• 25 اپریل, 2024

چودہویں صدی کے مجدد

چودہویں صدی کے مجدد
حضرت مرزاغلام احمد قادیانی ؑ

(مکرم ابو فاضل بشارت نے تمام چودہ صدیوں کے مجددین کا تعارف قارئین الفضل آن لائن کی نذر کئے۔
اس سے قبل تیرہ مجدد دین کا تعارف شائع ہوچکا ہے۔ تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ 25؍فروری 2022ء)

نام ونسب

مجدداعظم بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کانام مرزا غلام احمدؑ ہے۔ مرزا کا لفظ مغل قوم سے تعلق کی مناسبت سے مستعمل ہے۔ کنیت ابومحمود احمد تھی۔ آپؑ کے والد ماجد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ تھا۔ آپ فارسی الاصل معروف مغل خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے:

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحبؑ ابن حضرت غلام مرتضیٰ صاحب ابن مرزا عطا محمد صاحب ابن مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا فیض محمد صاحب۔

مرزا فیض محمد صاحب سے سلسلہ نسب مرزا ہادی بیگ صاحب تک پہنچتا ہے جو امیرتیمور کے چچا حاجی برلاس کی نسل میں سے تھے۔

(سلسلہ احمدیہ ازحضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 4تا7)

قبل از ولادت بشارت

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت مستمرہ ہے کہ جب بھی دنیا میں ضلالت و گمراہی کا دوردورہ ہوتا ہے اور اپنے خالق حقیقی کو لوگ بھلا بیٹھتے ہیں اور دنیا میں گم ہوجاتے ہیں تو خدائے ہادی عوام الناس کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنے برگزیدوں کو بھیجتا ہے۔ آخری زمانہ کے دور ضلالت کے خاتمہ کے لیے بھی ایک موعود کے آمد کی خبر یہود، نصاریٰ، ہنود، زرتشتی، بدھ مت غرضیکہ تمام اقوام عالم کی مقدس کتب میں موجود ہے۔ ان پیشگوئیوں سے اس موعود کے زمانہ کا بھی پتہ چلتا ہے جیساکہ بائبل میں دانیال نبی کی کتاب باب 12 اس کا زمانہ 1290ھ سے 1335ھ کے درمیان ہونے کا ذکر ہے یعنی تیرہویں صدی کا آخر اور چودہویں صدی کا آغاز۔

اسی طرح اسلام میں بھی اس مصلح یعنی مسیح و مہدی کے ظہور کو واضح بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں آیت استخلاف، سورة السجدة آیت 6 اور سورة الجمعہ کی آیت 4 میں مسیح و مہدی کے زمانہ کی تعیین کا بالصراحت ذکر موجود ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے سورة الجمعہ کی مذکورہ آیت کے نزول کے وقت مسیح و مہدی کی آمد کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جب ایمان ثریا ستارے پر اٹھ جائے گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص یا فرمایا بہت سے اشخاص ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔‘‘

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)

صرف یہی نہیں بلکہ آپؑ کی آمد کے وقت رونماہونیوالے نشانات کی پیشگوئیاں بھی بیان فرمائی ہیں۔ جن میں سے ایک اہم ترین چانداور سورج گرہن کا نشان ہے۔ اس کے علاوہ اولیاء و بزرگان امت کے رؤیا و کشوف میں بھی آپؑ کی آمد کی بشارات بکثرت ملتی ہیں۔

کتب سابقہ، قرآن کریم، احادیث نبویہؐ و اقوال بزرگان و علمائے سلف میں بیان فرمودہ تمام نشانیاں آپؑ کے زمانہ مبارک میں پوری ہوئیں اور چاند سورج کا عظیم الشان نشان آپ کے دعویٰ مسیح و مہدی کے بعد ہی پیشگوئی کے عین مطابق وقوع پذیر ہوااور اس وقت آپؑ کے علاوہ کسی اور مدعی کا موجود نہ ہونا اس بات پر بین دلیل ہے کہ آپ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جن کے بارہ میں تمام پیشگوئیاں کی گئی تھیں۔ چنانچہ اس مناسبت سے اس مضمون میں چودہویں صدی کے مجددحضرت مرزا غلام احمدقادیانی صاحب علیہ السلام کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خطاب سے ذکر کیا جائے گا۔

