• 25 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 2)

ارشاداتِ نور
قسط 2

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

اَلْقَولُ الْفَصِیْحُ فِی تَائِیْدِ الْمَسِیْحِؑ

آج مجھے ایک نہایت ہی لطیف سوال اور اس کا نہایت ہی لطیف جواب پہنچا ہے چونکہ وہ ایک علم اور معرفت کا نکتہ ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو بھی اس سے آگاہ کروں۔ وھو ھٰذا

حضرت ام المؤمنین نے حضرت اقد سؑ سے آپؑ کی زندگی میں یہ سوال کیا کہ ہم لوگ آپؑ کے واسطے آپؑ کی زندگی میں اور بعد الموت کس رنگ میں دعا کریں ؟

نفس سوال ہی کس شان کا ہے؟ صاحب ذوق لوگ اس کو خوب سمجھتے ہیں مگر اس کے جواب سے جس ایمان اور صداقت کا ثبوت ملتا ہے وہ نہایت ہی پر ذوق اور وجد انگیز ہے۔

اس سوال کے جواب میں حضرت اقد سؑ نے فرمایا کہ میرے واسطے جب جب بھی کوئی دعا کرے تو ان الفاظ میں کرے کہ جب نبی کر یم ؐ کے واسطے دعا کرے اور آ پؐ پر درود بھیجے تو ہمارے واسطے بھی ان الفاظ میں اللہ جلّشانہ کے حضور التجا کرے کہ

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى خُلَفَآءِ مُحَمَّدٍ

اب ظاہر ہے کہ اس میں حضرت اقدسؑ نے اپنا نام یا کوئی اور خصوصیت نہیں کی بلکہ صرف خلفائے محمد کے واسطے دعا کا ارشاد فرمایا۔ غور کرنے والے دل اور ایک پاک دل اور خدا ترس متقی انسان کے واسطے صرف یہی ایک امر آپؑ کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کا کافی ثبوت ہے۔

ظاہر ہے کہ اگر (نعوذ باللہ) آپؑ کے یہ تمام دعاوی از خود ساختہ اور افترا ہی ہوتے توآپؑ ان الفاظ میں دعا کرنے کے واسطے ہرگز ہر گز نہ فرماتے بلکہ نام وغیرہ کی خصوصیت کی قید ضرور لگاتے۔ پس موجودہ صورت جواب اس امر کی ایک روشن دلیل ہے کہ حضرت اقدسؑ کو اپنے مامور من اللہ اور خلیفۃ اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانشین ہونے کا یقین کامل تھا اور آپؑ کو پورا وثوق اور بصیرت حاصل تھی کہ آپ کا نام آسمان پر خدائی دفتر میں خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم درج ہے اور ضروری ہے کہ جب کوئی مومن صد قِ دل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ ؐکے خلفاء کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرے گا تو آپؑ کو ان دعاؤں کا اثر ضرور پہنچے گا۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ11-12)

قابل قدر دلی ایمان ہے

ملک عادل شاہ صاحب نے ترنگ زئی سے مجھے خط لکھا کہ حضرت خلیفہ صاحب اپنے نام کے ساتھ لفظ احمد لکھا کریں تو خوب ہو۔ (یعنی نور الدین احمد) فرمایا۔

آجکل یہ رواج ہے کہ لوگ اس طرح کے ناموں کے ساتھ لفظ احمد بڑھا دیتے ہیں یعنی سراج الدین احمد وغیرہ اور کوئی لکھ دے تو میں اس کو برا نہیں مناتا۔ لیکن میرے نزدیک یہ صرف ظاہری باتیں ہیں ان کی ضرورت نہیں۔ میرے لیے وہ ایمان کافی ہے جو میرے دل میں ہے اور خود لفظ نور الدین اپنے معنوں میں بہت بڑا لفظ ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ26)

