• 18 اپریل, 2024

عید کا مفہوم اور اس کی حقیقت حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں

عید کا مفہوم اور اس کی حقیقت حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں
جس نے رمضان میں خدا کی عبادت کی اور اس سے صلح کی وہ عید کا حقدار ہے
حقیقی عید دیکھنا چاہتے ہو تو دین کی ترقی کے لئے پوری سعی کرو

ایک فطری تقاضا

تمام قوموں میں بعض دن عید کے سمجھے جاتے ہیں لوگ اکٹھے ہو کر خوشیاں مناتے ہیں اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قوم کے مختلف افراد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کروہ کوفت اور تھکان جو گزشتہ محنت کے دنوں میںان کے جسموں پر وارد ہوئی ہے دور کریں اور اس خوشی کے ذریعہ اپنے رنجوں اور دکھوں کو دور کر کے تازہ دم ہو جائیں کیوں کہ انسانی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ اس کے لئے بعض دفعہ بناوٹ کا رنج رنج ہو جاتا ہے اور بعض اوقات بناوٹ کی خوشی اصل خوشی ہو جاتی ہے چنانچہ اگر ذراغمگین چہرہ بنایا جائے تو فورا ًطبعیت میں بھی غم آجاتا ہےاور اگرذرا خوشی کا چہرہ بنایا جائے تو باوجود رنج اور غم کے انسان ہنسنے لگ جاتا ہےاور اس طرح بہت کچھ غم کم ہو جاتا ہے اس لئے عیدین اور خوشی کے دن لوگوں کی خوشیوں اور غموں پر بہت کچھ اثر ڈالتے ہیں اور لوگ ان کے ذریعہ اپنی مصیبتوں کو کم کرتے ہیں اسی لیے ہر قوم اور ہر ملک میں عید کا رواج ہے حتی کہ افریقہ کے حبشی جن کا کسی مہذب ملک سے تعلق نہ تھا ان کی نسبت بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے خاص تہوار تھے جن میں وہ خوشیاں کیا کرتے تھے پس معلوم ہوا کہ عید منانا ایک فطرتی تقاضا ہے

(خطبات محمود جلد 1 صفحہ18)

خوشی اور ذمہ داری

قرآن کریم جیسی پاک کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاک انسان اس سے استنباط کرنے والا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عید کا دن بنا یا لوگ تو خوشیوں میں اپنے فرضوں کو بھول کر شریعت کے احکام توڑتے ہیں آپ ﷺ نے بجائے پانچ کے اس دن چھ نماز یں مقرر فرمائیں ۔کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ اس خوشی میں متوالے ہوکر شریعت کے احکام کو توڑیں ،اور مورد عذاب بنیں ۔بعض قوموں کو اللہ تعالیٰ نے انعام دیئےاور خوشی دی ۔ انہوں نے کفر کیا اور ان کو عذاب ملا۔تو عید بیشک خوشی اور راحت کی چیز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں ۔یہ خوشی کا دن ہے یہ کیوں خوشی کا دن ہے یہ ایک الگ سوال ہےاور لمبا مضمون ہے۔غرض یہ دن خوشی کے ہیں۔ خوشیوں میں لوگ فرائض کو بھول جایا کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ خوشیوں میں ذمہ داریاں بڑھ جایا کرتی ہیں

(خطبات محمود جلد 1 صفحہ 13۔14)

عیدوں میں فرق

اسلام کی عیدوں اور دوسرے مذاہب کی عیدوں میں ایک بڑا فرق ہے ۔دوسرے مذاہب نے تو یہ مدنظر رکھا ہے کہ انسان کی امنگیں اور خواہشیں کیا چاہتی ہیں مگر اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان امنگو ں کو نیکی اور بھلائی کی طرف پھیرنے کے لیے کونسی بات کی ضرورت ہےاسلام نے اس بات کا بھی خوب خیال رکھا ہے اسلام کی عیدوں اور دوسرے مذاہب کی عیدوں میں اسی طرح کا فرق ہے۔۔۔ ان کی عیدیں کیا ہوتی ہیں یہ کہ خوب ناچ گانا ہو فحش اور گندے گیت گائے جائیں کھانے پینے کی چیزیں ہوں خریدوفروخت کے سامان ہوں ۔لیکن اسلام کی عید یہ ہے کہ آؤبھئی آج بڑی خوشی کا دن ہے ہر روز پانچ نمازیں پڑھا کرتے تھے آج چھ پڑھیں ۔خوشی تو یہ ہوئی کہ کہاکپڑے بدلو۔ عطر لگاؤ۔ اچھے کھانے پکاؤ اور کھاؤ۔ کیوں؟ اس لئے کہ آج تمہیں خدا کی عبادت کرنے کا پہلے سے زیادہ موقع ملا ہے۔ یہی توعید ہے۔پس خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ مومن کی عید یہ ہوتی ہے کہ اللہ اس پر خوش ہو جائے اور جو ں جوں مومن کو اللہ کے قرب کی راہ ملتی ہے اتنی ہی اس کے لیے عید ہوتی جاتی ہے چنانچہ ہماری دونوں عیدیں بلکہ تینوں عیدیں خدا تعالیٰ نے ایسی ہی رکھی ہیں جن میں عام دنوں کی نسبت عبادت میں کچھ زیادتی کر دی ہے دو عیدیں تو وہ ہیں جو ہمارے ملک میں چھوٹی اور بڑی کے نام سے موسوم ہیں معلوم نہیں چھوٹی اور بڑی کا فرق کس خوردبین سے دیکھا گیا ہے تیسری جمعہ کی عید ہے جمعہ کے دن ایک خطبہ رکھ دیا ہے اور اس طرح نماز کو بڑھا دیا ہے کوفرض چار رکعت کی بجائے دو کردیے ہیں لیکن خطبہ اور دو رکعت کا وقت ملا کر چار رکعت سےبڑھ جاتا ہے یہ دوعیدیں جو سال میں آتی ہے ان میں سے ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد آتی ہے اور دوسری عیدوہ ہے جو ایام حج کے بعد آتی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن کی عیدیں اس وقت ہوتی ہیں ۔جب کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے سامان پیدا کرلے۔

