• 29 مارچ, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 14)

اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد14۔ حصہ اول
قسط 14

پہلے اپنا جائزہ لینے کی بنیادی نصیحت خاص طور پر عہدیداروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس نصیحت کو خاص طور پر ہمیں چاہئے کہ ہم خود پہلے اپنا جائزہ لیں اور ہر ایک کو لینا چاہئے اور یہ بنیادی نصیحت خاص طور پر عہدیداروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے جو دوسروں سے تو اپنے اندر تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں، ان کو نصائح کرتے ہیں لیکن اگر اپنے معاملہ میں ایسی صورتحال پید اہو جائے تو بالکل اس کے الٹ کرتے ہیں یا اس میں حیل و حجّت کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکموں کو اور اس کے رسول کے حکموں کو پھر ثانوی حیثیت دے دیتے ہیں۔ کئی ایسے معاملے سامنے آ جاتے ہیں۔ پھر مزید قول و فعل میں تطابق کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپؐ کے حصے میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپؐ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔‘‘

(خطبات مسرور جلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 1؍جنوری 2016ء صفحہ12)

ہر شخص اپنے روز مرہ کے معاملات اور آپس کے تعلقات میں اپنا جائزہ لے کہ وہ دوسروں کے متعلق کس طرح سوچتا ہے اور اپنے متعلق کیا سوچتا ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جماعت میں کوئی سزا کسی انتقام کی وجہ سے نہیں دی جاتی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا۔ اصلاح کے لئے دی جاتی ہے اور یہی کوشش ہونی چاہئے اور ہوتی ہے۔ صرف عہدیداروں کے لئے ہی یہ نہیں ہے۔ صرف عہدیداروں کا ہی قصور نہیں بلکہ افراد کے بھی قصور ہوتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے روز مرہ کے معاملات میں اور آپس کے تعلقات میں اپنا جائزہ لے کہ وہ دوسروں کے متعلق کس طرح سوچتا ہے اور اپنے متعلق کیا سوچتا ہے تو اس سے معاشرے میں ایک خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ پس اصل چیز یہی ہے کہ ہر وقت یہ خیال رہے کہ ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ جب یہ ہو گا تبھی اصلاح ہو گی۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی عفو کرے مگر وہ عفو بے محل نہ ہو بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 22؍جنوری 2016ء صفحہ60)

اگر ہم میں سے ہر ایک انصاف سے اپنا جائزہ لے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اگر ہم میں سے ہر ایک انصاف سے اپنا جائزہ لے تو بہت سے ایسے ہیں جن کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ جو معیار حاصل کرنے کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے جس کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے وہ معیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی حقیقی مومنوں کی یہی نشانی بتائی ہے کہ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان: 73) کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ پھر شرک اور جھوٹ کے بارے میں بتایا کہ ان سے بچو۔ اکٹھا کیا شرک اور جھوٹ کو۔ گویا جھوٹ کا گناہ بھی شرک کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ جیسا کہ مَیں نے پڑھا ’’زُوْر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں جھوٹ، غلط بیانی، غلط گواہی، خداتعالیٰ کے شریک ٹھہرانا، ایسی مجلسیں یا جگہیں جہاں جھوٹ عام بولا جاتا ہو۔ اسی طرح گانے بجانے اور فضولیات اور غلط بیانیوں کی مجالس یہ ساری زُوْر کے معنوں میں آتی ہیں۔

پس خدا تعالیٰ کے مومن بندے وہ ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے۔ جو ایسی جگہوں پر نہیں جاتے جہاں فضولیات اور جھوٹ بولنے والوں کی مجلس جمی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں بناتے۔ نہ ہی ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں مشرکانہ کام ہو رہے ہوں۔ اور پھر کبھی جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔ پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرح جھوٹ سے بچے تو ایک ایسی تبدیلی وہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے جو حقیقی مومن بناتی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 5؍فروری 2016ء صفحہ77)

