• 25 اپریل, 2024

اخلاق روحانیت کا ایک میٹھا پانی پلاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
فرمایا: ’’…اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزشِ اغراضِ نفسانی کے خالصاً للہ ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصاً للہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہورہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریّت کی لوث سے بکلّی خالی پاکر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے…‘‘ (وہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور جو غیریت کی آلودگی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی آلودگی ہے وہ اس سے بالکل پاک ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اخلاق ان میں بھر دیتا ہے۔) ’’…اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کردیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں۔ پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہوجاتے ہیں جس کی توسّط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پاکر وہ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے…‘‘ (یعنی اخلاق کا، روحانیت کا ایک میٹھا پانی پلاتا ہے۔)

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ542۔ 541حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

پھر ایک جگہ قرب الٰہی کے طریق کے بارے میں فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ دھوکا کھانے والا نہیں۔ وہ انہیں کو اپنا خاص مقرب بناتا ہے جو مچھلیوں کی طرح اس کی محبت کے دریا میں ہمیشہ فطرتاً تیرنے والے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی کی اطاعت میں فنا ہو جاتے ہیں۔ پس یہ قول کسی سچے راستباز کا نہیں ہو سکتا…‘‘ (جو بعض مذہبوں کے بعض لوگوں کا اس کے بارہ میں نظریہ ہے۔) ’’کہ خدا تعالیٰ کے سوا درحقیقت سب گندے ہی ہیں اور کوئی نہ کبھی پاک ہوا نہ ہوگا…‘‘۔ فرمایا: ’’…گویا خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عبث پیدا کیا ہے بلکہ سچی معرفت اور گیان کا یہ قول ہے کہ نوع انسان میں ابتدا سے یہ سنت اللہ ہے کہ وہ اپنی محبت رکھنے والوں کو پاک کرتا رہا ہے۔ ہاں حقیقی پاکی اور پاکیزگی کا چشمہ خدا تعالیٰ ہی ہے۔ جو لوگ ذکر اور عبادت اور محبت سے اس کی یاد میں مصروف رہتے ہیں خدا تعالیٰ اپنی صفت ان پر بھی ڈال دیتا ہے تب وہ بھی اس پاکی سے ظلی طور پر حصہ پا لیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات میں حقیقی طور پر موجود ہے‘‘۔

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 210)

پھر آپ نے فرمایا کہ یہ اخلاق فاضلہ اور نیکیاں اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا جو وسیلہ اور نمونہ اور تعلیم خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیراتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اُس امام الرّسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے‘‘۔

(ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170)

پھر اسلام کی حقیقت کیا ہے اور ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کا قرب کس معیار تک پہنچاتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ
’’اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا۔ اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضاء میں محو ہو جانا۔ اور خدا میں گُم ہو کر ایک موت اپنے پروارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا نہ کسی اور بناء پر۔ اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں۔ اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو۔ اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو۔ یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قویٰ اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں۔ …‘‘ (سلوک کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کر کے ہر قسم کی مشکلات میں سے بھی گزرے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔)

پھر فرمایا: ’’…اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اُس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اس کی کُنہ تک نہیں پہنچتیں وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے۔ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق: 17)۔ یعنی ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اُس سے نزدیک ہیں۔ پس ایسا ہی وہ اپنے قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے۔ تب وہ وقت آتا ہے کہ نابینائی دُور ہوکر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے خدا کو اُن نئی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور اُس کی آواز سنتا ہے اور اس کی نُور کی چادر کے اندر اپنے تئیں لپٹا ہوا پاتا ہے۔ تب مذہب کی غرض ختم ہو جاتی ہے اور انسان اپنے خدا کے مشاہدہ سے سفلی زندگی کا گندہ چولہ اپنے وجود پر سے پھینک دیتا ہے۔ …‘‘ (جو گندی زندگی ہے، گندہ چولہ ہے، اس گندگی کا، دنیاوی چیزوں کا جو لباس پہنا ہوا ہے، وہ انسان پھینک دیتا ہے۔ جب اُسے اللہ تعالیٰ کا اتنا قرب حاصل ہو جائے۔ ) ’’…اور ایک نور کا پیراہن پہن لیتا ہے۔ …‘‘ (ایک نیا لباس پہنتا ہے جو نور ہوتا ہے) ’’…اور نہ صرف وعدہ کے طور پر اور نہ فقط آخرت کے انتظار میں خدا کے دیدار اور بہشت کا منتظر رہتا ہے بلکہ اسی جگہ اور اِسی دنیا میں دیدار اور گفتار اور جنت کی نعمتوں کو پا لیتا ہے۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 160۔ 161)

(خطبہ جمعہ 2؍ مئی 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2021