• 19 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین بیان فرمودہ مورخہ 10 فروری 2017ء

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 10 فروری 2017ء بمطابق 10 تبلیغ 1396 ہجری شمسی
بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

دنیا میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ دنیا داری میں انسان ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ دنیاوی سامانوں کے حصول کے لئے ایک افراتفری پڑی ہوئی ہے، ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ خدا تعالیٰ کو اور دین کو ایک ثانوی حیثیت دی جاتی ہے بلکہ ایسے دنیا دار ہیں اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہی انکاری ہیں اور دین کو نعوذ باللہ ایک لغو چیز خیال کرتے ہیں۔ لیکن ایسے وقت میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تلاش میں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے دین کی تلاش میں ہیں جو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو سچے مذہب اور دین کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ سچے دین کی تلاش کر کے اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں، بے چین ہوتے ہیں۔ اور یقینا جب ایک درد کے ساتھ نیک بندے اس کوشش میں ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کی رہنمائی فرماتا ہے، انہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ مختلف ذریعوں سے ان کی تسکین اور حقیقی دین کو سمجھنے کے سامان کرتا ہے۔ ان کے ایمان و یقین میں اضافہ کرتا ہے۔

اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور اس کے دین کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مسیح موعود اور مہدی معہود کا مقام دے کر بھیجا اور دنیا کو کہا کہ اپنی سچی اور حقیقی تڑپ اور تسکین کے سامان کرنے کے لئے مسیح موعود کی بیعت میں آؤ۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستوں کو حاصل کرو۔ اپنی عبادتوں کی حقیقت کو پاؤ۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھو۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مختلف طریق سے تڑپ رکھنے والوں کی سچائی کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور ان کے ایمانوں میں اضافہ کرتا ہے۔

جماعت احمدیہ کا ماضی بھی اور حال بھی ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے اور ہر روز دنیا کے کسی نہ کسی گاؤں، شہر اور ملک میں ایسے واقعات ہو رہے ہوتے ہیں جو نہ صرف ان نئے ہدایت پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو نے والوں کے ایمانوں میں اضافے کا موجب بنتے ہیں اور ان میں مضبوطی پیدا کرتے ہیں بلکہ پرانے احمدیوں اور پیدائشی احمدیوں کے ایمانوں کو بھی تازہ کرتے ہیں اور ان کے ایمانوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس وقت میں چند ایسے واقعات یا لوگوں کے تجربات بیان کروں گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے لوگوں کی ہدایت کے سامان کرتا ہے۔

امیر صاحب گیمبیا ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ نیامینا ایسٹ ڈسٹرکٹ (.Niamina East Dist) کے گاؤں کی ایک خاتون سسٹر کانی فاٹی جن کی عمر 65 برس ہے گزشتہ دس سال سے پاؤں کی تکلیف میں مبتلا تھیں اور کہیں سے بھی ان کا علاج نہیں ہو رہا تھا۔ اس تکلیف کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھیں۔ علاج کے سلسلہ میں اپنے گاؤں سے دُور ایک جگہ ہے بن سنگ (Bansang)، اس علاقے میں گئیں جہاں اتفاق سے انہیں ایم ٹی اے پر میرا خطبہ سننے کا موقع مل گیا۔ موصوفہ جب اپنے گاؤں واپس آئیں تو خواب میں انہیں بتایا گیا کہ تم نے ٹی وی پر جس کو دیکھا تھا اسی کے پیچھے چلو کیونکہ وہ صحیح اور نجات کا راستہ تمہیں بتا رہا ہے۔ چنانچہ موصوفہ نے اس خواب کے بعد بیعت کر لی۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بیعت کرنے کی دیر تھی کہ ان خاتون کی پاؤں کی تکلیف جاتی رہی اور اس وجہ سے ان کے ایمان میں بڑا اضافہ ہوا اور اب وہ سارے گاؤں میں تبلیغ کرتی ہیں۔ لوگوں کو بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کی تکلیف جماعت احمدیہ میں شمولیت کی برکت سے دور ہو گئی۔

