• 26 اپریل, 2024

قبولیت احمدیت کی کہانی

قبولیت احمدیت کی کہانی
قسط دوم و آخر

احمدیت قبول کرنے کے بعد جو مجھ پر بیتی

عید الاضحی آگئی۔میں نے عید جماعت کے ساتھ پڑھنے کا دل میں ارادہ کرلیا۔عید کے دن صبح صبح ہی میں ڈگو فارم سے ناصر آباد سائیکل پر آنے لگا تو والد صاحب اور بھائیوں نے روک لیا۔اور سختی سے کہا کہ عید تم نے ہمارے ساتھ پڑھنی ہے اور میں موقع پاکر سائیکل دوڑاتا ہوا ناصر آباد آگیا۔اور جماعت کے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔شام کو جب گھر گیا تو حالات کچھ اور ہی تھے۔ میرے استاد مولوی نے ڈگو فارم میں عید کے خطبے میں میرے خلاف اور جماعت کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا۔ڈگو فارم میں عید کا بہت بڑامجمع ہوتا ہے کیونکہ ساتھ والے گاؤں کے لوگ بھی وہاں پر نماز پڑھنے آتے ہیں۔اس طرح سے پورے علاقے کو پتہ چل گیا کہ لڑکا قادیانی ہو گیا ہے۔کنری،بسٹان،بودر فارم ،عمر کوٹ وغیرہ میں یہ خبر پھیل گئی۔اور گھر میں یہ حالت تھی کہ والدصاحب اور بھائی مجھے زدو کوب کرنے کو تیار تھے۔والدہ صاحبہ نے مجھے کمرے میں بند کردیا اور اس طرح میں مار پیٹ سے بچ گیا۔دوسرے دن ابو جان نے ٹھیکیدار کو جاکر کہا کہ میرے بیٹے نے آپکی ملازمت نہیں کرنی یہ ناصر آباد جا کر قادیانی ہو گیا ہے۔اس کے بعد ٹھیکیدار نے ویران جگہ پر روڈ بن رہا تھا وہاں مجھے تعینات کر دیا۔یہ ایک ویران علاقہ تھا یہاں دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی۔ہاں البتہ دن کو ایک بس گزرتی تھی جس پر کھانا مجھے پہنچ جاتا تھا۔رات کو نوافل پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے رازونیازکرلیتااور یہ سلسلہ بڑھتا رہا اور مجھے ہر رات کا شدید انتظار رہتا تاکہ اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگ لوں۔جو مزا ،لطف اور سرو ر اس ویران علاقے میں مجھے ملا وہ کہیں اور نہ مل سکا۔

کچھ عرصے بعد ٹھیکیدار نے مجھے نوکری سے فارغ کر دیا ۔گھر والے مجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ۔بعض کہتے کہ برتن الگ کردو۔میں سجدے میں دعائیں مانگتا تو ہنستے۔صرف مجھے میری والدہ صاحبہ کا پیار حاصل تھا۔جب گاؤں کے بازار میں جاتا توگاؤں والے کہتے کہ یہ مرتد ہوگیا ہے۔کلاس فیلو جن کے ساتھ دس سال ایک بینچ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی انکو سلام کرتا تو وہ بھی منہ موڑ لیتے۔