خدا تعالیٰ نے سال میں دو عیدیں رکھ کر گویا نمونہ بتایا ہے دنیاوی گورنمنٹیں بھی نمائشیں کرتی ہیں جن سے ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو مختلف اقسام کے مال اسباب دکھائے جائیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تحریک کی جائے۔عیدیں آسمانی بادشاہت کی نمائشیں ہیں۔خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ بتا کر مسلمان کی اس طرف رہنمائی کی ہے۔ کہ اگر تم چاہو تو ہر روز عید کر لو اس لئےمومن کی ہر روز ہی عید ہوتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہےاور اگر گنا جائے توسینکڑوں تک نوبت پہنچتی ہے کہیں صریحاََ اور کہیں کنا یۃًکہ مومن کی جنت اسی دنیا سے شروع ہوجاتی ہے ۔تو عیدیں نمائش ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے یہ دکھایا ہے کہ اگر تم خوشی کے دن لینا چاہتے ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ خدا کو راضی کرلو اورجب خدا راضی ہوگیا تو پھر ہر روز عید ہی عید ہے ۔پس عیدیں اس بات کا نمونہ ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے تلاش کرےاور جب کسی نے خدا کو راضی لیا تو جتنا بھی وہ خوش ہو اور فخر کرے بجاہے۔

(خطبات محمود جلد اول18۔20)

خدا کو راضی کرلو

تمہارے لئے عیدیں خوشی حاصل کرنے کے لیے نمائش کے طور پر ہیں تا خدا کو راضی کرلو ۔اور تمہارے لئے ہروقت عید ہو۔چنانچہ دیکھو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خدا کو راضی کیا ۔ان کے لیے کیسی عیدیں ہوئیں ۔ صحابہ وہ لوگ تھے جنہیں دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا ،اورجنہیں ملتا تھا وہ لوگ تھے جو جَو کا آٹا کھاتے اور وہ بھی چھنا ہوانہیں ہوتا تھا اب اگر کسی کو جو کی روٹی دی جائے تو ناراض ہوجائے ۔مگر ان کی یہ حالت تھی کہ جو کا آٹا کھاتے اور بے چھنا کھاتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک عورت نے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ کے زمانہ میں چھلنیاں ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہاکہ اس طرح کیا جاتا تھا کہ پتھر پر جو رکھ کر کوٹ لئےجاتے تھے اور پھونک کر صاف کر لیتے اور روٹی پکا لیتے تھے لیکن انہی لوگوںکو خدا تعالی نے وہ ترقیاں دیں۔ اور وہ عید کے دن دکھائے کہ دنیا میں نہ کسی نے دیکھے اور نہ دیکھے گا ۔جس طرف جاتے کامیابی اور فتح پہلے ہی تیاررہتی۔ لاکھوں انسان مقابلہ کے لیے آتے۔مگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پہاڑ کی طرح کھڑے رہتے اور جس کسی نےان سے سر مارا خود پاش پاش ہوگیا ۔قیصر و کسریٰ ٹڈی دل لشکر کے ساتھ آئے ۔مگر جس طرح ایک بوسیدہ کپڑا پارہ پارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ان کے لشکروں کا حال ہوا اور وہ زبردست ستون جوآنحضرتﷺنے گاڑا تھا اسے کوئی نہ ہلا سکا

(خطبات محمود جلد اول صفحہ 23)

دل کی خوشی

عید جو ہوا کرتی ہے۔ دل کی خوشی ہوتی ہے یہ جو بناوٹی عیدیں ہیں گوایک حد تک فائدہ دیتی ہیں ۔مگر عید وہی ہے جو دل کی خوشی کی ہو۔اور دل کی خوشی اطمینان قلب کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور دل کا اطمینان سوائے اس کے نہیں ہوسکتا کہ خوف نہ ہو۔ اور خوف سے اس وقت تک انسان محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہ یقین نہ ہوکہ میرا ایسا پہرہ دار ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اوروہ پہرہ دار خدا کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اس لیے حقیقی عید یہی ہے کہ انسان کو یقین ہو جائے کہ اللہ مجھ سے راضی ہوگیا ہے ۔یہ عیدیں نمائش اور نمونہ کے طور پر ہیں۔ان سے وہ سچی عید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کسی وقت انسان سے جدا نہیں ہوتی نہ دن کو نہ رات کو نہ اٹھتے نہ بیٹھتے ۔نہ سوتے نہ جاگتے ،جس کو عید نصیب ہو جائے اس کی نسبت سچے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ

ہر روز روز عید است و ہر شب شبِ برات

ایسے انسان کی حالت ہر وقت خوشی یقین اوراطمینان کی ہوتی ہے ہمارے لیے ھی یہی سچی عید ہے پہلو ں کے لیے بھی یہی تھی بعد میں آنے والوں کے لئے بھی یہی ہوگی خدا تعالیٰ ہمارے لئے پہلو ں کی طرح ہی کرے۔اور ہماری کمزوریوں کو دور کردے ورنہ جب تک وہ حقیقی عید نہ آئے یہ عیدیں اسی طرح کی ہیں جس طرح کسی بیمار کو عارضی طور پر آرام دینے کے لئے کوکین دی جائے کیونکہ حقیقی خوشی تب ہی حاصل ہوسکتی ہے جبکہ حقیقی رنج دور ہو ۔اور یہ دور ہو نہیں سکتا جب تک اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ خدا میرے ساتھ ہے خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں،دکھوں،لڑائی جھگڑوں اور فسادوں کو دورکرکے حقیقی عید کرائے تا ہمارے لیے ہر وقت عید ہو اور وہ غم جو خوشی کو دور اور کمروں کو چور کر دینے والے ہیں ان کو دفع کرکے ہمارے لئے ہر گھڑی عید سچی راحت اور آرام مہیا کر دے آمین

(خطبات محمود جلد1 صفحہ 25)

خوشی کا اجتماع

عید یعنی خوشی کا دن۔ چونکہ خوشی کے دن کی نسبت سب انسان یہ امید رکھتے ہیں کہ بار بار آئے اس لئے اس کا نام عید رکھا گیا ہے عید کیاچیزہے اور خوشی کسے کہتے ہیں ؟اس پر اگر غور کیا جائے تو ایک ادنیٰ سے غور اور فکر سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خوشی اصل میں اجتماع کا نام ہے۔دنیاکی جس قدر بھی خوشیاں ہیں وہ سب اجتماع سے پیدا ہوتی ہیں بڑی سے بڑی خوشی شادی کی ہوتی ہے لیکن وہ کیا ہے یہی کہ ایک عورت اور ایک مرد مل جاتے ہیں۔اور ان کا اجتماع ہو جاتا ہے پھر بچوں کے پیدا ہونے کی خوشی ہوتی ہے وہاں بھی یہی ہوتا ہے کہ ایک نئی روح آ کر ان میں شامل ہوجاتی ہے تو خوشی کی اصل یہ ہے کہ کوئی چیز جب باہر سے آکر دوسری سے ملتی ہے تو اسے خوشی کہا جاتا ہے اور جب ایک چیز دوسری چیز سے جدا ہوتی ہے تو اسے رنج کہتے ہیں دنیا میں جس قدر بھی اجتماع ہوتے ہیں وہ سب خوشیوں ہی کا موجب ہوتے ہیں اور خوشی کے اظہار کا طریق ہی یہی ہے کہ اجتماع ہو۔

