• 18 اپریل, 2024

کیا کھویا۔ کیا پایا

کیا کھویا۔ کیا پایا
(پاکستانی قوم کو 75ویں سالگرہ۔ پلاٹینم جوبلی مبارک ہو)

پاکستان 14؍اگست 2022ء کو اپنی 75ویں سالگرہ (پلاٹینیم جوبلی) منارہا ہے۔ 14-15؍اگست کی شب جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہ قدر کی مبارک رات تھی جسے ہم لیلۃالقدر کہتے ہیں۔ 15؍اگست 1947ء کو جب پاکستانی قوم نے اپنا پہلا یوم آزادی منایا تو اس روز 27 رمضان المبارک اور جمعةالوداع کا دن تھا گویا ساری نیک ساعتیں اس روز یکجا ہوگئیں۔ بےشک یہ دن قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس میں سیاسی اور مذہبی شخصیات کی انتھک محنت، کاوش اور مسلمانوں کی دعائیں شامل تھیں۔ یہ پاکستانی قوم کے لیے لاتعداد نعمتوں میں سے ایک خداداد مملکت پاکستان کی نعمت تھی۔ انگریزوں نے آخری لمحے تک کوشش کی کہ ہندوستان متحد رہے اور وہ پورا ہندوستان ہی کانگریس کو لوٹا دینا چاہتے تھے۔ مضمون کے پہلے حصہ میں راقم الحروف پاکستان حاصل کرنے کے لیے ہم نے کیا پایا ان کاوشوں کا ذکر اور کن سیاسی و مذہبی اہم شخصیات نے دن رات انتھک محنت، کوشش، جدوجہد کے ساتھ مسلمانوں کو ایک آزاد ملک دلوایا۔ سب سے پہلے بانیٔ پاکستان قائداعظم کا ذکر اس ضمن میں حضرت سر چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ فرماتے ہیں۔
’’میں نے ہمیشہ باربار زبانی اور تحریری طور پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ جہاں تک انسانی رشتوں کا تعلق ہے پاکستان صرف ایک شخص کی مخلصانہ اور بھرپور کوششوں سے معرضِ وجود میں آیا اور وہ قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ انہوں نے اکیلے ہی دم توڑتی ہوئی آل انڈیا مسلم لیگ کو پھر سے زندہ کیا اور اسے ایک فعّال اور مؤثر تنظیم میں مربوط کردیا۔ اوروہ اس کے مسلم اور متحرک قائد تھے۔ ناقابل قبول نظر آنے والی مشکلات کے باوجود انہوں نے مقصد کو پالیا جو انہوں نے اپنے سامنے رکھا تھا اور اگرچہ متعدد لوگوں نے وفاداری اور صدق کے ساتھ ان کا ساتھ دیا تھا لیکن حصول پاکستان میں کامیابی کا کریڈٹ اکیلے محمد علی جناح کو جاتا ہے۔ اس بارے میں کسی جہت سے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔‘‘

(پاکستان ٹائمز 13فروری 1982ء)

آپ کی قیادت نے ایک آئینی طریق پر مسلمانوں کےلیے ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے نام سے حاصل کی جو ایک لمبی جدوجہد کے بعد حکومت برطانیہ سے حاصل ہوئی۔ آپ کی انتھک محنت، کاوشوں کی وجہ سے آپ کو بابائے قوم کے نام سے منسوب کیاجاتا ہے۔

علاوہ ازیں ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان بنانے کے لیے قائداعظم کا ہی اصل میں کارنامہ ہے ان پر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مایوس ہوکر ہندوستان چھوڑ کر انگلستان میں آگئے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کرسکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لنڈن ہی میں بودوباش کا فیصلہ کرلیا۔

(قائداعظم اور ان کا عہد از رئیس احمد جعفری صفحہ192 بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ8 ازپروفیسر محمد نصراللہ راجا)

