• 24 اپریل, 2024

حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ مبلغ انگلستان

مبلغین برطانیہ کا تعارف
حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ مبلغ انگلستان

آپ کی زندگی کے ابتدائی ایام

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ،حضرت امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے آپ کے بزرگ عرب سے ایران آئے پھر سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں پنجاب پہنچے اور ملتان اور پاک پتن میں مقیم ہوئے اور عموماً حکومت وقت کی طرف سے قاضی کے عہدہ پر سر فراز ر ہے۔ حضرت اورنگ زیب کے زمانہ میں اس خاندان کے ایک عالم دین بھیرہ کے مفتی بنے اور یہیں آباد ہوگئے ۔ حضرت مفتی صاحب کے والد ماجد کانام مکرم مفتی عنایت اللہ صاحب (حضرت مسح موعودعلیہ السلام کے دعویٰ سے قبل وفات) اور والدہ کانام مکرمہ فیض بی بی صاحبہ (بیعت:1896۔1897ء) تھا۔ آپ 11جنوری 1872ء کو بھیرہ میں مفتیوں کے محلہ میں پیدا ہوئے اور انٹرنس تک بھیرہ میں ہی تعلیم پائی ۔بعد ازاں حضرت مولانا نور الدین صاحب بھیروی (خلیفۃ المسیح الاول ؓ) کی وساطت سے جموں ہائی سکول میں انگلش ٹیچر مقرر ہوئے۔یہ 1890ء کا واقعہ ہے ،اسی سال کے آخر میں آپ نے قادیان دارالامان کا پہلا سفر کیا اور 31جنوری 1891ء کو بیعت سے مشرف ہوئے۔

آپ اپنی بیعت کے بارے میں فر ماتے ہیں: ’’غالباً دسمبر1890ء تھا ۔سردی کا موسم تھا ۔بٹالہ سے میں اکیلا ہی یکّہ میں قادیان چلا آیا۔ اور بارہ آنہ کرایہ دیا۔حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ ۔۔۔نے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نام ایک سفارشی خط دیا تھا۔ حضرت کے مکان پر پہنچ کر وہ خط میں نے اسی وقت اندر بھیجا۔ حضرت صاحب فوراً باہر تشریف لائے، فرمایا: مولوی صاحب نے اپنے خط میں آپ کی بہترین تعریف کی ہے۔ مجھ سے پوچھا: کیا آپ کھانا کھا چکےہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔ اس وقت مجھ سے پہلے صرف ایک اور مہمان تھا (سید فضل شاہ صاحب مرحوم) اورحافظ شیخ حامد علی صاحب مہمانوں کی خدمت کرتے تھے اور گول کمرہ مہمان خانہ تھا ۔ اس کے آگے جو تین دیواری بنی ہوئی ہے، اُس وقت نہ تھی۔ رات کے وقت اس گول کمرہ میں عاجز راقم اور سید فضل شاہ صاحب سوئے ۔ نماز وں کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں جس کو عموماً چھوٹی مسجد کہا جا تا ہے تشریف لائے۔ دوسری صبح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام زنانہ سے باہر آئے ۔ باہر آکر فرمایا کہ ’’سیر کو چلیں۔‘‘ اس پہلی سیر میں مِیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ گناہوں میں گرفتاری سے بچنے کا کیا علاج ہے؟ فرمایا: موت کو یاد رکھنا۔۔۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کرلینے کی طرف مائل کیا ۔ سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر گمان نہ ہوسکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو۔

دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب علیہ السلام مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے۔ جس حصہ زمین پر نواب محمد علی خان صاحب کا شہر والا مکان ہے اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی لائبریری رہ چکی ہے جس کے بالاخانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں (آجکل اگست 1935ء میں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہو تا ہے) اس زمین پر اُن دنوں حضرت صاحب علیہ السلام کا مویشی خانہ تھا ۔ گائے ،بیل اُس میں باندھے جاتے تھے ۔ اس کا راستہ کوچہ بندی میں سے تھا۔ حضرت صاحب علیہ السلام کے اندرونی دروازے کے سا منے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا ۔ یہ ڈیوڑھی اُ س جگہ تھی، جہاں آ ج کل لائبریری کے دفتر کا بڑا کمرہ ہے ۔اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحب علیہ السلام مجھے لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا ۔ اُن ایام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحدہ لی جاتی تھی۔ ایک چارپائی بچھی تھی ۔ اُس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا۔ حضرت صاحب علیہ السلام بھی اسپر بیٹھے، میں بھی بیٹھ گیا۔ میرا دایاں ہاتھ حضرت صاحب علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی۔ دس شرائط ایک ایک کر کے نہیں دہرائیں بلکہ صرف لفظ دس شرائط کہہ دیا۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ 6 اور تاریخ احمدیت جلد19 ص557)

