• 20 اپریل, 2024

مکرم افضال احمد عابد کی یاد میں

مکرم افضال احمد عابد آف جرمنی مورخہ 5 جنوری 2020ء کو وفات پا گئے۔ آپ کی عمر 65 سال تھی۔ آپ 26 جنوری 1957 ء کو کوٹ احمدیاں ضلع بدین میں پیدا ہوئے۔

آپ مکرم چوہدری منیر احمد کے بیٹے اور مکرم چوہدری غلام حیدر کے پوتے تھے۔ اِسی طرح آپ مکرم اقبال احمد منیر مربی سلسلہ گلشن جامی کراچی کے بڑے بھائی اور مکرم مغفور احمد منیب سابق مبلغ جاپان کے برادر نسبتی تھے۔

مکرم فرید احمد نوید پرنسپل جامعہ احمدیہ غانا مرحوم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کے خاندان کا تعلق تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور انڈیا سے تھا۔ جو پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی ہجرت کرکے سندھ آگیا تھا اور کوٹ احمدیاں جماعت اسی خاندان کے ذریعہ قائم ہوئی تھی۔ آپ کے پڑدادا حضرت چوہدری مولا بخش نے خاندان میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کی تھی۔ اُن کی بیعت 1895ء یا اس سے پہلے کی ہے۔ کیونکہ مرحوم کے دادا جان مکرم چوہدری غلام حیدر بہشتی مقبرہ ربوہ (دارالفضل) میں مدفون ہیں۔ اُن کے کتبہ پر اُن کی تاریخ پیدائش 1895 ء لکھی ہے اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ وہ پیدائشی احمدی تھے۔

ویسے تلونڈی جھنگلاں کا سارا گاؤں حضرت حکیم مولوی رحیم بخش آف گورداسپور کی تبلیغ سے احمدی ہوا تھا۔ یہ وہی مولوی رحیم بخش صاحب ہیں جن کے دو بیٹے ڈاکٹر عبد القدوس اور ڈاکٹر عبد القدیر کو ضلع نواب شاہ میں شہید کردیا گیا تھا۔

آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کی میّت ربوہ لے جائی گئی۔ بہشتی مقبرہ (دارالفضل) میں آپ کی تدفین ہوئی۔

خاکسار جب نائے ویڈا آیا تو معلوم ہوا کہ قریب ہی 10-8 کلومیٹر کے فاصلہ پر مرحوم کی ذاتی رہائش تھی۔ اُس جگہ کا نام پلائیڈ ہے۔ یہ جماعت آپ ہی کے ذریعہ قائم ہوئی اور آپ گیارہ سال تک مسلسل اس کے صدر رہے۔ یہ 1986 ء کی بات ہے جب احباب جماعت کی تعداد نوئے ویڈ شہر میں زیادہ ہوگئی تو پھر 1997 ء میں پلائیڈ کی بجائے جماعت کا نام نوئے ویڈ رجسٹر ہو گیا۔

میری آپ سے پہلی ملاقات آپ کے گھر پلائیڈ میں ہی ہوئی تھی۔ خاکسار کوبلنز سے اپنے بھائی کے ساتھ مرحوم کی والدہ صاحبہ کی وفات پر تعزیت کےلئے آیا تھا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ملاقات تو ہوتی رہی مگر نوئے ویڈ شہر آنے کے بعد آپ سے دن بدن روابط بڑھتے رہے۔ تعلق مضبوط ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ہمارا رابطہ ہر وقت رہنے لگا۔ میں نے اُن کو ایک مخلص، صاف گو، وعدوں کا پابند، سچا ہمدرد اور مہربان تعاون کرنے والا دوست اور بھائی پایا۔ مربیان کرام کا تو بہت احترام کرتے تھے۔ مربیان کی خدمت کرکے بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔ آپ کے اخلاق ہی آپ کی یادوں کو تازہ رکھنے کا بڑا ذریعہ اور محرک ہیں۔ آپ کی بے لوث محبتوں اور مروتوں کے ہم مقروض ہیں۔ یہ ایسا قرض ہے جو آسانی سے چُکایا نہیں جا سکتا۔

میں نے اُن کی جن خوبیوں کا مشاہدہ کیا ۔ اُن میں مہمان نوازی کا جذبہ بے مثال تھا۔ جاب بھی تھی۔ جو بہت مشقت والی تھی۔ وہ بھی اس عمر میں باقاعدہ کررہے تھے۔ احمدیت کے لئے بڑے دلیر اور غیرت مند تھے۔ پُر جوش داعی اِلی اللہ بھی تھے۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی آپ کے زیر تبلیغ رہتا تھا۔ خدمت خلق میں بھی ہمہ تن مصروف رہتے۔ آپ کی بے لوث مصروفیات دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہوتے تھے اور جو بھی کام ہوتے اُن میں حتی الامکان تعاون کرتے۔ نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اور نیکی کے کام کو شوق سے کرتے تھے۔ کام کسی کا بھی ہو ٹال مٹول کی عادت نہیں تھی۔ جماعتی کاموں کو ذاتی مصروفیت پر سوائے اشد مجبوری کے ترجیح دیتے تھے۔ تلخی کی زندگی کو آپ نے صدق سے قبول کیا ہوا تھا۔ جرمنی میں آپ نے تقریباً 35 سال محنت اور مشقت کے رنگ میں گزارے۔ آپ کی زندگی جہد مسلسل کی عمدہ مثال تھی۔ آپ کا گھر مسجد نوئے ویڈ سے 10-8 کلومیٹر دور تھا۔ سردی میں نماز فجر کےلئے جب آتے تو کوشش کرتے کہ کسی کو ساتھ لیتے جائیں۔

