• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، حضرت مصلح موعود ؓ کے حوالہ سے ہی مزید بیان فرماتے ہیں:۔
ایک ترک سفیر ایک دفعہ قادیان آیا۔ اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آج سے کئی سال پہلے جب بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے ایک ترکی سفیر یہاں آیا۔ ترکی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے مسلمانوں سے بہت سا چندہ لیا اور جب اس نے جماعت احمدیہ کا ذکر سنا تو قادیان بھی آیا۔ حسین کامی اس کا نام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کی گفتگو ہوئی۔ اس کا خیال تھا کہ مجھے یہاں سے زیادہ مدد ملے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا وہ احترام کیا جو ایک مہمان کا کرنا چاہئے۔ پھر مذہبی گفتگو بھی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کچھ نصائح کیں کہ دیانت و امانت پر قائم رہنا چاہئے۔ لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ (یہی آجکل مسلمان لیڈروں کے لئے مسلمان ملکوں میں ضروری ہے) اور فرمایا کہ رومی سلطنت ایسے ہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرے میں ہے کیونکہ وہ لوگ جو سلطنت کی اہم خدمات پر مامور ہیں اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچے خیر خواہ نہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اسلامی سلطنت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلطان روم (جو ترکی کا بادشاہ تھا یا اس وقت خلافت کہلاتی تھی) کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازے میں ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری کی سرشت ظاہر کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ نصیحتیں کیں تو اس سفیر کو بہت بُری لگیں کیونکہ وہ اس خیال کے ماتحت آیا تھا کہ میں سفیر ہوں اور یہ لوگ میرے ہاتھ چُومیں گے اور میری کسی بات کا انکار نہیں کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس سے یہ کڑوی کڑوی باتیں کیں کہ تم حکومت سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کر کے اس کی غداری کرتے ہو۔ تمہیں تقویٰ و طہارت سے کام لے کر اسلامی حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے تو وہ یہاں سے بڑے غصے میں گیا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسلامی حکومت کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ترکی حکومت میں بعض کچے دھاگے ہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مسلمان عام طور پر دین سے محبت رکھتے ہیں مگر افسوس کہ مولوی انہیں کسی بات پر صحیح طرح غور کرنے نہیں دیتے۔ یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے اور سچائی سے پیار کرتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مولوی انہیں کسی بات پر غور کرنے نہیں دیتے اور جھٹ اشتعال دلا دیتے ہیں۔ اس موقع پر بھی مولویوں نے عام شور مچا دیا کہ ترکی کی حکومت جو محافظ حرمین شریفین ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی ہتک کی ہے۔ جب یہ شور بلند ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں لکھا کہ تم یہ کہتے ہو کہ ترکی کی حکومت مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کرتی ہے۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ ترکی کی حکومت چیز ہی کیا ہے کہ وہ مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کرے۔ مکّہ اور مدینہ تو خود ترکی کی حکومت کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (یہ بیان کر کے پھر آپ نے فرمایا کہ) جس شخص کے دل میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق اتنی غیرت ہو اس کے ماننے والوں کے متعلق کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے تو وہ خوش ہوں۔ ہم تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ تسلیم کیا جائے کہ حقیقی طور پر مکہ اور مدینہ کی کوئی حکومت حفاظت کر رہی ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے۔ کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ظاہری طور پر ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لئے بڑھایا جائے لیکن اگر خدا نخواستہ کبھی ایسا موقع آئے تو اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت جماعت احمدیہ کس طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے۔ ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں۔ ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکّہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا خدا اس شخص کو اندھا کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بَدبِیں آنکھ پھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہو گا۔‘‘

(ماخوذ از خطبات محمود جلد16 صفحہ547تا549۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 1935ء)

(خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2015ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

تین باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں

اگلا پڑھیں

خلافت دائمی نعمت ہے منہاج نبوت پر