اللہ تعالیٰ نے بھی جس کو اس کی نیکی پر بچانا ہوتا ہے یا کسی کی کوئی نیکی پسند آتی ہے تو اس کے لئے عجیب عجیب طریق سے ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ ایک دنیا دار آدمی کہہ سکتا ہے کہ یہ گاؤں کی رہنے والی ایک جاہل اَن پڑھ عورت ہے۔ اس کے دل کا وہم ہو گا۔ لیکن جس کو اللہ تعالیٰ ایمان کی دولت دے کر پھر اس میں مضبوط کرتا ہے وہ ایسے دنیا داروں کو جاہل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح برکینا فاسو جو مغربی افریقہ کا ایک فرانسیسی بولنے والا ملک ہے۔ صحارا کے قریب ہے بلکہ کچھ حصہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس دُور دراز ملک میں رہنے والے ایک شخص کی اور صرف ملک ہی دور نہیں بلکہ اس ملک میں بھی ایک چھوٹے سے قصبے میں یا گاؤں میں رہنے والے کی اللہ تعالیٰ نے کس طرح رہنمائی فرمائی۔ اس بارے میں مبلغ انچارج نے لکھا کہ لیو (Leo) ریجن کی ایک جماعت کے ایک دوست سوادو (Sawadogo) صاحب نے جلسہ سالانہ جرمنی کے بعد احمدیت قبول کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ باقاعدگی سے جماعت احمدیہ کا ریڈیو سنتے تھے اور اگر کوئی جماعت کا وفد ان کے گاؤں تبلیغ کرنے آتا تو گاؤں کا بااثر فرد ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ مَیں ان کا خوب خیال رکھتا اور تبلیغ کا اہتمام بھی کرواتا۔ احمدی نہیں تھے لیکن احمدیوں کے ہمدرد تھے۔ کچھ عرصہ بعد مولویوں کو اس بات کا علم ہوا تو یہ کہتے ہیں وہ مولوی میرے پاس آئے اور آ کر کہنے لگے کہ تم احمدیہ ریڈیو بالکل نہ سنا کرو اور نہ ہی احمدیوں سے میل ملاپ رکھو کیونکہ یہ تمہارے اسلام کو خراب کر دیں گے۔ کہتے ہیں کہ مولویوں کی باتوں کی وجہ سے مَیں نے احمدیوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور احمدیہ ریڈیو سننا بھی بند کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد ایسا اتفاق ہوا کہ ایک سفر سے میں واپس آ رہا تھا تو نماز پڑھنے کی غرض سے ایک مسجد میں رکا۔ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا وہاں مسجد تھی۔ تو نماز شروع ہو چکی تھی اس لئے جلدی جلدی وضو کرنے لگا۔ اسی دوران ایک اور شخص مسجد میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ یہ احمدیوں کا گاؤں ہے اور مسجد بھی احمدیوں کی ہے۔ کہتے ہیں یہ سنتے ہی میں سوچنے لگا کہ میں کہاں پھنس گیا۔ میں تو بڑی دیر سے ان کو avoid کر رہا تھا اور پھر میں آہستہ آہستہ وضو کرنے لگا کہ نماز ختم ہو تو اپنی علیحدہ نماز پڑھوں گا۔ بہرحال ان کو نماز تو وہاں پڑھنی پڑی۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی نیکی پسند آئی ہوئی ہو گی جو مجبوراً ان کو ہماری مسجد میں نماز پڑھنی پڑی۔ بہرحال کہتے ہیں اسی رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہجوم ہے اور مَیں ہجوم کے اندر لوگوں کو ہٹا رہا ہوں اور ہٹا کر میں آگے جا کر دیکھتا ہوں تو وہاں ایک شخص کھڑا ہے اور ہزاروں کا مجمع اس کے ارد گرد کھڑا ہے۔ مَیں کسی شخص سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون شخص ہے جس کے ارد گرد لوگ کھڑے ہیں۔ اس پر وہ آدمی جواب دیتا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کی بات تمہیں سننی چاہئے مگر مولویوں نے تمہیں اصل راستے سے ہٹا دیا ہے۔ کہتے ہیں اسی وقت میری آنکھ کھل گئی۔ مجھ پر اس خواب کا ایسا اثر ہوا کہ میں نے احمدیوں سے دوبارہ رابطہ بحال کر لیا۔ پھر میں نے ایک دن مشن ہاؤس فون کر کے مربی صاحب کو کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ مربی صاحب نے کہا کہ فلاں دن مشن ہاؤس آ جانا۔ کہتے ہیں جب میں مقررہ دن مشن ہاؤس پہنچا تو وہاں سب لوگ ٹی وی پر کچھ دیکھ رہے تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے بھی آگے بڑھ کر ٹی وی دیکھا تو وہ منظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا کیونکہ ٹی وی پر بالکل وہی منظر تھا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اور پوچھنے پر مربی صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ جلسہ سالانہ کی اختتامی تقریب ہے اور ہمارے خلیفہ اس سے خطاب کر رہے ہیں اس پر مَیں نے مربی صاحب سے کہا کہ فوراً میری بیعت لے لیں۔ کہتے ہیں خدا کی قسم یہی منظر اور یہی شخص میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصوف اب اپنے اہل و عیال سمیت احمدی ہو چکے ہیں اور گاؤں کے مزید افراد کو بھی تبلیغ کر رہے ہیں۔ جو شخص اس طرح کے ذاتی تجربات سے گزرا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اس کو حاصل ہوئی ہو وہ یقینا اپنے ایمان میں مضبوطی حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ مجھے کئی لوگ خط لکھتے ہیں کہ ہم نے جس طرح اللہ تعالیٰ سے تسلی پا کر اور نشان دیکھ کر بیعت کی ہے اور احمدیت کو قبول کیا ہے ہمارے ایمان کو کوئی بھی نہیں ہلا سکتا۔ ہمیں کسی مزید دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بعض لوگ مخالفت میں اس حد تک ڈھٹائی پر اتر آتے ہیں کہ عقل کی بات سننا ہی نہیں چاہتے۔ لیکن ایسے بھی ہیں جو تکبر میں بڑھے ہوئے نہیں، جن میں کچھ حد تک انسانیت ہے بلکہ کہنا چاہئے یا بہت حد تک انسانیت ہے تو ایسے لوگ جو ہیں جن میں تکبر نہیں ہے اور انسانیت ہے ان کی پھر اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے۔ اگر وہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ سیریا کے ایک شخص کے ساتھ پیش آیا۔ پہلے تو وہ مخالفت میں بڑھا ہوا تھا لیکن پھر حقیقت پانے کے لئے اسے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کا خیال پیدا ہوا بلکہ خیال دلوایا گیا تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو رہنمائی بھی حاصل ہوئی۔