میرے والد صاحب کے مجھے ڈرانے اور احمدیت کو چھوڑنے کے حربے

ایک مرتبہ میرے والد صاحب نے مجھے ڈرانے کے لئے کہا ’’تم مجھے گولی مار دو یا میں تجھے مار دیتا ہوں‘‘ جب یہ نسخہ بھی ناکام ہوا تو دوسری مرتبہ میرے استاد مولوی نبی بخش صاحب اور دوسرے لوگوں کے سامنے میرے ابوجان نے میرے پاؤں میں اپنی پگڑی اتار کر رکھ دی اور کہا کہ اب تو احمدیت چھوڑ دے۔ہماری قوم میں پگ کی بہت عزت کی جاتی ہے۔میں پریشان تو ہوگیا پگڑی اٹھا کر اپنے والد صاحب کے سر پر رکھی اور والد صاحب کو کہا کہ میں آپکی پگ کی عزت کرتا ہوں مگر احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔میرے والد صاحب کا یہ حربہ بھی مجھے احمدیت سے دور کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔کچھ دنوں بعد میرے استاد مولوی نبی بخش صاحب نے اپنا مرشد گاؤں بلوایا۔مجھے انکے پاس لے گئے۔وہاں پر کافی مجمع لگا ہوا تھا ان میں اکثریت مولویوں کی تھی۔مجھے پکڑکر درمیان میں بٹھا دیا۔میرے استاد (مولوی نبی بخش صاحب)نے کہا یہ میرا شاگرد ہے جو قادیانی ہو گیا ہے۔مرشد نے اور وہاں پر موجود مولویوں نے لعن طعن کیا اور کہا اسے لالچ دیا ہوگا۔

اس وقت مجھ سے رہا نہ گیا ۔میں نے کہا کہ میں تو اس لئے احمدی ہوا ہوں کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور حضرت عیسٰیؑ فوت ہوچکے ہیں۔ مجھے کوئی لالچ نہیں دیا گیا۔اسکی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے آپ ان سب لوگوں کو کیوں گمراہ کر رہے ہیں۔اس پر مرشد نے کہا تم واجب القتل ہو میں تم سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔اس پر مولویوں نے مجھے دھکے مار مار کر وہاں سے باہر نکال دیا اور مجھے کہنے لگے کہ تمہیں عمر کوٹ لے چلتے ہیں اور مسلمان کرتے ہیں۔ میں نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ میں تو پہلے ہی مسلمان ہوں ۔میرے بھائی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے مگر وہ بھی انکے ساتھ شامل تھے میں موقع پا کر بھاگ گیا۔دوسرے دن مجھے گھر والوں نے گھر بدر کردیا۔بعد میں مَیں نے مزدوری کر کے ایک سائیکل خریدا۔اس پر مختلف چیزیں لادکر بیچتا اور لوہا خریدتا۔میں سائیکل کے سامنے روز کوئی نہ کوئی حضرت مسیح موعودؑ کی عبارت لکھ دیتا اور ساتھ کچھ کتابیں بھی رکھتا۔کسی انجان کو تعارف کروا کر وہ کتابیں دے دیتا۔رات کبھی کہاں تو کبھی کہاں گزارتا۔کیونکہ گھر والے مجھے قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔بعض اوقات ویرانے میں رات گزارنا پڑتی۔

ایک دن بسٹان کا مولوی میرے پاس آیا (اس دن میں کسی کام سے بسٹان گیا ہوا تھا) اور کہنے لگا تم احمدیت سے توبہ کرو۔مرزا صاحب کو گالیاں دو ورنہ تیرے ساتھ اچھا نہ ہوگا۔میں نے کہا جتنی تم احمدیت سے نفرت کرتے ہواس سےکئی ہزار گنا میں احمدیت سے محبت کرتا ہوں۔رہی گالیوں کی بات تو اب میں مرزا صاحب پر بلند آواز میں سلامتی کی دعا کرتا ہوں۔میں نے عربی میں کچھ الفاظ دہرانے شروع کر دیے۔اس پر اس شخص نے مجھے پکڑ کر مارا اور مجھے ٹانگوں سے گھسیٹتا رہا ۔میں دعائیں پڑھنے میں مشغول تھا۔ایک بزرگ عورت دور سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔وہ تیز تیز چل کرآئی اس مولوی پر غصہ ہوئی۔ مجھے چھڑایا۔پھر مجھے پانی پلایا۔میں اسکا شکریہ ادا کر کے کنری کی بڑی مسجد میں مکرم حنیف بٹ صاحب کے پاس آیا۔ آپ سے ملا۔ پورا واقعہ سنایا۔اس بزرگ انسان نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔میرے ساتھ مکرم حنیف بٹ صاحب اور انکے بیٹے مکرم نصیر بٹ صاحب بہت حسن سلوک کرتے اور میرا بہت خیال رکھتے تھے۔