فضیلت کی نسبت بحث فضول ہے

میں نے ایک دفعہ خواب میں حضرت علیؓ کو دیکھا ان سے عرض کیا کہ فضیلت کے جھگڑے نے اسلام کو جو صدمے پہنچائے ہیں وہ کم نہیں۔ اصل معاملہ کیا ہے؟ فرمانے لگے ہر شخص کا جناب الہٰی سے دلی تعلق ہوتا ہے اسی لحاظ سے فضیلت ہوتی ہے مگر یہ تعلق ایسا مخفی راز ہے کہ سوا اس ذات باری تعالی ٰکے اور کسی کو معلوم نہیں۔ پس اس امر کی نسبت بحث ہی فضول ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ97-98)

خاص مسئلہ کے ساتھ نصیحت کی عام بات

فرمایا۔ قرآن کریم میں خاص مسئلہ کے ساتھ ایک عام بات نصیحت کی بھی ضرور ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ جسے اس خاص مسئلہ کی ضرورت نہیں وہ بھی قرآن سننے میں دلچسپی لے سکے۔ مثلا طلاق کے مسئلہ میں وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: 3-4)۔ فقہاء کے باب کی طرح نہیں کہ جو ایک ہی مسئلہ چلا جائے اور کسی مسافر یا غیر مسلم وغیرہ کو کسی قسم کی نصیحت حاصل نہ ہو۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ120)

آنحضرتؐ کی اطاعت قرآن

لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ (الطلاق: 2) پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کر یمؐ جب اپنی ازواج پر ناراض ہوئے تو خود گھر سے نکل گئے مگر ان کو نہیں نکالا۔ قرآن کریم کی اس درجہ کی اطاعت دیکھ کر نبی کر یمؐ پر درود پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ120)

بڑی عمر میں حفظ قرآن

ایک شخص یہاں آیا جو میری محبت سے معمور نظر آتا تھا میں نے اسے پوچھا تو اس نے کہا۔ آپ نے ایک دفعہ درس میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ جتنا قرآن ہر روز یاد کرے تو 7 سال میں حافظ ہو جائے۔ میں نے اس پرعمل شروع کیا۔ اب ستائیسواں پارہ حفظ کرتا ہوں۔ دیکھو ہماری بات ضائع نہ گئی۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ184)

اعتداء فی الدعا کی تین اقسام

اعتداء فی الدعا کی تین قسم ہے۔ ایک چِلاّ کر دعا مانگنا اس لیے فرمایا۔ اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً (الاعراف: 56)۔ دوم۔ ایسی طرز کی دعا جو قرآن مجید و سنت نبوی کے خلاف ہو مثلاً ایک شخص جو عہد نبوی میں دعا کر رہا تھا۔ اے خدا مجھے بہشت نصیب کر اور اس میں ایسے مکان ہوں۔ نبی کر یمؐ نے اسے منع فرمایا کہ تو جنت الفردوس مانگ لے۔ ایسا ہی اس قسم کی دعائیں کہ مجھے خدا بنا دے یا عورت بنا دے وغیرہ۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدود کی پرواہ نہ کرنا اور دعا ہی کئے جانا۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ193)

سب سے بڑا گناہ

فرمایا کہ گناہ تو ہر وقت کا برا ہے۔ مگر وہ گناہ سب سے برا ہے کہ جب کوئی مامور اصلاح کے لیے آیا ہو تو اس کی اصلاحوں کی مخالفت کی جاوے۔ وہ وقت خاص طور پر توجہ الہٰی کا ہوتا ہے۔ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا (الاعراف: 57)

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ193)

اپنے اخلاق درست کرو

فرمایا۔ انسان کے اپنے ہی اخلاق موجب بہشت یا موجب دوزخ ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنے اخلاق کو درست کر لیتا ہے وہ بہت ہی سکھی رہتا ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ227)

(مرسلہ : فائقہ بشریٰ)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر 25)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جنوری 2022