• 20 اپریل, 2024

مکرم مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب مرحوم مربی سلسلہ

یاد رفتگان
مکرم مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب مرحوم مربی سلسلہ کی یاد میں

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے جانثار عطا فرمائے جنہوں نے عشق الٰہی اور اطاعت رسول میں فنا ہو کر دین کی راہ میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ خلافت سے محبت اور کامل اطاعت نے ان کی ہستیوں کو جگمگا دیا۔ انہیں جانثاروں میں ایک محترم و مکرم مولانا محمد اعظم صاحب اکسیر مرحوم بھی تھے ۔آپکے خاندان میں احمدیت کا پودا 1909ء میں آپ کے دادا جان محترم محمد رمضان صادق صاحب کے ذریعے لگا۔ آپ کے نانا جان حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب جلالپوری رضی اللہ تعالی عنہ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے۔ آپ کی ولادت 4اکتوبر 1940 میں ہوئی۔ شاہد کی ڈگری 1969 میں اور مولوی فاضل 1971 میں پاس کیا۔ بطور مربی سلسلہ انچارج ضلع نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد میں مقیم رہے۔ بے شمار مناظروں میں شرکت کی۔ انگریزی ترجمہ قرآن کریم کی طباعت اور پنجابی ترجمہ قرآن مجید کی تیاری میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مختلف رسائل میں بیشمار مضامین لکھے۔ مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق پانے کے بعد آپ بطور نگران متحصّصین تحریک جدید ربوہ کے خدمت سر انجام دےرہے تھے۔

90 کی دہائی میں آپ ایم۔ٹی۔اے پر صحابہ کرامؓ کے بارے میں پروگرام پیش کیا کرتے تھے۔ اندازِ بیان نہایت سادہ اور دلچسپ تھا کہ آخر تک دلچسپی برقرار رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان میں بہت روانی اور سلاست عطا کی تھی۔

میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ نہ صرف خلیفہ وقت سےملاقات اور خطوط کے ذریعے اپنا اور بچوں کا ذاتی تعلق قائم کیا جائے بلکہ ’’صحبتِ صالح ترا صالح کند‘‘ کو مدّنظر رکھتے ہوئے بزرگانِ جماعت سے بھی بچوں کی ملاقات کروائی جائے اور ان کی نیک صحبت سے فائدہ حاصل کیا جائے۔

جلسہ سالانہ جرمنی 2002 کے موقع پر میرے میاں اور بڑا بیٹا آپ سے ملاقات کرنے گئے مگر آپ کی مصروفیت کے باعث ملاقات نہ ہو سکی جس پر آپ کے نام ایک خط چھوڑآئے۔ کچھ عرصے کے بعد پاکستان سے آپ کا دعاؤں بھرا خط موصول ہوا اور یوں آپ سے پیار و شفقت کے تعلق کا آغاز ہوا ۔

آپ کی شخصیت کی نمایاں خوبی اللہ تعالیٰ سے محبت اور عاجزی و انکساری تھی۔آپ گفتگو کے آغاز اور اختتام پرٹھہر ٹھہر کر مکمل سلام کیا کرتے جو کہ نہایت خوشی کا باعث ہوتا ۔بچوں سے بہت پیار سے بات کرتے حال احوال پوچھتے اور بےشمار دعائیں دیتے۔ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بڑے طریقے سے سمجھاتے۔ ایک دفعہ میرے ذکر کرنے پر کہ میرا بیٹا قرآن کریم کا نسخہ جو کہ گجراتی زبان میں ہے خرید کر لایا ہے حالانکہ گجراتی زبان پڑھنی نہیں آتی۔ آپ نے نہایت شفقت سے مجھے سمجھایا کہ فکر نہ کریں میرے دادا جان مرحوم کی بھی بہت کتابیں ایسی تھیں جو کہ انہوں نے خریدیں تھیں ان کی وفات کے بعد ہم نے کھولیں حتیٰ کہ ان کے صفحے بھی آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ سمجھانے کا مطلب یہ تھا کہ یہ سب ضائع نہیں جائے گا بلکہ وقت آنے پر بہت اچھا استعمال ہو گا۔ بچوں سے گاہے بگاہے آپ کی بات کرواتی رہتی ۔آپ کےہر جملے میں خدا تعالیٰ سے محبت اور حسن ظنّی کا جلوہ نظر آتا تھا۔ میری کسی بات پر فرمانے لگےکہ اللہ تعالیٰ تو ذرّہ نواز ہےجو انسان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کوکبھی ضائع نہیں کرتا۔