(خطبات محمودجلد ایک صفحہ 27)

اسلام تو عین فطرت انسانی کے مطابق مذہب ہے اگر تمام دنیا نے عید کا مسئلہ خلاف فطرت بنایا ہوتا۔تو اسلام یہ رکھتا کہ خوشی کے وقت انسان ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جایا کریں۔ جنگلوں میں الگ الگ پھرا کریں۔ کسی جگہ اکٹھے نہ ہو ں مگر یہ نہیں رکھا بلکہ یہی رکھا ہے کہ عید کے دن ایک مقام کے لوگوں کا جمع ہونا تو الگ رہا اردگرد کے لوگ بھی ایک جگہ جمع ہوا کریں اس سے پتہ لگتا ہے کہ اجتماع خوشی کا باعث ہوا کرتا ہے

(خطبات محمود جلد اول صفحہ 28)

عظیم الشان خوشخبری

ہماری جماعت نے حضرت مسیح موعود ؑ سے یہ وعدہ کیا ہوا ہے۔ کہ وہ اس کام میں کوشش کرے گی ۔اور ان سب روحوں کو جو اپنے اندر رشد اور سعادت کا مادہ رکھتی ہیں ایک جگہ پر جمع کر دے گی۔پس تم لوگ اپنے اس فرض کو سمجھو ۔ اور بڑی کوشش اور ہمت سے اس کام میں لگے رہو ۔دیکھو جب ایک جگہ ایک نقطہ خیال کے چند آدمی جمع ہوتے ہیں تو کیسا سرور حاصل ہوتا ہے تو جس وقت وہ عظیم الشان اجتماع ہوگا جس کا کرنا تمہارے سپرد ہے۔ اس وقت تمہیں کیسی لذت حاصل ہوگی ۔تم خیال کرو کہ جس وقت جو کلمہ تم پڑھتے ہو وہی کلمہ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پڑھا جائے گا ۔ ہر بستی ہر گاؤں اور ہر شہر میں وہی آواز سنائی دے گی ۔چو نکہ زمین گول ہے اس لیے ہر وقت اذانیں اور نمازیں ہی ہوتی رہیں گی۔ اس وقت تمہیںکتنی لذت حاصل ہوگی پھر جب تم یہ دیکھو گے کہ جس کلمہ جس دین اور جس آواز پر تم لوگوں کو بلاتے ہواسی آواز پر بے شمار لوگ بلانے والے ہوں گے۔ اور ہر شہر اور ہر بستی سے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کی آواز آتی ہوگی ۔ تمام دنیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاںنہیںدی جائیںگی بلکہ آپؐ پر درود بھیجا جائے گا خدا کو بُرا بھلا کہنے والے نہیں ہوں گے ۔بلکہ اس کی محبت میں چُور اور اس کے تعلق سے مسرور نظر آئیں گے۔ یہ خیال جو خوشی اور سرور اور پیدا کرسکتا ہے وہ اور کوئی نہیں پیدا کر سکتا …… باقی سب چھوٹی چھوٹی عیدیں ہیں اور یہ دراصل اس بڑی عید کا نشان اور اس کی یاد دلانے والی ہیں۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ اس عید کے لیے کوشش کریں۔ کیونکہ اس سے زیادہ لذت اور کسی خوشی میں نہیں ہے

(خطبات محمود جلد1 صفحہ33-34)

عید تمہارے ہاتھ میں ہے

تم لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ آنے والی عید تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے ۔تم جتنی جلدی اسے لانا چاہو لا سکتے ہو ۔اگر تم نے اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعہ اس کے لانے کی کوشش نہ کی تو کوئی اور قوم ہوگی جو اس کو لائے گی مگر اس وقت خوشی اُسی کے لیے ہوگی نہ کہ تمہارے لیے۔ تمہارے لیے تو وہ دن ماتم کا دن ہوگاپس تم اس بات کے لیے کوشش کرو کہ آنے والی عید تمہارے لیے عید کا دن ہو اور تمہاری ہی زندگی میں آ جائے۔ وہ دن آئے گا تو ضرور کیونکہ خدا تعالی فرماتا ہے لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ، کہ اسلام کا غلبہ ہو گا اور ضرور ہوگا کوئی بڑی سے بڑی حکومت اس کے مقابلہ کے لیے کھڑی نہیں ہوسکتی ۔اگر ساری دنیا بھی اس کے خلاف کھڑی ہوجائے۔ تو اس طرح مسل دی جائے گی جس طرح تازہ گھاس مسل دی جاتی ہے ۔ کیونکہ اسلام کا مقابلہ نہ دنیا کا مال کرسکتا ہے۔ نہ تلوار ۔ نہ توپ۔ نہ جہاز کیونکہ اسلام خدا کے ہاتھ کے سہارے کھڑا ہوا ہے۔ اب اس کو کوئی نہیں بٹھا سکتا ۔یہ کھڑا ہی رہے گا ۔اور سوائے شقی ازلی روحوں کے باقی سب اس کی صداقت اور حقانیت کو قبول کر لیں گی۔اور تمام دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا۔پس جب وہ دن آئے گا تو حقیقی عید اور خوشی ہوگی۔ مگر ان کے لیے جن کے ہاتھوں اسلام پھیلے گا ۔ اور افسوس اورماتم ہوگا ان کے لیے جن کو اس بات کا موقعہ تو دیا گیا تھا ۔مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ تم لوگ اس بات کی کوشش کرو کہ جو موقع تمہیں نصیب ہے اس سے فائدہ اٹھا لو۔ تمہارے سامنے حقیقی خوشی اور جنت ہے ۔ کوشش کرو کہ اس کو حاصل کر لو۔مگر دوزخ بھی تمہارے قریب ہی ہے ذرا پاؤں لڑکھڑایا۔ اور اس میں گر پڑے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ پلِ صراط کی طرح ہے ۔اگر تم نے کوشش اور ہمت سے کام لیا تو جنت میں داخل ہوگئے۔اور ذرا بے احتیاطی کی تو دجال کے دوزخ میں گرپڑے ۔پس تم ہوشیار ہو جاؤ۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ36)