ٹالھی شہر میں قیام

مندرجہ بالا واقعہ کے بعد میں ٹالھی شہر چلا گیا ۔ایک دکان کرایہ پر لی ۔ایک پاٹنر بھی اپنے ساتھ رکھا۔ ہم بازار سے اور قریب دیہات سے لوہا ،مرچ،کپاس اور دوسری جنس وغیرہ خریدتے۔بعد میں لوپ لائن ٹرین میں لاد کر کنری شہر بیچتے۔یہ ٹرین ہفتہ میں ایک بار چلتی تھی نوکوٹ براستہ ٹالھی، نبی سر، کنری، سامارو، میر پور خاص تک چلتی تھی۔ ٹالھی میں نمازیں میں احمدیہ مسجد کریم نگر میں،ادا کرتا۔وہاں مکرم چوہدری جاوید احمد ونک صاحب سے ملاقات ہوتی تھی۔وہ ہر بار فجر کی امامت کے لئے مجھے آگے کھڑا کر دیتے تھے۔

ایک مرتبہ گرمی کا موسم تھا چار دن باہر پھرتا رہا مگر کوئی سودا نہ ہوا، اور نہ کچھ مل سکا۔شام کو پریشان واپس ٹالھی شہر لوٹ رہا تھاکہ ایک جگہ کچھ مکانات نظر آئے۔پیاس بہت لگی ہوئی تھی۔پانی پینے اور کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے میں مکان کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک بزرگ عورت آئی مجھے پانی پلایا اور کہنے لگی بیٹا میں نے کچھ سامان فروخت کرنا ہےمجھے کوئی واپاری نہیں مل رہا ۔میں نے کہا اماں میں واپاری ہوں۔آپ سامان دکھا دیں میں خریدتا ہوں۔ اس پر وہ اپنی حویلی کے احاطہ میں لے گئی کافی سامان تھا۔لوہا ،پیتل ،کپاس وغیرہ میں نے ان سے سودا کیا۔ کچھ رقم اُس وقت دے دی۔ دوسرے دن سواری بھی لے کر آیا اور بقایا رقم بھی دے دی۔اس طرح اللہ نے مجھے پورے ہفتہ سے بھی زیادہ منافع دے دیا۔

ٹالھی شہر میں معجزانہ واقعہ

ٹالھی میں قیام کے دوران شدید زلزلہ آیا۔اس زلزلہ کی وجہ سے پاکستان اور انڈیا میں کافی جانی ومالی نقصان ہوا تھا۔مکانات گر گئے کئی دکانیں گر گئیں لوگ بھی زخمی ہوئے۔انہیں دنوں میں کام زیادہ ہو گیا اور سامان رکھنے کی جگہ بھی تنگ پڑگئی ۔کچھ فاصلے پر ایک گھر کرایہ پر لیا ہواتھا۔جس وقت زلزلہ آیا اس وقت گھر کے اندر کمرے میں بیٹھ کر میں اور میرا پاٹنرسامان کی پیکنگ کر رہے تھے۔زلزلہ شروع ہونے سے چند سیکنڈ پہلے ایک دم میرے کانوں میں آواز ٹکراتی ہے کہ احسان علی باہر نکل زلزلہ شروع ہونے لگا ہے۔جیسے ہی یہ الفاظ میرے کان میں پڑے میں نے بغیر سوچے بھاگنا شروع کردیا ساتھ زور سے چیخنا شروع کردیا کہ بھاگو زلزلہ آگیا ہے۔میرا پاٹنر بھی مجھے دیکھ کر اور میری آواز سن کر بھاگا۔ابھی ہم مکان سے باہر نکلے ہی تھے کہ مکان کا آدھا حصہ برآمدہ وغیرہ زمین بوس ہوگیا۔ساتھ ایک پلاٹ خالی تھا وہاں جا کر نیچے بیٹھ گئے۔ساتھ ساتھ زلزلے کے جھٹکے جاری تھے۔میرا پاٹنر کہنے لگا کہ یار تجھے کیسے معلوم ہوا کہ زلزلہ آنے لگا ہے۔میں نے کہا کہ یار کوئی غیبی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔آگے تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔اس واقعہ کے بعد ٹالھی شہر کوخیر آباد کہہ دیا۔مگر بہت اچھا وقت گزرا ۔محبت کرنے والے لوگ تھے۔ محمد آباد اسٹیٹ میں مکرم چوہدری جاوید احمد ونک صاحب مکرم یونس صاحب مربی سلسلہ ، مکرم ڈاکٹر طاہر احمد صاحب اورمکرم چوہدری اللہ رکھا صاحب تھے۔اللہ تعالیٰ سب کوجزائے خیر دے۔وَاپار کا تجربہ مجھے کافی ہوچکا تھا۔ٹالھی شہر سے واپس آکر کنری میں لاہور کے ایک واپاری سے تعلق قائم کیا۔کافی علاقوں میں سودا وغیرہ کرتا رہا۔

