• 25 اپریل, 2024

رمضان المبارک کی روحانی اور پرمسرت یادیں (قسط دوئم و آخر)

رمضان المبارک کی روحانی اور پرمسرت یادیں
(قسط دوئم و آخر)

خاکسار نے نیانکروم میں مکرم اسحاق صاحب سے دوستی کر لی تھی جو میرے لئے وہاں ترجمہ کے فرائض ادا کرتے تھے۔ میں نے انہیں بلوا لیا چنانچہ خاکسار جب تک کوفوریڈوا میں رہا مکرم اسحاق صاحب میرے ساتھ رہے۔ اور بڑی وفاداری کے ساتھ انہوں نے میری خدمت کی ہے۔ نہ صرف خدمت بلکہ میرے پاس رہنے سے ان کی اتنی ٹریننگ ہو گئی تھی کہ میں انہیں دوسری جماعتوں میں وقتاً فوقتاً جمعہ پڑھانے کے لئے بھی بھیج دیتا تھا۔

یہاں پر شہر کا ماحول تھا اور اچھا خاصا بڑا شہر تھا۔ یہاں پر بھی رمضان المبارک میں روزانہ قرآن شریف اور حدیث کا درس جاری رہا۔ مکرم اسحاق صاحب کے علاوہ جماعت میں کچھ اور خدام بھی میسر آگئے تھے۔ مثلاً جنرل سیکرٹری صاحب، قائد خدام الاحمدیہ مکرم صادق صاحب جو ترجمانی کرتے تھے اور ایک سرکٹ مبلغ جن کو اچھی طرح سے بائبل پر عبور تھا۔ ان کا تبادلہ خاکسار نے کوفوریڈوا میں ہی کچھ عرصہ کے لئے کر لیا۔ ان کا نام سرکٹ مشنری سعید تھا۔ ان کے ساتھ بھی خاکسار نے انگریزی سیکھنے اور خصوصاً بائبل کے انگریزی میں حوالہ جات اور بائبل کے بارہ میں معلومات ان سے کافی حد تک سیکھی ہیں۔ ان کو میں اپنے ساتھ دورہ پر بھی لے جاتا تھا۔ ان کو میرے لہجہ کی سمجھ آگئی تھی اور مجھے ان کے لہجہ کی۔ جس سے کام میں آسانی پیدا ہو گئی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

ہاں یہ بات بھی بتانے والی ہے کہ ہر جگہ اس وقت تک جن مقامات کا ذکر ہوا ہے خاکسار رمضان میں 5 نمازوں کے علاوہ تراویح بھی خود ہی پڑھاتا تھا جس کی وجہ سے قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی یاد کرتا تھا۔ اس طرح کوفوریڈوا میں 3 رمضان گزارنے کا موقع ملا اور یہی روٹین ہوتی تھی۔ بعض نوجوان خاکسار کے زمانہ میں یہاں احمدی ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک لمبے عرصہ تک مکرم اسحاق صاحب کا میرے ساتھ رابطہ رہا لیکن اب کچھ عرصہ سے ختم ہو چکا ہے۔ وہ بیمار رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔

سیرالیون میں رمضان المبارک

خاکسار 1982ء میں گھانا سے سیرالیون آیا یہاں پر مکرم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری امیر اور مشنری انچارج تھے۔ ان کے ساتھ مکرم فضل الٰہی صاحب عارف بھی تھے۔ یہاں پر کچھ دن محترم امیر صاحب نے خاکسار کو فری ٹاؤن مشن ہاؤس ہی میں رکھا تا یہاں کے حالات، جماعت اور موسم اور دیگر چیزوں سے واقفیت اور مانوسیت ہو جائے۔

گھانا میں بھی خاکسار بغیر فیملی کے تھا اور یہاں بھی گھانا سے سیدھا سیرالیون آیا۔ میری فیملی ابھی پاکستان ہی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی طرف سے تبشیر نے جو امیر صاحب گھانا کو تار بھیجا تھا اس میں تحریر تھا کہ شمشاد سیرالیون جائے ان کی فیملی پاکستان سے سیرالیون جائے گی۔ مکرم حمید احمد صاحب ظفر پاکستان آئیں اور فیملی لے کر نائیجیریا جائیں۔

چنانچہ خاکسار 1982ء کے ستمبر میں گھانا سے سیرالیون آیا۔ محترم امیر و مشنری مکرم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری مرحوم نے خاکسار کی ڈیوٹی بطور ریجنل مبلغ مگبور کا میں لگائی۔ یہ نارتھ کا علاقہ ہے اور یہاں ٹمنی زبان بولی جاتی ہے۔ میرے ریجن میں مگبورکا کے علاوہ ماٹا ٹوکا ، مکینی، مسگنبی، صفادو، مکالی، کبالا کی جماعتیں تھیں۔

یہاں پر چھوٹا سا بڑا مختصر مشن ہاؤس تھا۔ محترم امیر صاحب کی اجازت سے اس کی مرمت وغیرہ کرائی گئی۔ نیز فیملی کے آنے سے پہلے اس کو فیملی کے رہنے کے قابل بنایا۔ یہاں پر مشن ہاؤس میں پانی نہ تھا، بلکہ باہر سے لانا پڑتا تھا۔ نہر یا سوامپ سے یا کسی کے کنویں سے، بارشوں کے موسم میں مکان کی چھت سے پانی اکٹھا کرلیا جاتا تھا۔

یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 3رمضان گزارے ہیں۔ اس شہر کی بھی ملی جلی آبادی تھی۔ زیادہ عیسائی تھے اگرچہ مسلمان بھی تھے ان کے بھی مختلف فرقے تھے، وہاں پر بھی رات کو تہجد اور سحری اٹھانے کے لئے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ آوازیں دیتے پھرتے تھے۔ ہماری مسجد کے بالکل سامنے مسلم برادرہڈ کے لوگ جو کہ مصری تھے، بالائی منزل میں رہتے تھے۔ وہ مسلم برادر ہڈ کے سکولوں میں پڑھاتے تھے۔ ہم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے یا درس میں مصروف اور یہ مصری مسلمان بالکونی میں سامنے بیٹھ کر سگریٹ نوشی اور کافی وغیرہ پی رہے ہوتے تھے۔ دین پر عمل کا بہت تھوڑا حصہ ہو گا جو وہ عمل کرتے ہوں گے ورنہ رمضان میں بھی ان کی یہی کیفیت ہوتی تھی۔

شہر میں شاید بجلی روزانہ ایک دو گھنٹہ سے کم وقت کے لئے آتی تھی۔ گھر میں کھانا وغیرہ کوئلوں پر یا لکڑی یا مٹی کے تیل کے چولہے پر بنتا تھا۔

یہاں پر کھانے کی بڑی دقّت رہی کچھ عرصہ کیونکہ مقامی کھانے کو دل نہیں کرتا تھامگر کچھ ہی دنوں میں مقامی کھانے سے مانوسیت ہو گئی اور اب سیرالیون کو چھوڑے ہوئے 34 سال ہو گئے ہیں لیکن اس کھانے کی لذت اب بھی کم نہیں ہوئی۔ اس کھانے کا نام پلاسس ہے۔ یہ سبز پتے، گوشت اور پام آئل سے بنتا ہے۔ ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے اس میں بے پناہ لذت ہے۔ میں امریکہ آکر بھی جہاں جہاں جس جماعت میں رہاں ہوں وہاں سیرالیون اور گھانین لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہوں اور یہ کھانا ان سے پکوا لیتا ہوں۔