خدا کی عبادت

آج کے دن کا نام اس نام کے علاوہ جو ہفتہ کے دنوں کا ہوتا ہے ۔ایک اور بھی ہے اس دن کو لوگ عید کہتے ہیں۔لیکن بہت کم لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ عید کیا ہوتی ہے؟ چھوٹے بچے جو ابھی اماں اور ابا بھی نہیں کہہ سکتے وہ بھی خوش ہیں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ خوش ہیں ۔ پھر جو ان سے بڑے ہیں وہ بھی خوش ہیں کہ ان کے کپڑے بدلے جا رہے ہیں انہیں نہلایا دھلایا جا رہا ہے ان کو کو مٹھائیاں دی جارہی ہیں۔ اور آج ان کی پہلے دنوں کی نسبت کچھ زیادہ خاطر تواضح ہو رہی ہے ۔ پھر وہ بھی خوش ہیں جو اسکول میں پڑھتے یا کوئی اور کام کرتے ہیں ۔کیونکہ آج انہیں چھٹی ہے ۔بچے خوش ہیں کہ عید جس کی آمد کا وہ کئی دن سے انتظار کر رہے تھے۔ آ گئی ہے۔مگر اس لئے خوش نہیں کہ وہ عید کو جانتے ہیں ۔ بلکہ ان کی خوشی صرف اس لیے ہے کہ انہیں آج پہلے کی نسبت اچھی اور زیادہ چیزیں کھانے کو ملی ہیں۔ کپڑے بدلے گئے ہیں ۔ بڑے لڑکے بھی خوش ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ عید کو جانتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعہ مدرسہ سے آزادی ملی ہے ۔بہت لوگوں نے میلے دیکھے ہوتے ہیں ۔وہ عید کو بھی ایک میلہ سمجھ کر کر خوش ہوتے ہیں ۔۔۔نئے کپڑے پہننے اور اجتماع میں جانے سے بہت سے لوگ ہیں۔جو خوش ہوجاتے ہیں۔ مگر دانا انسان کا کام یہ نہیں وہ ایسی باتوں پر ہی خوش ہو جائے ۔دانا انسان ہمیشہ کسی حکمت کو دیکھتا ہے۔ ایسا انسان جو کسی بات کی حکمت معلوم ہوئے بغیر خوش ہوتا ہے اس کی خوشی بے معنی اور بے حقیقت ہوتی ہے۔ اس کی فرحت وراحت ایسی ہوتی ہے جیسے بعض دواؤں سے عارضی آرام حاصل کیا جاتا ہے ۔ آج کے دن اگر محض یہی باتیں کسی شخص کی خوشی کاموجب ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے تو ایک دانا کو تو نا خوش ہونا چاہیے کیونکہ آج اسے پہلے کی نسبت زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے ۔ پھر اس دن کی خصوصیت نہیں رہتی ۔کیونکہ اس قسم کے سامان ۔۔۔۔ دنوں میں بھی انسان مہیا کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر عید کرنے والا اور اس موقع پر خوش ہونے والا کیوں خوش ہوتا ہے ۔ کیا اس کے کوئی لڑکا پیدا ہوا؟ یا اس کی یا اس کے کسی دوست کی شادی ہوئی؟ یا کسی تجارت میں اس کو نفع عظیم ملا ؟یا اس کی کھیتی میں اچھا غلہ پیدا ہوا ؟یا کسی امتحان میں کامیاب ہوا ؟ یا اس کو کوئی درجہ اور عہدہ اور خطاب ملا ؟یا اس کو کہیں سے مال حاصل ہوا ؟یا اس کو اس کے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی ؟ان باتوں میں سے تو کوئی بات بھی عید منانے والے کو حاصل نہیں ہوئی ۔ پس جب ان وجوہات میں سے جو بظاہر خوشی کا سبب ہوا کرتی ہیں کوئی وجہ بھی عید پر خوش ہونے والے کے پاس نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جو ان سب سے اعلی ہے۔ تو پھر اس کا خوش ہونا پاگلوں والا فعل ہے۔عید کے دن خوش ہونے والے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ تمہارے خوش ہونے کی کیا وجہ ہے؟ اگر وہ صرف اچھے کھانے کھانا۔ نئے کپڑے پہننا ہی بتائیں تو یہ باتیں جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں۔ اور ایام میں بھی میسر آسکتی ہیں۔ ان پر خوش ہونا عقلمندوں کا کام نہیں۔ کیونکہ ایک ایسے کام پر خوشی جو ہر وقت کیا جاسکتا ہے اور جس پر پر بہت کچھ خرچ ہوتا ہے دانائی نہیں ہے۔ اس طرح خوش ہونےوالوں پر مجھے ایک بات یاد آگئی ۔حضرت خلیفہ اول کے پاس جب ہم پڑھا کرتے تھے ۔ ایک دن ایک عورت آئی اور اس طرح ہنستے ہنستے کہ گویا اسے کوئی بڑی خوشی حاصل ہوئی ہے کہنے لگی مولوی صاحب میرا بیٹا طاعون سے مر گیا ہے ۔یہ کہہ کر پھر ہنستی ہوئی چلی گئی۔ دوسرے دن پھر آئی اور ہنستے ہنستے اور اسی طرح بے اختیار ہو کر کہ اس کے منہ سے مارے ہنسی کے لفظ بھی بمشکل نکلتا تھا ۔حضرت مولوی صاحب کو کہنے لگی۔حضور میرا دوسرا لڑکا بھی مر گیا ہے ہے تیسرے دن پھر آئی اور اسی طرح ہنستے ہوئے کہا مولوی صاحب میرا خاوند بھی مر گیا ہے ۔ اس کے ہاں چار موتیں ہوئیں اور اس نے ہر ایک کا حال مولوی صاحب کو ہنس ہنس کر سنایا ۔وہ اس قدر زیادہ ہنستی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ لیکن کیا وہ کسی خوشی کی وجہ سے ہنستی تھی۔نہیںبلکہ اسے مراق کی بیماری تھی۔ اس کا دل غمگین تھا اور جوواقعات اسے پیش آئے تھے وہ رلانے والے تھے اس لیے اسے رونا چاہیئے تھا مگر اسے رونے کی بجائے ہنسی آتی تھی کیا اس کی ظاہری خوشی درحقیقت خوشی تھی۔ نہیں بلکہ وہ خوشی اسے پاگل ظاہر کر رہی تھی ۔میں کہتا ہوں آج خوشی کی کیا بات ہے کہ مسلماں خوش ہیں اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں دے سکتے کہ آج عید ہے ۔لیکن وہ لوگ جو حقیقتاََ شریعت کے مغز کو جانتے ہیں وہ اس کا یہ جواب دیں گے کہ آج احمدی اپنے خدا کے حضور چونکہ اس بات کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔کہ انہوں نے مہینہ بھر اور کامل طور پر اپنی عبودیت کا اقرار کیا ہے ۔ لیکن جس نے واقعہ میں رمضان میں اپنے اندر کوئی اچھا تغیر پیدا کیا ہے خدا سے صلح کی ہے۔ خدا کی عبادت کی ہے ۔ اس کے لیے عید ہے ۔ اور وہ جس قدر بھی خوش ہو اس کا حق ہے ہم دیکھتے ہیں وہ شخص جسے گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خطاب ملتا ہے وہ خوش ہوتا ہے اس کے عزیزواقارب خوش ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ شخص جسے خدا خطاب دیتا ہے جس کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ خوش نہ ہو ۔اسے تو بہت زیادہ خوش ہونا چاہیے ۔بہت سی عیدیں منانا چاہیئے ہاں جس نے ایک ذرہ بھی قرب حاصل ن ہیں کیا اس کے لیے عید نہیں جس نے کوئی تغیر پیدا نہیں کیا ۔ اس کے لئے بھی عید نہیں ۔اس نے اپنے وقت کو ضائع کیا ۔اپنے مال کوبے وجہ خرچ کیا۔ اس کا عید منانا پاگلوں کا سا کام ہے۔ اور اس کی ایسی ہی مثال ہیں جیسا کہ ایک ماتم کے وقت یہ کہنے والے کی کہ خدا یہ دن پھر لائے