یہ جو صورتحال تھی اس سے ہند کے جو مسلمان تھے ان کو بڑا سخت دھچکا لگا اور سب سے زیادہ ہمدردی تو جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو تھی۔ آپؓ نے اس کے لیے بڑی کوشش کی اور یہاں لندن میں اس وقت حضرت مولانا عبدالرحیم دردؓ امام تھے ان کے ذریعہ سے قائداعظم پر زور ڈالا کہ وہ دوبارہ ہندوستانی سیاست میں آئیں۔ اور بڑی کوششوں سے درد صاحب نے ان کو قائل کیا۔ آخر قائداعظم نے خود کہا کہ امام صاحب کی بڑی ترغیب تھی اور ان کی بہت زیادہ زور اور تلقین نے میرے لیے کوئی جائے فرار باقی نہ چھوڑی۔ ایک غیرازجماعت مؤرخ اور صحافی م۔ ش صاحب انہوں نے لکھا کہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد امام لنڈن ہی تھے جنہوں نے مسٹرمحمد علی جناح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح 1934ء میں ہندوستان واپس آگئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں بلامقابلہ منتخب ہوئے۔

(الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ10؍اپریل 2009ء)

قیام پاکستان میں جماعت احمدیہ
اور حضرت خلیفةالمسیح الثانی ؓ کی خدمات

حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمات کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایک مذہبی اور دینی خدمات اور دوسرے قومی اور ملی خدمات اس مضمون میں آپؓ کی سیاسی اور قومی خدمات کا مختصراً ذکر کرنا مقصود ہے۔

یاد رہے کہ برصغیر ہند میں انگریز کی حکومت 1857ء سے لے کر 1947ء تک رہی اور اس وقت سے لے کر مسلمانوں کے حقوق کسی نہ کسی رنگ میں غصب کیے جاتے رہے ہیں۔ کیونکہ برصغیر ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں یعنی ہندو اور مسلمان۔ لہٰذا دو قومیں آباد ہونے کی وجہ سے لازماً دو قومی نظریہ کی بنیاد پڑنا تھی۔ چونکہ اس مقصد کے پیش نظر مسلم لیگ کی بنیاد بمقام ڈھاکہ (بنگلہ دیش) مشرقی پاکستان 23دسمبر 1906ء کو پڑی جس کے پرچم تلے جمع ہو کر مسلمانوں نے پاکستان جیسی عظیم مملکت خداداد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہٗ نے مسندامامت پر بیٹھتے ہی مسلمانوں کی رہنمائی کرنا شروع کردی اور جماعت احمدیہ کو ہندوستان کی قومی جدوجہد میں ایک اہم اور نمایاں مقام پر کھڑا کردیا اور مسلمانِ ہند کے حقوق کے لیے پوری سرگرمی اور جانفشانی سے اس جدوجہد میں حصہ لیا۔

(الفضل آن لائن 18فروری 2020ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ قومی خدمت کے دیگر کارناموں میں نمایاں ترین ہے کیونکہ آپ اگر مولانا عبدالرحیم درد صاحب کو ہدایت نہ فرماتے کہ قائداعظم کو ہندوستان واپس آکر سیاست میں دوبارہ آنے کی ترغیب و تلقین کریں تو پاکستان بھی معرض وجود میں نہ آتا۔ یہ امر یاد رہے کہ اس واقعہ یعنی بیت الفضل لندن میں قائداعظم کی تقریر کے کئی ماہ بعد یعنی جولائی 1933ء میں لیاقت علی خان اور ان کی بیگم قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی۔ آخر آپ واپس تشریف لے آئے اور پاکستان کے حصول تک مسلمانوں کی قیادت فرمائی۔

(الفضل 17جنوری 1945ء)

آپؓ کا یہ انقلابی خطبہ جو آپ نے 12جنوری 1945ء کو آزادیٔ ہند اور قیام پاکستان کے سلسلہ میں بیان فرمایا تھا۔ ضروری اقتباسات حضرت مولانا جلال الدین شمس نے انگریزی زبان میں دو ورقہ شکل میں شائع کرکے وزراء دارالعلوم اور دارالامراء کے چھ سو ممبران کے علاوہ دیگر عمائدین و اکابرین کو بھجوایا جس پر انہوں نے شکریہ ادا کیا اور حضرت امام صاحب کی نصیحت کا خاص دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ پھر اس آواز کو امریکہ اور ہندوستان میں پھیلایا۔ اس کا خلاصہ مشرقی افریقہ ریڈیو سے چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے نے نشر کیا۔