اس وقت بات صرف رمضان کی ہو رہی ہے۔ یہاں پر بھی بھرپور طریق سے رمضان المبارک گزرے۔ درس بھی دیا، قرآن کا بھی، حدیث کا بھی اور روزنامہ الفضل سے جو ربوہ سے پیکٹوں کی صورت میں دو تین ہفتوں بعد آتا تھا، سے ملفوظات کا درس اور مرکز کی خبریں بھی سنائی جاتی تھیں۔ خلیفۃ المسیح کا خطبہ جمعہ بھی ہوتا تھا وہ سنایا جاتا تھا ہر جگہ ترجمان ہوتا تھا جو انگریزی سے لوکل زبان میں ترجمہ کرتا تھا۔ یہاں پر ہر روز شام کو مسجد ہی میں افطاری کا بندوبست ہوتا تھا اور وہ اس طرح کہ سب احمدی اپنے اپنے گھروں سے کھانا لے آتے تھے۔ کلواجمیعا کا طریق اپنایا گیا تھا یا پھر دو تین فیملیاں پہلے ہی سے بتا دیتی تھیں کہ وہ کل کو کھانے لے کر آئیں گی۔ اس سے بہت عمدہ انتظام ہو جاتا تھا۔ ان کے ساتھ مل کر بیٹھ کر کھانے کا موقع ملتا، درس کی باتیں بھی ہوتیں مرکز کی باتیں، اسلامی روایات کی باتیں اور تربیت کے لئے بھی یہ ایک بہت عمدہ موقعہ ہوتا تھا۔

کھانے میں پیلاسس کے علاوہ جس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں ایک اور کھانا ہوتا تھا وہ بھی اچھا لذیذ اور مزیدار، گندم کا دلیہ۔ اس میں وہ مرغی کا گوشت، یا بکرے کا گوشت یا گائے کا گوشت ڈال کر پام آئل میں بناتے تھے۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ہم چاولوں میں پلاؤ بناتے ہیں وہ دلیہ کا پلاؤ بنالیتے ہیں اور پھر سب اکٹھے بیٹھ کر اور بعض اوقات ایک ہی برتن اور ٹرے میں کھانا کھاتے ہیں۔ اس کھانے کے علاوہ ایک اور کھانا بھی ہوتا تھا، گرانڈنٹ سوپ۔ یہ بھی چاولوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اور جولف رائس بھی ایک اور کھانا ہے۔ یہ بھی چاولوں میں پام آئل ڈال کر گوشت یا مرغی سے بناتے ہیں۔

خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کے احباب میں سب جگہ اپنے مبلغین کے لئے بہت عزت اور احترام پایا جاتا ہے یہاں پر ایک پاسنفا آدم ہوتے تھے جو جماعت کے صدر تھے اور ان کا ہوٹل بھی تھا۔ چلنے سے ذرا معذور تھے اپنی گاڑی پر ہی مسجد میں آنا جانا ہوتا تھا۔ لیکن رمضان میں خاص طور پر اور بعد میں بھی جب بھی ان کے ساتھ کھانے کا موقع ملا افطاری کے دوران۔ وہ ایک ہی ٹرے میں کھانا منگواتے تھے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھانے کھلاتے اور اپنے ہاتھ سے گوشت کی بوٹیوں کو بھی تھوڑا چھوٹا چھوٹا خود کر کے دیتے تھے تاکہ کھانا کھانے میں آسانی رہے۔ ان کے ہاں جب بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام بھی خاکسار کے نام پر شمشاد جونیئر رکھا۔ یہاں پر مسلمانوں میں یہ بھی رواج تھا کہ رات کو دیر گئے تک جاگتے اور کھانا کھا کر سوجاتے اور سحری پر نہ اٹھتے۔ یوں ہی روزہ رکھا جاتا۔

جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر خاکسار کی فیملی 4 سال کے بعد یہاں مگبورکا میں آئی۔ میرا بڑا بیٹا عزیزم سید ممتاز احمد جس کی عمر اس وقت قریباً 4-5 سال تھی اور چھوٹا بیٹا سید سعادت احمد جو عمر میں ممتاز سے ایک سال چھوٹا ہے میرے ساتھ جب وہ مسجد جاتے اس کا بھی وہاں مقامی لوگوں کے بچوں پر اثر پڑتا اور اس طرح وہ بھی اپنے بچوں کو مسجد لاتے۔ جس سے بچوں کی کلاس میں اضافہ ہونے لگا اور تربیت کے زیادہ اچھے مواقع میسر آئے۔ اسی طرح خواتین کی تربیت میں خاکسار کی اہلیہ کو وہاں کام کرنے کا موقع ملا۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مگبورکا ہی میں میری دو بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں۔

1986ء فروری میں خاکسار چار سال خدمت کے بعد سیرالیون سے 6 ماہ کی چھٹی پر پاکستان گیا۔ راستہ میں ایک پورا مہینہ فروری کا خاکسار لندن میں مسجد فضل میں بطور مہمان ٹھہرا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی شفقتوں اور مہمان نوازی سے حصہ لیا۔ الحمدللہ علی ذالک۔

امریکہ میں رمضان المبارک

پاکستان میں چھٹی گزاری اور غالباً 1987ء کے شروع میں خاکسار کی تقرری حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے امریکہ کے لئے کر دی۔ ویزے کی کارروائی ہوتی رہی اور ستمبر 1987ء کے شروع میں خاکسار واشنگٹن پہنچ گیا۔ مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم اس وقت امیر و مشنری انچارج تھے۔ یہاں پر ہیڈکوارٹر اس وقت مسجد فضل واشنگٹن میں تھا۔ مکرم مولانا عبدالرشید یحییٰ صاحب بھی مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کے ساتھ مسجد فضل ہی میں کام کرتے تھے اور خدمات بجا لارہے تھے۔

یہاں پر ایک اور واقعہ ہوا اور وہ یہ کہ خاکسار نے پاکستان کراچی سے لندن کی فلائٹ لی تھی اور لندن ہیتھرو سے واشنگٹن کی برٹش ایئر لائن تھی۔ خاکسار جب لندن ہیتھرو ایئرپورٹ پر اگلی فلائٹ کے انتظار میں تھا تو خاکسار نے دیکھا کہ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مع بی بی صاحبزادی امۃ القیوم بیگم صاحبہ وہاں موجود ہیں۔ خاکسار ان کے پاس گیا۔ سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ اس سے قبل خاکسار کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی۔ یہ میرا پہلا موقع تھا کہ میری ایم ایم احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔

انہوں نے بھی حال احوال پوچھا اور کہا کہ ہم بھی اسی فلائٹ سے واشنگٹن جا رہے ہیں۔ خاکسار اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ پھر جہاز میں بیٹھ گئے۔ دوران پرواز مکرم مرزا مظفر احمد صاحب پھر میری سیٹ کی جگہ پر آئے اور فرمایا کہ تمہارے واشنگٹن آنے کی اطلاع تو ہو گی۔ میں نے کہا جی۔ فرمانے لگے کہ میں باہر نکل کر دیکھ لوں گا اور اگر مجھے کوئی نظر آگیا تو آپ کو بتا دوں گا۔ اور اگر کوئی نظر نہ آیا تو پھر میں آپ کا انتظار کروں گا اور اپنے ساتھ مشن ہاؤس لے جاؤں گا۔

محترم مرزا مظفر احمد صاحب واشنگٹن پہنچنے کے بعد جلدی باہر چلے گئے۔ ویسے بھی وہ فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے لیکن میری تو ابھی امیگریشن ہونا تھی جس میں کافی وقت لگنا تھا۔ چنانچہ آپ تھوڑی دیر کے بعد واپس اندر آئے جہاں میں تھا اور فرمانے لگے کہ آپ کو لینے کے لئے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس لئے میں پھر چلتا ہوں۔ آپ ان کے ساتھ چلے جائیں گے اب فکر کی بات نہیں ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو مجھے زندگی بھر نہیں بھولے گا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

دسمبر 1987ء تک خاکسار یہیں پر مقیم رہا۔ اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا دورہ امریکہ بھی ہوا۔ دسمبر 1987ء کے آخر میں خاکسار کی تقرری حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ڈیٹن اوہایو میں فرمائی۔ اور مکرم مبارک احمد ساقی مرحوم کا خط خاکسار کے نام آیا کہ حضورؒ نے فرمایا ہے تمہاری ڈیوٹی برادر مظفر احمد صاحب ظفر کے ساتھ مڈویسٹ میں تبلیغ کرنے پر ہو گی۔ برادر مظفر احمد صاحب اس وقت نائب امیر بھی تھے اور ڈئین جماعت کے صدر بھی۔ چنانچہ ان کے ساتھ مختلف شہروں میں تبلیغ کی خا طرجاتا رہا۔

