• 19 اپریل, 2024

تبلیغ اور تربیت کے کام میں کیسے حکمت عملی اپنائی جائے؟

موٴرخہ 6؍نومبر 2022ء کو بيلجئيم کي نيشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ کو حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کاشرف نصيب ہوا۔ سیکرٹری تبلیغ کو مخاطب ہو کر حضور نے فرمایا:
’’عام طور پر تو پڑھے لکھے لوگ مذہب سے لا تعلق ہوتے ہيں۔ وہ مذہب ميں دلچسپي نہيں ليتے گو کہ وہ آپ سے بہت سي چيزوں پر تبادلہ خيال تو کرتے ہيں اور آپ کو بھي لگتا ہے کہ انہيں مذہب سے بہت دلچسپي ہے ليکن حقيقت ميں ايسا نہيں ہوتا۔ پس آپ کورابطے قائم کرنے کي کوشش کرني چاہيے نيز عام عوام کي طرف توجہ ديني چاہيے۔عربوں ميں سے اور لوکل بيلجيز ميں سے لوگوں کو تلاش کريں۔ اسي طرح ايشينز ميں سے جو يہاں ہجرت کر کے آئے ہيں۔ مختلف اقوام پر توجہ دينے کي کوشش کريں، مختلف گروپس کے لئے اپني ٹيميں بنائيں۔ عربوں کے لئے ايک ٹيم ہو،ايشينز کے لئے عليحدہ ٹيم ہو اور لوکل لوگوں کے لئے عليحدہ ٹيم ہو۔اس طرح آپ اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتي ہيں يا کم از کم آپ پيغام کو پھيلا سکتي ہيں۔‘‘

ايک عاملہ ممبر نے بيان کيا کہ ميرا نام انعم ارسلان ہے اور مجھے بطور سيکرٹري تربيت خدمت کي توفيق مل رہي ہے۔

حضور انور ايدہ اللہ نے فرمايا: آپ کے تربيت کے کيا پلان ہيں؟

سيکرٹري تربيت: نمازوں ميں 100 فيصد ادئيگي کے حوالہ سے ہم ہر دو ماہ بعد عشرہ تربيت منا رہے ہيں۔

حضور انور ايدہ اللہ نے فرمايا: ’’بچوں کو نمازيں پڑھانے کا بھي پروگرام بنائيں۔ يہ بھي ماؤں کي ذمہ داري ہے کہ بچوں کي نمازوں کي بھي نگراني کريں چاہے وہ لڑکے ہيں يا لڑکياں۔ يہ بھي پروگرام ميں شامل کريں اور بچوں سے ديني باتيں بھي کيا کريں تا کہ ان کو دين کا بھي پتہ لگے۔ماؤں کو کہيں کہ بچوں کے ساتھ گھروں ميں (ديني) باتيں کيا کريں۔ باپ اگر نہيں کرتے تو کم از کم مائيں تو کريں شايد اس بہانے باپوں کو بھي شرم آجائے۔‘‘

سيکرٹري تربيت: جي ان شاءاللّٰہ… ہمارے اس سال کے ٹارگٹ ميں پردہ اور شادي بياہ کے موقعہ پر جو بد رسومات ہيں اس کے حوالے سے ٹاسک شامل کيے گئے ہيں اور ہماري اس سال کي جو شوريٰ کي تجويز تھي اس ميں ماؤں کو تربيت اولاد کے حوالہ سے جو مسائل پيش آرہے ہيں اس کے لئے آگاہ کرنا تھا۔ اس کے لئے ہم لائحہ عمل تيار کر رہے ہيں تو اس کے بارے ميں بھي حضور ايدہ اللہ سے رہنمائي فرمانے کي درخواست ہے۔

حضور انور ايدہ اللہ نے فرمايا: ’’ٹھيک ہے وہ بنائيں۔ ايک لسٹ بنا ليں کہ کس قسم کے مسائل ہيں۔ تقريباً سارے مسائل بيان کيے جا چکے ہيں۔ مختلف حوالوں، خطبوں، تقريروں اور اقتباسات سے اس کا جواب ليں، ماؤں کو پتا ہونا چاہيے کہ کس طرح انہوں نے جواب دينے ہيں۔ايک تو يہ ہے کہ ماؤں اور بچوں کي، باپوں اور بچوں کي آپس ميں دوستي ہوني چاہيے تا کہ ايک دوسرے سے اپنے مسائل شيئر کريں۔ جب تک يہ شيئر کرنے کي عادت نہيں آئے گي اور interaction نہيں ہو گا تب تک مشکلات ہوں گي۔پہلے بچوں سے پوچھيں کہ کيا کيا مسائل ہيں؟ پھر ان کے جواب تيار کريں۔ماؤں سے بعد ميں پوچھيں پہلے لڑکيوں سے، ناصرات سے، لڑکوں سے، 15سال سے کم عمر کے لڑکوں سے پوچھيں پھر خدام الاحمديہ کے ساتھ تعاون کر کے 15 سال کے اوپر کے لڑکوں سے پوچھيں۔‘‘

(روزنامہ الفضل آن لائن 8؍دسمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2023