(الفضل 9جون 1945ء)

تحریک پاکستان کے اہم ترین مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ 1945-1946ء میں تھا جب ہندوستان میں مرکزی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات تھے جس میں آپ نے ہر احمدی کو مسلم لیگ کی زبردست مدد کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کی طرف سے اخبار ڈان 8اکتوبر 1945ء کے شمارہ میں ایک مفصل خبر شائع کی گئی جس کا عنوان تھا Ahmadia Community to Support Muslim League یعنی ’’جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی حمایت کرے گی‘‘

(الفضل 22؍اکتوبر 1945ء)

قیام پاکستان اور تحریک آزادی اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے تحریک آزادی کے دوران قدم قدم پر مسلمانوں کی نا صرف علمی ونظری رہنمائی کی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہرممکن عملی کوششیں بھی کیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو کانگریس کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی ہر تحریک شدھی ’ترک موالات‘ خلافت اور ہجرت وغیرہ سے مسلمانان ہند کو بروقت آگاہ کیا۔ انہیں خدمات کے اعتراف میں چند اخبارات کے تأثرات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

(1) ’’مشرق‘‘ گورکھپور نے لکھا۔ جتنے بھی فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے۔

(2) 1931ء میں مسلمانان کشمیر کی حمایت اور ڈوگرہ مہاراج سے ان کے حقوق دلوانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ملی خدمات اور سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر اس کمیٹی کی صدارت کے لئے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے آپ کا نام پیش کیا۔ آپ کی رہنمائی میں کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور جماعت احمدیہ نے کشمیر کے مسلمانوں کی ناقابل فراموش اور تاریخ ساز خدمات سرانجام دیں۔

حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کے خطبہ جمعہ پر اخبار اہل حدیث کے ایڈیٹر مولوی ثناءاللہ امرتسری نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا۔
’’یہ الفاظ کس جرأت اور حیرت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کانگریسی تقریر وں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے۔ چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا حوالہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں نہیں ملے گا۔‘‘

ان اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو ایک عظیم مملکت دلانے میں کس قدر انتھک محنت اور مسلسل تگ و دَو فرمائی۔ ان کی یہ خدمات کبھی بھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی تشکیل کا ذکر ہوگا آپ کو بھی یاد کیا جائے گا۔

اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پر رحمت خدا کرے

(روزنامہ الفضل آن لائن 18فروری 2020ء)

(3) مدراس میل 7؍ اپریل1933ء بعنوان ’’کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی وفد کی قیادت‘‘ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں قراردادِ پاکستان پاس ہوئی اس کے بعد سر سٹیفورڈ کرپس ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کردیا۔ جس کے نتیجے میں ہندوستان کی آزادی ناممکن دکھائی دینے لگی۔ انہی دنوں چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کو کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان جانا پڑا۔ آپ نے انگریز حکومت کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے مدلل اور پر شوکت الفاظ میں پیش کیا کہ دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور حکومت برطانیہ نے مجبوراً لارڈدیول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولا دینے کے لیے لندن طلب کیا اس موقع پر ایک ہندو اخبار ’’بھات‘‘ نے لکھا کہ ’’ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفراللہ خان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کر حق بات کہہ دی‘‘

اس بات کے حق اور مخالفت میں انگلستان کے اخبارات میں مضامین شائع ہوئے اور ہندو مسلم پریس میں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اس ضمن میں 23 مارچ کو لاہور میں جو قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس کے اصل حقائق پیش خدمت ہیں۔

