• 24 اپریل, 2024

جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے

الفضل آن لائن میں کچھ مضامین بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک ’’ربط ہے جانِ محمد سے میری جان کو مدام‘‘ ہے۔ جس کے تحت امریکہ سے ہماری ایک مستقل قاری مسز امتہ الباری ناصر کسی ایک موضوع کو لے کر آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفےٰﷺ اور آپؐ کے حقیقی خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات کو اکٹھا کر رہی ہیں۔ جو بہت مقبولیت پا رہے ہیں۔ ماہِ جون کی ایک قسط کو فائنل کرتے وقت حضرت مسیح موعود ؑ کے اس شعر پر نظر پڑی اور اداریہ کے لئے ایک وسیع موضوع مل گیا۔

جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے
میں غریب اور ہے مقابل پر حریفِ نا مدار

اس شعر سے قبل کے بھی چند اشعار قابل ذکر ہیں۔

جنگِ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا
دل گھٹاجاتا ہے یاربّ ! سخت ہے یہ کارزار
ہر نبئ وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر
کر گئے وہ سب دعائیں باد و چشم اشکبار
اے خدا! شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ
وہ اکھٹی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار

اور بعد کے اشعار میں اس جنگِ روحانی میں فتح پانے کے لئے اپنے جذبات کا ذکر ہے نیز فتح حاصل کرنے کے لئے اپنی تمناؤں کا اظہار اور اس کے لئے دعائیں ہیں۔

گو یہ نظم اس وقت کی ہے جب جاپان اور روس کی جنگ عروج پر تھی اور دنیا آگ کے انگاروں کی لپیٹ میں تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کو اس مادی جنگ کی تباہ کاریوں کی اتنی فکر نہ تھی جتنی زیادہ فکر روحانی جنگ سے تھی جو دشمن نامدار کی طرف سے اسلام پر حملوں کی صورت میں تھی۔ دشمن، اسلام پر بھر پور حملہ آور تھا اور مسلمانوں میں اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ تھی۔ اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مہعود علیہ السلام ایک شیر کی طرح مسلمانوں کی طرف سے ان عیسائیوں کے حملوں کا جواب دینے دینے کے لئے للکار رہا تھا۔ اور خود اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کو اسلامی تعلیم سے آرستہ کر رہا تھا تا اس روحانی جنگ میں غیروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ جو کیفیت اور اسلام کی ناگفتہ بہ حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کی تھی۔ اس کا ذکر تو بعض شعرا نے یوں کیا ہے۔ جیسے الطاف حسین حالی نے مرثیہ یوں پڑھا۔

وہ دین ہوئی بزمِ جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالِس میں نہ بتّی نہ دیا ہے
بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی
ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکمِ قضا ہے
فریاد ہے اَے کشتیِ اُمّت ! کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

مشہور اہل قلم عالم دین منشی سید شکیل احمد نے بار گاہ ایزدی میں یہ استغاثہ کیا ہے۔

دین احمدؐ کا زمانہ سے مٹا جاتا ہے
قہر ہے اے میرے اللہ! یہ ہوتا کیا ہے
کس لئے مہدئ برحق نہیں ظاہر ہوتے
دیر عیسٰےکے اوترنے میں خدایا کیا ہے
رات دن فتنوں کی بوچھاڑ ہے بارش کی طرح
گر نہو تیری صیانت تو ٹھکانا کیا ہے

جو جذبہ دعوت الی اللہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اندر تھا وہ دیدنی تھا ایک دفعہ سید آل محمد صاحب امروہی نے آپؑ کے کمرہ کا دروازہ زور سے کھٹکھٹا کر کہا۔ حضور! میں ایک خوشخبری لایا ہوں۔ حضورؑ نے حضرت مفتی محمد صادقؓ کو خوشخبری سننے کے لئے بھجوایا۔ جو ایک مباحثہ میں جیت کے متعلق تھی۔ حضورؑ نے جلالی انداز میں فرمایا کہ ان کے اسقدر زور سے دروازہ کھٹکھٹانے سے میں تو سمجھا تھا کہ شاید یورپ مسلمان ہو گیا ہے۔