مگر میری اصل غرض خدمت دین تھی۔میرے پاس کوئی پلیٹ فارم وغیرہ تو نہ تھامگر اکثر کسی نہ کسی جماعت میں وقت نکال کر چلا جاتا۔مربی صاحب یامعلم صاحب سے اور صدر صاحب سے تو لازمی ملاقات کرتا تھا۔مسجد میں نماز ادا کرتا ۔اکثر جماعتوں میں چندہ جات دیتا رہتا تھا۔ڈگو فارم میں اپنے گھر میں رہنے لگا۔امی ابو کی خدمت کرتا۔سائیکل پر پھیری کا کام کرتا۔کبھی کھجوریں ،کبھی قلفیاں ،کبھی بچوں کے کھلونے وغیرہ لے کر دیہاتوں کی طرف چلا جاتا۔

میرا تعلق ناصر آباد جماعت سے تھا۔اکثر اوقات وہاں گزارتا۔رہائش مہمان خانےمیں ہوتی۔بزرگ انسان مکرم چوہدری محمد علی صاحب سے ملاقات ہوتی۔جب میں مطالعہ کتب کرتا تو وہ کہتے کہ احسان علی! اونچی آواز میں پڑھوتاکہ میں بھی سن لوں۔آخری عمر میں آپکی آنکھوں کی بینائی کمزور ہو چکی تھی۔نسیم آباد فارم ناصر آباد کے ساتھ واقع ہے۔میں اکثر وہاں چلا جاتا ،جمعہ وغیرہ پڑھتا۔معلم صاحب سے ملاقات ہوتی ۔اسی طرح صدر صاحب نسیم آباد مکرم ناصر احمد واہلہ صاحب سے بھی ملاقات ہوتی۔صدر صاحب نے بہت پیار محبت دیا۔جب بھی جاتا خوش دلی سے ملتے ،مہمان نوازی کرتے۔میرے ساتھ دو تین بار لوہے کا بھی سودا کیا۔ربوہ سے مکرم میاں مسرو راحمد صاحب (موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) جب ناصرآباد آتے تو ضرور ملاقات ہوتی۔میں ان دنوں ناصر آباد ہی رہتا۔نمازیں مسجد میں آپ کے ساتھ پڑھنے کی توفیق ملتی۔ایک مرتبہ نماز کے بعد میں نے ملاقات کی اور دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ امام وقت یعنی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ کو دعا کا خط لکھو۔مجھے معاملات کو حکمت کے ساتھ حل کرنےکی نصیحت کرتے۔نیزفرماتے کہ احمدیت آپ نے قبول کرلی۔میٹرک بھی پاس کرلیاہے۔اب ربوہ آؤ اور دینی تعلیم حاصل کرکے دین کی خدمت کی توفیق پاؤ۔