احمد صاحب سیریا کے ایک شخص ہیں۔ کہتے ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ باہر ملتے تھے یا میرے گھر میں بھی آ جاتے تھے۔ میں بہت ساری باتیں تو مانتا تھا لیکن سب باتیں ماننے کے باوجود وفات مسیح پر آ کر میں اٹک جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک لمبے عرصے سے مسیح کے آسمان سے نزول کا منتظر تھا اور مسیح کے لشکر میں شامل ہو کر بیت المقدس کو آزاد کروانے کی دیرینہ خواہش لئے ہوئے تھا۔ وفات مسیح کے بارے میں سن کر میرے مزعومہ جہاد کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ مسیح آسمان سے نہیں اترے گا تو میں جہاد کس طرح کروں گا؟ کہتے ہیں ایک روز میرے گھر میں بعض احمدی احباب بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں معتزالقزق صاحب بھی تھے۔ اس دوران جو وفات مسیح کے موضوع پر بات شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ تم احمدیوں کو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آج کے بعد وفات مسیح کے موضوع پر مجھ سے یا میرے گھر میں بات نہ کرنا۔ اس پر قزق صاحب نے کہا کہ میری بھی ایک درخواست ہے کہ آپ خدا تعالیٰ سے اس بارے میں رہنمائی کے لئے دعا کریں۔ کہتے ہیں ان کی یہ بات مجھے بڑی پسند آئی اور میں نے اسی شام سے خدا تعالیٰ کے حضور سجدوں میں رو رو کر دعا کرنی شروع کر دی۔ جب رات کو سویا تو خواب میں دیکھا کہ میں کسی بلند مقام کی طرف سفر کر رہا ہوں۔ راستے میں ایک بھر بھری سی زمین کا ٹکڑا آتا ہے جس پر قدم رکھتے ہی احساس ہوتا ہے کہ یہ مجھے کسی گہری کھائی کی طرف دھکیل کر لے جا رہا ہے۔ اس پریشانی کے عالم میں ایک شخص مجھے کندھے سے پکڑ کر اٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ابو حسن (یہ احمد صاحب کی کنیت ہے) اب اس جگہ ہرگز نہ آنا اور یقین کر لو کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ لو اب اپنے راستے پر چلتے رہو۔ کہتے ہیں جب میں بیدار ہوا تو اپنے احمدی بھائی سے فون کر کے کہا کہ میں نے معتزالقزق صاحب کے پاس جانا ہے۔ پھر جب ہم دونوں معتز صاحب کے گھر پہنچے تو داخل ہوتے ہی دیوار پر لگی ایک تصویر کو دیکھ کر میں ٹھٹھک کر رہ گیا اور پوچھا کہ یہ کس کی تصویر ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت مسیح موعود امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے کہا کہ میں ابھی بیعت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ کمرے کی دیوار پر لگی یہ تصویر اسی شخص کی تھی جس نے خواب میں مجھے کندھوں سے پکڑ کر دلدل نما مٹی سے نکال کر کہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مختلف ذرائع سے دین کو سمجھنے اور سچائی کے پانے کے لئے راستے کھولتا ہے۔ کبھی خوابوں کے ذریعہ سے اور کبھی تبلیغ کے ذریعہ سے۔ کبھی کسی کو جماعت احمدیہ کی طرف سے اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں کوئی کتاب یا لٹریچر مل جائے تو اسے پڑھ کر۔ کبھی کوئی کسی احمدی کے اخلاق سے متاثر ہو کر احمدیت اور حقیقی اسلام قبول کرتا ہے۔ آج کل بہت سے لوگ ہیں جو ایم ٹی اے کے ذریعہ بھی حقیقی اسلام کا علم پا کر احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ بینن کے مبلغ سلسلہ نے لکھا کہ ایک علاقے کے چیف جو مشرک تھے ان کو تبلیغ کی گئی تو وہ احمدی ہو کر حقیقی اسلام پر عمل کرنے لگ گئے۔ جو دل شرک کی آماجگاہ تھا وہ خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بن گیا بلکہ اتنا ہی نہیں وہ علاقے کے مسلمانوں کو بھی حقیقی اسلام کی دعوت دینے والوں میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ جب ان کے علاقے میں ایک مسجد کا افتتاح ہوا تو اس موقع پر انہوں نے جو خطاب کیا اس کا کچھ حصہ انہی کی زبانی بیان کرتا ہوں۔ وہ چیف جو مشرک تھے اور پھر جو مسلمان ہو گئے کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ غیر احمدی جماعت احمدیہ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ آج جماعت احمدیہ ہی تو اسلام کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچا رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں ایک سال پہلے تک مشرک تھا اور مشرکوں کا بادشاہ تھا۔ جماعت احمدیہ کے مبلغ نے میری سوچ کو بدل دیا اور اسلام کا صحیح چہرہ مجھے دکھایا تو میں اسلام میں داخل ہو گیا۔ اگر جماعت احمدیہ عیسائیوں اور مشرکوں کو اسلام میں لا رہی ہے تو تمہیں اس کی کیا تکلیف ہے۔ کہتے ہیں یہ مسجد تمام لوگوں کے لئے کھلی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لئے اگر ایک عیسائی بھی اس مسجد میں آئے گا تو اس کو روکا نہیں جائے گا۔ تم لوگ مخالفت چھوڑو اور اندر آ کر دیکھو۔ یہاں صرف محبت، امن اور بھائی چارے کا سبق ملے گا۔ جماعت احمدیہ صرف اور صرف دنیا کی بھلائی چاہتی ہے۔ موصوف کہنے لگے کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں یہاں مسجد کے ساتھ ایک مکان بناؤں اور ہر آنے والے کو بتاؤں کہ جماعت احمدیہ ہی سچا اسلام ہے۔