23مارچ 1940ء میں قرارداد پاکستان لاہور میں پیش کی گئی جس نے مسلمانوں کےلیے ایک علیحدہ ریاست بنام پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ قرارداد پاکستان کس نے لکھی تھی؟ پاکستانیوں کو علم ہی نہیں کہ حصولِ آزادی میں قرارداد پاکستان کا کیا کردار تھا۔ اہل علم اور قائد کے ساتھیوں کو اس کا بخوبی علم ہے۔ البتہ ہماری نئی نوجوان نسل کےلیے یہ ضروری ہے۔ اس ضمن میں سر محمد ظفراللہ خان فرماتے ہیں:
میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ لارڈلینتھ گو کے 12مارچ کےخط میں میرے اس خط کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہ اس حقیقت پر مبنی تھاکہ ہندوستان میں مسلمان ایک واضح طور پر علیحدہ قوم ہیں اور یہ کہ آئینی مسئلے کا واحد تسلی بخش اور قابل قبول حل یہ ہے کہ شمالی مشرقی اور شمال مغربی علاقوں پر مشتمل فیڈریشن قائم کی جائے اور یہ بالکل وہی مطالبہ تھا جو کچھ دنوں بعد 23مارچ 1940ء کی مسلم لیگ کی قرارداد میں پیش کیا گیا۔ دوقومی نظریہ شمال مشرقی اور شمال مغربی فیڈریشن کے قیام کی سکیم میرے نوٹ میں تفصیل اور وضاحت سے پیش کی گئی ہے۔ جو میرے ہم عصروں یا مجھ سے پہلے لوگوں میں سے کسی دستاویز یا بیان میں قطعاً نہیں۔

(بحوالہ پاکستان ٹائمز 13فروری 1982ء)

سر محمد ظفراللہ خان کا وہ نوٹ جو انہوں نے لارڈلینتھ کو بھجوایا تھا اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’میرا یہ نوٹ ماہ فروری1940ء کے آخری نصف میں تیار کیا گیا تھا تاکہ اسے سرکاری ڈاک والے تھیلے میں شامل کردیاجائے جو لارڈلینتھ گو کے 12مارچ والے خط سے پہلے جانا تھا۔ اس خط اور میرے نوٹ کے بغور مطالعہ سے یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر واضح ہوجاتی ہے کہ یہ نوٹ میں نے ذاتی طور پر پہل کرکے خود تیار کیا تھا اور میں اس کے مندرجات کے ہر حصے کا اکیلا ذمہ دار تھا۔

(بحوالہ پاکستان ٹائمز 13فروری 1982ء)

چوہدری سر محمد ظفراللہ خان نے یہ بات بھی واضح کی کہ لارڈلینتھ گو نے 12مارچ کو اپنے مضمون میں 1940ء کے مکتوب بنام سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے انڈیا میں خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ میرے نوٹ کی ایک کاپی پہلے ہی قائداعظم کو بھیج دی گئی تھی۔ جس نوٹ کی کاپی لارڈلینتھ گو نے قائداعظم کی خدمت میں بھجوائی تھی جو چند دن بعد وہی سکیم ’’قراردادپاکستان‘‘ کی شکل میں مسلم لیگ کے اجلاس میں 2 مارچ 1940ء میں پاس کی گئی ہے۔

چوہدری ظفراللہ خان پاکستانی مسلم قوم کے وہ خوش بخت سپوت تھے جن کو دیانت، محنت اور اعلیٰ قابلیت کی وجہ سے غیرمنقسم ہندوستان میں بھی آپ کو اعلیٰ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ جن کی انجام دہی میں وہ ہر لحاظ سے نہایت کامیاب و کامگار ثابت ہوئے۔ آج ہمیں ان رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے اس قرارداد کو تحریر کیا اور پیش کیا۔

آپ نے جولائی1947ء میں پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کا کیس لڑا اور قائداعظم کی نظرانتخاب ظفراللہ خان پر پڑی اس تقرری میں مشہور صحافی م۔ ش نے لکھا۔ قائداعظم نے چوہدری ظفراللہ کو مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کےلیے نامزد کیا۔ قائداعظم معمولی انسان نہیں تھے وہ تاثرات کی بناء پر لوگوں کے متعلق رائے قائم کرنے کے عادی نہ تھے بلکہ تجربہ کی کسوٹی پر لوگوں کو پرکھا کرتے تھے۔

(بحوالہ نوائے وقت لاہور میگزین 6مارچ 1992ء)

مشہور صحافی منیر احمد منیر لکھتے ہیں:
’’جب ظفراللہ خان باؤنڈری کمیشن کا کیس پیش کرچکے تو قائداعظم نے انہیں شام کے کھانے کی دعوت دی اور انہیں معانقہ کا شرف بخشا جو قائداعظم کی طرف سے کرۂ ارض پر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔‘‘