D.P.O آفس میں احمدیوں کے خلاف مولویوں کی درخواست

ابھی ڈگو فارم میں کچھ حالات ٹھیک ہوئے تھے کہ ڈگوفارم اور عمر کوٹ کے مولوی ناصرآبادکے احمدیوں کے خلاف درخواست لے کر D.P.O صاحب سے ملنے آفس آگئے۔اتفاق سے D.P.O صاحب سے میرے بھائی مکرم لطف علی صاحب کے اچھے مراسم تھے۔وہ ان دنوں وہاں آفس میں کام کرتے تھے۔جس وقت مولویوں نے درخواست D.P.Oصاحب کو پیش کی ،بھائی بھی وہاں موجود تھے۔درخواست کے متن میں میرا بھی ذکر تھاکہ ایک لڑکا احسان علی قوم میر جت بمقام ڈگو فارم قادیانی ہوگیا ہے۔یہ سب ناصر آباد کے فلاں فلاں احمدی نے کیا ہے۔احمدیوں کے نام بھی درج تھے۔ڈی پی اوصاحب نے بھائی لطف علی صاحب سے پوچھاکہ یہ لڑکا کون ہے؟میرے بھائی نے کہا کہ سر! یہ میرا سگا بھائی ہے۔ہم نےا سکو سمجھایا بھی ہے ۔ معاملہ اتنا نہیں ہے جتنا یہ مولوی لے کر آئے ہیں۔میرے والد صاحب کو علیحدہ تنگ کرتے ہیں۔حتیٰ کہ ہمارے خلاف میر غلام مصطفیٰ ٹال پوُر صاحب ڈگو فارم والے کو بھی بھڑکانے کی کوشش کی مگر میرصاحب نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ وہ ہمارے حق میں ہی ہیں۔میرابھائی احسان علی تو خود ناصر آباد ڈیوٹی کرنے گیا تھا۔ اس میں ناصر آباد کے احمدیوں کا کیا قصور ہے۔جب ڈی پی اوصاحب کے سامنے حقیقت کھل گئی تو ڈی پی او صاحب نے درخواست کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا اور مولویوں کوسختی سے تنبیہہ کی اور کہا کہ اگر آئندہ ڈگو فارم میںتم لوگوں نے ان کو تنگ کیا تو سخت کارروائی کریں گے۔میرا بھائی لطف علی صاحب شوگر کی وجہ سے فوت ہوگیا تھا۔اللہ تعالیٰ اِس امر کی اسےجزاء دے اور انکی مغفرت فرمائے۔آمین۔

ربوہ کی پہلی زیارت

اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی مسکن گاہ دیکھنے کا اشتیاق دن بہ دن بڑھ رہا تھا۔مرکز ثانی کے لئے غائبانہ محبت بڑھتی جا رہی تھی۔مکرم صفدر نذیر گولیکی صاحب مربی سلسلہ ان دنوں عمر کوٹ ضلع میں بطور مربی دعوت الی اللہ تعینات تھے۔ان سے ملاقات تو احمدیت قبول کرنے سے قبل بھی ہو چکی تھی مگر بیعت کے بعد ایک تعلق پیدا ہو گیا تھا۔انہوں نے مجھے کہاکہ آپ تیار رہیں۔میں جب ربوہ گیا تو آپ کو لے کر جاؤنگا۔چند دن بعد ہی ربوہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔حیدر آباد سے ٹرین تک فیصل آباد آئے۔فیصل آباد سے ربوہ تک وین میں آئے۔جب ربوہ میں داخل ہونے لگے تو دریا کا نظارہ کرتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں زبان پر دہرانے لگا۔جمعہ کا دن تھا ۔مکرم مربی صفدر نذیر صاحب اور میں سامان گھر پر رکھ کر سیدھا مسجد اقصیٰ آگئے۔جمعہ کا وقت ہوچکا تھا۔ربوہ میں پہلا جمعہ ادا کیا ۔پیارے مہدی کی پیاری جماعت کو پہلی مرتبہ اتنی تعداد میں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔جمعہ پڑھنے کے بعد دارالضیافت میں قیام کیا۔حضرت مسیح موعودؑ کےلنگر خانہ کےبابرکت نظام کودیکھ کر دل ایمان سے بھر گیا۔کچھ دیر آرام کرنے کے بعد بہشتی مقبرہ گئے۔دوسرے دن دفاتر وغیرہ گئے۔چند دن کے بعد واپس اپنے گھر آگیا۔

گھر آکر اپنا کام شروع کردیا۔جو بھی آمد ہوتی اپنے والدین کو دیتا۔آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہوتے گئے۔امی ابو کو درخواست کی کہ میں نے دین کا علم سیکھنے ربوہ جانا ہے۔مجھے اجازت دیں۔امی ابو نے رضامندی سے اجازت دے دی۔