(خطبات محمود جلد1 ص26 تا 29)

رمضان کا سبق

اسلامی عیدیں کیا ہیں؟ ایک جانی قربانی کے بعد ہوتی ہے کہ مہینہ بھر تمام حلال چیزوں کو دن میں ترک کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔خدایا تیرا شکر ہے کہ ہم تیرے اس حکم کو کو بجالاسکے۔ دوسری عید مالی قربانی کی ہے ۔اس پر مال قربان کیا جاتا ہے ۔اسلام کسی ایسی عید کا قائل نہیں جس کے ساتھ کچھ قربانی نہ ہو ۔اور وہ قربانی محض خدا تعالی کے لیے نہ ہو ۔اسلام تو شاید اسی کو عید کہتا ہے کہ خدا کی راہ میں مال وجان جو کچھ بھی ہو قربان کر دیا جائے ۔اور اس کے بعد خوشی منائی جاوے۔ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو اسی قربانی کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک چیز کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی کو بھی خدا کے دین کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھیں ۔ان کے لئے وہی خوشی کا موقع ہوگا۔ جبکہ ان میں یہ طاقت اور ہمت پیدا ہوجائے گی کہ وہ خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ صرف کرنے کے لئے تیار رہیں ۔ رمضان کا مہینہ ان کو یہی سبق دینے آیا تھا ۔ پس وہ اس سے یہ سبق لیں۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ29)

عید کے معنی

عید کا لفظ اردو فارسی اور عربی زبان میں خوشی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔لیکن یہ معنی محاورے کے معنیٰ ہیں ۔درحقیقت عید کا لفظ عود سے نکلا ہے۔ اورعود کے معنیٰ دوبارہ واپس آنے اور بار بار آنے والی چیز کے ہیں ۔خوشی کے لئے یہ لفظ اس وجہ سےاستعمال ہوتا ہے ۔کہ خوشی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے واسطے بار بارآنے کی خواہش ہوتی ہے ۔دکھ مصیبت اور رنج و غم کوئی نہیں چاہتا کہ آویں ۔ کوئی نہیں چاہتا کہ موت ،جدائی،نقصان اورگھاٹا آوے۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ لڑکے پیدا ہوں ۔ تجارتوں میں فائدے ہوں۔ دوستوں اور عزیزوں کی ملاقاتیں ہوں دشمن سے نجات ہو۔اسی واسطے محاورے میں خوشی کے لئے ایسا لفظ استعمال کیا گیا جس میں بار بار آنے کے معنیٰ پائے جاتے ہیں۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ30)

حقیقی عید

پس اگر حقیقی عید دیکھنا چاہتے ہو تو اسلام کی ترقی کے لئے پوری سعی کرو۔ اور اسلام کی ترقی وابستہ ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد واتفاق پر اور اتحاد اور اتفاق بھی پیدا نہیں ہو سکتے جب تک وہ عید جو حقیقی عید ہے قریب لانے کی کوشش نہیں کی جاتی اس وقت تک یہ عید بھی ایک کھلونا ہے۔ حقیقی عید نہیں۔ فاخرہ لباس اور خوشبو لگا کر خوش ہو جانا کسی کام کا نہیں ۔جب تک دلوں میں حقیقی خوشی پیدا نہ ہو اور وہ پیدا نہیں ہوسکتی جب تک اسلام کی خدمت نہ کرو اور اسلام کے واسطے سچی قربانی نہ کرو۔ دنیاداروں میں قربانی کی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم میں کچھ بھی نہیں۔ وہ لوگ ایک مدرسہ کھولتے ہیں تو اس کے لئے بیسیوں قربانی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر بر خلاف اس کے اسلام کے اہم کاموں کے لیے بھی بہت کم لوگ قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اور کوئی شخص پانچ دس روپے کم لے کر بھی اگر کسی کام کے لئے لگتا ہے تو اس کو احسان سمجھتا ہے اور اس کا احسان جتاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو قربانی کی توفیق دے تاکہ عید ان کے لئے حقیقی خوشی اور سچی عید ہو۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ39)