ڈیٹن میں رمضان المبارک

یہاں پر 1988ء میں پہلا رمضان آیا۔ رمضان المبارک کی مصروفیات ہر جگہ ایک جیسی ہی ہونی چاہئیں لیکن یہاں پر امریکہ میں احباب جماعت کے گھروں کے فاصلے پھر روزانہ صبح سے شام تک لوگوں کا جاب پر جانا اور شام گئے گھر پہنچنا اس وجہ سے درس القرآن کی حاضری جو ہر روز شام کو عصر سے مغرب تک کے لئے ہوتا تھا اس طرح نہ ہو سکی جس طرح ہونی چاہئے تھی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں پر زیادہ احمدیوں کی تعداد ایفروامریکن تھی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے دو یا تین فیملیز صرف پاکستانی تھیں اور وہ بھی کافی دور رہتی تھیں۔ اپنے کام کاج کی وجہ سے ان کا ہر روز شامل ہونا مشکل ہوتا تھا۔ جمعہ کے دن ہفتہ اور اتوار کے دن وہ باقاعدگی کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔ چنانچہ یہاں بھی ہر روز درس رمضان میں ڈیڑھ گھنٹہ دیا جاتا رہا۔ جس میں قرآن کریم سے رمضان کے فضائل اور احادیث سے برکات رمضان نیز سورۃالفاتحہ کے علاوہ سورۃالبقرہ کا درس دیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تفسیر کبیر سورۃ البقرہ اور ریاض الصالحین سے۔ نیز الفضل سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ کتب بھی کوئی زیادہ مہیا اور میسر نہ ہوتی تھیں۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے برادر مظفر صاحب کے ساتھ تبلیغ و تربیت کے خوب مواقع میسر آئے۔ یہاں پر میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات رہے جو ہماری رمضان اور عید کی خبروں کو کوریج دیتے تھے ۔Dayton تو ریجنل ہیڈ کوارٹر تھا۔ یہاں کی مسجد کا نام مسجد فضل عمر، حضرت مصلح موعودؓ کے نام پر بنی ہے۔ یہاں خاکسار کے ریجن میں اس وقت ڈیٹرائٹ کولمبس، ایتھنز کلیولینڈ کی جماعتیں بھی شامل ہوتی تھیں اور رمضان المبارک میں خاکسار جماعتوں کا دورہ بھی کرتا تھا تاکہ ہر جگہ رمضان کا درس اور سوال و جواب ہو جائے اور رمضان کے بارے میں مسائل سے بھی آگاہی ہو۔ ڈیٹرائٹ میں مکرم ملک ناصر محمود صاحب صدر جماعت ہوتے تھے۔ کولمبس میں مکرم نورالحق خان صاحب، ایتھنز میں مکرم مرزا بشارت منیر صاحب اور کلیو لینڈ میں مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب جو اس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے الاسلام ویب سائٹ کے انچارج بھی ہیں اور جماعت امریکہ کے نائب امیر بھی ہیں۔

یہاں پر خاکسار 1991ء تک رہا اور ایک دن اچانک مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور کا فون آیا جو اس وقت امیر و مشنری انچارج تھے کہ آپ ڈیٹن سے ہیوسٹن چلے جائیں۔ چنانچہ خاکسار دو تین دن میں تیاری کرکے واشنگٹن مسجد فضل آگیا اور پھر مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کے گھر حاضری دی اور بتادیا کہ میں آگیا ہوں۔ آپ نے مجھے فرمایا دو تین دن آرام کر لو اور اس کے بعد آپ ہیوسٹن روانہ ہو جاؤ۔

ہیوسٹن میں رمضان المبارک

چنانچہ خاکسار غالباً 1991ء کے آخر میں یا 1992ء کے شروع میں ہیوسٹن (Houston) پہنچ گیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خاکسار کو ہیوسٹن کا صدر جماعت بھی مقرر فرمایا۔ اس لئے مربی کی ڈیوٹی کے علاوہ یہاں پر صدر جماعت کی حیثیت سے بھی کام کی توفیق ملی۔ یہاں پر 3-4 رمضان گزارنے کا موقع ملا اور مشن ہاؤس جو کہ Fair Bank White OAK Rd پر تھا، میں ہی نمازیں اور درس اور جماعتی مساعی ہوتی تھیں۔ یہاں پر بھی خاکسار نے پانچوں نمازوں کے علاوہ نماز تراویح کا بھی انتظام کیا جو خود ہی پڑھاتا تھا اور ساتھ ہی روزانہ درس القرآن بھی ڈیڑھ گھنٹہ تک دیتا تھا۔ یہاں پر بھی کلواجمیعاً کی طرز پر رات کو افطاری کا انتظام ہوتا تھا۔ بعض اوقات فیملیاں مل کر سب کے لئے کھانا پکاتے تھےجس سے مسجد میں رونق رہتی تھی۔ عصر تا عشاء خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں پر رمضان کی بھرپور مساعی رہیں۔ مکرم منعم نعیم صاحب، مکرم چوہدری محمد یونس صاحب، مکرم منور احمد چوہدری صاحب ان کی ساری فیملیز۔ مکرم رانا کلیم صاحب اور مکرم داؤد منیر صاحب، مکرم مرزا مظفر احمد صاحب، مکرم لطیف صاحب، مکرم حسن پرویز صاحب، مکرم ڈاکٹر شیخ افتخار احمد صاحب، سیف اللہ بھٹی صاحب، برادر محمد نصیر احمد صاحب ، مکرم سلام جمیل صاحب، مکرم ہادی احمد صاحب، مکرم ناصر تنولی صاحب اور ان کی فیملیز اور دیگر احباب جماعت تھے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء

رمضان کی خبریں بھی یہاں اخبارات میں شائع کرائی جاتی تھیں اور عید کے دن ہال سے باہر صحن میں نماز عید کا پہلی دفعہ انتظام کیا گیا۔ دیگر ملکوں کے جھنڈے لگائے گئے اور تمام ٹی وی اور اخبارات ہماری عید کی کوریج بھی دیتے تھے۔ یہاں پر ماشاء اللہ رمضان المبارک کی اچھی گہما گہمی اور اچھا ماحول میسر رہا۔

یہاں پر پریس اور میڈیا کے سلسلہ میں خاکسار کی معاونت مکرم داؤد منیر صاحب اور عزیزم بابر چوہدری نے بہت کی ہے۔ یہ اس کام کے لئے ہمہ وقت میسر تھے اور جس کا بہت فائدہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔ آمین

ہیوسٹن ہی میں 5 سال بعد خاکسار کی فیملی بھی پاکستان سے پہنچی۔ یہاں پر باقاعدہ مسجد نہ تھی بلکہ غالباً 3 ایکڑ کی جگہ تھی جس میں ایک گھر تھا جو مبلغ کی رہائش کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا گیا تھا جہاں مرد نماز پڑھتے تھے اور اگر خواتین آجاتیں تو پردہ کی رعایت سے ان کے لئے بھی صف کی گنجائش بن جاتی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھنے لگی اور ایک دوسرے ہال کو مرمت کر کے مردوں کے نماز اور دیگر کاموں کے لئے مختص کر دیا گیا۔ اور سابقہ چھوٹے کمرہ کو مستقل خواتین کو دے دیا گیا۔ ان سارے کاموں میں مکرم چوہدری محمد یونس صاحب، مکرم مرزا مظفر احمد صاحب، مکرم منعم نعیم صاحب مکرم داؤد منیر صاحب، مکرم حسن پرویز صاحب اور مکرم چوہدری منور احمد صاحب، مکرم چوہدری مبارک احمد صاحب کاہلوں اور مکرم رانا کلیم صاحب اور مکرم سیف اللہ بھٹی صاحب اور سب خدام و اطفال نے بھرپور وقار عمل کر کے اس جگہ کو ہر لحاظ سے مکمل کیا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

اس وقت یہاں پر خدتعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی مسجد ہے۔ یہ مکرم چوہدری محمد یونس صاحب نے جگہ خرید کر اپنے اخراجات سے مسجد بنا کر جماعت کو دی اور 2018ء میں جب حضور اندر تشریف لائے تو باقاعدہ اس کی نقاب کشائی فرمائی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