313صحابہ کرام میں آپ کا نمبر 69 ہے۔

(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد 3ص544)

حضرت مفتی صاحب جموں میں پانچ سال ملازم رہے اوراگست ،ستمبر 1895ء میں لاہور آگئے جہاں اسلامیہ ہائی سکول لاہور میں ریاضی کے استاد کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے پھر دفتر اکاڈنٹنٹ جزل پنجاب لاہور میں کلرک ہوکر جنوری 1901ء تک لاہور میں رہے۔ قیا م جموں کے دوران آپ نے بی اے کی تیاری انگریزی عربی اور عبرانی مضامین میں جاری رکھی ۔بیعت کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسا عاشقانہ اور والہانہ تعلق پیدا ہو گیا کہ جب تک جموں میں رہےہر سال موسمی تعطیلات میں قادیان پہنچ جاتے اور لاہور آنے کے بعد تو آپ کا اکثر یہ معمول ہوگیا کہ عموماًہر اتوار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں حاضر ہوجاتے تھے اور اپنی نوٹ بک میں حضور کے شیریں کلمات خاص اہتمام سے درج کر لیتے اور واپس جاکر دیگر احباب لاہور کو سناتے بلکہ بیرونی ممالک کےاحمدیوں کو بھی بھجوادیتے جس سے ان کے ایمان میں بے پناہ تر قی ہوتی تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد19صفحات561،558،557)

شادیاں اور اولاد

بھیرہ میں محترمہ امام بی بی صاحبہ سے پہلی شادی ہوئی ۔ یہ بہت خدا رسیدہ اور وفا شعار خاتون تھیں۔ ان سے دو بیٹے عبد الر حمٰن صاحب اور محمد منظور احمد صاحب اور ایک بیٹی سعیدہ عمر صاحبہ پیدا ہوئیں۔ حضرت مفتی صاحب ان کے اخلاص کے ذکر میں ایک واقعہ تحریر بیان فرماتے ہیں:

’’اہلیہ نے اپنے لڑکے عبدالرحمٰن کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک کُرتا تبرک مانگ کر لیا ور اس کرتے سے چھوٹے چھوٹے کرتے بنا کر محفوظ رکھے اور ہر بچہ کو پیدا ہونے کے وقت پہلے وہی کرتا پہنایا۔‘‘

(ذکر حبیب ص173)

1922ء میں امریکہ میں ایک شادی کی جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ایک شادی ہالینڈ میں ہوئی جس سے ایک بیٹا بھی ہوا مگر دونوں زندہ نہ رہ سکے ۔ ایک شادی انگلینڈ میں کی تھی جس سے اولاد بھی ہوئی مگر جماعت سے تعلق نہیں ہے۔ سب سے آخر میں 68سال کی عمر میں مالا بارکی ایک خاتون محترمہ رقیہ بانوصاحبہ سے شادی کی ۔ ان سے دوبچے ہوئے ۔ محترمہ رضیہ صادق صاحبہ جو اپنے والد صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکی وفات کے وقت سترہ سال کی تھیں اور ایک بیٹا مفتی احمد صادق صاحب جو صرف ساڑھے چھ سال کے تھے (سابق مبلغ نائیجیریاو امریکہ)۔ رضیہ مومن صاحبہ نے اپنے والد محترم کی صفات سے وافر حصہ ورثہ میں پایا ۔ آپ ایک مثالی خاتون تھیں جن کی زندگی کا محور حصول رضائے الٰہی تھا۔ سادہ بے نفس خاتو ن تھیں ۔

(کتاب حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ شائع کردہ لجنہ اماء اللہ کراچی صفحہ 262 تا 263)