اسائلم کے معاملات میں اپنے جائزے لیں کہ غلط بیانی سے کام تو نہیں لیا جا رہا

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہر احمدی جائزہ لے مثلاً بعض باتیں ایسی ہیں چند بیان کرتا ہوں۔ مقدمات میں یہ جائزہ لیں کہ مقدمات میں ہم غلط بیانیوں سے کام تو نہیں لیتے۔ پھر ہم کاروباروں میں منافع کی خاطر غلط بیانی سے کام تو نہیں لیتے۔ پھر ہم رشتہ طے کرتے وقت غلط بیانیاں تو نہیں کرتے۔ کیا ہر طرح سے قول سدید سے کام لیتے ہیں؟ لڑکے کے بارے میں اور لڑکی کے بارے میں سب معلومات دی جاتی ہیں؟ حکومت سے سوشل اور ویلفیئر الاؤنس لینے کے لئے جھوٹ کا سہارا تو نہیں لیتے۔ اس بارے میں تو بہت سے لوگوں کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا ہے کہ اپنی آمد چھپا کر حکومت سے الاؤنس لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ٹیکس کی ادائیگی بھی نہیں کی جاتی۔ یہاں ٹیکس بھی چوری ہوتا ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اب جو عمومی معاشی حالات دنیا کے ہیں ہر حکومت مسائل کا شکار ہو رہی ہے یا ہو گئی ہے اور اگر نہیں ہوئی تو ہو جائے گی۔ اس لئے اب حکومتیں گہرائی میں جا کر حقیقت جاننے کی کوشش کرتی ہیں اور کر رہی ہیں۔ پس اگر حکومت کے سامنے کوئی غلط معاملہ آ جاتا ہے تو جہاں یہ باتیں اس شخص کے لئے مشکلات پیدا کریں گی وہاں احمدیت کی بدنامی کا باعث بھی بنیں گی اگر یہ پتا ہو کہ وہ شخص احمدی ہے۔ پس جو اس لحاظ سے کسی بھی غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں وہ دنیاوی فائدے کو نہ دیکھیں۔ تھوڑے سے میں گزارہ کر کے جھوٹ سے بچ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔

پھر اسائلم کے معاملات ہیں اس میں اپنے جائزے لیں کہ غلط بیانی سے کام تو نہیں لیا جا رہا۔ یقیناً وکیل اس کے لئے ابھارتے ہیں اور یہ ہمیشہ سے وکیلوں کا وطیرہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ آپ کو بھی کہا کہ جھوٹ بولیں اور جھوٹے گواہ پیش کر دیں۔ اسی طرح عہدیدار بھی اپنے جائزے لیں کہ کیا وہ اپنی رپورٹس میں غلط بیانی تو نہیں کرتے یا کوئی ایسی بات تو نہیں چھوڑ دیتے جس کی اہمیت ہو۔ پہلے بھی میں نے ایک دفعہ ایک خطبہ میں کہا تھا کہ پوری طرح قول سدید سے اگر کام نہ لیا جائے تو وہ بھی غلط ہے۔ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے معاملات نپٹائے جانے چاہئیں۔

(خطبات مسرور جلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 5؍فروری 2016ء صفحہ83-84)

جو نمازوں کے حق ادا نہیں کرتے
انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس وہ لوگ جو نمازوں کے حق ادا نہیں کرتے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ وہ لوگ جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا نہیں کرتے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ وہ لوگ جو یہاں آئے تو احمدیت کی وجہ سے ہیں لیکن یہاں آ کر بھول گئے ہیں کہ احمدیت کی وجہ سے ہی انہیں یہاں رہنے کا، شہریت کا حق ملا ہے اور اس وجہ سے ان کو زیادہ سے زیادہ جماعت کی خدمت کے لئے آگے آنا چاہئے لیکن وہ اسے بھول جاتے ہیں اور بعض دفعہ اعتراض شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ اچھے عابد ہیں نہ وفادار ہیں۔ وفا تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عُسر اور یُسر میں تنگی اور آسائش میں دونوں حالتوں میں ایسی ہونی چاہئے جس کے اعلیٰ معیار قائم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر وقت اس کے در پر رہ کر قربانی کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 26؍فروری 2016ء صفحہ125)

اپنی اصلاح کی ضرورت ہے
اور اس کے جائزے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’روحانیت کے حصول اور خدا تعالیٰ کے قرب اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی اپنے طریق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کے جائزے کی ضرورت ہے۔ کس طرح اصلاح کر رہے ہیں۔ اس کے لئے اپنے نفس کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ہر قسم کے اعمال کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس قسم کے ہمارے اعمال ہیں۔ اپنی سوچوں اور عقل کی درستی کی ضرورت ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعائیں سنتا ہوں اور پھر اگر وہ قریب نہیں آتا، دعائیں نہیں سنی جاتیں تو کہیں نہ کہیں، کسی جگہ ہماری کوششوں اور حالتوں میں کمی ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 4؍مارچ 2016ء صفحہ141)