قائداعظم نے چوہدری محمد ظفراللہ خان کو انہی خدمات کے پیش نظر پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ بنایا۔ 25دسمبر 1948ء تا 1954ء تک وہ اس وزارت پر براجمان رہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسات میں پاکستانی وفد کی قیادت کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے اقوام متحدہ کے 17ویں اجلاس کی صدارت کی۔ علاوہ ازیں کشمیریوں کو خودمختاری جدوجہد دلانے کےلیے بھرپور کردار ادا کیا اور اقوام متحدہ میں ان کے حق میں قرارداد پاس کروائی۔ جو ایک کارنامہ تھا جس کو آج تک پاکستانی حکومت اور کشمیری قوم یاد کرتی ہے۔ مزیدبرآں آپ نے اسلامی امت اور ان ممالک کی آزادی کےلیے بھرپور جدوجہد کی اور انہیں آزادی دلوائی۔ ان کے کارناموں کی ایک لمبی تفصیل ہے جو آج تک کسی دنیا کے سیاسی لیڈر اور پاکستانی کو نصیب نہیں۔

مرزا مظفر احمد مرحوم کی گرانقدر ملی خدمات

حضرت مرزا مظفر احمد مرحوم ایک ممتاز ماہر اقتصادیات تھے۔ آپ عالمی مالیاتی اداروں میں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے بلکہ آپ اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے، چنانچہ آپ ورلڈ بنک کے ڈائریکٹر اور آئی ایم ایف کے سٹاف میں بطور ایگزیکٹو سیکرٹری کے خدمات بجالاتے رہے۔ وطن عزیز پاکستان کےلیے گراں قدر ملی خدمات سرانجام دیں اور پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر پاکستان کی تعمیر وترقی کےلیے غیرمعمولی اہمیت کے منصوبے بنانے میں آپ کا کردار مثالی اور تاریخی تھا۔ ان منصوبوں کے ثمرات سے آج تک وطن عزیز کے عوام مستفیض ہورہےہیں۔ مغربی پاکستان میں آپ سیکرٹری فنانس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور گورنر اسٹیٹ بنک پاکستان تعینات رہے۔ آپ کے دستخطوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹ بھی جاری ہوئے۔ آپ اپنے آپ کو ماہر اقتصادیات کے طور پر منواچکے تھے۔

صدر ایوب خان کی جوہرشناس نظر نے آپ کا انتخاب کیا اور پاکستان کی معاشی ترقی کےلیے آپ کو ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن مقرر کیا اس کمیشن کے صدر خود صدر ایوب خان تھے۔ آپ نے اس کمیشن میں خدمت کے دوران پاکستان کی تعمیر وترقی کےلیے جامع پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ شروع کیا۔ جس کے ذریعہ تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور ان سے نکلنے والی نہروں کے عظیم منصوبے شروع ہوئے جو آج پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ صدر پاکستان کے اقتصادی امور کے مشیر تھے۔ اور صدر یحییٰ کے دور میں بھی یہ مشیر رہے۔

ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
آپ نے جماعت احمدیہ اور اپنے جذبات اور وفا کا اظہار اپنے پاکستان کے لیے ان شاندار الفاظ میں کیا جو کہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’بہرحال ہم جہاں بھی ہوں ہمارا دل پاکستان کےلیے دھڑکتا ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں اپنے وطن کی خدمت کرتے رہیں گے۔ غلط فہمیاں بالآخر دور ہو جائیں گی۔‘‘

(بحوالہ ہفت روزہ حرمت اسلام آباد 27دسمبر 1996ء تا 2جنوری 1997ء صفحہ44)

یہ حقیقت ہے حضرت مرزا مظفر احمد صاحب نے ساری عمر ملک و قوم کی خدمت میں صرف کردی اور اپنی خداداصلاحیتوں اور قابلیت کے ذریعہ نہ صرف ملک کے اندر رہ کر پاکستان کےلیے گراں قدر خدمات کی توفیق پائی بلکہ بیرون ملک رہ کر بھی اپنے وطن کا نام روشن کیا۔

(ایم ایم احمد/گرانقدر ملی خدمات alislam.org/urdu/book)

نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام مرحوم
کی ملی خدمات

پاکستان سے تعلق رکھنے والے احمدی سائنسدان ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام 1960ء سے 1974ء تک حکومت پاکستان کی جانب سے سائنسی مشیر رہے۔ آپ نے اس عہدہ پر اہم اور پُراثر کردار پاکستان میں سائنس کی ترقی کےلیے ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے ملک میں سیاسی تحقیقات کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ذراعتی طبعیات اور نظریاتی طبعیات میں بھی ایک اہم مقام حاصل تھا۔ وہ پاکستانی خلائی و بالا فضائی تحقیقی ماموریہ کے اوّلین بانیان میں سے تھے انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔ 1998ءمیں ملکی تاریخ کے پہلے ایٹمی تجربات کے سلسلے میں پاکستانی حکومت نے ’’پاکستانی سائنس دان‘‘ کے نام سے یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجراء کیا جس میں پروفیسر عبدالسلام کی خدمات کو سراہا گیا۔ NETFLIX نے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی پر مبنی معروف دستاویزی فلم بھی بنائی۔ علاوہ ازیں قائداعظم یونیورسٹی کا شعبہ طبعیات ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی اور اسلامی دنیا میں دوسرے شخص تھے جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام بیسویں صدی میں تھیورٹیکل فزکس یعنی غیر عملی طبعیات میں دنیا بھر کی نمایاں شخصیات میں شامل تھے اور ڈاکٹر صاحب نے 1979ء میں نوبیل انعام حاصل کیا تھا۔ پروفیسر عبدالسلام کے بےشمار کارہائے نمایاں ہیں جن کو بین الاقوامی دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

پاکستانی فوج میں احمدی جرنیلوں کے کارنامے

جس طرح احمدی حضرات نے تحریک آزادی کی جدوجہد اور ملک کی ترقی و استحکام کے لیے نمایاں کام سرانجام دئیے اسی طرح فوج میں بھی نام روشن کیا جن کی مثالیں پیش خدمت ہیں:
6ستمبر 1965ء کے حوالے سے ہم پاکستان کے تمام شہیدوں اور جانثاروں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ آئیے آج ہم سب اہلِ وطن متحد ہوکر لیفٹننٹ جنرل اختر حسین ملک، میجر جنرل افتخار جنجوعہ، جنرل عبدالعلی ملک، میجر جنرل عبداللہ سعید اور اَن گنت فوجیوں کو سلام پیش کریں۔

میجر جنرل نذیر احمد ملک: آپ کا تعلق دوالمیال سے تھا۔ آپ کو پاکستان آرمی کا پہلا جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ کشمیر کی پہلی جنگ میں آپ کو ایک آرمی ڈویژن کی کمانڈ دی گئی تھی۔

لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک: آپ پاکستان آرمی کے مقبول اور مشہور جنرل تھے۔ آپ 1965ء کی جنگ کے ہیرو تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آپ نے دوسری جنگ عظیم میں شرکت کی۔ ستمبر1945ء میں آپ کو برما اور ملایا کے محاذ پر میجر کے طور پر بھیجا گیا اور اعلیٰ خدمات پر آپ کو ’’برما سٹار‘‘ سے نوازا گیا۔ میجر جنرل اختر حسین ملک ایک نڈر، بہادر، بےباک، صاف گو انسان تھے۔ وطن عزیز کےلیے آپ کی محبت لازوال تھی۔ آپ کی فوجی حکمت عملی اور فوجی داؤ سب تسلیم کرتے ہیں۔ آپ ہی نے آرمی آپریشنز جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلیم کا خاکہ صدر ایوب خان کی منظور سے تیار کیاتھا۔ پاکستان کی 1965ء کی جنگ میں آپ آپریشن گرینڈ سلیم کے کمانڈر تھے جس میں آپ نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ یاد رہے کہ چھمب کا نام میجر جنرل افتخار جنجوعہ کی جنگی خدمات کے اعتراف میں 20مارچ 1972ء کو افتخارآباد رکھا گیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک:آپ پاکستان آرمی انجینئر آفیسر اور ہائی رینکنگ ملٹری جنرل تھے۔ آپ کی شہرت 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چونڈہ کی ٹینک لڑائی کی وجہ سے ہے۔ آپ کے بھائی اختر حسین ملک بھی آرمی میں جنرل تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی آپ نے اپنی کمال مہارت سے یہ جنگ لڑی۔