دین حق کی متعدد خدمات

اس زمانہ میں آپ کو دین حق کی متعدد خدمات بجالانے کی توفیق ملی مثلاً1)۔ 18مئی 1900ء کو لاہور میں بشپ جارج الفریڈ لیفرائے ’’زندہ رسول اور معصوم نبی‘‘ پر تقریر ہوئی۔ انہوں نے لیکچر کے بعد مسلمانوں کو اعتراضات کرنے کا موقعہ دیا جس پر حضرت مفتی صاحب جو اب دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور لاٹ پادری کو لاجواب کردیا۔2) ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ’’منن الرحمٰن‘‘ کی تصنیف کے دوران مفتی صاحب کو عبرانی سیکھنے کا ارشاد فرمایاتا ثابت کیا جاسکے کہ عبرانی کا اصل ماخذ بھی عربی زبان ہی ہےچنانچہ حضرت مفتی صاحب نے لاہور میں ایک یہودی عالم سے اتنی عبرانی سیکھی اور عبرانی الفاظ کی ایک فہرست حضور انورؓ کی خدمت پیش کی ۔ اس کے بعد آ پ نے عبرانی بائیبل سے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق پیشگوئیاں بھی نکال کر دیں جن میں سے بعض کا عربی متن ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ صفحہ 111 تا138 پر درج شدہ ہے۔3)۔ 1900ء سے آپ نے بیرونی ممالک کے مشہور ’’عما مدٔ ین‘‘ اور نامور شخصیتوں کو بذریعہ خط و کتابت تبلیغ کرنے کا آغاز فرمایا اور جلد ہی انگلستان اور امریکہ اور جاپان وغیرہ ممالک تک یہ سلسلہ ممتد ہوگیا4)۔ 1900ء میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی پر اتمام حجت کےلئے جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے اشتہار ات شائع کیے گئے جو سب حضرت مفتی صاحب ہی کے قلم سے نکلے تھے رسالہ ’’واقعات صحیحہ‘‘ اس دور کی یادگار ہے جو آپ نے شائع کیا تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد 19صفحات562تا563)

جولائی 1901ء میں آپ مستقل طورپر ہجرت کرکے حضرت مسیح موعودؑ کےقدموں میں آگئے۔ ابتدا میں آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نائب ہیڈ ماسٹر اور 1903ء میں ہیڈماسٹرمقررہوئے۔ 28مئی 1903ء کو کالج کا افتتاح عمل میں آیا تو آپ اس کے مینیجر اور سپر نٹنڈنٹ اور منطق کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔ مارچ 1905ءمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو ’’البدر‘‘ کا ایڈیٹر مقرر فرمایا۔ اخبار بدر1914ء تک آپ کی ادارت میں جاری رہا۔ اخبار ’’الحکم‘‘ کی طرح ’’بدر‘‘ بھی سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کا حامل ہے اور اس کی شاندار خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دونوں اخباروں کو اپنا دست و بازو قرار دیا۔ 1908ء میں حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے گورو ہر سہائے ضلع فیروزپور کو ایک وفد بھیجا کیونکہ پتہ چلاتھا کہ وہاں حضرت بابانانک کی ایک پوتھی رکھی ہے ۔ اس وفد میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے۔ واپسی پر اس دورہ کی رپورٹ حضرت مفتی صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی جس کو ’’چشمہ معرفت‘‘ کے صفحہ 337پر درج کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی صاحب کی انتہائی محبت و عقیدت اور جوشِ خدمت کے باعث آ پ کو ’’سلسلہ احمدیہ کا برگزیدہ رکن مخلص دوست‘‘ اور ’’’محب صادق‘‘ جیسےفخرِیہ خطابات سےنوازا۔ چنانچہ اشتہار 22اکتوبر 1899ء میں لکھا:

’’مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں ۔۔۔یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد19صفحات566،565،564،563)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مولانا نور الدین بھیروی ؓکے عہد خلافت میں آپ نے بدر کی ادارت کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھر کے سفر کیے اور وسیع پیمانہ پر پیغام حق پہنچائے نیز احمدیہ پریس کی مضبوطی واستحکام کے لئے ہر ممکن کو شش فرمائی۔ اس دور میں آپ نے پنجاب کے متعدد مقامات کا درہ کر نے کے علاوہ آپ علی گڑھ ، مظفر نگر، میرٹھ کانپور، اٹاوہ، لکھنو، شاہجہانپور، جمال پور، مونگھیر، سورج گڑھ، بھاگل پور، بنارس، چڑیا کوٹ، شاہ آباد، آگرہ، لکھنو اور ریاست کپور تھلہ اور ریاست جموں میں بھی تشریف لے گئے۔ خلافت ثانیہ کا عہد مبارک بھی آپ کی دینی خدمات سے لبریز ہے۔ اس کے ابتدائی تین سالوں میں آپ جہاد باللسان میں دیوانہ وار مصروف رہے اور بنارس، کلکتہ، سونگڑہ، ڈھاکہ، حیدرآباددکن، مدراس، دہلی اور لاہور جیسے بڑے بڑے شہروں میں آپ کے نہایت بصیرت افروز لیکچر ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد19 صفحات566)