  • اسی طرح جب ایک دفعہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلبہ کے درمیان کرکٹ کا میچ تھا اور والدین بھی حوصلہ افزائی کے لئے گراوٴنڈ میں موجود تھے۔ آپ ؑکے ایک صاحبزادے نے سادگی میں حضورؑ سے پوچھا کہ ابا! آپ کرکٹ پر نہیں گئے؟ اِن دنوں آپؑ سورة فاتحہ کی تفسیر لکھنے میں مصروف تھے۔ آپؑ نے جواب دیا کہ بیٹا ! یہ لوگ تو کرکٹ کھیل کر واپس آ جائیں گے لیکن میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک جاری رہے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتب، لیکچرز اور تبلیغ کے ذریعہ اس روحانی جنگ میں حصہ لیا اور قریباً ہر میدان میں فتح پائی۔ آپ ؑ نے آنحضور ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق یَضَعُ الْحَرب (بخاری) کرتے ہوئے تلوار کے جہاد کا التواء فر ما کر قلم کے جہاد پر پوری توجہ دی۔ ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں اسلام پر ہونے والے حملوں کے مدلل جواب دئے۔ یہ حملے دراصل اسلام پر تبر کا کام کر رہے تھے۔ آپؑ اسلام کے بطل جلیل کے طور پر سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا بول بالا ہونے لگا اور اسلام کی فتح کے شادیانے بجنے لگے۔ جس کا غیروں کو بھی اعتراف تھا۔

آپ ؑ کی وفات کے بعد اس روحانی جنگ کو آگے لے کر جانے کا بیڑہ خلفائے کرام نے اُٹھایا اور اپنے منصوبوں کے ذریعہ اس میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ اور آج خلافت احمدیہ کے پانچویں مظہر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی سر کردگی میں گزشتہ 19 سالوں سے یہ مہم نہایت کامیابی و کامرانی کے ساتھ سر ہو رہی ہے آپ کے دور میں اسلام، قرآن، حضرت محمد مصطفٰے ﷺ پر دنیا بھر میں پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جو حملے ہو رہے ہیں اور آپ خود بھی نہایت بہادری و جوانمردی سے اور اپنے سپہ سالاروں کے ذریعہ اس محاذ میں نہایت کامیابی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ آپ کے دور میں سوشل میڈیا چونکہ بہت فعال ہو چکا ہے اور اس کے ذریعہ اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں ہمہ تن خلیفة المسیح کا ساتھ دیتے ہوئے اس روحانی جنگ میں حصہ لینے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں راتوں کو اُٹھ کر اسلام کی فتح کے لئے دعائیں کرنی چاہئے۔ ہمیں اسلام کے خلاف حملوں کا جواب دینے کے لئے اپنے آپ کو اسلامی اسلحے (اسلامی تعلیمات) سے لیس کرنا ہو گا۔ ہمیں قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے دلائل سیکھنے ہو ں گے۔ فوجی زبان میں کہا جاتا ہے جتنا بڑا اور وسیع محاذ ہو، تیاری بھی اتنی بڑی کی جاتی ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی روحانی فوج کے اہلکار ہیں جس کو خلیفة المسیح Lead کر رہے ہیں۔ شیطنیت کا بہت بڑے محاذ کا جماعت احمدیہ کو سامنا ہے۔ جس کی تیاری بھی وسیع بنیادوں پر کرنی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے اشعار کے مطابق یہ جنگ روس اور جاپانی جنگ سے بڑھ کر ہے اور اتفاق سے آج بھی روس کی جنگ جاری ہے۔ اور ہم غریب ہیں اور مقابلے کے لئے ہمارے پاس وہ طاقت بھی نہیں لیکن اللہ کی مدد و نصرت شامل حال ہے۔ اور بقول حضرت مسیح موعودؑ یہ جنگ خادم اسلام اور شیطان کے درمیان ہے۔ جس کے لئے بہت سے محاذجماعت میں قائم ہیں۔ جن میں سے ایک محاذ الفضل آن لائن کا محاذ بھی ہے۔ جس میں اسلام کے حق میں مضامین لکھ کر دشمنوں کو دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں۔
’’اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف (تلوار) کا کام تلوار سے لیا جائے اور تحریری مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جائے …. اُس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنسی اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اُتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ59-60)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ مالٹا کی خدمت انسانیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2022