1996ء مئی کو خاکسار کو مکرم مرزا مظفر احمد صاحب امیر و مشنری انچارج کی طرف سے خط موصول ہوا کہ خاکسار کا تبادلہ ہیوسٹن سے مسجد بیت الرحمٰن میری لینڈ میں کر دیا گیا ہے اور اور میں وہاں پہنچ جاؤں۔ چنانچہ 4 سال تک ہیوسٹن میں خدمات بجا لانے کے بعد خاکسار مئی 1996ء کے آخر میں میری لینڈ مع فیملی پہنچ گیا۔

میری لینڈ مسجد بیت الرحمان میں رمضان المبارک

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو نئی مسجد، مسجد بیت الرحمٰن کی شکل میں دی تھی جس کا ایک سال قبل ہی افتتاح ہوا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے افتتاح فرمایا تھا۔ یہاں اس وقت مکرم برادرم ظفر احمد صاحب سرور خدمات بجا لارہے تھے۔ انہوں نے میری جگہ ہیوسٹن جانا تھا۔ ان سے چارج لیا اور کام شروع کردیا۔ یہاں پر خداتعالیٰ کے فضل سے 8 سال تک رمضان المبارک میں کام کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ الحمدللہ

اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ جب پہلا رمضان آیا تو اس وقت درس القرآن صبح کو MTA سے ٹیپ کر لیا جاتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا درس قرآن MTA پر آتا تھا۔ وہ ریکارڈ کر لیا جاتا تھا اور شام کو نماز عصر کے بعد احباب اکٹھے ہوتے تھے اور حضورؒ کا درس قرآن سنا جاتا تھا۔ رات کو خاکسار نماز تراویح بھی پڑھاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور نوجوانوں کو بھی تیار کیا جاتا رہا کہ وہ نماز تراویح پڑھایا کریں۔ ان میں مکرم چوہدری امجد صاحب سرفہرست ہیں۔

یہاں پر ابھی تک شام کو روزہ کھولنے اور افطاری کا انتظام نہیں ہوتا تھا مکرم امیر صاحب ایم ایم احمد کا خیال تھا کہ رمضان کا مہینہ سوشل تعلقات بڑھانے کا مہینہ نہیں ہے اور یہ تو عبادات بجا لانے کا مہینہ ہے اس لئے کھانے اور افطاری کی ضرورت نہیں ہے۔ خاکسار نے اور صدر جماعت نے محترم امیر صاحب کی خدمت میں درخواست کی ان کی بات بالکل بجا ہے لیکن یہاں لوگوں کے گھر بڑے بڑے فاصلے پر ہیں۔ اگر ہم افطاری اور کھانے کا انتظام مسجد میں نہیں کریں گے تو لوگ یا تو درس پر نہیں آئیں گے اور نہ ہی عصر اور مغرب کی نماز میں شامل ہو سکیں گے۔ اور اگر افطاری کا انتظام کریں گے تو درس کی حاضری نماز عصر اور مغرب اور پھر عشاء کی حاضری اس سے بڑھ جائے گی اور لوگوں کے لئے فائدہ ہو گا۔

محترم امیر صاحب نے اس بات کو منظور فرما لیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے خاکسار کے 8 سالہ قیام میں یہ سلسلہ جاری رہا اور جو اب تک خدتعالیٰ کے فضل سے بہت کامیابی سے جاری ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

مسجد بیت الرحمان میں اعتکاف

یہاں ایک اور بات کا لکھنا بھی مناسب خیال کرتا ہوں۔ جب میرا یہاں مسجد بیت الرحمٰن میں خدمت کا پہلا سال تھا تو رمضان المبارک میں ایک تو افطاری کا انتظام ہوا دوسرے ابھی تک اس میں کوئی اعتکاف نہیں بیٹھا تھا۔ خاکسار نے محترم امیر صاحب کی خدمت میں درخواست کی کہ میں اس مرتبہ رمضان میں اعتکاف کرنا چاہتا ہوں۔ امیر صاحب جو کہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب تھے فرمانے لگے کہ اس کے لئے تو دیوار میں کیل ٹھونکنے پڑیں گے کیونکہ ٹینٹ لگانے ہوں گے اور مسجد نئی نئی بنی ہے اس میں تو کیل وغیرہ نہیں لگنے چاہئیں۔ خاکسار نے بتایا کہ ایسا نہیں کرتے۔ مسجد کے محراب کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کمرہ بالکل الگ تھلگ ہے میں اس میں ایک گدا ڈال لیتا ہوں اور اعتکاف کر لیتا ہوں۔ آپ مان گئے اور یوں مسجد بیت الرحمٰن میں خاکسار نے پہلا اعتکاف کیا۔

اس کے بعد پھر اگلے رمضان کے آنے سے پہلے پہلے خاکسار نے محترم امیر صاحب کی خدمت میں متعدد مرتبہ یہ بات کی کہ رمضان میں مسجد میں اعتکاف ضرور ہونا چاہئے ہر جگہ ہوتا ہے چنانچہ آپ نےاس کی اجازت مرحمت فرما دی اور خاکسار نے پھر اگلے سال اس کی بھرپور تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس سے زائد احباب نے مردوں کے حصہ میں اعتکاف کیا اور اسی طرح خواتین کے حصہ میں بھی خواتین نے اعتکاف کیا۔ مکرم کرنل فضل احمد صاحب اور ان کی ٹیم ہر سال خدام الاحمدیہ کے ساتھ مل کر معتکفین کے لئے ٹینٹ لگا دیتی تھی اور اب تو یہ سلسلہ کہیں زیادہ ہو گیا ہے اور تحریک کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہر سال 20/25 سے زائد احباب اعتکاف کرتے ہیں۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

ایک دفعہ کی بات ہے کہ رمضان سردی میں آیا اور سخت سردی کے علاوہ برف باری کا طوفان آیا جس سے شہر کی بجلی 3-4 دن کے لئے چلی گئی اور برف باری کی وجہ سے راستے بھی بند ہو گئے۔ اب مسجد میں لوگ معتکف تھے۔ ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا تھا۔ پھر سردی اتنی کہ ساری مسجد ٹھنڈی ہو گئی۔ کچھ بزرگ بھی تھے جن کی صحت کی وجہ سے فکر لاحق ہوا۔ پانی بھی شدید ٹھنڈا۔ اس صورت حال کے پیش نظر خاکسار نے معتکفین سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جہاں تک ان کی ضروریات کا تعلق ہے وہ خاکسار پوری کردے گا لیکن جہاں تک آپ کی صحت کا تعلق ہے اسکے بارے میں آپ خود فیصلہ کریں۔ چنانچہ سب نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اعتکاف ہر صورت میں پورا کریں گے۔

چنانچہ اس صورت حال میں خاکسار نے سب سے پہلے تو بازار سے کمبل خریدے اور ہر ایک معتکف کو اس کی ضرورت کے مطابق کمبل دیئے۔ پھر سب کے کھانے کا انتظام گھر میں کیا۔ خصوصاً صبح کے وقت سحری کے لئے۔ ہر ایک کے لئے خاکسار کی اہلیہ پراٹھے، سالن، انڈے اور چائے بنا کر دیتیں۔ ایک مشکل مرحلہ یہ بھی تھا کہ وضو کے لئے گرم پانی۔ اس کے لئے خاکسار نے بڑے بڑے دیگچے لے کر ان میں گرم پانی ابال کر صبح و شام سب کو دینا شروع کردیا تاکہ گرم پانی سے وضو کر سکیں۔ Heating (ہیٹنگ) کے لئے BBQ کرنے والی دو گرِل خریدیں تاکہ احباب اس سے گرمی حاصل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تجربہ کامیاب رہا اور سب نے اپنا اعتکاف پورا کیا۔ خاکسار کی معاونت مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب بھی کرتے جو ان دنوں نیشنل ہیڈ کوارٹر میں خدمت بجا لا رہے تھے۔ ان کے علاوہ مکرم چوہدری امجد صاحب اورو ان کے بچوں نے بہت کام کیا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

درس القرآن کے بارہ میں خاکسا رنے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا درس قرآن روزانہ MTA پر آتا تھا۔ وہ ریکارڈ کر لیا جاتا اور شام کو عصر اور مغرب کے درمیان لگایا جاتا اور احباب اس سے مستفیض ہوتے۔