انگلستان

10مارچ 1917ءکو حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ بغرض اعلائے کلمتہ اللہ انگلستان تشریف لے گئے اور یورپ کے سفر میں تبلیغ دین کرتے ہوئے 17اپریل 1917ء کو لندن پہنچے جہاں حضرت قاضی محمد اللہ صاحب پہلے سے سر گرم عمل تھے۔ حضرت مفتی صادق صاحب قریباًڈھائی سال تک انگلستان میں فریضہ تبلیغ بجالاتے رہے۔ اس دوران میں آپ نے ٹریکٹ شائع کئے ،اہم شخصیتوں مثلاً (1919ء) شہنشاہ جارج پنجم و ملکہ معظمہ سیکرٹری آف سٹیٹ لارڈ مانسٹیگو، وزیراعظم برطانیہ، لندن کے لارڈمیئر اور شہزادہ جاپان یوری ہی ٹوہگاشی فوشی وغیرہ عمائدین کو تبلیغی خطوط لکھے۔ لندن کے ہائیڈپارک ،سنٹرل ہال، مشن ہاؤس اور گر جا گھروں میں لیکچر دئیے۔ فرنچ سوسائٹی فلالوجی کے زیر انتظام آپ کے علم اللسان اور دوسرے موضوعات پر کامیاب لیکچر جس پر سوسائٹی نے بی فل کی ڈگری اور ڈپلومہ بھی دیا۔ آپ نے پادریوں سے گفتگو کی اور چرچ تک قرآنی پیغام پہنچانے کی ہر ممکن تدابیر اختیار فرمائیں جس کے نتیجہ میں قریباً ایک صَد نفوس دین اسلام میں شامل ہوئے۔لندن کے قریب دوشہر وں Leicester اور South Sea میں لیکچرز کا موقع ملا پانچ افراد نے دین حق قبول کیا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’جس غرض کے واسطے حضرت مرشد صادق مہدی معہود خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں عاجز کو بھیجا تھا وہ گزشتہ اڑھائی سال میں بر فاقت بر ادر عزیز قاضی عبد اللہ صاحب حسب دلخوا ہ حاصل ہوئی قریب ایک صد نو مسلم ہو ئے اور قریب پچاس کَس مصدقین ہوئے۔ لندن کے مرکز میں سلسلہ احمدیہ کا جھنڈا گڑ گیا۔ بہت سے لیکچر ہوئے اخباروں اور رسالوں میں ہماری تصاویر اور مضامین شائع ہوئے۔ بادشاہوں اور امیروں کو بھی پیغام حق پہنچایا گیا۔ اور غرباء کو بھی تبلیغ کی گئی۔ ہزار ہارسالےتقسیم کیے گئے۔ مباحثات ہوئے مخالفین کو چیلنج دئیے گئے ۔مضافات میں بھی لیکچر ہوئے اور اشاعت رسالہ جات کی گئی۔ غرض ہرقسم کا تبلیغی کام باوجود ایام جنگ کی مشکلات اور دقتوں کے جبکہ اس ملک میں مردوں کی شکل نہ دکھائی دیتی تھی اور گاڑیوں پر بھی عورتیں کام کرتی تھیں۔ ایسی تنگی اور تکلیف کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے مشن کو کامیاب کیا یہ اس کا فضل ،کرم، رحم، حلم اور غریب نوازی ہے اس غفار، ستار، قدیم، کریم، رحیم کی بخشش ہے ورنہ ہم کیا اور ہماری ہستی کیا۔جو ہوا اسی سے ہوا۔ اور آئندہ بھی جو امید ہے اسی سے ہے، جب قادیان میں خلیفتہ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ کے فرمانے سے میں نے اس ملک میں آنے کے متعلق اشارہ کیا تھا تو ساری شب لا حول ولا قوۃالا باللہ میری زبان پر جاری رہااور اسی پاک کلام کے کر شمہائے قدرت میں یہاں دیکھتا رہا ہوں اگر اپنی اس اڑھائی سالہ زندگی کی تفصیل لکھوں تو وہ اسی کلمہ لاحول ولا قوۃالا باللہ کی تفسیر ہوگی اور بس۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد19صفحات568،567،566)

