میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جو کہ مَیں کئی دفعہ اس جگہ اور دوسرے مقامات میں کر چکا ہوں کہ انسان کی عمر تھوڑی اور ناپائدارہے اس کا کچھ بھروسہ نہیں ہے اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔
خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے ہوشی میں گذر جاتا ہے ۔ یہ بے ہوشی کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اوراس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبرنہیں ہوتی ۔ اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوتی ، جو بچپن میں تھی ، لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہو جاتا ہے کہ نفس امارہ غالب آ جاتا ہے ۔ اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے کہ علم کے بعد پھر لاعلمی آجاتی ہے ۔ اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے ۔ یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے ۔ بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قویٰ بے کار ہو جاتے ہیں ۔ اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ساٹھ یا ستر سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے۔ غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے اور ضعف و تکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔ انسان کی عمر کی تقسیم انہی تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اورمشکلات میں ہیں۔ پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لئے کس قدر مشکل مرحلہ ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ197، 198۔ ایڈیشن 1988ء)