ولادت باسعادت

حضرت مسیح موعودؑ کی ولادت باسعادت 14شوال 1250ھ مطابق 13فروری 1835ء کو بروز جمعة المبارک بوقت نماز فجر قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور بھارت میں ہوئی۔ علامہ ابن عربیؒ کی پیشگوئی کے مطابق آپؑ کی پیدائش توام صورت میں ہوئی لیکن ساتھ پیدا ہونیوالی لڑکی جلد وفات پاگئی۔

(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ9)

بچپن اور ابتدائی تعلیم

حضرت مسیح موعودؑ کا بچپن نہایت پاکیزہ تھا۔ آپ خلوت پسند تھے اور سوچ و بچار کرنے کی عادت تھی۔ بچوں کی جلوت میں شمولیت نہ ہونے کے برابر تھے۔ البتہ ایام طفولیت میں بھی آپ کی طبیعت دینی امور کی طرف بہت راغب تھی۔

مشاغل

’’حضرت مسیح موعودؑ معتدل اور مناسب ورزش اور تفریح میں ضرور حصہ لیتے تھے۔ آپؑ نے بچپن میں تیرنا سیکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے۔ اسی طرح گھڑسواری میں ماہر تھے۔ غلیل سے شکار بھی کھیلا کرتےتھے۔ آپ کئی کئی میل تیزپیدل چلا کرتے تھے جو کہ آپ کا بہترین مشغلہ اور ورزش تھی۔ درستی صحت کی خاطر آپ موگریاں بھی پھیر اکرتے تھے۔

لیکن آپ کا محبوب ترین مشغلہ قیام نماز تھا۔ آپ اپنے ہم عمر بچوں کو کہا کرتے تھے کہ ’’دعا کرو کہ خدا مجھے نماز کا شوق نصیب کرے‘‘

(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 10)

اس کے علاوہ آپ ؑ کو مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ نے بیان کیا:
’’والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے رہتے تھے۔ اور اردگرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 193)

ابتدائی تعلیم

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں:
’’انگریزوں کی عملداری کے اوائل میں مدارس کا سلسلہ ابھی جاری نہ ہو ا تھا اور تعلیم کے لیے عام دستور یہی تھا کہ بڑے بڑے رئیس اور صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد بطوراتالیق رکھ لیتے تھے۔ اور خاندانی لوگوں میں تو یہ رواج بہت مدت تک جاری رہا۔ اسی طرح پر مرزا صاحب کی تعلیم کےلیے انتظام کیا گیا۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب کی تعلیم کے لیے قادیان ہی کے ایک فارسی خوان استاد کو مقرر کیا گیا۔ حضرت مرزا صاحب نے نہایت صاف اور سادے الفاظ میں اپنی تعلیم کا خود تذکرہ کیا ہے…

ان کے مکتب کے بعض طالب علم اپنے استاد سید گل علی شاہ صاحب سے کوئی مذاق بھی کر بیٹھتے۔ ان کو حقہ پینے کی بہت عادت تھی اور اسی سلسلہ میں بعض شوخ طالب علم مذاق کر لیتے۔ مرزا صاحب ہمیشہ ان کا ادب و احترام کرتے۔ اور ایسی شرارتوں سے بیزار اور الگ رہتے۔‘‘

(حیاتِ احمدؑ جلد اول صفحہ 80-82)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لیے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صَرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نَحواُن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ179 تا 181 حاشیہ)

عنفوان شباب اور شادی

حضرت مسیح موعودؑ نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا کہ مشرقی خاندانی دستور کے مطابق اندازاً 1850ء یا 1851ء میں آپ کی شادی حرمت بی بی صاحبہ سے ہوگئی لیکن یہ رشتہ مزاج اور میلانات میں بُعد کی وجہ سے زیادہ دیر نہ چل سکا۔ اس شادی سے آپؑ کے دو فرزند صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب پیدا ہوئے۔

اس عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کا زیادہ وقت مسجد میں قیام اور مطالعہ میں گزرتا تھا۔ نماز کی ادائیگی آپ کا اولین فریضہ تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غوروتدبر بہت زیادہ کرتے تھے۔ سفر وحضر میں کوئی موقع مطالعہ قرآن کا نہ چھوڑتے حتیٰ کہ آپ کے والد محترم آپ کو ’’مسیتڑ‘‘ کہا کرتے تھے اور فکرمند ہوجاتے کہ آپؑ اپنے اس شغف کی وجہ سے اپنی جان نہ کھوبیٹھیں۔