قادیان جلسہ سالانہ پر جب تشریف لے جاتے تو جلسہ کے اختتام پر قادیان سے فون کرتے، کامیاب جلسہ کی مبارک دیتے اور بتاتے کہ میں نے آپ سب کو دعاؤں میں یاد رکھا ہے۔ ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہوتی کہ قادیان کی بابرکت بستی سے ہمیں فون آیا ہے۔ درویش قادیان کا ذکر بہت محبت سے کیا کرتے تھے۔ فون پر آپ کی آواز سن کر بہت خوشی ہوتی۔ جماعت کی بزرگ ہستی ہونے کے باوجودکبھی آپ کے رویے سے بڑائی کا اظہار نہیں ہوا۔ بڑے پیار سےبات سنتے جب تک ہماری تسلی نہ ہو جاتی آپ فون بند نہ کرتے اور پورا وقت دیتے بعض دفعہ اپنی اہلیہ سے بھی بات کرواتے۔ آپ کی طبیعت میں مزاح کا عنصر بھی تھا۔

2014 میں میرے میاں اور بیٹے آپ سے ربوہ میں ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہوئے تو بہت محبت سے بیٹے کو اپنے پاس بٹھایا ۔دورانِ ملاقات آپ نے اپنے دادا جان محترم محمد رمضان صادق صاحب مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید کا ایک نسخہ دکھایا اور بتایا کہ میں جماعتی کام سے کسی گاؤں میں گیا ہوا تھا ۔احمدیہ مسجد کی الماری دیکھ رہا تھا کہ وہاں یہ نسخہ مل گیا جو خود انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔ میرے بیٹے نے بتایا کہ نہایت خوبصورت تحریر تھی۔ پھر فرمانے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہےکہ مجھ جیسے عاجز انسان کو اس جگہ پر بٹھایا ہے۔ آپ سائیکل پر دفتر آیا جایا کرتے تھے۔ گھر جاتے ہوئے اپنی سائیکل کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ میری گاڑی ہے۔

آپ کوتعبیر الرؤیاکا بھی ملکہ حاصل تھا۔جب کوئی خواب بتاتی تو نہایت فراست سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ تعبیر الرؤیا کے بارے میں آپ کی کتاب اسلامی لٹریچر میں ایک مفید اضافہ ہے۔

اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بھی بہت پیار و محبت کا تعلق تھا۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی آواز میں بہت خوشی ہوتی۔

مکرم عمران احمد صاحب (واقفِ زندگی) جو آپ کے ساتھ تحریک جدید میں کام کیا کرتے تھے وفات سے ایک دن قبل عیادت کے لئے جب ہسپتال تشریف لے گئے تو آپ نے انہیں فرمایا کہ آج میری طبیعت ٹھیک ہے۔ کل چھٹی مل جائے گی پرسوں میں کام پر آ جاؤں گا۔ جماعت کی خدمت کا اتنا جذبہ و جنون تھا ۔ آخری بیماری کے دوران ہسپتال سے فون کر کے آپ نے اپنی خیریت بتائی تا کہ ہم پریشان نہ ہوں۔ آپ نے ایک بار فرمایا کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کو یاد کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔

اسی بیماری کے دوران 25 مئی 2016ء کو آپ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔ آمین ثم آمین

(عظمیٰ ربّانی – یو کے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2021