بڑی باریکی سے ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’تکبر سے بچو۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو ایک مومن کو اختیار کرنی چاہئے ورنہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والا ہے۔ تکبر کو بعض دفعہ انسان محسوس نہیں کرتا۔ اس لئے بڑی باریکی سے اس بارے میں ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔

شیطان کس کس طرح انسان کو اپنے قابو میں کرنے کے حیلے کرتا ہے؟ اس بارے میں ایک جگہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ گناہ والا کوئی کام انسان نہ کرے۔ فرمایا کہ اگر انسان کے افعال سے گناہ دُور ہو جاوے یعنی کوئی کام ایسا نہ کرے جو گناہ والا ہے کوئی اس کا فعل ایسا نہ ہو جس کو کہا جائے کہ یہ گناہ ہے تو شیطان چاہتا ہے۔ کیا چاہتا ہے شیطان کہ آنکھ، کان، ناک تک ہی رہے۔ اگر ظاہری طور پر کوئی عمل گناہ کرنے والا نہ ہو تب بھی شیطان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انسان کی آنکھ میں بیٹھا رہے، کان میں بیٹھا رہے، ناک میں بیٹھا رہے۔ فرمایا کہ اور جب وہاں بھی اسے قابو نہیں ملتا تو پھر وہ یہاں تک کوشش کرتا ہے کہ اور نہیں تو دل ہی میں گناہ بیٹھا رہے۔ ظاہری گناہ بعض لوگ نہیں کرتے۔ بڑے گناہ نہیں کرتے یا چھوٹے گناہ بھی نہیں کرتے۔ بعضوں کے حالات میں موقع ہی نہیں ملتا یا ایسی وجہ ہی نہیں بنتی کہ گناہ کریں یا کسی خوف سے نہیں کرتے۔ ظاہری طور پر عملاً کوئی گناہ نہیں لیکن شیطان پھر بھی یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے تو کسی نہ کسی ذریعہ سے اس کے اندر گناہ کا بیج رکھے اور اس کے دل میں بیٹھ جائے۔

فرمایا کہ ’’گویا شیطان اپنی لڑائی کو اختتام تک پہنچتا ہے۔ مگر جس دل میں خدا کا خوف ہے وہاں شیطان کی حکومت نہیں چل سکتی۔ اگر خدا کا خوف ہو تو پھر دل میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ گناہ کا بیج بھی شیطان رکھ سکے۔ فرمایا کہ شیطان آخر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور الگ ہوتا ہے اور اپنی بڑائی میں ناکام و نامراد ہو کر اسے اپنا بوریا بسترا باندھنا پڑتا ہے۔ پھر بیچارہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ401-402)‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 11؍مارچ 2016ء صفحہ151-152)

ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہ کر اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ کی ضرورت ہے اور اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ شیطان کو مارنے کے لئے کیا اور کس طرح ہمیں قدم اٹھانا چاہئے اس بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدانما ہوتے ہیں۔ پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے جو پیغمبروں کا مظہر ہو۔ صحابہ کرامؓ نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھوئے گئے کہ ان کے وجود میں اور کچھ باقی رہا ہی نہیں تھا۔ جو کوئی ان کو دیکھتا تھا ان کو محویت کے عالم میں پاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنانے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پس یاد رکھو کہ اس زمانہ میں بھی جب تک وہ محویت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہو گی جو صحابہ کرامؓ میں پیدا ہوئی تھی مریدوں معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہو گا۔ یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لو کہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل و دخل موجود ہے۔ (ملفوظات جلد2 صفحہ168-169)‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 11؍مارچ 2016ء صفحہ156)

23؍مارچ کو یوم مسیح موعود کے دن ہمیں
ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ: پس ہمارا پہلا فرض اور سب سے بڑا فرض جو ہمارا بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں اور اسے مضبوط کریں۔ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے تعلق اور محبت اور اخلاص میں بڑھیں۔ دنیا کو بتائیں کہ مسیح موعود کی آمد کے ساتھ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک مقصد ہے۔ اور اب دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غلامِ صادق ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کے لباس میں بھیجا۔