ایک طرف تو وہ لیڈر علماء ہیں جو اسلام کے نام پر فتنہ و فساد پیدا کر رہے ہیں۔ تکبر کے مارے ہوئے ہیں۔ اپنی ذاتی اَناؤں کی وجہ سے مسلمان سے مسلمان کا خون کروا رہے ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کو کسی مشرک کی کوئی نیکی پسند آتی ہے یا اس پر فضل فرماتا ہے تو اسے اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے دعویداروں کے لئے حقیقی اسلامی تعلیم بتانے اور فتنہ و فساد سے بچنے کی تعلیم دینے کے لئے کھڑا کر دیتا ہے۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فعل جو اگر انسان عاجز ہو تو کس طرح اس پر فضل فرماتا ہے۔ لیکن اگر تکبر میں بڑھا ہوا ہے تو لاکھ وہ نمازیں پڑھنے والا ہے، دعائیں کرنے والا ہے، اپنے آپ کو نیک سمجھنے والا ہے، حاجی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نہیں ملتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں جب لوگ آتے ہیں اور حقیقی اسلام کا مزہ چکھتے ہیں تو پھر ان کی حالتوں میں کیا تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی کس طرح رہنمائی فرماتا ہے اور قربانی میں وہ کس طرح بڑھتے ہیں، اس بارے میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ کیمرون کے دورہ کے دوران ایک ریٹائرڈ فوجی نے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ اس فوجی کا تعلق بیمون (Bamoun) قبیلے سے ہے جہاں کے سلطان گزشتہ سال (پچھلے سال انہوں نے لکھا تھا۔ یہ واقعہ دو سال پہلے کا ہے) جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس دفعہ جب کیمرون کا دورہ کیا تو ان صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسجد کے لئے جماعت کو ایک پلاٹ دینا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں میں اور صدر جماعت پلاٹ دیکھنے کے لئے گئے تو دیکھا کہ انہوں نے اس پلاٹ میں ایک بیسمنٹ پہلے سے بنائی ہوئی ہے۔ وہاں تعمیر ہو رہی تھی اور بیسمنٹ بنی ہوئی تھی اور وہ بیسمنٹ کے اوپر مکان تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ موصوف نے بتایا کہ میرے والد جو کہ وفات پا چکے ہیں وہ میری خواب میں آئے اور انہوں نے کہا کہ تم اس جگہ اپنا مکان نہیں بلکہ مسجد بناؤ۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ پلاٹ اور بلڈنگ جو میں نے شروع کی ہے وہ جماعت کے نام کر دوں تا کہ جماعت اس جگہ مسجد تعمیر کر سکے اور یہ پلاٹ کافی بڑا تقریباً ہزار مربع میٹر ہے۔ انہوں نے پلاٹ کے کاغذات بھی جماعت کے نام کر دئیے ہیں۔ ان شاء اللہ مسجد کی تعمیر ہو جائے گی۔