29 رمضان المبارک کو مسجد بیت الرحمان میں دعا بھی ہوتی جو مکرم محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور کرواتے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ 29 رمضان کو لوگ حضورؒ کا درس سننے کے لئے جلدی آگئے اور مسجد کھچاکھچ بھرگئی۔ جب آپ تشریف لائے تو دیکھا کہ آگے جانے کی جگہ نہیں ہے۔ آپ وہیں مسجد کے دروازے کے پاس ہی بیٹھ گئے اور پورا درس سنا۔ جب دعا کے لئے خاکسار نے کہا کہ آپ آگے تشریف لے آویں اور سامنے بیٹھ کر دعا کروادیں۔ فرمانے لگے کہ نہیں لوگوں کو بلاوجہ تکلیف کیا دینی ہے۔ وہیں پیچھے بیٹھے بیٹھے دعا کروادی۔

ایک رمضان کا واقعہ یہ ہے۔ غالباً 2000ء کا ہے۔ خاکسار کو جملہ کام کرنے ہوتے تھے یعنی صبح نماز فجر پڑھانی، پھر درس حدیث دینا، سارا دن دفتری کام پھر دیگر انتظامات اور نماز تراویح پڑھانی۔ اس رمضان میں ابھی 3-4 دن گزرے تھے کہ خاکسار کے گلے میں تکلیف شروع ہوئی اور یہ ہونا میرے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ خاکسار گلے کی تکلیف کا اکثر شکار ہوتا ہے اور رمضان المبارک میں بھی ہو جاتا ہے۔ پہلے دن کچھ تھوڑی، اگلے دن اس سے زیادہ اور تیسرے دن بہت زیادہ تکلیف ہو گئی۔ بولنا تو درکنار آواز بالکل بیٹھ گئی اور اس سے اگلے دن آواز کلی طور پر بند ہو گئی۔ خاکسار نے جس قدر علاج تھے ان کو آزما لیا لیکن فرق نہیں پڑا۔ آواز اب پورے طور پر بند ہو چکی تھی۔ دیسی علاج، ہومیوپیتھی علاج، حضور کی طرف سے نسخہ آیا وہ بھی کیا۔ جو بھی کسی نے بتایا وہ کر لیا لیکن کچھ فرق نہ پڑا۔

اب کسی کو کچھ بتانے اور کہنے کے لئے مجھے ہر وقت ہاتھ میں Pen اور کاغذ رکھنا پڑتا۔ کسی کے سوال کا جواب دینا ہوتا تو لکھ کر دیتا کسی کو کچھ کہنا ہوتا تو لکھ کر دیتا۔

بہرحال خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں ان تمام دوائیوں کے نام لکھ کر بھجوا دیئے جو غالباً 18 بنی تھیں اور پوری صورت حال سے آگاہ کر کے دعا کی درخواست کی۔ حضورؒ کا فوری جواب آیا کہ شمشاد تم نے اتنی دوائیاں کھا لی ہیں کہ سب کچھ گڈمڈ ہو گیا ہے فوری طور پر کسی ماہر امراض گلا سے علاج کروائیں۔

چنانچہ خاکسار نے جماعت کے مشہور ڈاکٹر مکرم ناصر اسلام بھٹی صاحب کا جو اس مرض کے سپیشلسٹ تھے اور بالٹی مور کے سب سے بڑے مشہور ہسپتال جان ہاپکن میں کام کرتے تھے فوری رابطہ کیا۔ انہوں نے بلایا اور معائنہ کیا۔ ہر قسم کے ٹیسٹ کئے مگر کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ اس کا کچھ علاج نہیں ہے۔ بس آرام کرو۔ پانی پیئو اور اس پر کچھ وقت لگے گا خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ خاکسار ہر ہفتہ یا دوسرے ہفتہ معائنہ کے لئے جاتا۔ ٹیسٹ ہوتے نتیجہ وہی نکلتا کہ کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ آرام کریں آہستہ آہستہ یہ خود ٹھیک ہو جائے گا۔

اس کیفیت پر پھر قریباً 3 ماہ گزر گئے اور بات وہیں کی وہیں۔ خاکسار نے ایک دن مکرم ڈاکٹر ناصر اسلام بھٹی صاحب سے پوچھا کہ کیا میں پہلا مریض ہوں آپ کے پاس جس کو اس قسم کی بیماری لاحق ہوئی ہے یا مجھ سے پہلے بھی کوئی ایسا بیمار آپ کے پاس آیا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ نہیں آپ سے پہلے بھی اس قسم کے کئی مریض آتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ پھر آپ کس طرح ان کا علاج کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میرے پاس جو مریض آتے ہیں وہ سب 70 سال سے اوپر کے ہیں۔ ان کا علاج کیا ہے اور وہ ٹھیک ہوئے بھی ہیں۔ وہ علاج ایسا ہے جو کہ بہت Risk کا ہے۔ اور پھر ایک اوربات یہ ہے کہ اس علاج سے گلے کو عادت پڑجائے گی اور وہ علاج ہر 6 ماہ بعد کرنا ہو گا۔ میں نے کہا آخر وہ طریقہ علاج ہے کیا؟ کہنے لگے کہ آپ کے ووکل کورڈ میں انجکشن لگے گا اور جب یہ ایک دفعہ انجکشن لگ جائے تو پھر ہر 6 ماہ بعد لگانا پڑتا ہے۔

میں نے کہا بس! کہنے لگے کہ ہاں۔ میں نے کہا آپ اللہ کا نام لے کر انجکشن لگائیں میں حضور کو دعا کے لئے لکھتا ہوں۔ وہ بڑی مشکل سے مانے کہ یہ بہت Risky ہے۔ میں نے کہا کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔

چنانچہ مکرم ڈاکٹر ناصر اسلام بھٹی صاحب نے ایک اور ڈاکٹر کی مدد سے اپنے ہسپتال میں خاکسار کے ووکل کورڈ میں دو انجکشن لگائے اور خداتعالیٰ نے فضل کیا۔ خاکسار کی آواز دوسرے تیسرے دن واپس آگئی۔ اور پھر الحمدللہ کہ 6 ماہ ٹھیک گزر گئے۔ جب 6 ماہ پورے ہونے کو تھے تو پھر آواز بیٹھنے لگی اور دوبارہ انجکشن لگوانے کا مرحلہ آگیا خاکسار نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ تیاری کریں۔ اور ادھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو دعا کے لئے لکھ دیا کہ حضور یہ 6 ماہ ہو چکے ہیں پہلے انجکشن کو اور اب دوبارہ پھر وہی کیفیت ہو چلی ہے اور انجکشن لگنا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ ہر 6 ماہ بعد لگا کرے گا۔ حضور نے دعا فرمائی۔ چنانچہ اب وہ آخری دفعہ انجکشن لگا تھا۔ آج 20سال ہو چلے ہیں اس کے بعد سے آج تک پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دعا سے اس کے بعد سے پھر انجکشن نہیں لگا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ

جس رمضان المبارک کا ذکر کر رہا ہوں اس میں پھر جب عید آئی تو ان دنوں مکرم محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب قادیان سے میری لینڈ وزٹ کر رہے تھے اور اپنے بیٹے مکرم مرزا کلیم احمد صاحب کے ہاں آئے ہوئے تھے۔ خاکسار نے ان سے درخواست کی کہ وہ عید کی نماز پڑھائیں۔ خاکسار نے ان سے یہ درخواست بھی زبانی نہیں بلکہ کاغذ پر لکھ کر کی کیونکہ بول نہیں سکتا تھا۔

ایک رمضان میں میری لینڈ ہی میں مکرم استاذی الحبیب جناب سید میر محمود احمد صاحب ناصر تشریف لائے ہوئے تھے اپنے بیٹے مکرم محمد احمد صاحب کے پاس۔ (جو اس وقت لندن میں حفاظت خاص میں خدمت بجا لارہے ہیں) ان سے رمضان میں جمعہ بھی پڑھوایا، درس بھی سنا، کبھی کبھی بڑے اصرار کرنے پر وہ نماز بھی پڑھا دیتے تھے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ ان کی صحت اور عمر میں برکت دے۔