مٹھی شہر میں قیام

مٹھی شہر میں احمدیہ مشن ہاؤس میں تین ماہ کے لئے مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صاحب امیرجماعت نے بھجوایا تاکہ وہاں جا کر کچھ دینی علم سیکھوں۔وہاں تین ماہ قیام کیا۔معلمین کرام سے دینی نصاب وغیرہ پڑھتارہا۔مکرم ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب اس وقت المہدی ہسپتال میں تھے۔انہوں نے اتنے کم عرصہ میں بہت پیار دیا۔میں نے واپس گھر آنا تھا ،کرایہ وغیرہ نہ تھا۔میں پریشان تھا۔ڈاکٹر سردار صاحب کو درخواست کی کہ آپ نے اپنے مشن ہاؤس کی چارپائیاں بُنوانی ہیں۔ میں اچھی بُن سکتا ہوں۔اگر شفقت کریں تو مہربانی ہوگی۔وہ راضی ہوگئے۔میں نے چارپائیاں بن لیں،کرائے جتنی رقم مل گئی۔واپس گھر ڈگو فارم آگیا۔گھر آکر اپنا کام کیا۔ میں ناصر آباد چلا جاتا۔جمعہ پڑھتا،شام کو خطبہ جمعہ سنتا ،پھر گھر واپس آجاتا۔مکرم عبداالسلام کھوسہ صاحب مربی سلسلہ اور مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب نے میری درخواست برائے داخلہ معلمین کلاس دفتر وقف جدید ارسال کی۔

میں اب ذہنی طورپر اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا۔جماعتی کتب گھر پرپڑھتا ،اپنے سائیکل پر پھیری کا کام کرتا۔کچھ دنوں کے بعد دفتر وقف جدید سے خط موصول ہوا کہ اکتوبر میں انٹرویو ہونگےآپ تب تک تیاری کرتے رہیں۔میری اب یہی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے والدین کے پاس رہ کر ان کی خدمت کر سکوں نیز ربوہ میں پڑھنے کےلئےان کےشک وغیرہ دور کرسکوں۔کیونکہ میرے والدین کو بھڑکانے کے لئے ڈگو فارم والے کم نہ تھے۔ وقتاً فوقتاًکوئی نہ کوئی شرارت کا شوشہ چھوڑتے رہتے تھے۔گاؤںکےلوگ ایک دن پیر جان سر ہندی کے پاس سامارو جا پہنچے پھر وہاں سے ایک مولوی کو لے کر میرے والدصاحب کے پاس آئے اور کہنے لگےکہ ہم پیر جان سر ہندی کے پاس سے ہوکر آئے ہیں۔انہوں نے بہت سے ہندوؤں کو مسلمان کیا ہے۔ اب تم اپنا لڑکا لے کر چلو۔اس پر میرے والد صاحب نے کہا میں لڑکے کو بلاتا ہوں۔اگر اس نے سوال و جواب کر کےتمہیں لا جواب کردیا تو پیر جان سر ہندی کے پاس اس کو لے کر خود آؤنگا۔اس پر وہ میرے ابو جان کو باتیں سنا کر چلے گئے۔اس واقعہ کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ نے غائبانہ طورپر ہمیں بچا لیا۔

میرے والد صاحب نے کہا کہ اب آپ بیٹا جانے کی تیاری کروکیونکہ ہمارے لئے اور تمہارے لئے مسائل بڑھتے رہیں گے۔میں دل میں بہت خوش تھا کہ میرے ربوہ جانے کےلئے ابو جان مطمئن ہیں۔میںنے ناصر آباد جا کر مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب سے ملاقات کی ۔ربوہ جانے کے لئے ڈگو کے حالات بتائے۔ابھی انٹر ویو میں تو تین ماہ کا وقت باقی تھا۔مگر مکرم عزیز احمد صاحب نے کہا کہ آپ جاؤ ،باقی پیچھےہم خود سنبھال لیں گے۔میں نے زادراہ کا بندوبست شروع کیا۔میری سائیکل مجھے پیاری تھی۔ جب سے احمدی ہوا تھا اسوقت سے میرےپاس تھی۔اس پر سفر کرکے تبلیغ کا کام کیا کرتا تھا۔اس پر بہت سے سفر کیے۔بلاآخر اس کو فروخت کردیا۔مکرم عزیز احمدصاحب نے ناظر اعلیٰ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (جو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں) کے نام خط لکھ کر دیا۔میرے متعلق حالات بھی لکھے اور میری سفارش بھی کی۔

