• 18 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ مورخہ 10 جنوری 2020ء کا خلاصہ

بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ یو کے

آنحضرتؐ کےجاں نثار اور اخلاص و وفا کے پیکربدری صحابی حضرت سعد بن عبادہؓ کے مزید اوصاف حمیدہ کا ذکر خیر

رسول اللہؐ نے فتح مکہ کے دن ابوسفیان سے فرمایا۔آج رحم کا دن ہے آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے

اللہ آنسو پر عذاب نہیں دیتا بلکہ زبان سے نوحہ کرنے کو بُرا دیکھتا ہے،رونا تو دعا کی کیفیت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے

رسول کریم ﷺ نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ انصار کے مال میں، ان کے بیٹوں میں اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں میں برکت دے

خدا کا رسول بھی غیور ہے اور خدا بھی غیور ہے اور خدا کی غیرت یہ ہے کہ اس نے برائیوں سے منع فرمایا ہے

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 10جنوری 2020ء کو مسجد مبارک ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو حسب معمول مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آغاز میںوقف جدید میں برطانیہ کی جماعتوں کی پوزیشنز کے جائزے کی درستگی فرمانے کے بعد فرمایا:میں نے گزشتہ خطبہ میں عموماً غریبو ں کی اورغریب ملکوںمیں رہنے والوں کی قربانی کے واقعات بیان کئے تھے۔اس لئے کہ امیروں میں بھی یہ احساس پیدا ہو اور وہ بھی قربانی کی روح کو سمجھیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیاوی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کرقربانی کرتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا اب میں آج کے خطبہ کے موضوع کی طرف آتا ہوں جو بدری صحابہ کا چل رہا ہے۔گزشتہ سے پہلے خطبہ میں حضرت سعد بن عبادہ کا ذکر چل رہا تھااور کچھ رہ گیا تھا آج بھی ان کے ذکر کے حوالے سے ہی بیان کروں گا۔لیکن یہاں بھی ایک حوالے کی درستگی کی ضرورت ہے جو گزشتہ خطبہ میں میں نے بیان کیا تھا۔ ریسرچ سیل میں ہمارے کام کرنے والوں کو خود ہی احساس ہوگیا اورانہوں نے یہ درستگی بھیجی اور اس سے بہرحال جو غلط فہمی مجھے بھی تھی وہ بھی دُور ہوگئی ۔ ماشاء اللہ یہ اپنی طرف سے بڑی محنت سے کام کرکے حوالے نکالتے ہیںلیکن بعض دفعہ جلد بازی سے ایسی تحریروں سے گزر جاتے ہیںجو دو صحابہ کے ملتے جلتے واقعات کو ملا دیتی ہے۔اسی طرح بعض دفعہ عربی عبارتوں کے ترجمے میں بھی صحیح الفاظ کا چناؤ نہ ہونے کی وجہ سے حقیقت واضح نہیں ہوتی، بہر حال اسی حوالے سے انہوں نے خود ہی درستگی کرکے بھجوائی ہے جو میں پہلے بیان کروں گا،پھر باقی ذکر ہوگا۔اس کے بعد 27 دسمبر کے خطبہ میں حضرت سعد بن عبادہ کے تعارف میں مواخات کے حوالے سے جو غلطی رہ گئی تھی اس کی درستگی کرتے ہوئے حضور انور نے حوالہ جات کی رو سے تفصیلی وضاحت بیان فرمائی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اب حضرت سعد بن عبادہؓ کا ذکر ہے۔ غزوہ خندق کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے صلح کے معاملے میں سعد بن عبادہؓ اور سعد بن معاذؓ سے مشورہ طلب فرمایا۔ دونوں نے بیک زبان یہ کہا کہ کیا اس معاملے میں اگر خدا نے حکم دیا ہے تو ٹھیک ورنہ منافقین کو سزا دی جائے گی۔ حضرت مرزا بشیر احمدؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ غزوہ خندق کے دن بہت تکلیف اور خطرے کے دن تھے۔ مسلمانوں کی طاقت کمزور ہورہی تھی جبکہ دل ایمان کی وجہ سے مضبوط تھے۔ لیکن تھکاوٹ اور کمزوری کی وجہ جسم مضمحل ہورہے تھے کیونکہ خوراک کی کمی تھی اور آرام کرنے کا موقع بھی میسر نہیں آرہا تھا۔ ان حالات میں بنوغفطان کو کچھ محاصل دے کر ٹال دینے کے لئے رسول اکرمؐ نے ان دونوں اصحاب سے مشورہ طلب فرمایا تھا۔ تو ان دونوں نے کہا کہ کیا خدائی وحی ہے؟ تو رسول اکرم نے فرمایا کہ نہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب ہم مشرک تھے توہم ڈٹ جاتے تھے اب تو خدا تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ رسول اکرمؐ نے یہ مشورہ بھی معلومات اور ذہنی کیفیات کو جانچنے کے لئے کیا تھا۔ جب یہ ایمانی مضبوطی دیکھی تو اس مشورہ کو قبول فرمایا لیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ غزوہ خندق کے موقع پر ابوسفیان نے ایک چال یہ چلی کہ بعض قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ میں شامل تھے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور مشرکین بنوقریظہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس موقع پر حالات جاننے اور معلومات حاصل کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ نے پہلے حضرت زبیر بن العوامؓ کو بھیجا پھر ایک اور وفد بھیجا جس میں سعد بن عبادہؓ بھی شامل تھے۔ ان کے جانے پر بنوقریظہ نے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کردیا۔ چنانچہ سعدبن عبادہؓ نے آنحضرت ﷺ کی ہدایات کے مطابق علیحدگی میں اس کی اطلاع دی۔ غزوہ بنوقریظہ کے موقع پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے کئی اونٹوں پر کھجوریں لاد کر لشکر کے لئے دیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کھجور کیا ہی اچھا کھانا ہے۔ ایک صحابیؓ کی شہادت پر ان کی بیٹی کرب سے روئی تو رسول اکرمﷺ کے بھی آنسو نکل آئے اس پر سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا یہ کیا ہے؟ تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ھٰذَا شَوقُ الحَبِیْبِ اِلَی حَبِیْبِہٖ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ فتح مکہ کے لئے جب رسول اکرمﷺ نکلے ہیں تو حضرت سعد بن معاذ ؓکو بنوساعدہ کا جھنڈا عطا فرمایاتھا۔ ابوسفیان کو ہر وقت فکر رہتی تھی وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکل کر دیکھتا کہ کہیں حملہ نہ ہوجائے۔ ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بنوظہران کے مقام پر آیا تو کیا دیکھا کہ سارے میدان میں آگیں ہی آگیں ہیں۔ اس نے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں وہ باری باری قبیلوں کے نام لیتے تھے مگر ابوسفیان کہتا کہ نہیں ان کی تعداد اتنی نہیں ہے۔ اتنے میں اسلامی لشکر کے پہریداروں نے ان کو دیکھ لیا اور رسول اکرمﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ آنحضرتؐ کی ہدایت پر حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو ایک تنگ جگہ کھڑا کیا سب قبائل جہاں سے گزرتے تھے۔ ان کے سامنے سے جب حضرت سعد بن عبادہؓ کا گزر ہوا تو سعدبن عبادہؓ نے کہا کہ آج حرم میں جنگ کرنا جائز کر دیا گیا ہے۔ جب رسول کریمﷺ کا گروہ گزرا تو ابوسفیان نے یہ بات رسول اکرم سے کہہ دی جس پر آپؐ نےحضرت سعدبن عبادہ ؓسے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد کو دیا اور فرمایا آج تو کعبہ کی حرمت قائم کرنے کا دن ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کا ذکر یوں فرمایا ہے کہ جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے۔

آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی۔ جب رسول اللہ ﷺ ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے؟ ابھی ابھی انصار کے سردار سعدؓ اور ان کے ساتھی ایسا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بلند آواز میں یہ کہا ہے آج لڑائی ہو گی اور مکہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!آپ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ کیا آج اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے؟ ابوسفیان کی یہ شکایت و التجاء سن کر وہ مہاجرین بھی جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا، جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا تڑپ گئے اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ابوسفیان! سعدؓ نے غلط کہا ہے آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔ پھر آپ نے ایک آدمی کو سعدؓ کی طرف بھجواایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیس کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا۔ اس طرح آپ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا۔ اور رسول اللہ ﷺ کو قیسؓ پر پورا اعتبار بھی تھا کیونکہ قیسؓ نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے۔ ایسے شریف کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض جو میرے واقف ہیں میری عیادت کے لیے نہیں آئے۔ ان کے دوستوں نے کہا آپ بڑے مخیر آدمی ہیں آپ ہر شخص کو اُس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگ آپ کے مقروض ہیں اور وہ اس لئے آپ کی عیادت کے لئے نہیں آئے کہ شاید آپ کو ضرورت ہو اور آپ اُن سے روپیہ مانگ بیٹھیں۔ آپ نے فرمایا اوہو! میرے دوستوں کو بِلاوجہ تکلیف ہوئی میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے وہ اُسے معاف ہے۔ اِس پر اِس قدر لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ غزوہ حنین جسے غزوہ ہوازن بھی کہتے ہیں اس موقع پر جب آنحضرت ﷺ نے غنائم مہاجرین میں تقسیم فرمائیں اور انصار کو کچھ نہ ملا تو انصار میں بعض نے یہ باتیں شروع کردیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے قبیلہ کے ساتھ مل گئے ہیں۔ حضرت سعدؓ رسول اکریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میرے قبیلہ میں یہ یہ باتیں ہورہی ہیں۔ آپؐ نے تمام انصار کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا اور جب وہ اکٹھے ہوگئے تو آپؐ نے ان سے خطاب فرمایا کہ جب میں تم میں آیا تو تم گمراہ تھے اور خدا نے میرے ذریعے سے تم کو ہدایت عطا فرمائی، تم تنگدست تھے خدا نے تمہیں کشائش عطا فرمائی، تم آپس میں دشمن تھے خدا تعالیٰ نے میرے ذریعے تم میں محبت پیدا کردی۔ انصار نے جواب عرض کیا کہ درست ہے رسول کے ہم پر بہت فضل اور احسانات ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم کہہ سکتے تھے کہ دنیا نے آپ کو جھٹلایا اور ہم آپؐ پر ایمان لائے، جب اپنے آپؐ سے الگ ہو گئے، جب اپنوں نے آپ کو نکال دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی۔ میں نے تم سے مواخات کیا اور تم نے حقیر چیزوں پر دکھ محسوس کیا، میں نے تالیف قلب کے لئے ان کو دیا اور تم کو تمہارے اسلام کے سپرد کیا، یہ لوگ بھیڑ بکریاں لے کر گئے اور تم رسول کو لے کر جاؤ، اگر دو وادیاں ہوں اور ان میں ایک وادی انصار کی ہو تو میں انصار کی وادی میں رہنا پسند کروں گا۔ اے اللہ انصار پر اور انصار کے بیٹوں پر رحم فرما۔ اس پر سب انصار رونے لگے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ ہم راضی ہیں۔ اس پر آپؐ واپس تشریف لے گئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی اونٹنی اپنے تمام زادراہ سمیت گم ہوگئی اس پر حضرت سعدؓ اور ان کا بیٹا قیس اپنی اونٹنی اپنی تمام اسباب سفر سمیت لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ آپ یہ رکھ لیں لیکن اس وقت تک آپؐ کی اونٹنی مل چکی تھی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری اونٹنی مجھے مل چکی ہے۔اللہ تعالیٰ تم دونوں کے مال میں برکت دے۔ اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ ایک بچہ دم توڑ رہا تھا آپؐ وہاں گئے تو اس کی اس حالت کو دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے حضرت سعدؓ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کی رحمت ہے جو اس نے بندہ کے دل میں پیدا کی ہے۔ اللہ آنسو پر عذاب نہیں دیتا بلکہ زبان سے نوحہ کرنے کو بُرا دیکھتا ہے۔ رونا تو دعا کی کیفیت کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ قضاء و قدر پر ناراض نہیں ہونا چاہئے آنسو رضا چاہتے ہوئے نکلیں تو اور بات ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک انصار صحابی سے حضرت سعد بن عبادہؓ کا حال دریافت فرمایا تو انہوں نے ان کی بیماری کا ذکر کیا۔ اس پر رسول اکرم ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دوسرے صحابہ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے حریرہ تیار کرنے کا کہا میں نے آٹے اور دودھ سے حریرہ تیار کیا۔ جب اسے رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا تو حضور اقدس ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ گوشت کا ہے۔ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ واپس آکر والد صاحب سے جب اس کا ذکر کیا تو حضرت عبداللہ نے کہا کہ شاید حضورؐ کو گوشت کھانے کی خواہش ہے چنانچہ انہوں نے فوراً ایک بکری ذبح کی اور اس کا گوشت بھونا اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس پر رسول کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انصار کے مال میں، ان کے بیٹوں میں اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں میں برکت دے۔

بالخصوص عبداللہ بن حرام اور سعد بن عبادہ ؓکے گھروں میں۔ ایک موقع پر آنحضرتؐ نے انصار کے قبائل کا نام لے کر فرمایا کہ ان کے گھروں مں خیر ہی خیر ہے۔ اور بنوساعدہ کا نام آخر میں لیا ۔ سعدبن عبادہ ؓنے کہا کہ کیا ہمارا نام سب سے آخر میں رکھا گیا ہے تو کسی نے کہا کہ کیا چار میں سے ایک ہونا ہی سعادت کے لئے کافی نہیں۔ ایک دفعہ حضرت سعد بن عبادہ نے غیرت کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خدا کا رسول بھی غیور ہے اور خدا بھی غیور ہے۔ اور خدا کی غیرت یہ ہے کہ اس نے برائیوں سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح معذرت اور توبہ کو قبول کرتا ہے اسی لئے رسولوں کو بھی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا اور نوازتا ہے۔ اور جنت کا وعدہ بھی کیا ہے پس تم خدا کے قوانین سے آگے نہ بڑھو۔ جن 6صحابہ نے قرآن جمع کیا ان میں سے حضرت سعد بن عبادہ ؓبھی تھے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2020