یہاں پر خاکسار نے 8 سال خدمت کی سعادت پائی۔ اس اثناء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا انتقال ہوا۔ مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب جماعت کے امیر تھے۔ 2004ء میں خاکسار کا تبادلہ مسجد بیت الرحمان میری لینڈ ہیڈ کوارٹر سے لاس اینجلس کیلیفورنیا ہوا۔

خاکسار سے چارج مکرم داؤد احمد حنیف صاحب نے لیا۔ آپ کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مشنری انچارج بھی بنایا۔ اس سے قبل چند ماہ کے لئے مکرم مختار احمد چیمہ صاحب کو بھی ہیڈ کوارٹر بیت الرحمان میری لینڈ میں خدمت کی توفیق ملی۔ لیکن جلد ہی ان کا تبادلہ بطور استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا ہو گیا اور وہ کینیڈا چلے گئے۔

مسجد بیت الحمید چینوکیلیفورنیا میں رمضان المبارک

خاکسار کو 2004ء سے 2014ء تک یہاں خدمت کی توفیق ملی۔ الحمدللہ جس کا مطلب ہے کہ یہاں پر 9-10 رمضان المبارک سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔

یہاں پر مسجد تو تھی لیکن اس کا ایک حصہ 2003ء میں کچن میں بجلی کی وائر کے سرکٹ کے شارٹ ہونے کی وجہ سے آگ لگ گئی تھی۔ اس کی وجہ سے صرف عبادت والا حصہ دونوں طرف کا محفوظ رہا (مرد و خواتین والے حصے) باقی سب کچھ جل گیا تھا۔

مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب جماعت کے صدر تھے اور نائب امیر بھی۔ یہاں پر پہلا مرحلہ مسجد کی از سرِنور تعمیر تھی اور فنڈز اکٹھا کرنے کی سکیم۔ الحمدللہ ایک کمیٹی بنائی گئی خاکسار بھی اس کا ممبر تھا۔ اس کے علاوہ محترم امیر صاحب ڈاکٹر احسان اللہ ظفر کی اجازت سے خاکسار اور مکرم ڈاکٹر وسیم صاحب نے ملک کا دورہ بھی کیا اور مسجد بیت الحمید کے لئے فنڈز بھی اکٹھے کئے۔ اس کی رپورٹ الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔

اس لئے 2004ء سے 2007ء تک مسجد میں اگرچہ ہم نمازیں بھی ادا کر رہے تھے اور ساتھ کے ساتھ رمضان المبارک کی سرگرمیوں میں شریک تھے۔ یہاں پر بھی خداتعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے درس القرآن سے بہت استفادہ کیا جاتا رہا۔ شام کو خاکسار ہر روز درس بھی دیتا تھا یہ درس افطاری سے قبل ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کا ہوتا۔ درس میں تفسیر حضرت مسیح موعودؑ، حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کا درس القرآن اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے تفسیر کبیر سے ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف عناوین پر کتب سلسلہ سے استفادہ ہوتا۔ نیز احباب کے سوال و جواب ہوتے تھے۔ یہاں پر نماز تراویح کے لئے نوجوانوں کو بھی تیار کیا گیا۔ نماز عشاء کے بعد روزانہ درس حدیث بھی دیا جاتا تھا۔

2007ء میں مسجد بیت الحمید کی از سرِ نو تعمیر کا کام ہوا جو 2سال تک جاری رہا۔ یہ وقت بڑا کٹھن تھا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ نماز یں کہاں پڑھیں؟ پھر نماز جمعہ کا اہتمام کیسے کیا جائے؟ پھر رمضان المبارک کے لئے ہمیں ایک عیسائی چرچ والوں نے جمعہ کی پیشکش کی۔ وہاں ہم دو سال تک جمعہ پڑھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔ لیکن رمضان میں تو روزانہ درس اور عصر، مغرب اور عشاء اور تراویح کے لئے جگہ چاہئے تھی۔ چنانچہ مسجد بیت الحمید سے قریباً 2 میل کے فاصلہ پر ایک بلڈنگ کرایہ کے لئے خالی تھی جماعت نے وہ بلڈنگ کرایہ پر لے لی۔ اور یوں خداتعالیٰ کے فضل سے رمضان المبارک کی عبادات بجالانے میں سہولت اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دی۔ اس وقت وہاں 2 جماعتیں تھیں ایک جماعت کے صدر مکرم عاصم انصاری صاحب تھے۔ انہوں نے بھی خداتعالیٰ کے فضل سے بہت محنت کی، تعاون کیا اور جماعت کی حاضری بڑھانے میں کافی مدد فرمائی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

درس کا تو اسی طرح انتظام تھا۔خاکسار نے مسجد کی بجائے اس بلڈنگ میں درس بھی دیتا اور نماز عصر تا نماز عشاء تک وہیں نمازیں بھی پڑھاتا اور نمازتراویح کا بھی یہاں ہی انتظام تھا ۔ البتہ نماز فجر خاکسار کے گھر پر ادا ہوتی تھی اور احباب وہاں تشریف لاتے تھے۔ رمضان کے بعد 11 مہینے وہاں خاکسار کے گھر پر جو کہ مسجد کی تعمیر کی وجہ سے کرایہ پر لیا گیا تھا پانچوں نمازیں ادا ہوتی تھیں۔

ضیافت کی ٹیم جس میں مکرم منور احمد صاحب، مکرم جمیل محمد صاحب، مکرم ڈاکٹر طاہر صاحب اور بہت سے رضاکار شامل ہوتے تھے۔ وقت پر سب حاضرین کے لئے افطاری تیار کرتے تھے۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔ گھروں سے بھی لوگ افطاریاں بنا کر لاتے تھے تاکہ مسجد بھی آباد رہے اور بار بار گھر بھی نہ جانا پڑےتاکہ ایک ہی دفعہ عصر کے وقت آئیں۔ عصر کی نماز بھی پڑھیں درس بھی سنیں اور مغرب و عشاء اور تراویح بھی۔ احباب کے گھر دور ہونے کی وجہ سے بار بار آنا مشکل ہوتا تھا۔

رمضان المبارک کو تبلیغ کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ ایک دن مخصوص کیا جاتا رہا کہ اس دن درس میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت و رحیمیت اور صفت غفار اور غفور کا تذکرہ کیا جائے اور ایسی آیات و دعائیں پڑھی جائیں جن سے غیرمسلم بھی فائدہ اٹھائیں۔ اس میں خاص طور پر حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات پڑھے جاتے تھے جس سے غیرمسلموں کو اسلامی تعلیم سے آگاہی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور صفت غفار سے اطلاع دی جاتی تھی۔ اس کے بعد حاضرین (غیرمسلم) سوال و جواب بھی کرتے تھے اور پھر ہمارے ساتھ مل کر افطاری اور کھانے میں بھی شامل ہوتے تھے۔ اس سے کئی فائدے حاصل ہوتے تھے ایک تو براہ راست تبلیغ، دوسرے انہیں اسلامی تعلیم سے آگاہی، تیسرے اسلامی عبادت کے طورواطوار، پھر خداتعالیٰ کے فضل سے خاکسار کے مقامی اخبارات میں رمضان سے متعلق مضامین بھی شائع ہوتے تھے اور وہ ہماری رمضان اور عید کی خبریں بھی شائع کرتے تھے جس سے ان لوگوں تک بھی پیغام حق پہنچ جاتا تھا جو شریک نہ ہوتے تھے۔

2009ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے دوبارہ اپنی ساری سرگرمیاں مسجد میں شروع کر دیں اور 5 سال تک اس طرح مزید کام کرنے کا موقع ملا۔ الحمدللہ۔ یہاں پر رمضان المبارک ایک یادگار کے طور پر تھا۔ رمضان میں کیلیفورنیا سے اس وقت بڑے بھی اور بچے بھی خاکسار کو فون کر کے رمضان کی یاد دلاتے ہیں۔ الحمدللہ

خاکسار کے ریجن میں چند اور جماعتیں بھی تھیں مثلاً فی نکس، طوسان، لاس ویگاس، سان ڈی ایگو اور لاس اینجلس ویسٹ۔ان میں بھی کبھی کبھی دورہ کرنے جاتا۔