پھر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ کس طرح اسلام کا درد رکھنے والے ایک دور دراز علاقے میں رہنے والے شخص کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کے رائج کرنے کے لئے ایک احمدی مبلغ کو اس کے پاس بھیجا۔ اس کو بیان کرتے ہوئے آئیوری کوسٹ کے ایک معلم ہیں وہ لکھتے ہیں کہ آئیوری کوسٹ ابنگرو (Abengourou) ریجن کے ایک دور افتادہ گاؤں یاؤ کورو (Yadukro) سے سعیدو صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں اسلام ان کے دادا کے ذریعہ آیا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگ اسلام سے دور ہو گئے یہاں تک کہ اسلام برائے نام رہ گیا جیسے عام مسلمانوں کا حال ہے۔ سعیدو صاحب کہتے ہیں کہ میں اکثر دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمائے کہ گاؤں کے لوگ اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ کہتے ہیں رمضان المبارک 2016ء کے آغاز میں یہ دعا کرتے کرتے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بہت درد سے میں نے دعا کی۔ اس کے ایک دو روز بعد ہی جماعت احمدیہ کے مبلغ ہمارے گاؤں آئے اور جماعت کا تعارف کرایا۔ کہتے ہیں یہ بات میرے لئے بہت ایمان افروز تھی کہ ہمارے دورافتادہ گاؤں میں بھی کوئی داعی الی اللہ اس طرح اسلام کے احیائے نَو کا پیغام لے کر آیا ہے۔ مبلغ سلسلہ کے اس دورے کے دوران گاؤں کے 55؍افرادنے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی۔ سعیدو صاحب کہتے ہیں اس طرح جماعت احمدیہ کی بدولت آج ہم اسلام کی صحیح تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ ذرا غور کریں ایک طرف تو ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے لوگ ہیں جو دین کو بھلا کر دنیاوی چیزوں کے لئے بے چین ہیں اور دوسری طرف افریقہ کے علاقے میں ایک دور دراز گاؤں کا رہنے والا ایک شخص جس کے گاؤں تک پکی سڑک بھی شایدنہیں جاتی، جو دنیا کی آسائشوں سے بھی محروم ہے لیکن ایک تڑپ دل میں رکھے ہوئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تڑپ تڑپ کے یہ دعا کرتا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہاں ختم ہو رہی ہے کسی کو بھیج جو ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم پر دوبارہ قائم کرے، اس کے بارے میں بتائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے مسیح محمدی کا ایک غلام اس علاقے تک پہنچتا ہے اور ان کو اسلام کے بارے میں بتاتا ہے کیونکہ آج دنیا کو اگر کوئی حقیقی اسلام سکھا سکتا ہے تو وہی سکھا سکتا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا اور آپ کے ذریعہ سے اسلام کی حقیقت کو پہچانا۔

