• 19 اپریل, 2024

غزل

تیرے قدموں کو چُھوا تو بہت اِکسیر ہوا میں
تیرے ہاتھ کو چُوم کے صاحبِ توقیر ہوا میں

تیرے ہوتے میں تھا اپنی ذات میں مَست اَلست
تیرے جانے کے بہت دل گیر ہوا میں

تجھ سے تعلق تھا فقط اتنا کہ مجھے یاد آیا
تِری زُلف کے حلقے میں رہا زنجیر ہوا میں

عمر سراسر دُکھ بیتی ، دُکھ نے ہی بازی جیتی
غم کے پہلو میں جیا ، درد کی جاگیر ہوا میں

ریزہ ریزہ ٹوٹ کے بکھرا خُونم خون بدن
انساں نہ ہوا گویا خطّۂ کشمیر ہوا میں

میں نے نمو پائی کن کن وحشت زا آنکھوں میں
ایک بھیانک خواب تھا جس کی تعبیر ہوا میں

اِس عہدِ نا پُرساں میں کون مرا ہم راز ہے
میں کون سا شاعر تھا جو غالبؔ و میرؔ ہوا میں

(عبدالکریم خالد)

پچھلا پڑھیں

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی الفضل کے لئے رہنمائی

اگلا پڑھیں

استغفار تمام انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