خدا کا ملنا حقیقی عید ہے

چھٹی کا نام عید نہیں ۔یہ بھی انسان جب چاہے منا سکتا ہے اب ظاہر ہے کہ کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کے قبضہ و اختیار میں نہیں ہے ۔کیونکہ انسان عید کے لئے خواہش کرتاہے اور دعائیں مانگتا ہے کہ وہ دن آئے ۔تو ثابت ہوا کہ یہ چیزیں عید نہیں بلکہ حقیقی عید کے لیے کچھ نشان ہیں جن سے اس کا پتہ لگتا ہے۔ حقیقی عید وہ ہوتی ہے جس میں دل خوش ہو نہ کہ اچھے اور سفید کپڑے پہننے کو عید کہا جاتا ہے یوں تو مردہ کو بھی سفید کفن پہنایا جاتا ہے۔ مگر کیا اس دن کو کوئی عید کہتا ہے پھر اجتماع کا نام بھی عید نہیں کیونکہ مردہ پر بھی اس کے رشتہ دار اور اس کے دوست آشنا جمع ہوتے ہیں،مرنے والے کے وارثوں کے لیے اس کا گھر میں اکیلے چارپائی پر پڑے رہنا زیادہ خوشی کا موجب ہوتا بہ نسبت اسکے کہ مرنے پر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں کیونکہ جب تک ان کے ہاں ایسا اجتماع نہیں ہوا تھا ان کو خیال تھا کہ یہ ہم میں ہے۔ لیکن اجتماع کے بعد معلوم ہو گیا کہ یہ اب دنیا میں ہم سےہمیشہ کے لئے جد ا ہو گیا ۔پھر عمدہ کپڑے پہننا بھی خوشی کی بات نہیں ۔ کیونکہ کہ مردہ کا کفن بھی سفید ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ عمدہ کپڑوں کے نیچے ایک غمگین اور افسردہ روتا ہوا دل ہو۔ اسی طرح کھانا بھی وہی اچھا ہوتا ہے جو خوشی کا کھانا ہو اگر خوشی نہیں تو ہر عمدہ سے عمدہ کھانا حلق سے بمشکل اترے گا۔ دکھوں اور آفتوں میں مبتلا دل کے لیے کوئی کھانا عمدہ نہیں ۔لیکن جو شخص خوش وخرم ہو اس کے لیے جنگل کے پتے زیادہ خوشی کا باعث ہوسکتےہیں کیونکہ اس کے دل کو آرام اور سکھ اور طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔اسی طرح ایک میلے کپڑے والا جس کا دل آرام میں ہے اس عمدہ پوشاک والے کی نسبت جس کے دل میں اطمینان نہیں راحت میں ہوتا ہے۔ تو عید کے معنیٰ دل کی خوشی اور راحت کےہیں اور جس کا حاصل کرنا فطرت کا تقاضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی خواہش سب میں پائی جاتی ہے اس عید کے معنیٰ کپڑے پہننا نہیں یہ تو درحقیقت ایک نشان ہے یا جھوٹی خوشی جیسا کہ جب بچہ کی ماں اسں سے جدا ہو جائے تو وہ روتا ہے اور اس کو بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ میں کھلونا دیتے ہیں جس سے وہ عارضی طور پر بہل جاتا ہے لیکن پھررونا شروع کر دیتا ہے اسی طرح یہ عید چونکہ اصل عید نہیںاس سے عارضی اور آنی طور پر انسان خوش ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اصل چیز تو اس کو حاصل نہیں ہوئی پھر لوگ ایک سال کے بعد جمع ہوتے ہیں اور دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دن یا ایک گھنٹہ یا چند گھنٹہ کے لیے خوش ہوجاتے ہیں ۔اور پھر ان کو افسوس ہوتا ہے دراصل اگر صحیح راستہ پر نہ چلا جائے تو راحت میسر نہیں ہو سکتی اسلام نے تقاضا فطرت کو پورا کرنے کے لیے دوعیدیں رکھی ہیں جو ہمارے ملک میں ایک بڑی اور چھوٹی عید کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں یعنی عید الفطراور عید الاضحی۔ ان دونوںعیدوں میں ایسی عبادتیں لگائی گئی ہیں۔ کہ ان پر عمل کرنے سے انسان خدا کو پا لیتا ہے۔ اور چونکہ حقیقی خوشی وہی ہے جس میں خدا مل جائے اور اسلام نے جو عید رکھی ہے اس میں خدا کو پانے کے گر بتائے ہیں ۔ اس لیے اس کے واسطے یہ خواہش کرنا بچا ہے کہ یہ دن بار بار لوٹ کر آئے دن ہے جس میں حقیقی راحت کا نشان ہے ۔ کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس راستہ پر چل کر خدا کو دیکھ لو گے اور جب تک وہ دن تم پر نہ آئے کہ تم خدا کو دیکھ لو اس وقت تک تمہارے لئے عید کا دن نہیں ہو سکتا ۔پس اسلام نے چونکہ ان عیدین کو حقیقی عید کا نشان رکھا ہے اس لیے ان سے ایک حد تک دل کو سچی راحت پہنچی ہے اور ان سے خدا تعالیٰ کے پانے کا کا پتہ چلتا ہے ۔ ہماری عید کیا ہے ؟ یہ کہ ہمارا محبوب ہمارا خدا ہمیں مل جائے جو شخص کوشش کرتا اور محنت برداشت کرتا ہے اس کو اس کا خدا مل جاتا ہے ۔اور پھر ایسا آرام اور ایسی خوشی حاصل ہوجاتی ہے کہ جسے کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ دیکھو عیدالفطر کے لئے اسلام نے ایک ماہ کے روزے فرض قرار د ےکر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جسمانی قربانی ضروری رکھی ہے۔ اور دوسری عید پر انسان ظاہر قربانی کرتا ہے جو کہ اس بہت بڑے انسان کےنمونہ کی یادگار میں ہوتی ہے جس نے خدا کے لئے اپنا بیٹا ذبح کرنا چاہا مگر خدا نے اس کی جگہ جانورذبح کرادیا ۔اور آئندہ کے لئے مقرر کردیا کہ جانوروں کی قربانیاں کی جایا کریں۔ تو اس عید پر بکرے ذبح کرنا دلیل ہوتا ہے اس امر کے لئے کہ اس بندے کو جو قربانی کر تا ہے خدا کے راستہ میں اگر اپناسر بھی دینا پڑے تو اس میں توقف نہیں کرے گا ۔یہ اسلام کی مقرر کردہ عیدوں کی حقیقت ہے۔مگر اور لوگوں کی عیدیں اپنے اندر یہ حقیقت نہیں رکھتیں۔اس لئے ان میں جو خوشی منائی جاتی ہے وہ راحت بخش خوشی نہیں ہوتی کیونکہ ان کی عیدیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسا کہ روتے ہوئے بچہ کو ایک کھلونا دے دیا جائے ۔جس سے وہ تھوڑی دیر کے لئے بہل جائے یوں تو اسلام کی عیدیں بھی حقیقی اور اصلی خوشی حاصل کرنے کا نمونہ ہی ہیں لیکن دوسروں کی خوشی کے نمونہ اور ان میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ انکے میلے اور تہوار محض نمونہ ہی نمونہ ہیں جن کے بعد ان کے لیے حسرت وافسوس ہوتا ہے

(خطبات محمود جلد1 صفحہ43)

عید کی اصل غرض

ہماری عید کی یہی غرض ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارا خدا مل جائے اور اس کے ملنے کا یہ طریقہ ہے اس کے لیے قربانیاں کی جائیں۔ اگر ہم اس غرض کویاد رکھیں تو ہماری عید عید ہے ورنہ جھوٹے طرز پر خوش ہونا رنج اور دکھ کو اور بڑھا دیتا ہے ۔پس ان کے لئے جوخدا کےعبد ہوں ہر روز عید کا روز ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی مصیبت ان پر اثر نہیں ڈال سکتی کیونکہ ان کو دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے لیکن وہ شخص جس کا دل دکھوں اور آفتوں میں گھرا ہوا ہواور جس کا دل آفتوں کاشکارہو وہ خواہ اچھے کپڑے پہن لے اچھا کھانا کھا لے اس کے لیے کوئی عید نہیں ہے۔ ان کے مقابلہ میں خدا کےبندے ایک ایسے باغ میں ہوتے ہیں جہاں کوئی آفت اثر نہیں کر سکتی وہ ہر دکھ سے محفوظ ہوتے ہیں اور ایسے مصائب جو دنیا کی کمر توڑ دینے والے ہوتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتے

( خطبات محمود جلد1 صفحہ45)

عید ملاقات کا نام ہے

تم دنیا کی کسی کو شےمیں چلے جاؤ عید کے مفہوم میں اختلاف نہیں پاؤگے اور غم کس کو کہتے ہیں۔ اس کو کہ جدائی ہو۔ مل جانے کا نام عید ہے جتنا بڑا ملاپ ہو گا اتنی ہی بڑی عید ہوگی لوگ نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں یہ بھی ایک عید ہے ۔ مگر محلہ کے لوگوں کی۔ لوگ جمعہ کے دن جمع ہوتے ہیں یہ شہر کے لوگوں کی عید ہے۔اور عید میں علاقہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں یہ ان کی ہے اور حج میں تمام دنیا کی عید ہے ۔سوال ہوتا ہے کہ کن سے ملیں ۔ اس کو عیدہی کے لفظ سے حل کریں گے اورعید ہی سے پوچھیں گے کہ کن سے ملنا چاہیے تو جب ہم اس بات پر غورکرتے ہیں ۔تو معلوم ہوتا ہے کہ ملنا ان سے چاہئےجن سے خوشی ہو۔اور انہی سے ملنے کا نام عید ہے کیوں کہ لوگ لڑائیوں میں ملتے ہیں ۔جتنے جرمنی اور فرانس کے میدانوں میں لوگ ملے۔اتنے پہلے کہاں ملے ہوں گے مگر ان کا ملنا عید نہ تھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ ملنا وہ عید ہےجو ہمارے لیے مفید ہو ۔پس دنیا کے دستور نے بتادیا کہ عید وہ ہے جس میں ملاپ ہو جو مفید ہو اس کا نام عید ہے جس سے ملنے سے راحت ہو اور اس سےجدائی غم ہے ماتم ہے۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ57)

عید کا سبق

حقیقی عید کیا ہوئی یہی کہ خدا سے تعلق ہو جائے۔اس سے ملاقات ہوجائے پھر کوئی برکت نہیں جو حاصل نہ ہو کوئی راحت نہیں جو میسر نہ آئے بلکہ ایسے شخص کے لئے ہر ایک آن عید ہے عید کیا ہے؟ خدا سے ملنا اس لیے عید کے دن سے عبرت حاصل کرو اور خدا سے ملنے کی کوشش کرو ایسی کوشش جو کبھی سست نہ ہو اگر لاس کو پا لو گے ۔ تو کوئی رنج نہیں جو دور نہ ہو جائے اور کوئی راحت نہیں جو میسر نہ آئے جس کو خدا تعالی مل جائے اس کو کوئی موت رنجیدہ نہیں کرسکتی کوئی غصہ دکھ نہیں دے سکتا دیکھو بیوی خاوند جن میں خوب محبت ہو اور پھر کوئی ایسا وقت آئے جب کہ ایک دوسرے کو یقین ہو کہ ہم میں بہت محبت ہے اس وقت اگر خاوند غصہ والی شکل بنائے بھی تو کیا عورت ناراض ہوگئی ہرگز نہیں بلکہ ہنس دے گی اور سمجھے گی کہ یہ بھی پیار ہے پس جس کے ساتھ خدا کو محبت ہو اور جس کا خدا سے تعلق ہو اسے اگر غصہ کی نظر سے بھی دیکھے تو وہ رنجیدہ نہیں ہوگا بلکہ یقین کرے گا کہ یہ غصہ نہیں بلکہ یہ بھی ایک اظہارِ محبت کا طریقہ ہے کسی عزیز کی موت اسے غمگین نہیں کرسکتی کوئی لڑائی کوئی فتنہ اور کوئی منصوبہ اس کو غمگین نہیں کر سکتا اور کوئی بیماری اور روگ ہو۔ اس کا دل افسردہ نہیں ہوسکتا پس اگر عید چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ سفید کپڑے پہننے اور سویاں کھانے کا نام عید نہیں ہے بلکہ عید تو یہ ہے کہ خدا سے تعلق ہو جائے اور بندے کی اس سے صلح ہوجائے یہ عید جب آتی ہے تو جاتی نہیں اور اس عید کے دن کی شام نہیں اس کو کوئی زمانہ ہٹا اور ختم نہیں کر سکتا وہ دن ایسا ہے کہ اس کی عید ختم نہیں ہوتی جیسا کہ شاعر نے کہا ہے

؎جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

وہ عید نہ اس دنیا میں ختم ہوتی ہے نہ قبر میں ختم ہوتی ہے نہ اگلے جہان میں وہ ختم ہوتی ہے بلکہ اس عید کا دن یہاں چڑھنا شروع ہوتا ہے اور اگلے جہان میں عروج پر ہوتا ہے ۔ پس اس عید سے یہ سبق لوجو خدا نے مقرر کیا ہے ۔ دوسری عید جو اس سے چھوٹی ہے مگر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ سے محبت رکھنے کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے محبت کی جائے ۔اور اگر یہ ضروری نہ ہوتا تو بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ماں باپ کے ذریعہ سے انسان کو پیدا کرتا یونہی آسمان سے اتار دیتا یا وہ ضرورتیں جو انسان کے لاحق حال ہیں وہ اور ذرائع سے پوری ہوجاتیں مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت ہے توبجائے مرد کے لیے عورت پیدا کرنے کے خدا تعالیٰ کوئی ایسا سامان کرتا جو عورت کی ضرورت ہی مرد کو نہ پڑتی لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا بلکہ عورت کو پیدا کیا اولاد دی۔ محلہ دار بنائے۔ خدا کا یہ عمل بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے آپس میں محبت کریں انسان بچوں سے محبت کرتا ہے بیوی سے محبت کرتا ہے کیوں کرتا ہے کیوں خدا نے یوں نہ کیا کہ انسان کا یہ تقاضا پورا کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔خدا کے فرشتے نہیں اترے اور اس کے ساتھ جماعت نہیں کراتے ۔اس سے پتہ لگتا ہے جس قدر لوگوں کے ہم سے اچھے تعلقات نہ ہوں گے وہ ہم سے نفرت کریں گے اور ہماری عید میںاتنی ہی کمی ہو گی خوشی اسی وقت ہو تی ہے جب اجتماع ہو اور مفید ہوکوئی نہیں جو اجتماع سےناراض ہوتا ہو ۔کوئی مقرر جب تقریر کرتا ہے اگر لوگ اس کی تقریر میں اٹھ کر چلے جائیں اس کو تکلیف ہو گی اور اگر بڑھ جائیں تو خوشی کا احساس ہو گا ۔پس سوائے مراقی کے کوئی نہیں جس کو اجتماع سے خوشینہ ہو تی ہو ۔مگر ان اجتماعوں سے بڑھ کر وہ اجتماع خوشی کا موجب ہو تا ہےجو خدا کے ذریعہ ہو وہ حقیقی اجتماع ہےاور اس سے جو خوشی ہو وہ حقیقی خوشی ہے۔ ماں باپ سے انسان علیحدہ ہو سکتا ہے مگر ایک مومن سے مومن جدا نہیں ہو سکتا کیاایک مومن کا اجتماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹ سکتا ہے ممکن ہے بیٹا جہنم میں جائے یا باپ ۔لیکن ایک مومن کا مومن سے وہ رشتہ ہے جو قیامت کو بھی جدا نہ ہوگا۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ58)