مقدمات کے لیے اسفار اور سیالکوٹ میں ملازمت

آپؑ کے والد محترم نے آپ کی صحت کے پیش نظر اور مستقبل کی فکر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپؑ کو کوئی ملازمت کرنے یا زمیندارہ میں ہاتھ بٹانے کا کہا جسے آپ نے بہت ٹالا لیکن پھر والد محترم کے مسلسل اصرار اور فرمانبرداری میں زمینداری کے کام کی نگرانی میں مصروف ہوئے اور خاندانی جائیداد کے تنازعات کے مقدمات کی پیروی کرنے لگے۔ اس سلسلہ میں آپ کو ڈلہوزی اور لاہور تک سفر کرنے پڑے۔ لیکن اس دور مقدمات میں بھی آپ نے کبھی اپنی نماز قضاء نہ ہونے دی۔

پھر والد ٍمحترم کی خواہش پر سیالکوٹ میں دفتر ضلع میں کم و بیش چار سال سرکاری ملازمت بھی کی۔ ان چارسالوں میں آپ کی مصروفیات میں ملازمت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے علاوہ عبادت الٰہی وتلاوت قرآن کریم، درس وتدریس و خدمت خلق، بزرگوں سے ملاقات، علمی ودینی گفتگو، مذہبی مناظرے اور علمی مجالس عرفان شامل رہیں۔

دوران عرصہ ملازمت ہر خاص وعام نے آپ کی دینی و اخلاقی لحاظ سے تعریف کی۔ آپ کے مداحین میں حکیم مظہر حسین صاحب، منشی سراج الدین صاحب، شمس العلماء مولاناسید میر حسن صاحب وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن آپ کو یہ ملازمت پسند نہ تھی اور اپنے والد محترم سے اس سے مستعفی ہونے کی اجازت طلب فرمایاکرتے تھے۔

والدہ کی وفات پر واپسی

1867ء میں جب حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ سخت بیمار ہوئیں تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ نے آپؑ کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے اور راستہ میں ہی آپؑ کو والدہ محترمہ کی وفات کی خبر ملی جس پر آپ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ فرمایا۔

والد محترم کی وفات

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آپ کے والد محترم کی وفات سے قبل ہی اطلاع دے دی تھی۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات جون 1876ء میں ہوئی۔

ہندوستان میں عیسائیت کا زور اور مسیح کی آمد ثانی

1857ء کے بعد سے ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کے لیے عیسائی پادریوں نے حکومت انگریزی کی سرپرستی میں اپنے مذہب کا خوب پرچار کیا اور اس سے عام لوگ تو ایک طرف چوٹی کے مسلمان علماء بھی عیسائیت کی آغوش میں جاگرے اور اکثر عیسائیت کی تبلیغ کے لیے وقف ہو کر پادری بن گئے۔ جیسا کہ آگرہ کی شاہی مسجد کے امام خطیب مولوی عمادالدین صاحب ریورنڈ مولوی عمادالدین کہلائے۔ پادری مولوی رجب علی، پادری مولوی سید احمد شاہ، پادری سلطان محمد خان، پادری عبدالحق، پادری عبداللہ آتھم، اور پادری حافظ احمد مسیح دہلوی سب مسلمان مولوی تھے۔ چنانچہ صلیبیت کا ہر طرف دوردورہ تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے مسیح و مہدی کی آمد کی پیشگوئی فرمائی۔ مسلمان اسلام کواس فتنے سے بچانے کےلیے نجات دہندہ اور مسیحاکے منتظر تھے۔ ایسے وقت میں رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق قوم سلمانؓ سے ایک رجل فارس میدان میں آیا جس نے ایمان کو ثریا سے لاکر دنیا میں قائم کیا اور زندہ مذہب اسلام کی حقانیت اور صداقت کو تمام ادیان باطلہ پر ثابت کر دکھایا اور دشمنان اسلام کو چاروں شانے چِت کردیا۔ وہ جری اللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعودؑ ہیں۔ جنہوں نے 1882ء کے اوائل میں بیت اقصیٰ میں ایک کشف دیکھا کہ ایک باغ لگایا جارہا ہے اور آپؑ اس کے مالی مقرر ہوئے ہیں۔

(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ305)

