھر کے بڑوں کی طرف سے عموماً اس بات کو بار بار تاکید کے ذریعے یقینی بنایا جاتا کہ چاند رات سے کچھ دن قبل ہی ساری تیاری مکمل کرلی جائے بالکل جیسا کہ اب بھی متعدد بار یہ ہدایت کی جاتی ہے لیکن اس وقت جوش و خروش اس لئےبھی شاید زیادہ ہوتا کہ عیدین کی اصل رونق عیدگاہ جانے سے وابستہ ہوا کرتی تھی۔

چاند رات کو گلیوں میں عجب سا ایک جوش اور پر مسرت سا ہنگامہ برپا ہوتا جس میں صفائی کے انتظامات کا جائزہ، نماز عید کے مقررہ وقت کی یاددہانی اورتزئین کمیٹی ربوہ کےٹینکرزکے ذریعے راستوں پر پانی کے چھڑکاؤ کا سلسلہ بھی عید کے سورج کے جلد طلوع ہونے کے لئے ہماری بے چینیوں میں مزید اضافہ کردیتا۔

ایک اور یاد جو اب بھی باقی تو ہے لیکن اس وقت اس کے رنگ ہی نرالے ہوتے تھے اور جو اب بھی دل کو بہت خوشگوار احساس سے ہمکنار کرتی ہے وہ یہ کہ ہر گھر سے ہی نماز فجر کے معاً بعد شیرینی بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوجاتاجو عموماً سویوں، زردہ یا کھیر پر مشتمل ہوتی اور بڑے اہتمام سے ایک ، دو روز قبل ہی بینک سے نکلوائےگئے نئے نکور نوٹ جو بچوں کو عیدی دینے کی غرض سے گھر میں رکھے جاتے اور بچوں کی مسرت میں کئی گنا اضافہ کردیتےتھے اور اس وقت ان پانچ اور دس روپے کے نوٹوں کی مہک شاید ساری دنیا کی دولت پر حاوی نظر آتی۔

نماز عید کا شاندار اجتماع اپنے جلوں میں ڈھیروں خوشیاں لے کر آتا، مجھے یاد ہے کہ گھر سے نکلتے ہی ہمسائیوں، محلہ دار سہیلیوںدوست، احباب کا انبوہ کثیر جانب مسجد گامزن ہوتا،السلام علیکم اورعید مبارک کی پُر جوش آوازیں اور بڑوں کی طرف سے بار بار تسبیحات کی دھرائی کی تلقین، کوارٹرز کے گیٹ سے باہر نکل کر گول بازار اور ڈاکخانہ سے ہی ڈیوٹی پر مامور اطفال و خدام کی زنجیر کا آغاز ہوجاتا، نئے کپڑوں میں ملبوس، ٹوپیاں پہنے ہوئے اطفال مستعدی سے ڈیوٹی دیتے ہوئے بہت پیارے لگتے، بےپناہ رش کے باوجود مردوزن کے لئے بنائے گئے جداگانہ راستے پردہ کی مکمل روح کا مظہر ہوتے، مسجد اقصی کے نزدیک گول چکر کے پاس کافی زیادہ ہجوم ہوتا اور ہر محلہ کی طرف سے آنے والے کشاں کشاں یہاں آکر نہایت منظم انداز سے مسجد اقصیٰ میںداخل ہوتے،ہرجانب ڈیوٹی وحفاظت پر متعین خدام و انصار ایک خاص اعتماد عطا کرتے، بہت منظم طریقے سے گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام ہوتا،عمررسیدہ افرادکے بیٹھنے اورنماز کی ادائیگی کے انتظام میں خاص اس بات کو ملحوظ رکھا جاتا کہ ان کو آنے جانے ،ادائیگی نماز میں کوئی مسئلہ نہ ہو، بچپن کی عیدوں کی ایک اور یاد گھڑ دوڑ میدان میں بڑی تعداد میں ٹرالیوں اور ٹرکوں کی آمدتھی جس کی وجہ چنیوٹ، احمد نگراور دیگر کئی مضافات سے احباب و خواتین کی بہت ذوق وشوق کے ساتھ نماز عید ادا کرنے کےلئے ربوہ آمد تھی۔

