• 16 اپریل, 2024

قرآن اور حدیث

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’احادیث کا قدر کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں اور جب تک قرآن اور سنّت ان کی تکذیب نہ کرے تم بھی ان کی تکذیب نہ کرو بلکہ چاہئے کہ احادیث نبویہؐ پر ایسے کاربند ہو کہ کوئی حرکت نہ کرو اور نہ کوئی سکون اور نہ کوئی فعل کرو اور نہ ترک فعل۔ مگر اس کی تائید میں تمہارے پاس کوئی حدیث ہو لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہو جو قرآن شریف کے بیان کردہ قصص سے صریح مخالف ہے تو اس کی تطبیق کے لئے فکر کرو شائد وہ تعارض تمہاری ہی غلطی ہو اور اگر کسی طرح وہ تعارض دور نہ ہو تو ایسی حدیث کو پھینک دو کہ وہ رسولﷺ کی طرف سے نہیں ہے اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو اس حدیث کو قبول کر لو کیونکہ قرآن اس کا مصدق ہے اور اگر کوئی ایسی حدیث ہے جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہے مگر محدثین کے نزدیک وہ ضعیف ہے اور تمہارے زمانہ میں یا پہلے اس سے اس حدیث کی پیشگوئی سچی نکلی ہے تو اس حدیث کو سچی سمجھو اور ایسے محدثوں اور راویوں کو مخطی اور کاذب خیال کرو جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف اور موضوع قرار دیا ہو ایسی حدیثیں صدہا ہیں جن میں پیشگوئیاں ہیں اور اکثر ان میں سے محدثین کے نزدیک مجروح یا موضوع یا ضعیف ہیں پس اگر کوئی حدیث اُن میں سے پوری ہو جائے اور تم یہ کہہ کر ٹال دو کہ ہم اس کو نہیں مانتے کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے یا کوئی راوی اس کا متد ّین نہیں ہے تو اس صورت میں تمہاری خود بے ایمانی ہوگی کہ ایسی حدیث کو رد کر دو جس کا سچا ہونا خدا نے ظاہر کر دیا۔ خیال کرو کہ اگر ایسی حدیث ہزار ہو اور محدثین کے نزدیک ضعیف ہو اور ہزارپیشگوئی اس کی سچی نکلے تو کیا تم ان حدیثوں کو ضعیف قرار دے کراسلام کے ہزار ثبوت کو ضائع کر دو گے پس اس صورت میں تم اسلام کے دشمن ٹھہرو گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الجن:28 ،27) پس سچی پیشگوئی بجز سچے رسول کے کس کی طرف منسوب ہوسکتی ہے کیا ایسے موقع پر یہ کہنا مناسب حالت ایمانداری نہیں ہے کہ صحیح حدیث کو ضعیف کہنے میں کسی محدث نے غلطی کھائی اور یا یہ کہنا مناسب ہے کہ جھوٹی حدیث کو سچی کر کے خدا نے غلطی کھائی۔ اور اگر ایک حدیث ضعیف درجہ کی بھی ہو بشرطیکہ وہ قرآن اور سنّت اور ایسی احادیث کے مخالف نہیں جو قرآن کے موافق ہیں تو اس حدیث پر عمل کرو لیکن بڑی احتیاط سے حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19ص 63)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