قلمی جہاد کا آغاز اور براہین احمدیہ کی تالیف

مسیح و مہدی کا یہ زمانہ قلمی جہاد کا زمانہ تھا جیساکہ رسول اللہﷺ نے بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح ابن مریمؑ تشریف لائیں گے تو وہ جنگ کو موقوف کردیں گے۔ چنانچہ اس دور میں عیسائی، ہنود، آریہ وغیرہ اسلام کے خلاف لٹریچر شائع کرکے اپنے اپنے مذہب کا پرچار کررہے تھے اوراسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف قسما قسم کے ناجائزالزامات اور موشگافیوں میں مصروف تھے۔ عیسائیت کی تبلیغ کا بنیادی مرکز پنجاب چناگیا۔ ان نازک حالات میں حضرت مسیح موعودؑ نے براہین احمدیہ جیسی معرکۃ الآراء تصنیف میں اسلام اور بانیٔ اسلام کی صداقت کے سینکڑوں ثبوت پیش کیے اور زندہ خدا کے زندہ نشانات دکھانے کی تمام اہل دنیا کو دعوت دی۔ آپؑ نے کیا ہندو، کیا آریہ، کیا عیسائی، سب مخالفین کو چیلنج دیا کہ وہ اسلام پر اپنے مذہب کی برتری ثابت کر دکھائیں۔ لیکن کسی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپؑ کے اس چیلنج کو قبول کرتا۔

زیارت رسول اللہؐ

رؤیا میں زیارت رسولﷺ کا سلسلہ تو 1864ء سے شروع ہوچکا تھا۔ اس رؤیا میں رسول اللہﷺ نے ایک دینی کتاب آپؑ کے ہاتھ سے لی جو فوراً میوہ بن گئی جب آپﷺ نے اسے تقسیم کرنے کےلیے قاش کرنا چاہا تو اس میں سے اس قدرشہد بہنے لگا کہ رسول اللہﷺ کا ہاتھ مرفق تک شہد سے بھر گیا اور ایک مردہ آنحضرتﷺ کے معجزہ سے زندہ ہوگیا۔

پھربراہین احمدیہ حصہ سوم کا حاشیہ تحریر فرمانے کے دوران حالت کشف میں آپؑ نے رسول اللہ ﷺ سے زیارت و معانقہ کا شرف پایا اور دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک سے نور کی کرنیں نکل نکل کر آپؑ کے اندر داخل ہورہی ہیں۔ اس کے بعد آپؑ پر الہام الٰہی کا سلسلہ بکثرت شروع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا پہلا الہام نازل ہوا جو کم و بیش ستر فقرات پر مشتمل تھا، جس کا آغاز ’’یا احمد بارک اللّٰہ فیک‘‘ سے ہوا۔

دعویٰ ماموریت و مجددیت

حضرت مسیح موعودؑ نے مارچ 1885ء میں اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اپنے مامور اور مجددوقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامورہوئے ہیں تا نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرف پر کمال مسکینی، فروتنی، غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لیے کوشش کریں نیز یہ کہ آپ کو جناب الٰہی سے یہ علم بھی دیا گیا ہے کہ آپ مجدد وقت ہیں اور روحانی طور پر آپ کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور آپؑ کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت و متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسلﷺ ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ253)

23؍مارچ جماعت احمدیہ کی بنیاد

آپؑ کی اسلام کے لیے خدمات جلیلہ کی وجہ سے آپؑ کے معتقدین یہ بات جانتے تھے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی اسلام کو دوبارہ قائم کرسکتا ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں۔ اگرچہ مخلصین کے دلوں میں آپ کی بیعت کی تحریک جاری تھی۔ لدھیانہ کے ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب جو حضرت مسیح موعودؑ پر حسن اعتقاد رکھتے تھے نے فرمایا:

؎ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظرتم مسیحا بنو خدا کے لئے

اسی طرح مولوی عبد القادر صاحب نے حضرت اقدسؑ سے بیعت لینے کا کہا مگر آپؑ کا یہی جواب ہوتا: لَسْتُ بِمَاْمُوْرٍ (یعنی میں مامور نہیں ہوں) لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کو بیعت لینے کا واضح حکم ملا تو یکم دسمبر 1888ء کو آپ نے ‘‘تبلیغ’’ کے نام سے اشتہار میں بیعت کا اعلان فرمایا۔ اس اشتہار میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ استخارہ کے بعد بیعت کےلیے حاضر ہوں۔ اس اعلان میں حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت کے لیے معین رنگ میں کوئی خاص شرائط تحریر نہیں فرمائی تھیں۔ مگر جب حضرت مصلح موعودؓ کی 12 جنوری 1889ء کو ولادت ہوئی تو آپ نے 12 جنوری 1889ء کو تکمیل تبلیغ کا اشتہار تحریر فرمایا اور اس میں دس شرائط بیعت تجویز فرمائیں۔ اس لحاظ سے جماعت احمدیہ اور پسر موعود حضرت مصلح موعودؑ کی پیدائش توام (جڑواں) ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا دعوی مسیحیت