یہاں پر ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رمضان کے دنوں میں ہم ایک ریڈیو پروگرام بھی کرتے تھے اگرچہ یہ پروگرام 6 سال جاری رہا لیکن رمضان میں خاص طور پر رمضان کے حوالہ سے پروگرام ہوتا تھا۔ خاکسار کے ساتھ مکرم عمران جٹالہ صاحب اور برادر محمد عبدالغفار صاحب سفید امریکن ہر دو ساتھ جاتے تھے، ہر منگل کو صبح 9 سے 9 ½ بجے تک یہ پروگرام ہوتا تھا۔ رمضان میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے خاص طور پر رمضان کے حوالہ سے مضامین کا انتخاب، آیات قرآنی اور احادیث سے بات کی جاتی تھی۔ غیرمسلم اور مسلم سنتے تھے اور Live سوالوں کے جواب بھی دیئے جاتے تھے۔ غیرمسلم جماعت احمدیہ کے حوالہ سے بھی سوال کرتے تھے کہ احمدیت کیا ہے ختم نبوت کے معانی، وفات مسیح علیہ السلام وغیرہ۔

شکاگو میں رمضان المبارک

خاکسار کا تبادلہ جون کے تیسرے ہفتہ میں 2014ء میں شکاگو ہوا۔ خاکسار فوری طور پر تیاری کر کے خود شکاگو مسجد میں پہنچ گیا۔ یہاں پر مبلغ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ خاکسار نے مکرم مولانا انعام الحق کوثر صاحب سے چارج لیا۔ ان کی تقرری آسٹریلیا کے لئے ہوئی تھی۔ میرے پہنچتے ہی اگلے 2-3 دن میں رمضان المبارک شروع ہونے والا تھا۔ چنانچہ خاکسار نے باہر مکان کرایہ پر لینے کی بجائے 3-4 مہینے مسجد کے دفتر ہی میں اپنا ڈیرہ لگا لیا کیونکہ فیملی ابھی لاس اینجلس ہی میں تھی۔ یہاں پر خداتعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی باموقع مسجد، مسجد بیت الجامع کے نام سے بنی ہوئی ہے جو کہ مکرم فلاح الدین شمس صاحب کے زمانے میں تعمیر ہوئی تھی وہ یہاں کی جماعت کے صدر تھے۔ آجکل وہ نائب امیر ہیں اور میری لینڈ میں مقیم ہیں۔ خاکسار نے آتے ہی مجلس عاملہ کا اجلاس اور اجلاس عام بلایا کیونکہ یہاں پر بھی خاکسار کے ذمہ مبلغ کے فرائض کے علاوہ صدر جماعت شکاگو کے فرائض بھی تھے۔ دوسری جماعت کے صدر مکرم منعم نعیم صاحب بھی تھے ۔ رمضان ٹائم ٹیبل اور رمضان کے دیگر پروگرام اور درس کے بارے میں نیز شام کو نماز عصر ، مغرب، عشاء اور تراویح کے بارے میں ٹائم ٹیبل سب کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا۔

یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزانہ شام کو نماز عصر تا نماز مغرب ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد رمضان میں درس دینے کی توفیق ملتی رہی اور سوال و جواب ہوتے رہے۔ ایک رمضان میں خاکسار نے تحریک جدید کے بارے میں اپیل کی اور یہ بھی کہا کہ اپنے مرحوم والدین کی طرف سے بھی تحریک جدید کےچندہ میں حصہ لیا کریں۔ چنانچہ اگلی صبح نماز فجر پر ایک نوجوان 15-16 سال کا میرے پاس آیا۔ کہنے لگا مولوی صاحب آپ نے رات درس میں تحریک جدید کے چندہ کی طرف تحریک کی تھی کہ مرحوم والدین کی طرف سے دیں۔ کیا جن کے والدین زندہ ہوں ان کی طرف سے بھی چندہ تحریک جدید دیا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا جی بالکل دیا جا سکتا ہے، اس نوجوان نے فوری 500 ڈالر میرے ہاتھ میں تھما دیئے کہ پھر یہ میری طرف سے میرے والدین کا چندہ تحریک جدید ہے۔

ان کا نام ہادی احمد مبشر ہے یہ حضرت ملک غلام فرید صاحب کے پڑپوتے ہیں۔ میں نے رقم لے لی۔ پہلے خیال آیا کہ شاید ان کے والد صاحب نے یہ رقم اس کو دی ہو۔ لیکن جب میں نے ان کے والد صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا مجھے توبالکل اس بات کا علم نہیں ہے۔

وہ لڑکا نوجوان ابھی ہائی سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس کی کوئی جاب بھی نہیں تھی۔ اس نے پتہ نہیں کتنے سالوں سے یہ رقم اپنی جیب خرچی کی جمع کر کے رکھی ہوئی تھی جو اس نے تحریک جدید کے چندہ میں رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں اپنےو الد اور والدہ کی طرف سے دی۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید نیکیوں کی توفیق دے اور دین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے۔

اس واقعہ کا وہاں کے بچوں پر بہت اثر ہوا۔ اور مجھے یاد ہے کہ کافی بچوں نے تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لیا۔ الحمدللہ۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

رمضان المبارک کے پروگرام تو ہر جگہ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں لیکن کچھ باتیں اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ساری عمر ذہن نشین رہتے ہیں۔ یہاں پر جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے مشن ہاؤس بنانے کی بھی رمضان ہی میں تحریک کی گئی کیونکہ گزشتہ 15 سالوں سے کرائے کے مکان ہی میں مبلغ رہائش پذیر ہوتے تھے۔ محترم امیر صاحب نے اس کی اجازت دی اور پھر خداتعالیٰ کے فضل سے لوکل جماعت نے اڑھائی لاکھ سے زائد ڈالر تھوڑے عرصہ ہی میں اکٹھے کئے اور ایک مکان 5 کمروں پر مشتمل مسجد کی پارکنگ لائٹ کے ساتھ جس کا صحن ملا ہوا تھا مل گیا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ

یہاں پر بھی رمضان کے دنوں میں ایک دن تبلیغ کے لئے درس ہوتا تھا۔ جس میں علاقہ کے مذہبی لیڈرز، سیاسی شخصیات اور ہمسائیوں کو بلایا جاتا تھا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ پروگرام بھی کافی کامیاب ہوتا تھا۔

مکرم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب، مکرم منعم نعیم صاحب، مکرم یاسر ملک صاحب، مکرم وسیم نثار احمد صاحب، مکرم عدنان بیگ صاحب، مکرم منور خان صاحب اور دیگر ٹیم کے ممبران کاموں کے لئے پیش پیش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ آمین۔ یہاں پر 2014 ء سے 2017ء تک خاکسار کا قیام رہا۔

یہاں پر شکاگو ایسٹ کی جماعت بھی خاکسار کے تحت تھی جہاں پر مکرم برادر کریم احمد صاحب صدر جماعت ہوتے تھے اور یہاں پر مسجد صادق ہے جو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے نام پر ہے۔ رمضان المبارک کے دنوں میں یہاں پر بھی بعض دن آکر درس دینا ہوتا تھا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں پر بھی اچھی حاضری ہوتی تھی۔ شعبہ ضیافت بھی ماشاء اللہ یہاں پر بہت اچھی خدمات بجا لاتا ہے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء

ڈیٹرائٹ میں رمضان المبارک

شکاگو میں قریباً ساڑھے تین سال خدمات بجا لانے کے بعد خاکسار کا تبادلہ مکرم محترم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت امریکہ نے ڈیٹرائٹ کیا۔ خاکسار 14 اکتوبر 2017ء کو شکاگو سے مع فیملی بذریعہ کار ڈیٹرائٹ پہنچا۔ اس وقت یہاں پر تیسرا رمضان ہے خداتعالیٰ کے فضل سے اس وقت یہاں کے صدر جماعت مکرم مقبول احمد صاحب ہیں۔