روحانی ترقی کے ذرائع

یادکھو کہ عید میں روحانی ترقی کے ذرائع ہیں۔ اور اس میں روحانی ترقی کے لیے مشق کرائی جاتی ہے۔ جو لوگ سارے سال میں تہجد نہیں پڑھ سکتے وہ کم از کم رمضان میں تہجد ضرور پڑھتے ہیں اور ان کا رمضان کے ایک مہینہ میں تہجد پڑھنا گواہی ہو جاتا ہے ان کے خلاف کہ تہجد پڑھنا مشکل کام نہیں جو لوگ راتوں کو تہجد کے لیے اس لیے نہیں اٹھتے کہ وہ اٹھ نہیں سکتے اور جو لوگ سردی کی 14 ،14 گھنٹے کی راتیں بستروں میں گزار دیتے ہیں اور اٹھ کر تہجد نہیں پڑھتے خدا کے مجرم ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے عمل سے بتا دیا ہے کہ وہ گرمی کی آٹھ آٹھ گھنٹے کی راتوں میں جب مہینہ بھر اُٹھتے رہے ہیں تو 14 گھنٹے کی رات میں کیوں نہیں اٹھ سکتے ؟کیا وہ شخص جو آٹھ گھنٹے کی رات میں سحری کے لیے اٹھتا ہے اور ساتھ ہی تہجد بھی پڑھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں 15 گھنٹے کی رات میں نہیں اٹھ سکتا ۔اگر تم نہیں اٹھ سکتے تھے تو آٹھ گھنٹے کی رات میں کیسے اٹھے۔پس اس طرح تم اللہ تعالیٰ کے حضور اقراری مجرم ہو گئے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ رمضان اور عید سے سبق حاصل کرو میں نے اس لیے کل ہدایت کی تھی کہ پہلے کی طرح آج کی رات بھی اٹھو تہجد پڑھ لو اور دعائیں کرو کیونکہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ تھا کہ جب کوئی نیک کام کرتے تھے تو پھر دوبارہ شروع کر دیتے تھے تا سلسلہ نہ ٹوٹے۔ لوگ عموماً عید کی رات کو زیادہ سوتے ہیں حالانکہ اس رات میں زیادہ جاگنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حضرت خلیفہ اول کا قاعدہ تھا کہ آپ جب قرآن کریم ختم کرتے ۔ تو خاتمہ کے ساتھ پھر سورۂ فاتحہ پڑھتے تاکہ قرآن کریم کا سلسلہ پھر شروع ہو جائے ۔اسی طرح جب رمضان ختم ہوگیا اور شوال شروع ہوا تو میں نے چاہا۔کہ رمضان کے بعد شوال کے پہلے دن لوگوں کو کھڑا کر دوں۔تا کہ دوسرا حساب شروع ہوجائےاور نیکی کا سلسلہ ٹوٹ نہ جائےپس چونکہ آپ لوگ رمضان کے تیس دن کے علاوہ ایک دن شوال کا بھی جاگے ہو اور یہ کل 31 دن ہوگئے اب بقیہ گیارہ مہینوں میں رات کو اٹھنا تمہارے لئے کیا مشکل ہے؟ سوائے بیماری کے اس میں نماز کے فرائض جمع کرنے کی اجازت ہے اور کوئی مجبوری نہیں۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ64)

فرض کی ادائیگی

عید کا دن اپنے ظاہری سامانوں سے عید نہیں ہے۔ کپڑوں سے عید نہیں۔ کیونکہ کپڑے ہندو عیسائی بھی بناتے ہیں۔ کھانوں سے عید نہیں کہ کھانے دوسرے بھی کھا سکتے ہیں۔ مگر اس دن چہل پہل ہوتی ہے اگر کھانوں کپڑوں سے عید ہو تو ہندوؤں عیسائیوں کے لئے بھی ہوسکتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے لئے ہے ان کے لئے نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ عید کپڑوں اور کھانوں سے نہیں۔ بلکہ کپڑے عید کے لیے ہیں اور کھانے عید کے لیے ہیں۔پس عید اس لئے بھی نہیں کہ روزے ختم ہوگئے۔ کیونکہ روزے رکھنے کے لیے کوئی جبر بھی نہ تھا بس اس لیے بھی خوشی نہیں کہ ایک بوجھ اترگیا ہاں عید کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہمارا ایک کام اور فرض تھا ہم نے اس کو پورا کردیا ۔لڑکا امتحان دینے جاتا ہے پاس ہو جاتا ہے خوش ہوتا ہے شادی ہوتی ہے تو شادی کی غرض اولاد ہے جب اولاد ہو تو انسان خوش ہوتا ہے کیونکہ عورت مرد کے ملنے کا نتیجہ اولاد ہے پس اگر خوشی ہے تو اس لیے کہ کام کر لیا ورنہ بہت ہیں جنہوں نے کپڑے نہیں بدلے۔کئی ہیں جنہوں نے کھانے نہیں کھائے ۔اگر عید ہے تو اس کی کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کر لیا اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ۔اسی طرح ان لوگوں کے لیے خوشی کی جگہ نہیں جو عید مناتے ہیں مگر انہوں نے اپنا مقصد پورا نہیں کیا ہوتا۔ پس عیدانہی کی ہے جنہوں نے اپنے فرائض مفوضہ کو پورا کیا ۔چونکہ کہ روزے بھی ایک فرض ہیں۔ اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کردیا۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ73 اور 74)

(الفضل 26 دسمبر 2000ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2021