آپ کی صحت کی کمزوری کی وجہ سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ اور حضرت مولانا عبد الکریم نیرصاحب ؓ6اگست 1919ء کو لندن پہنچ گئے۔ اڑھائی سال تک لندن میں اعلائے کلمہ حق کا حق ادا کرنے والے اس مقبول داعی الی اللہ کو جماعت احمدیہ لندن نے 20جنوری 1920ء کو الوداعی پارٹی دی جس میں شاندار ایڈریس پیش کیا اور متضرعانہ دعاؤں سے رخصت کیا۔

حضرت مفتی صاحب انگلستان میں ہی تھے کہ آپ کو حضرت مصلح موعودؒ نے امریکہ میں پہلا تبلیغی مشن کھولنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ 26جنوری 1920ء کو روانہ ہوئے اور فروری کے دوسرے ہفتے بذریعہ جہاز فلاڈیفیا پہنچے ۔آپ امریکہ میں ساڑھے تین سال تک فریضہ بجالاتے رہے اس مختصر سے عرصہ میں آپ نے خدا کے فضل سے احمدیہ مشن کو مضبوط بنیادوں پر استوار کردیا دی مسلم سن رائز (THE MUSLIM SUNRISE) جاری کر کے ساے ملک میں حق کی آواز بلندکی آپ کے ذریعہ ڈیڑائٹ میں پہلا مسجدقائم ہوا اور امریکہ میں ایک مخلص جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔اور یہی امور تھے جن کی نسبت آپ شروع سے دعائیں کر رہے تھے ۔آپ نے امریکہ سے ایک رپورٹ میں لکھا:

’’مقابلہ بہت بڑے لوگوں سے ہے مگر کچھ غم نہیں کیونکہ میرے ساتھ میرا خدا ہے اور خلیفتہ المسیح کی اور احباب کرام کی دعائیں ہیں اور بزرگوں کی امدادروحانی ہے قریباًہر شب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یا خلیفہ اول یا حضرت فضل عمر سے ملاقات ہوتی ہے دن بھر اجنبیوں میں ہوتا ہوں رات بھر اپنوں میں‘‘۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓنے 1920ء کے آخر میں شکاگو اور فروری 1921ء میں ہائی لینڈ پارک کو تبلیغی مرکز بنا لیا اور اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کردیا۔ آپ کو امریکہ کے مختلف شہروں کی مختلف سوسائٹیوں اور گرجوں میں بھی مدعو کیا گیا آپ کے علمی لیکچروں کی شہرت پریس نے ملک کے کونے کونے تک پہنچا دی جیفرسن یونیو رسٹی شکاگونے آپ کی علمی لیاقت اور خدمات برائے بہبودی خلق کو تسلیم کرتے ہوئے ’’پریس کا نگرس آف دی ورلڈ‘‘ (Press Congress of The World) کے آپ ممبر منتخب ہوئے۔ 15فروری 1921ء کو آپ نے عیسائی دنیا کو ایک جلسہ میں چیلنج دیا کہ آپ ﷺنے بخران کے عیسائی وفد کو مسجد بنوی میں عبادت کی اجازت دے کر اخلاق اور رواداری کی شاندار مثال قائم فر مادی ہے کیا عیسائی دنیا میں بھی ایسا حوصلہ ہے کہ مجھے اپنے گرجا میں نماز پڑھنے دے؟۔اس لیکچر میں اخباروں کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے اس چیلنج کو پور سے ملک میں اشاعت کی مگر پادریوں نے صاف انکار کردیا۔ الغرض حضرت مفتی صاحب امریکہ میں ساڑھے تین سال تک نہایت کامیابی سے تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد 18ستمبر 1923ء کو عازم قادیان ہوئے ۔یورپ و امریکہ سے واپسی کے بعد آپ قادیان میں دوبارہ خدمات بجالانے لگے اس اثناء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے سیکر ٹری مقرر ہوئے اور اس منصب کو نہایت قابلیت سے سنبھالا۔ 1924ء میں حضرت مصلح موعود ؓنے پہلے سفر یورپ کے موقعہ پر حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب اور آپ کو نائب امیر مقامی مقرر ہوئے فرمایا:

’’مفتی محمد صادق صاحب بھی پرانے مخلصین میں سے ہیں اور سلسلہ کی خدمات میں انہوں نے بہت حصہ لیا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے خصوصیت سے محبت تھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے خدام میں سے تھے جو ناز بھی کر لیا کرتے تھے اس زمانہ میں بھی خداتعالیٰ نے انہیں تبلیغ کی خدمتوں کا موقع دیا تھا ۔‘‘