مسجد کا صحن، ہالز، راستے بھی نمازیوں سے بھرے ہوتے، گھر سے بڑے شوق کے ساتھ جائے نماز اور چادریں لے کر جاتے، ڈیوٹی پر مامور مستعد خواتین بینرز کے ذریعے خاموش رہنے، تکبیرات پڑھنے اور خطبہ عید خاموشی سے سننے کی طرف توجہ دلاتی۔نماز عید کی ادائیگی کا ایک اور بہت خوبصورت منظر اپنے جلترنگ کے ساتھ آج بھی سماعتوں میں رس گھولتا ہےکہ عید نماز کی تکبیرات ادا کرتے ہوئے جہاں ہر مرتبہ ہمیں تکبیرات کی تعداد کے بارے میں مغالطہ ہوجاتا، وہاں ایک ساتھ بلند ہونے والے ہاتھوں میں پہنی ہوئی چوڑیوں کی کھنک مزہ دے جاتی اور دل معصوم کا یہ شکوہ بھی بالکل دب جاتا کہ ہم نے چوڑیاں ذرا کم پہنی ہیں،تو کیا ہوا، کھنک بھی تو انہی چوڑیوں کی ہے، کلائی بھر بھر کے پہنی گئی چوڑیوں کی آواز تو نہیں آتی ناں۔ یہ بات جب میں اپنے بچوں کو بتاتی ہوں تو ان کی معصوم آنکھیں حیرت سے پھیل تو جاتی ہیں لیکن ننھا سا ذہن پھر بھی اس تصور کو ذہن کے کینوس پر پینٹ کرنے سے قاصر رہتاہے۔

نمازوخطبہ کے بعد مسجد سے باہر آنا بھی ایک دلچسپ مرحلہ ہوتاتھا۔ لوگوں کے ہجوم کے باعث جہاں انتظامیہ کی جانب سے بارہا یہ ہدائیت کی جاتی کہ رکیں، چلتے رہیں لیکن کچھ قدم چلنے کے بعد ہی کسی عزیز از جان سہیلی، رشتہ دار یا واقف کا ر کا ملنا اچک اچک کر وہ قطار توڑنے پر مجبور کر دیتا اور ان پیاروں سے عید ملنے کی خوشی میں ہم اکثر ڈیوٹی والی آنٹیوں کی گھرک بھی نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔مسجد سے نکل کر بہت سے لوگوں کا رخ بہشتی مقبرہ کی جانب ہوتا جو اس وقت تک تو ذرا باعث حیرت ہوتا لیکن والدین کے بہشتی مقبرہ میں آسودہ خاک ہونے کے بعد پھر سب سے زیادہ ضروری لگنے لگا۔

عیداں تے شبراتاں آئیاں
سارے لوکی گھر نوں آئے
اُو نیئں آئے محمد بخشا
جیہڑے آپی ہتھی دفنائے

گھر واپسی کے بعد سب سے اہم مرحلہ آتا یعنی عیدی وصول کرنے کا، نئے نوٹ لئے جاتے، پھر ایک ، دوسرے سے اپنے خزانے کا مقابلہ کیا جاتا، مجھے یاد ہےکہ عیدی میں ملا سو روپے کا نوٹ تو آنکھوں میں وہ خواب بن دیتا کہ جس میں دنیا بھر کے کھلونوں اورمن پسند چیزوں کے حصول کے بعد بھی کافی رقم بچ جاتی، یہ بات جہاں ہمارے چوں کے لئے حیرت انگیز بلکہ ناممکن سی ہے وہیں ہمیں لطف، جوش، خوشی، ایام ماضی کی اس دنیا میں واپس لے جاتا ہے جہاں صرف ہم ہیں اور بزعم خود انتہائی خفیہ جگہوں پر چھپائی گئی ہماری عیدی۔

(زاہدہ یاسمین طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 11 جون 2020ء