1890ء کے آخر میں حضرت مسیح موعودؑ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ منکشف ہوا کہ حضرت مسیح ناصری جن کے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں اورآخری زمانہ میں دوبارہ دنیا میں نزول فرمائیں گے وہ وفات پاچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ان کا مثیل بنا کر مبعوث فرمایاہے۔ چنانچہ آپؑ نے ا س بارہ میں دو کتب ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ تصنیف فرمائیں جن میں حضرت مسیح ناصری کے آسمان سے بجسد عنصری نزول کے عقیدہ کا ردّ کرکے وفات مسیح ؑ ثابت کرتے ہوئے اپنے دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا۔

فتویٰ تکفیر اور طوفان بدتمیزی

رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام میں دعویٰ مسیح موعودؑ پڑھ کر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب آگ بگولا ہوگئے اور جو عقیدت وہ حضرت مسیح موعودؑ سے رکھتے تھے وہ ہوا ہوگئی اور وہ آپؑ کی مخالفت کے درپے ہوگئے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی مخالفت اپنے رسالہ اشاعة السنة کے ذریعہ مسلمانوں تک پہنچائی جس سے ملک بھر میں مخالفت کا طوفان برپا ہوگیا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے مخالفت کی بناء پر ان دونوں رسالہ جات کی عبارتوں میں قطع و برید کرکے اول المکفرین بن کر ایک استفتاء تیار کیا اور ہندوستان کے علماء کے پاس جاکر اس کے حق میں فتاویٰ حاصل کیے۔ بعض نیک صفت علماء نے اس کی تردیدبھی کی لیکن مولوی صاحب موصوف نے ان کا نام ازخود لکھ لیا۔ الغرض مولوی صاحب موصوف اور ان کے حامی علماء کے ان فتاویٰ تکفیر کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ان مخالف علماء نے حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اور ہر قسم کی مخالفت میں پیش پیش رہے حتیٰ کہ قتل تک کی سازش کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک برگزیدہ نبی کو ان تمام ناپاک منصوبوں سے محفوظ رکھا۔

پادریوں کو وفات مسیح کے متعلق تبادلہ خیالات کی دعوت

حضرت مسیح موعودؑ نے 20مئی 1891ء کو پادریوں کے لیے وفات مسیح کے بارہ میں تبادلہ خیالات کی دعوت کا اشتہار دیا۔ لیکن آپ کے مقابل پر کوئی پادری نہ آیا۔

مسلمان علماء کو تحریری مباحثہ کی دعوت

پھر آپؑ نے 26 مارچ 1891ء کو ہندوستان کے معروف علماء بالخصوص مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی عبدالجبار غزنوی، مولوی عبد الرحمٰن صاحب لکھوکے، مولوی شیخ عبد اللہ تبتی، مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی، مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری وغیرہ کو تحریری مباحثہ کی دعوت اور چیلنج دیا کہ اگر میرا دعویٰ قال اللہ اور قال الرسولؐ کے خلاف ہے اور ایک عام جلسہ میں آپ مجھ سے تحریری مباحثہ نہ کریں تو آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے راستباز بندوں کی نظر میں مخالف ٹھہریں گے۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 400)

لیکن کسی مولوی نے آپ کے اس چیلنج کو قبول نہ کیا۔ البتہ بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے لدھیانہ آکر شور مچایا کہ مرزا صاحب کو چاہیے کہ مجھ سے مباحثہ کرلیں۔ حضرت مسیح موعودؑ تو پہلے ہی دعوت مباحثہ دے چکے تھے۔ چنانچہ مباحثہ لدھیانہ20 سے 29 جولائی 1891ء دس روز تک جاری رہا۔ لدھیانہ کے لوگوں نے وفات و حیات مسیح پر بحث کرنے پر اصرار کیا اور حضرت مسیح موعودؑ نے بھی یہی فرمایا کہ مباحثہ وفات و حیات مسیح پر ہونا ضروری ہے لیکن مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اس موضوع کی طرف آنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ پس وہ اس طرف نہ آئےاور مولوی صاحب کو اس مباحثہ میں شکست فاش ہوئی۔