1926ء میں نظارتوں کا صدر انجمن احمدیہ سے الحاق ہوا تو آپ پہلے ناظر امور خارجہ اور پھر ناظر امور عامہ اور بعض دفعہ ہر دو فرائض انجام دیتے رہے ۔

(تاریخ احمدیت جلد19صفحات571،570،569،568)

اکتوبر ؁1927ءمیں آ پ سیلون تشریف لے گئے۔ کولمبو کے ٹاؤن ہال ،بدہسٹ سوسائٹی اور ویسلے کالج میں آپ کے شاندار لیکچر ہوئے جن کی خبریں ’’ڈیلی نیوز‘‘ے شائع کیں ۔اہل سیلون آپ کے نورانی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے وہ آپ کو ولی اللہ سمجھتے تھے کولمبو کے بعد آپ نے کانڈی میں بہت سی تقریریں کیں۔06نومبر 1927ء کو آپ اس جزیرہ کے طول و عرض تک پیغام احمدیت پہنچانے کے بعد ہندوستان روانہ ہوئے۔اور حضرت مصلح موعودؓکے ارشاد مبارک کی تعمیل میں کینا نور چھاؤنی، پینگاڈی، کالیکٹ، بنگلور، کلکتہ، بر ہمن بڑیہ، ڈھاکہ، رنگ پور وغیرہ مقامات میں قیام فرمایا اور حق و صداقت کی منادی کرتے ہوئے وارد قادیان ہوئے۔ اگلے سال1928ء میں آپ کراچی اور کلکتہ تشریف لےگئے مئی 1929ء میں آپ نے دوبارہ سیلون کا طویل سفر کیا جہاں ایک ایرانی عالم و صحافی سے آپ کو کامیاب گفتگو کو موقعہ ملا۔سیلون اخبارات کے رپورٹروں سے آپ کی طویل ملاقاتیں ہوئیں اور آپ کے بیانات اخباروں میں شائع ہوئے جس سے ملک بھر میں احمدیت کا خوب چرچا ہوا۔ 20مئی 1934ء کو آپ کشمیر تشریف لے گئے اور نہایت محنت و کاوش سے تین ماہ تک قبر مسیح سے متعلق تاریخی معلومات جمع کیں ان کو ’’تحقیق جدید متعلق قبر مسیح‘‘ کے نام سے شائع فرمادیا جو آپ کا ایک علمی شاہکار ہے۔ فروری 1935ء میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓ کے پرائیوٹ سیکرٹری مقرر کئے گئے۔

حضرت مفتی صاحب کو ایمان کا یہی ارفع مقام حاصل تھا ۔ اسی لئے آپ زندگی بھر جہاد کی صف اول میں رہ کر جہاں دلائل کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی نمایاں خدمات سر انجام دیتے رہے وہاں آپ نے عشق اور محبت کی گرمی کے ذریعہ بھی لوگوں کو مامور زمانہ کی مقناطیسی کشش سے متاثر کیا۔ ’’ذکر حبیب‘‘ آپ کا خاص موضوع تھا ۔جس کے بیان کرنے میں آپ کوکمال حاصل تھا۔ آپ حضور علیہ السلام کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات نہایت مؤثر طریق پر بیان فرماتے تھے جس سے سامعین اپنی روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے تھے۔ اسی لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر ’’ذکر حبیب‘‘ کے موضوع پر تقریر کے لئے آپ ہی کو منتخب کیا جاتاتھا ۔آپ یہ فرض نہایت عمدگی اور خوش اسلوبی سےادا فرماتے رہے۔

حضرت مفتی صاحب کا شمار ان بزرگ اصحاب مسیح موعودعلیہ السلام میں ہوتا ہے جنہیں بچپن ہی سے ذکر الہی ٰکا بہت شغف تھا اور نہوں نے اپنی زندگی میں قبولیت دعا کے بہت سے نشانات کا مشاہدہ کیا جس کی کسی قدر تفصیل ہمیں آپ کے رسالہ ’’تحدیث بالنعمت‘‘ میں ملتی ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد19صفحات573،572،571)

واقعہ

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شاندار خدمات کے طویل زمانہ میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات، پر لطف مباحثات اور پر کیف لطائف سے لبریز ہے ۔ان دلچسپ واقعات میں سے صرف چند ایک یہاں درج کئے جاتے ہیں جو حضرت مفتی صاحب کے تقویٰ، قابلیت اور اعلیٰ کردا رکے عظیم مجاہد ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

