• 18 اپریل, 2024

عبادت میں لذت

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نمازوں میں لذت نہیں آتی۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذت کا معیار بھی الگ ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ہی سمجھ لیتا ہے۔ دیکھو ٹرانسوال [اس وقت ٹرانسوال کی جنگ جاری تھی۔ (ایڈیٹر الحکم)] میں جو لوگ لڑتے ہیں۔ باوجود یکہ اس میں جانیں جاتی ہیں اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔ مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔

ان کو قومی حمیت اور پاسداری موت کے منہ میں خوشی کے ساتھ لے جاتی ہے۔ ادھر قوم ان کی محنتوں اور جانفشانیوں کی قدر کر رہی ہے۔ جبکہ اغراض قومی متحد ہیں۔ پھر ان کی محنتوں کی قدر کیوں ہوتی ہے؟ ان کے دکھ اور تکالیف کی وجہ سے۔ ان کی محنت اور جانفشانی کے باعث۔

غرض ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے۔

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

(الم نشـرح: 7)

اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی۔ ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں۔ جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اٹھائے گا۔ وہی تبدیل صورت کے بعد لذت ہو جاتا ہے۔ میری مراد ان دکھوں سے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے جا مشقتوں میں ڈالے اور مالا یطاق تکالیف اٹھانے کا دعویٰ کرے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ422تا 423۔ ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

نہ اُن سے رُک سکے مقصد ہمارے