سید نذیر حسین صاحب دہلوی اورشمس العلماء مولوی عبد الحق صاحب کو دعوت مباحثہ

12کتوبر 1891ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب اور شمس العلماء مولوی عبد الحق صاحب حقانی کو تحریری بحث کی دعوت دی۔ اور حلفیہ اقرار بھی کیا کہ اگر اس بحث میں میں غلطی پر ثابت ہوا تو اپنے اس دعویٰ سے دستبردار ہوجاؤں گا۔ لیکن ان دونوں علماء نے معذرت کرلی۔

علماء کو روحانی مقابلہ کی دعوت

دسمبر 1891ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے تمام علماء، مولویوں، صوفیاء، پیروں، سجادہ نشینوں وغیرہ کو روحانی مقابلہ کی دعوت دی اور فرمایا کہ اگر ایک سال کے عرصہ میں کوئی فریق وفات پاجائے تب بھی وہ مغلوب سمجھا جائے گا۔

مخالفین کا انجام

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ مامورین کے مخالفین ہمیشہ خائب و خاسر ہی ہوئے ہیں۔ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ آپؑ کو الہام ہوا تھا کہ انی مھین من اراد اھانتک چنانچہ آپؑ کے تمام مخالفین آپؑ کے زندگی میں ہی ناکام و نامراد ہوئےاور اشد مخالفین اپنے انجام کو پہنچے جن کا تفصیلی ذکر جماعتی لٹریچر میں موجود ہے۔

اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کے متبعین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ فرمایا اور جماعت کو غیر معمولی ترقیات سے نوازا اور حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اسلام کا احیائے نو ہوا اورا سلام کا پیغام دنیا کے کونوں تک پہنچا اور بادشاہوں نے اس سے برکت حاصل کی۔

رمضان میں کسوف و خسوف کا نشان
اور دیگر تائیدی نشانات

1894ء میں ماہ رمضان میں رسول اللہﷺ کی پیشگوئی اور صلحائے امت کی پیش خبریوں کے عین مطابق چاند اور سورج گرہن کا نشان ظاہر ہوا جو حدیث میں بیان کردہ تاریخوں کے عین مطابق تھا۔ اس نشان کا ہر خاص و عام نے تذکرہ کیا اور اس کے نتیجہ میں ایک کثیر تعداد نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت پائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت میں اور بھی کثیر تائیدی نشانات ظہور میں آئے جن میں زلازل کا آنا، طاعون اور دم دار ستارہ کا طلوع ہونا اور شہب ثاقبہ کا گرنا اور ذرائع رسل و رسائل کا ایجاد ہونا، اونٹوں کا سواری کےلیے استعمال ترک ہونا اور نئی ایجادات کا ظہور پذیر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

دوسری شادی اور مبشر اولاد

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو 1881ء میں نئی شادی کی بشارت عطا فرمائی۔ چنانچہ 1884ء میں آپؑ کی دوسری شادی خواجہ محمد ناصر ؒ کے خاندان میں حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی کی صاحبزادی محترمہ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ سے ہوئی۔ رسول اللہﷺنے آنیوالے موعود کے بارہ میں یہ پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ وہ جب آئے گا تو شادی بھی کرے گا اور اس کی اولاد بھی ہوگی۔ پیشگوئی میں ان دونوں امور کا خصوصی ذکر کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ شادی اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی اولاد غیر معمولی صفات کی حامل ہوگی۔ چنانچہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بطن سے حضرت مسیح موعودؑ کے پانچ صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ جن کے نام بالترتیب یہ ہیں: 1۔ صاحبزادی عصمت 2۔ بشیر اول 3۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانیؓ 4۔ صاحبزادی شوکت 5۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ 6۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ 7۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ8۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب 9۔ صاحبزادی سیدہ امة النصیر صاحبہ 10۔ حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ
حضرت مسیح موعودؑ کی یہ تمام اولاد مبشر اولاد تھی ان سب کی پیدائش سے قبل الٰہی بشارات دی گئی تھیں۔