’’1917ء میں جب کہ جنگ عالمگیر اپنے پورے شباب پر تھی۔ حضور خلیفۃ المسیح نے مجھے حکم دیا کہ (دعو ت اسلام) کے لئے انگلستان جاؤ۔ عورتوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی حضور سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں ۔ لوگ گیہوں کی طرح پس رہےہیں ۔ اگر حضرت مفتی صاحب کو ابھی روک لیا جائے تو بہتر ہے ۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لئے ڈالے جاتے ہیں مگر ان میں سے بھی کچھ اوپر رہ جاتےہیں جو نہیں پستے ۔ تو یہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں پسنے والے نہیں ۔جب ہمارا جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا تو جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام مسافروں کو اوپر ڈیک پر بلایا اور ایک تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یہ سمندر جس میں ہم داخل ہوئے ہیں جرمن جہازوں سے بھرا پڑا ہے ۔ اور معلوم نہیں کہ کب ہمارا جہاز ان کے نشانے سے ڈوب جائے۔ اگر ایسا ہوا تو جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ایک سیٹی بجے گی۔ چنانچہ کپتان نے سیٹی بجا کر سنائی ۔ پھر کہا کہ جب یہ سیٹی بجے تو یہ کشتیاں جو جہاز کےدونوں طرف لٹک رہی ہیں ۔ آپ لوگوں کے لئے ہیں ۔ پھر نام بنام کشتیوں کے نمبر بتائے اور سلسلہ تقریر رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ایسے موقعہ پر اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھ جائیں ۔ پھر یہ کشتیاں جہاں کہیں آپ لوگوں کولے جائیں آپ کی قسمت۔ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ کپتان کے اس لیکچر سننے کے بعد میں اپنے کمرےمیں آیا اور اس خطرے سے بچنے کےلئے اللہ کریم سے گڑگڑا کر دعا کی۔اسی رات میں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے کمرے میں کھڑا ہوا ہے اور مجھے انگریزی میں کہتا ہے ۔

’’صادق، یقین کرو، یہ جہاز سلامت پہنچے گا‘‘

اس خوشخبری کوپاکر میں نے تمام مسافروں کو اور کپتان کو اطلاع دی اور ایسا ہی ہوا۔ ہمارا جہاز ساحل انگلستان پر سلامتی سے پہنچ گیا۔ کئی جہاز ہمارے سامنے آگے پیچھے، دائیں بائیں ڈوبے۔ ان جہازوں کی لکڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی دیکھیں۔ مگر خدا وند تعالیٰ نے ہمارا جہاز سلامت پہنچا دیا۔‘‘

(لطائف صادق صفحہ131،130)

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں ایک کتاب دیکھی جس میں یوز آسف کے نام پر ایک گرجا کا حوالہ دیا گیا تھا۔ مفتی صاحب نے اس کا ذکر قادیان آکر حضرت اقدس علیہ السلام سے کیا۔ حضرت نے فرمایا ’’وہاں سے وہ کتاب لے آئیں۔‘‘ جب مفتی صاحب لائبریری میں گئے تو اس کتاب کا نام بھول گئے۔ ہر چند تلاش کیا مگر کتاب نہ ملی۔ جب تک نام معلوم نہ ہو، کتاب کس طرح مل سکتی تھی۔ لائبریرین نے بھی عذر کر دیا۔ ناچار واپس آکر حضرت صاحب سے صورت معا ملہ بیان کر دی۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد حضرت صاحب نے فرمایا کہ مفتی صاحب آپ پھر جائیے۔ اب کے وہ کتاب آپ کو مل جائے گی۔ مفتی صاحب نے حکم کی تعمیل توکی۔ مگر حیران تھے کہ جب نام ہی یاد نہیں تو کتاب کو کس طرح اور کہاں تلاش کروں۔ خیر اسی فکر میں مفتی صاحب لائبریری پہنچے۔ اس وقت اتفاق سے لائبریرین ضرورتاً ایک آدھ منٹ کےلئے باہر چلا گیا۔ اس کی میز پر ایک کتاب پڑی ہوئی تھی ۔مفتی صاحب نے بغیر کسی خیال کے ویسے ہی اسے اٹھا لیا۔ کھولا تو مطلوبہ کتاب تھی ۔اس خدائی تصرف کو دیکھ کر مفتی صاحب حیران رہ گئے۔ لائبریرین آیا تو مفتی صاحب نے یہ عجیب واقعہ اس سے بیان کیاکہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا ’’جاؤکتاب مل جائے گی‘‘ اور غیر متوقع طور پر کتاب فوراً مل گئی۔ لائبریرین نے کہا کہ جناب اگر آپ کچھ دیر پہلے آتے تب بھی آپ کو یہ کتاب نہ ملتی کیونکہ ابھی ابھی باہر سے آئی تھی ۔ اور اگر ذرا بھی دیر کے بعد آتے تب بھی یہ کتاب آپ کو نہ ملتی کیونکہ میں اسے فوراً اس کی جگہ رکھوا دیتا۔اب اسے لے جائیں اور حضرت صاحب کو دکھائیں ۔ چنانچہ اس کتاب کا حوالہ حضور نے اپنی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ درج فرمایا ہے۔