پس ہم میں سے ہر ایک کا یہ کام ہے کہ درد کے ساتھ اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور ہر شخص تک پہنچانے کے لئے دعائیں بھی کریں اور کوشش بھی کریں۔ کہنے کو تو بہت سے ادارے ہیں، بعض گروہ ہیں، تنظیمیں ہیں جو اسلام کے نام پر کام کر رہی ہیں، تبلیغی جماعت بھی ہے، لیکن تقریباً ہر ایک اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ مخالفت میں ایک دوسرے پر ہر وقت کفر کے فتوے دینے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے کیا اسلام کی خدمت کرنی ہے؟ یہ کام آج مسیح محمدی کے غلاموں کا ہی ہے کہ اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ ہمارا کام تو اللہ تعالیٰ خود آسان کر رہا ہے۔ کسی کو خواب کے ذریعہ سے تو کسی کو کسی اور ذریعہ سے رہنمائی کر رہا ہے۔ پس اگر ہم نے حق بیعت ادا کرنا ہے تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مددگاروں میں بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ہمیں بیعت کے بعد کیسا ہونا چاہئے؟ کیا بننا چاہئے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے‘‘۔ (یعنی ان باتوں میں حصہ دار ہونا، ان برکات میں حصہ دار ہونا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ رکھی گئی ہیں۔) فرمایا کہ ’’اُسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو تر ک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے۔ منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔ ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا اس لئے ظاہری لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ان کے کام نہ آیا تو ان تعلقات کو بڑھانا ضروری امر ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’… محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو اُس انسان (یعنی مرشد) کے ہمرنگ ہو طریقوں میں اور اعتقاد میں۔‘‘ (جس کو مانا ہے جیسا وہ ہے ویسے خود بننے کی کوشش کرو۔) فرمایا ’’…عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہئے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے‘‘ (کہ میں کس طرح زندگی گزار رہا ہوں۔)

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 5۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں کو بھی ایمان و ایقان میں بڑھائے۔ اعتقادی اور عملی لحاظ سے وہ ترقی کرنے والے ہوں۔ جو ایمان کی چنگاری اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں جلائی ہے، لگائی ہے احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرنے کے بعد وہ اس میں بڑھتے چلے جائیں۔ شیطان کبھی بھی انہیں ورغلانے والا نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں ثبات قدم بھی عطا فرمائے۔ اور ہم جو پرانے اور پیدائشی احمدی ہیں ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے ایمانوں کو بڑھانے اور ہر وقت اس میں جلا پیدا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے تعلق میں بڑھنے کی بھی ہمیں توفیق دے۔ کبھی کوئی کسی نئے آنے والے کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنے اور ہم ہمیشہ دنیا کو سیدھا راستہ دکھانے والے ہوں۔ اس بات پر خوش نہ ہوں کہ ہم پرانے احمدی ہیں بلکہ بیعت کا مقصد پورا کرنے والے ہوں۔ دنیاوی سامان ہمارا مطمح نظر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اور ہم جلد از جلد حقیقی اسلام کو دنیا میں پھیلتا ہوا دیکھیں تا کہ دنیا کو بتا سکیں کہ تم جسے دنیا کے لئے نقصان دہ چیز سمجھتے ہو وہی حقیقت میں تمہارے لئے اور دنیا کے لئے نجات کا راستہ ہے۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 ستمبر 2020