خلافت کی پیشگوئی

1905ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو وفات کے متعلق پیشگی خبر دے دی تھی اور اس بارہ میں مختلف رؤیا اور الہامات ہوئے۔ ان الٰہی خبروں کی بناء پر آپؑ نے 20 دسمبر 1905ء کو رسالہ ’’الوصیت‘‘ شائع فرمایا جس میں ان الہامات کا ذکر فرماکر جماعت کو اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کی تلقین فرمائی اور اپنے بعد قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت کے قیام کی بشارت دی۔

آخری سفر لاہور

حضرت مسیح موعودؑ 27 اپریل 1908ء کو قادیان سے بٹالہ روانہ ہوئے۔ وہاں ایک یوم قیام کے بعد 29 اپریل کو لاہور تشریف لے گئے۔ لاہور میں آپؑ دن رات اشاعت اسلام میں مصروف ہوگئے۔ زائرین کو شرف ملاقات بخشتے، مجالس عرفان میں پُرمعارف نکات بیان فرماتے۔ تمام مذاہب کے رؤساء اور سیاسی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں نے آپؑ سے فیض پایا۔ سعید فطرت لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی۔

دعویٔ نبوت کی وضاحت

17 مئی 1908ء کو لاہور کے رؤساء و امراء، وکلاء و بیرسٹروں اور اخبارات کےا یڈیٹروں کو دعوت پر مدعو کیا گیا جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ نبوت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجودہ مفاسد کے باعث خدا نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس امر کا اخفاء نہیں کرسکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیاگیا ہے اور خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے۔ اس کا نام نبوت ہے مگر حقیقی نبوت نہیں۔۔ ۔ یہ تو نزاع لفظی ہے۔ کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے۔ دیکھو حضرت عائشہؓ کا یہ قول کہ قولوا انہ خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ اس امر کی وضاحت کرتا ہے۔ نبوت اگر اسلام میں موقوف ہوچکی ہے تو یقین جانو کہ اسلام بھی مر گیا اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے۔‘‘

(الحکم 14 جولائی 1908ء صفحہ12 کالم نمبر1-2)

اخبار عام نے آپؑ کے اس لیکچر کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہوئے لکھا کہ مرزا صاحب نے جلسہ میں اپنی نبوت سے انکار کیا ہے جس پر حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مفصل تردیدی خط لکھا جس میں فرمایا کہ ’’یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت ﷺ کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ میں یہ لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے۔ اور جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں۔ وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے۔۔ ۔ انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگااور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤٍں۔ مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں۔ میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کرسکے۔۔ ۔‘‘

(بدر11جون 1908ء صفحہ10 کالم 1-2)

25 مئی 1908ء کو آپؑ نے جو آخری تقریر کی اس کے آخر میں فرمایا:
’’عیسی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے۔ ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائے عیسیٰ محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے۔‘‘

(بدر11 جون 1908ء، الحکم 18 جولائی 1908 صفحہ7-8)

وصال

25 مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت ناساز ہوئی اور 26 مئی 1908ء بروز منگل سوا تہتر سال کی عمر میں آپؑ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپؑ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ ’’اللہ میرے پیارے اللہ‘‘۔ آپؑ کی وفات کے بعد حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفة المسیح منتخب ہوئے۔ بیعت خلافت کے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے مملوکہ باغ میں کنوئیں کے قریب نماز جنازہ پڑھائی۔ حضورؑ کا مزار مبارک کچا رکھا گیا اور قبر کے سرہانے چونے کی دیوار پر سیاہی سے عارضی طور پر یہ الفاظ لکھ دئیے گئے: ’’جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی رئیس قادیان مسیح موعود و مجدد صدی چہاردہم تاریخ وفات 26 مئی 1908ء‘‘۔ خلافت ثانیہ میں بارشوں کی وجہ سے جب سیاہی دھل گئی تو سنگ مرمر کا کتبہ نصب کیا گیا۔

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ559)

معرکة الآراء تصانیف

جیساکہ ذکر ہوچکا ہے کہ آنیوالے موعود کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ آکر جنگ و جدال کا خاتمہ کردے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ نے تلوار کے جہاد سے ممانعت فرمائی اور قلمی جہاد کی طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ آپؑ نے خوداسلام اور بانیٔ اسلام کی صداقت اور جملہ دینی و اخلاقی و معاشی و معاشرتی امور کے متعلق ایسی مایہ ناز معرکة الآراء تصانیف تالیف فرمائیں جن میں ایسے پُر معارف نکات بیان فرمائے جنہوں نے متلاشیان حق کو راہ راست پر گامزن کیا اور دیگر مذاہب کی تعلیمات میں مرور زمانہ سے پیدا ہونیوالے سقم کی نشاندہی فرمائی اور اسلامی تعلیمات کی برتری ان پر ثابت فرمائی۔ آپؑ نے 85 سے زائد تصانیف تحریر فرمائیں۔