(کتاب لطائف صادق صفحہ62)

وفات و نماز جنازہ

آخر مسیح الزماں کا یہ محب صادق، مخلص دوست، لائق اور صالح نوجوان سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ایک بر گزیدہ رکن، مجاہد احمدیت، مبلغ اسلام، انگلستان اور امریکہ کے ظلمت کدوں میں توحید کی شمعیں روشن کرنے والا عظیم وجود تقریباً 85 برس کی عمر پاکر مورخہ 13جنوری 1957ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو

سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ نے بعد از نماز عصر بیت مبارک میں نماز جنازہ پڑھائی۔ اور آپ کے جنازہ کو کندھا دیا۔ اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد دعا کراوئی اور اس طرح اپنے پیارے غلام اور مجاہد کو رخصت کیا۔

(الفضل 15جنوری 1957ء)

تصانیف

حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی مشہور تصانیف ذیل ہیں :
1)واقعات صحیحہ 2)تحدیث بالنعمت 3)مقصدحیات 4)آئینہ صداقت 5)کفارہ 6)تحقیق جدید متعلق قبر مسیح 7)بائبل کی بشارات بحق سرور کائنات 8)تہنیت نامہ مجتبیٰ صادق 9)How to save the World10) پیر مہر علی شاہ صاحب کو ایک رجسٹر ڈ خط11)Christian Doctrine12) تحفہ بنارس 13)ہم احمدی کیوں ہوئے؟ 14)ذکر حبیب 15)صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ازروئے بائبل 16) لطائف صادق 17)قاعدہ عبرانی

(تاریخ احمدیت جلد 19صفحہ574)

پیاری یادیں

محترمہ امتہ الحئی یحٰیی صاحبہ نے جو حضرت مفتی محمد صادق کی نواسی اور حضرت خلیفتہ المسیح اول کی پوتی ہیں اپنے نانا جان کی یادیں قلم بند کی ہیں جنہیں قدرے اختصار کے ساتھ درج کیا جا رہا ہے: «میں تین یاچار سال کی تھی جب ایک دفعہ نانا جان نے پوچھا تمہیں ایک آنہ چاہیے۔ ایک آنہ معمولاً ملنے والے پیسوں سے چار گنا بڑا تھا۔ ایک آنہ ملنے کے تصور سے خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے جوش سے کہاجی جناب مجھے ایک آنہ چاہیے ۔ نانا جان نے میرے ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھائے اور کہا اچھا دعا کروالے، اللہ ایک آنہ فلاں دیوار کی فلاں دیوار کی درز میں رکھ دے۔ آمین۔ دعا کے بعد بھاگ کر گئی تو دیکھا اس درز میں ایک آنہ مل گیا اس طرح بہت چھوٹی عمر میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریق سکھایا لیکن ابھی ایک اور سبق بھی دینا تھا میں نے دعا کرنی شروع کردی کہ اے رحیم خدا دیوار کی ہر درز میں ایک آنہ رکھ دے مگر یہ دعا قبول نہ ہوئی تو پھر نانا جان کے پاس گئی۔ آپ نے بتایا کہ صرف خواہش اور دعا کافی نہیں ہوتی کوشش بھی کرنی ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ پر ہے کہ وہ کون سی دعا سنتا ہے کو ن سی نہیں۔‘‘

(ماخوذاز کتاب ’’تاریخ احمدیت اور ذکر حبیب‘‘ مصنفہ: حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)

٭…٭…٭

(ندیم احمد بٹ۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 11 جولائی 2020ء