خدمت دین کےلئے زندگی وقف کرنے کا سفر

میرا یہ ربوہ کا سفر یادگار ہےکیونکہ میں اپنی زندگی خود وقف کرکے خدمت دین کے لئے پیش کرنے جا رہا تھا۔راستے میں دعائیں اور بزرگان اسلام کا طرز زندگی میرے خیالات میں ممد ہوچکے تھے۔ناصر آباد سے ایک فیملی مکرم داؤد احمدصاحب ابن مکرم منشی ابراہیم احمد صاحب ربوہ شفٹ ہوچکے تھے۔ان سے میرا تعلق اچھا تھا۔ناصر آباد میں مجھ سےبہت تعاون کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ربوہ پہنچ کر ان سے رابطہ کیا۔دارالضیافت میں ٹھہرنے کے لئے کہا تو انہوں کہا کہ آپ تین دن تک ٹھہر سکتے ہیں باقی کے لئے اجازت لینی ہوگی۔نیزکہا کہ اپنے امیر صاحب کاخط وغیرہ امور عامہ میں لے کرجائیں۔ انشاء اللہ وہ اس سلسلے میں مددکریں گے۔اب میں پریشان تھا کہ کیا کروں؟ میرا یہاں کوئی واقف نہیں۔مکرم داؤد صاحب سے مشورہ کیا۔مکرم داؤد صاحب نے پوچھاکہ مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب نے کوئی چٹھی وغیرہ نہیں دی؟اس پر مجھے یاد آیا کہ ایک چٹھی دی ہے جو کہ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظراعلیٰ کے نام ہے۔ہم ناظر اعلیٰ صاحب سے ملنے کے لئے ان کے دفتر گئے۔آپ بڑے پیار سے ملے۔ اٹھ کر سلام کا جواب دیا،ہاتھ ملائے۔مجھے دیکھ کر پہچان گئے اور فرمانےلگےکہ آپ یہاں آگئے ہو۔میں نے ساری تفصیل عرض کردی۔مکرم داؤد صاحب نے کہا کہ احسان علی نے خود بیعت کی ہے۔اب بفضل تعالیٰ خود اپنی زندگی وقف کر کے خدمت دین کے لئے آئے ہیں۔اس پر آپ نے کہا میں احسان علی کو خود بھی جانتا ہوں۔میں نے عرض کیا کہ لنگر خانہ والے زیادہ دن تک ٹھہرنے نہیں دے رہے۔اس پر آپ ہنس پڑے۔میں نے چوہدری عزیز صاحب کا خط پیش کیا آپ نے پڑھ کر اِسی خط پر لکھا احسان علی کو لنگر خانہ ٹھہرنے کی اجازت ہے۔

میں نے شکریہ ادا کیا پھر واپس لنگر خانہ آگئے لنگر خانہ والوں کو چٹھی دی۔پھر میں داخلہ تک وہاں ہی ٹھہرا رہا اور انہوں نے مجھے کچھ بھی نہ کہا۔میں نے داؤد احمد صاحب کے ساتھ ربوہ کی سیر شروع کی۔داؤد احمد صاحب نے تفصیل سے ہر جگہ دکھائی۔مسجد مبارک میں پانچوں نمازیں ادا کرتا تھا۔شام کو مبارک احمد ثانی صاحب مربی سلسلہ کے پاس جو چوہدری عزیز احمد صاحب کے فرزند ہیں قرآن کریم پڑھنے چلا جاتا تھا۔