باجماعت نماز کے پابند تھے، تہجد گزارتھے، دعا گو بھی تھے۔ نماز جمعہ پر مسجد سے پہلے مسجد آنے کی کوشش کرتے تھے۔ پہلی اذان دے کر سیکیورٹی کی ڈیوٹی کرتے۔ جب خدام ڈیوٹی پر آجاتے تو پھر آپ اندر آجاتے تھے۔ 5 جنوری کو وفات ہوئی۔ 3 جنوری کا جمعہ آپ نے ’’بیت الرحّیم‘‘ نوئے ایڈ میں پڑھا۔ اُس دن بھی اذان آپ ہی نے دی۔ وفات کی رات سونے سے پہلے تقریباً پونے گیارہ بجے تک خاکسار سے فون پر بات ہوتی رہی۔ اُسی رات سونے سے پہلے ایک بکرا صدقہ کی اپنی طرف سے رسید بھی کٹوائی۔ صدقہ کی رقم بھی رات ہی کو بھجوادی۔ پھر جب سوئے ہیں تو ابدی نیند ہی سو گئے۔ خلوصو وفا اور ایثار و فدائیت کے لبادے میں لپٹا ہوا ہمارا دوست، ہمارا بھائی اب بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودہ خاک ہے۔

تقریباً گیارہ سال آپ صدر جماعت رہے۔ پھر بطور سیکرٹری تربیت، سیکرٹری تبلیغ، سیکرٹری امور عامہ بھی رہے۔ پھر زعیم مجلس انصاراللہ نوئے ویڈ اور ناظم علاقہ انصاراللہ بھی رہے۔ ہر کام بڑی تیزی سے کرتے تھے۔ جماعتی مفاد کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اور اس کے لئے جو ممکن ہوتا وہ کرتے تھے۔

خلیفہ وقت کی خدمت میں باقاعدگی سے خط لکھتے تھے، اتوار 5 جنوری آپ کی وفات ہوئی اور ایک دن پہلے 4 جنوری کو بھی آپ نے حضور انور کی خدمت میں دو عدد دعائیہ خط لکھے۔

خلافت سے عقیدت اور محبت کا رنگ نرالا تھا۔ جب بھی خلیفۃ المسیح جرمنی آتے تو مرحوم کی پوری کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ باجماعت نمازیں حضور انور کی مبارک اقتداء میں ادا ہوں۔ اسی طرح ہالینڈ، بیلجئم، فرانس میں بھی جب امام وقت تشریف لاتے تو آپ وہاں بھی اپنی اہلیہ محترمہ، ایک بیٹی اور اس کے بچوں کو ساتھ لے کر پہنچ جاتے۔ جلسہ سالانہ انگلستان میں بھی ہر سال اپنی گاڑی پر جاتے تھے۔ بیت السبوح فرینکفرٹ میں جب حضور انور کا قیام ہوتا تو مرحوم تقریباً سو میل کا سفر کرکے نماز فجر پر پہنچ جاتے اور اپنے دو نواسوں کو بھی زیادہ تر ساتھ لے جاتے تھے۔

مالی قربانی میں بھی آپ کا شمار صف اوّل کے مجاہدین میں رہا۔ آپ کا بجٹ آمد کے مطابق رہا۔ تحریکات میں آپ کے وعدے ہمیشہ میعاری رہے۔ اپنے چندے بر وقت ادا کرتے رہے۔ محنت سے کماکر خدا تعالیٰ کی راہ میں بشاشت قلبی کے ساتھ خرچ کرتے رہے۔ ہر مد اور تحریک میں حصہ لینے کی کوشش کرتے تھے۔

جب بھی مسجد آتے تو چندہ ادا کرتے نظر آتے۔ الغرض مرحوم بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ اہل خانہ، عزیز و اقارب اور رحمی رشتوں کا بھی بہت خیال رکھا۔

مرحوم نے لواحقین میں اپنی اہلیہ محترمہ قیصرہ عابد بنت مکرم چوہدری منور احمد خالد آف کوٹ احمدیاں ضلع بدین سندھ پاکستان سابق مینیجر اسٹیٹس (سندھ) حال مقیم کوبلنز (جرمنی) کے علاوہ تین بیٹے مکرم فرید احمد عابد آف پلائیڈ(جرمنی)، مکرم ذیشان احمد عابد حال مقیم یوکے، مکرم ابدال احمد عابد آف پلائیڈ (جرمنی) اور تین بیٹیاں مکرمہ فریحہ احمد عابد حال صدر لجنہ اماء اللہ کوبلنز جرمنی (حلقہ سٹی) اہلیہ مکرم منظر مسعود، مکرمہ فائزہ احمد عابد زوجہ مکرم ابرار احمد، مکرمہ ماریہ احمد عابد اہلیہ مکرم ثاقب احمد نیز دو پوتیاں، پانچ نواسے اور تین نواسیاں یادگار چھوڑی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین

(ریاض محمود باجوہ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020