میجر جنرل عبداللہ سعید: آپ ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈنٹ تھے۔ بلوچستان میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے۔ جنرل صدر ضیاءالحق کے دورِحکومت میں میکسیکو اور کیوبا میں پاکستان کے سفیر متعین رہے۔ آپ لاہور جماعت احمدیہ کے امیر ڈاکٹر سعید احمد کے فرزند تھے۔ آپ کی وفات پر صدر ضیاءالحق بنفس نفیس آپ کے خاندان سے اظہار افسوس کرنے لاہور گئے تھے۔

میجر جنرل ناصر احمد چوہدری شہید: پاکستان آرمی کے اس مایہ ناز جنرل نے اپنی سروس کے دوران اعلیٰ خدمات وطن عزیز کےلیے پیش کیں۔ آپ نے 28مئی 2010ء کو ماڈل ٹاؤن احمدیہ مسجد میں دہشت گردی کے سفاک حملے کے دوران 91سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔

میجر قاضی بشیر احمد شہید: آپ ہوتی مردان میں حضرت قاضی محمد یوسف امیر جماعت ہائے سرحد کے ہاں پیدا ہوئے۔ جون1950ء میں کوہاٹ سے کمیشن حاصل کی۔ 5ستمبر 1965ء میں جوڑیاں کے محاذ پر شجاعت دکھاتے ہوئے توپ کا گولہ پھٹنے سے جام شہادت نوش کیا۔ مرحوم نے زندگی کے آخری تین دن اس طرح گزارے کے کھانے پینے آرام کرنے کی مہلت بھی نہ ملی وہ مسلسل لڑتے رہے۔ جب ان کی نعش محاذ سے گاڑی پر لائی گئی تو کیا سپاہی اور کیا افسر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اس قسم کے واقعات ہمارے احمدی بہادر سپاہیوں کے پاکستان کی فوجی تاریخ میں نمایاں اور کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

راقم الحروف اس مضمون کے دوسرے حصہ ’’کیا کھویا‘‘ کا مختصراً ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے۔

ان چند سطروں کی تحریر سے سب کچھ عیاں ہوجائے گا جو ہم نے پایا تھا وہ سب کچھ کُھودیا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سُنت ہے کہ
’’وہ قومیں جو اپنی پہلی نعمتوں کی قدر نہیں کرتی وہ آئندہ کی نعمتوں سے محروم کردی جاتی ہیں۔‘‘

کل جو بانی قائد کے خلاف تھے وہ آج بھی مخالف ہیں جو قائداعظم کو کافراعظم اور پاکستان کو پلیدستان کہتے تھے وہ آج اوّل درجہ کے شہری ہیں۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں عطاءاللہ شاہ بخاری کے حوالے سے جو احراری لیڈر تھے لکھا ہے۔ ’’اب تک کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی ’’پ‘‘ بھی بناسکے۔‘‘ لاہور میں جو تقریریں کیں ان میں ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے۔‘‘ مارچ 1940ء کو دہلی کے ایک اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی جس میں پاکستان کی تجویز کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ ان تقریروں میں پاکستان کو پلیدستان کہا گیا تھا۔

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 28/398)

بانیٔ پاکستان نے 11؍اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ تمام اقلیتی عوام کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہ رہے گا اور مسلمان مسلمان نہ رہے گا۔ مذہبی مفہوم میں نہیں کیونکہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے۔

(افکارِ قائداعظم صفحہ358 مرتبہ محمود عاصم)

بانیٔ پاکستان کے اصول، ارشادات، خیالات اور سوچ کہیں کُھو گئی ہے یا اس کو جان بوجھ کر پس پشت ڈال دیا گیا تبھی آج پوری قوم اس کا نقصان اُٹھا رہی ہے۔ یہ میرے قائد کی امنگوں کا پاکستان نہیں جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے جو قربانیاں دیں تھیں وہ سب رائیگاں جاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

اللہ اس پاک دھرتی کی حفاظت فرمائے۔

(محی الدین عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ مالٹا کی خدمت انسانیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2022