گزشتہ 2 رمضان تو حسب سابق گزرے یعنی رمضان المبارک کا وہی پروگرام جو ہر جگہ ہوتا آیا ہے یا ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی روزانہ درس شام کو نماز عصر کے بعد نماز مغرب تک ہوتا ہے۔ اور احباب مرد و زن اور بچے سب شوق سے مسجد آتے اور نمازوں، درس اور تراویح میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں کا شعبہ ضیافت بھی خداتعالیٰ کے فضل سے بہت فعال ہے۔ پہلے مکرم سلطان احمد صاحب سیکرٹری ضیافت تھے اور صدر مکرم ڈاکٹر قریشی منصور احمد صاحب ۔اب نئے سیکرٹری ضیافت مکرم طیب رضوان صاحب ہیں۔ یہ مکرم مولوی فضل الٰہی صاحب کے بیٹے ہیں۔ مکرم فضل الٰہی صاحب نے پاکستان اور سیرالیون میں بطور مربی خدمات سرانجام دی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

یہاں پر بھی ہر سال کی طرح ، رمضان میں تبلیغ کا پروگرام بھی ہوتا ہے۔ جس میں خاکسار ایسے موضوع کا درس انتخاب کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کی صفت رحیمیت اور صفت غفور پر روشنی پڑتی ہو۔ جو غیرمسلموں کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہو۔ اور پھر بعد میں سوالات بھی ہوتے ہیں۔ اس کا بھی یہاں کے پریس اور میڈیا میں چرچا ہوتا ہے اور اس کام میں مکرم محمد احمد صاحب سیکرٹری تبلیغ خوب معاونت کرتے ہیں۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

ان کے علاوہ مکرم ناصر بخاری صاحب جو امور خارجیہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کام بھی قابل ستائش ہے اور سیکرٹری امور عامہ مکرم نسیم احمد خان صاحب۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزاء دے۔ آمین

امسال کا رمضان قدرے مختلف ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے مسجد میں لوگ تو نہیں آتے خاکسار ہی آتا ہے۔ پانچوں نمازیں اذان دے کر ادا کی جاتی ہیں۔ خاکسار کی اہلیہ ساتھ ہوتی ہیں تاکہ نماز باجماعت بھی ہو سکے۔

درس القرآن، حسب سابق و معمول نماز عصر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن اب لوگ مسجد میں نہیں سنتے بلکہ Zoom کے ذریعہ اپنے اپنے گھروں میں سنتے ہیں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے ڈیٹرائٹ کے ساتھ میرے حلقہ کی دو دوسری جماعتیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ کولمبس کی جماعت جس کے صدر مکرم رفیع ملک صاحب ہیں اور ڈیٹن کی جماعت جس کے صدر مکرم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب ہیں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے Zoom لنک کے ذریعہ 174 سے زائد فیملیاں؍ انفرادی طور پر درس میں شامل ہوتے ہیں۔ روزانہ ہی درس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔ اس سے قبل رمضان میں خاکسار اپنی دوسری دو جماعتوں کا بھی دورہ کرتا تھا اور ان میں بھی ایک ایک دن رہ کر دردس دیتا تھا اور رمضان کی اہمیت اور رمضان کے مسائل اور ان کے ساتھ سوال و جواب ہوتے تھے۔ خداتعالیٰ نے یہ سب نعمتیں ہمارے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے لئے پیدا کی ہیں۔ جب پہلے درس ہوتے تھے رمضان میں اور لوگ مسجد میں آتے تھے اس کی حقیقت ہی بالکل الگ ہے، لیکن چونکہ سب لوگوں کا شامل ہونا مشکل ہوتا تھا۔ لیکن اس دفعہ یہ ہے کہ لوگ گھروں میں پانچوں نمازوں کے باجماعت قیام کا اہتمام کرتے ہیں۔

محترم مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعتہائے امریکہ کی ہدایت بھی یہی ہے کہ پانچوں نمازیں گھر پر اور اذان دے کر ادا کی جائیں۔ حضور انور کے خطبات کا خلاصہ بھی اب خاکسار شام کو درس میں پیش کردیتا ہے۔ بلکہ خطبہ جمعہ فرمودہ حضور انو ر سے بعض ایسے ایسے نکات ملتے ہیں کہ وہی درس بھی بن جاتا ہے۔

شکاگو میں بھی اور ڈیٹرائٹ میں بھی احباب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے 29 ویں رمضان کے درس کو سنایا جاتا ہے۔ اور اختتام رمضان کی دعا کرائی جاتی ہے۔ آخر میں خاکسار یہ گزارش کرتا ہے کہ سارے رمضانوں کا ایک ہی پیغام ہے۔ صرف موسم تبدیل ہوتے ہیں کبھی گرمی میں تو کبھی بہار کے موسم میں، کبھی شدت کی گرمی اور کبھی سردی میں رمضان آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے موسم دکھائے، ہر قسم کے سیزن میں رمضان میں روزے رکھنے اور عبادات کی توفیق دی۔ الحمدللہ

سب سے مقدم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل رہے۔ خاکسار نے جامعہ میں جو رمضان کی عبادات کے اسلوب خلیفہ وقت، پرنسپل صاحب اور دیگر اساتذہ کرام سے سیکھے ہیں وہی ہمیشہ مرکزی نقطہ رہے۔ اور ان میں سب سے اہم بات خلافت کی بات سننا اورعمل کرنا ہے۔ رمضان میں چونکہ خلفائے کرام کے خطبات بھی رمضان کی اہمیت، برکات، لیلۃ القدر، آخری عشرہ، اعتکاف، مالی قربانی پر ہوتے ہیں تو یہی پیغام جماعت کو بار بار پہنچایا جاتا ہے اور اسی میں اصل برکت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی خاص سعادت بھی عطا فرماتا ہے۔ خاکسار آخر میں یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ رمضان کے درسوں کے لئے جن کتب کا استفادہ کیا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔ انہی کتب سے درس اور مضامین کا انتخاب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی برکتوں سے مالا مال کرے۔ آمین

قرآن کریم میں، تفسیر حضرت مسیح موعودؑ، حقائق الفرقان از حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ، تفسیر کبیر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، انگریزی کی 5 والیم والی تفسیر۔

احادیث میں: خصوصاً بخاری، مسلم شریف، ریاض الصالحین، حدیقۃ الصالحین اور کچھ احادیث کی دیگر کتب جو جماعتی لٹریچر میں ہیں۔

ملفوظات: خصوصیت کے ساتھ کسی بھی جلد سے جس میں مضمون سے متعلق حوالہ جات ہوں۔

خطبات مسرور اور دس شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کتب سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے جیسے سیرت النبی ﷺ اور ملائکۃ اللہ، سیر روحانی، خلافت علی منہاج النبوت کی تینوں جلدوں سے۔ خطبات طاہر سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔

مضامین حضرت میر محمد اسماعیل صاحب، فقہ المسیح، فقہی مسائل حضرت مصلح موعودؓ، نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ، تاریخ احمدیت، الازھار لذوات الخمار (حضرت مصلح موعودؓ کی لجنہ میں تقاریر کا مجموعہ)، حیات نور الدین، ارشادات نور کی تینوں جلدیں۔ حیات قدسی، فقہ احمدیہ، مشعل راہ، سیرت المہدی، سیرت مسیح موعود علیہ السلام۔

مختصر پراثر، (نصائح پر مشتمل کتاب)، تحفۃ الصیام، سیرت داؤد، الفضل انٹرنیشنل لندن، روزنامہ الفضل آن لائن لندن، سنہرے اوراق، سنہرے فیصلے، سنہرے نقوش، اسوہ انسان کامل، حضرت مصلح موعود نمبر انصار اللہ، تشحیذ الاذہان مسرو ر نمبر، سیدنا طاہر نمبر خالد، آداب زندگی، تاریخ احمدیت، قربانی کا سفر، مالی قربانی کی جلدیں، خلافت وقت کی ضرورت وغیرہ۔

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی خاکسار اور خاکسار کی ساری اولاد درد اولاد کو سلسلہ سے وابستہ رکھے اور خلافت کا جانثار بنائے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد تادم واپسیں نبھانے کی توفیق دے۔ آمین

ان بے شمار افضال خداوندی پر زبان یہی کہتی ہے کہ

وآخر دعوٰنا ان الحمدللہ رب العالمین

اور دل پکار پکار کر کہتا ہے کہ :

سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے

(سید شمشاد احمد ناصر مربی سلسلہ احمدیہ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021

اگلا پڑھیں

عید مبارک