ربوہ میں پہلی عید

میری اپنے گھر سے دور پردیس میں یہ پہلی عید تھی۔روز ابو امی کو یاد کرکے تنہائی میں اللہ کے حضور رو لیتا تھاڈائری پر امی ابو کے نام خط لکھتا تھا۔میرے پاس عید کے کپڑے بھی نہیں تھے۔مجھے فہیم احمد لکھن مربی سلسلہ ملے عرض حال سنا تو اسی وقت بازار لے کر گئے کپڑے لے کر درزی کو دیے۔عید کے دن اپنے گھر آنے کو کہا۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔آمین۔عید کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کی۔مسجد میں مالی عزیز احمد بھٹی صاحب ملے جو ناصر آباد میں ملے تھے جب میں احمدی نہیں تھا۔ بہت خوش ہوئے۔کافی لوگوں سے تعارف کرایا۔اپنے گھر لے کر گئے ،بہت دلچسپ ملاقات رہی۔دوپہر کا کھانا مربی فہیم احمد لکھن صاحب کے گھر کھایا۔باقی عید کا دن داؤد احمد صاحب کے ساتھ گزارا۔شام کوڈگو فارم فون کر کے امی ابو کی خیریت معلوم کی عید پردیس میںگزارنے پر رودیا۔مگر دلی اطمینان تھا کہ احسان علی دینی علم کے حصول کے لئے یہ ایک معمولی قربانی ہے۔

انٹرویو کا دن

انٹر ویو کا دن آگیا میں وقت پر دفتر پہنچا۔مکرم مبشر احمد کاہلوں صاحب مفتی سلسلہ اور اللہ بخش صادق صاحب اور مبشر احمد خالد صاحب نے انٹرویو لیا۔میرے احمدی ہونے کے واقعات تفصیل سے پوچھتے رہے۔میں نے مبشر احمد کاہلوں صاحب کو ایک شعر سنایا جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو
نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔قرآن کریم سنا۔بعدازاں جب لسٹ آئی تو میں کامیاب ہوچکا تھا۔ میڈیکل کے بعد اقامۃالظفر دارالصدر میں ہاسٹل میں رہائش ملی۔گرمی اور سردی دونوں ہی ربوہ میں بہت ہوتی ہے۔ سردی کا بستر میرے پاس نہ تھا جو مجھے ایک چوکیدار نے دیا۔کلاسز کے لئے دفتر وقف جدید کی بالائی منزل جانا پڑتا تھا۔ اقامۃ الظفر سے دفتر وقف جدید پیدل کلاس کے لئے آنا پڑتا تھا۔کیونکہ میرے پاس سائیکل نہ تھی۔معلم بننے کا دور بہت پیارا گزرا۔ہاں گھر کی یاد رلا دیتی تھی۔اللہ بخش صادق صاحب اور موجودہ امام جماعت جب ناظر اعلیٰ تھے بہت پیار کرتے ،اکثر ملاقات ہو جاتی تھی۔استاد بہت پیارے اچھے انداز سے پڑھاتے تھے۔رفیق احمد جاوید مربی سلسلہ ،نذیر احمد ریحان صاحب ،قاری محمد عاشق صاحب بہت پیار کرتے ،مربی فہیم صاحب ہمیشہ اپنی حکمت و فراست سے میری رہنمائی فرماتے رہتے۔اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے۔تحصیل علم کے دوران اپنے والد صاحب اور بھائی طاہر علی کوساتھ لے کر ربوہ آیا۔سارا مرکز دکھایا ،اپنی رہائش اور تحصیل علم کی جگہ دکھائی۔اور ناظر اعلیٰ مکرم مرزا مسرور احمد صاحب موجودہ امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی ملاقات کروائی۔
اور اس طرح اللہ تعالی ٰ کے خاص فضل وکرم سے معلم بنا اور پاکستان کی کئی جماعتوں میں خدمت کی توفیق ملی اور اللہ کے فضل سے مل بھی رہی ہے۔احمدیت قبول کرنے کے بعد خدا تعالیٰ کا فضل ہمیشہ شامل حال رہا۔ہر ھم وغم میں خدا نے مجھ پر اپنا فضل کیا۔اللہ تعالی لحد تک اس عاجز کو خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔آمین۔

احسان علی سندھی(معلم سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 نومبر 2020