تجدیدی کارنامے

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ جن کا دعویٰ مسیح موعودؑ، مجدد صدی چہاردہم اور امتی نبی ہونےکا ہے۔ آپ نے دین اسلام کی اشاعت اور اصلاح خلق کےلیے اپنا تن من دھن نچھاور فرمادیا۔ پیشگوئی میں مذکور بیماریوں کے باوجود آپؑ نے اسلام کی ایسی خدمات جلیلہ کیں کہ غیروں نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا۔ آپؑ نے مسلمانوں کے ایسے عقائد جو مرور زمانہ اور مختلف فتنوں کی وجہ سے غلط رواج پاگئے تھے ان کی الٰہی رہنمائی سے اصلاح فرمائی۔ امت مسلمہ میں جاری بدعات کا خاتمہ کیا اورانہیں شریعت محمدیہؐ پر گامزن کیا۔ آپ نے دیگر ادیان کے لوگوں کو حقیقی اور سچے مذہب اسلام کی طرف دعوت دی۔ خدا کے منکرین کو خدا کی ہستی کے دلائل دے کرسچے خدا کے وجود کو ثابت کیا۔ اسلامی شریعت کو تمام شریعتوں پر برتر و بالا قرار دیا۔ اور اس مقصد کے لیے آپ نے ہندوستان کے بہت سے شہروں کے سفر کیے اور لیکچرز دئیے۔ اس کے علاوہ تبلیغ ہدایت کےلیے تمام ذرائع استعمال فرمائے۔ اشتہارات کا شائع فرمانا اور رسالہ جات تحریر فرمانا بھی ایک اہم ذریعہ تبلیغ رہا۔ پھر اخبارات ریویو آف ریلیجنز وغیرہ کا اجراء فرمایا جن کے ذریعہ اسلام کا پیغام مغربی ممالک تک پہنچا۔ اپنے مریدین کی روحانی تربیت کے لیے جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا۔

حکام وقت کو دعوت اسلام دیتے ہوئے ان کو تبلیغی خطوط تحریر فرمائے اور امن و امان کے قیام کےلیے عوام کو حکومت کی اطاعت در معروف کی تلقین فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہر جہت سے عوام الناس کی رہنمائی فرمائی اور اپنے متبعین کو امن پسند جماعت کے طور پر پیش کیا۔ قادیان جو ایک چھوٹی سی بستی تھی وہ آپؑ کی بدولت مرجع خاص و عام ہوگیا۔

آپؑ کے اخلاق و شمائل قال اللہ اور قال الرسولؐ کے عین مطابق تھے۔ جن کابیان ایک الگ طویل مضمون کا متقاضی ہے۔ یہاں بس اس قدر ذکر کردینا مناسب ہے کہ آپ اپنے آقا و مطاعﷺ کی True Copy تھے۔

غرضیکہ آپ نے تمام جہانوں کے رسول حضرت محمد ٍمصطفیٰﷺ کے حقیقی متبع بن کراور قرآنی شریعت پر عمل کر کے تمام دنیا کی ہدایت و رنمائی کا بیڑا ٹھایا اور تمام قوموں کی نجات کا ذریعہ بنے اور رسول اللہﷺ کے حقیقی بروز کامل، امتی نبی اور امت موسویہ میں چودہویں صدی پر آنے والے حضرت عیسیٰؑ کے حقیقی مثیل ثابت ہوئے۔

آپؑ نےاللہ تعالیٰ سے خبر پاکر لاتعداد عظیم الشان پیشگوئیاں فرمائیں جو آپؑ کے بابرکت زمانہ میں بھی پوری ہوئیں اور آپؑ کی وفات سے آپ کے خلفائے کے دور خلافت میں بھی اب تک پوری ہورہی ہیں اور خلافت خامسہ کے تاریخ ساز عہد خلافت میں جماعت کی عظیم الشان ترقیات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلبہ اسلام کی پیشگوئی بھی ان شاء اللہ جلد پوری ہونے والی ہیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین

(ابوفاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ مالٹا کی خدمت انسانیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2022