آپؑ کے مشن کے مطابق اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اس کی سچائی ہم نے دنیا پر واضح کرنی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو بھی نمونہ بنانا ہو گا۔ روحانیت میں بڑھنے کے نمونے بھی ہمیں قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دور کرنا ہو گا۔ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ وہ خدا آج بھی اُسی طرح دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے خالص بندوں کو، اپنے فرستادوں کو جواب بھی دیتا ہے جس طرح پہلے دیتا تھا۔ اپنے خالص بندوں کے دلوں کی تسلی کے سامان بھی کرتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و یگانہ ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ صرف اُسی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پس ہماری بقا اس واحد و یگانہ اور ہمیشہ رہنے والے خدا سے جڑنے میں ہی ہے۔ جب 23؍مارچ کو ہم یوم مسیح موعود مناتے ہیں تو ہمیں ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعودؑ دنیا میں پیدا کرنے آئے تھے اور ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں کیا ہم میں یہ باتیں پیدا ہو گئی ہیں یا کیا ہم اس انقلاب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 25؍مارچ 2016ء صفحہ172-173)

ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنے چاہئیں کہ ہمارے کام، ہمارے عمل، ہمارے فیصلے قرآن اور حدیث کے مطابق ہیں یا نہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ: کہ ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنے چاہئیں کہ ہمارے کام، ہمارے عمل، ہمارے فیصلے قرآن اور حدیث کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اس طرح اگر کسی معاملے کی قرآن سے اور حدیث سے وضاحت نہ ملے جس پہ انسان غور کرتا ہے تو پھر کس طرح ان کاموں کو انجام دیا جائے۔ اس کے لئے یہ ہے کہ پرانے علماء جو گزرے ہیں ان کے قول اور ان کے فیصلوں کو اختیار کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا گیا کہ ہمیں اپنے مسائل کے فیصلے کس طرح کرنے چاہئیں؟ کہاں سے رہنمائی لینی چاہئے؟ تو آپ علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ ہمارا طریق یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور جب قرآن کریم میں کوئی بات نہ ملے تو پھر اسے حدیث میں تلاش کیا جائے اور جب حدیث سے بھی کوئی بات نہ ملے تو پھر استدلالِ اُمّت کے مطابق فیصلہ کیا جائے یا اُمّت میں جو فیصلے ہوئے ہیں اور جو دلیلیں دی گئی ہیں اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ یہاں یہ بھی واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سنّت حدیث سے اوپر ہے اس لئے جو باتیں سنّت سے ثابت ہیں بہرحال ان پر تو عمل ہونا ہی ہے۔ اس کے بعد پھر حدیث کا نمبر آتا ہے۔ سنت وہی ہے جو کام ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھا دیا اور آگے صحابہ نے اس سے سیکھا۔ پھر صحابہ سے تابعین نے سیکھا۔ پھر تبع تابعین نے سیکھا اور پھر یہ اُمّت میں جاری ہوا۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 8؍اپریل 2016ء صفحہ199)

ہر ایک اپنا جائزہ لے لے کہ کیا وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتا ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں کہ: ہر ایک اپنا جائزہ لے لے کہ کیا وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے تو پہلے اس بات کا جواب دے کہ کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں سات سو حکم ہیں کہ ان سات سو حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ اگر یہی مقابلہ کرنا ہے تو پھر وہاں بھی مقابلہ آ گیا۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس کے باوجود اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ ان کی بہت ساری باتوں سے ان کی بعض دعاؤں کو سن بھی لیتا ہے۔ کئی لوگ ہیں جو شاید نمازیں باقاعدہ بھی نہیں پڑھنے والے لیکن ان کی بعض دعائیں سنی گئیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو دعاؤں کے بغیر ہی اپنی دوسری صفات کے تحت ان کی ضروریات پوری کر دیتا ہے۔ پس شکوہ کرنے کا تو کوئی مقام ہی نہیں ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنی عبادتوں اور نمازوں اور دوسرے فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 15؍اپریل 2016ء صفحہ225-226)

یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا حقیقت میں ہم اپنا عہد بیعت نبھا رہے ہیں۔ نومبائعین بھی اپنا جائزہ لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس وقت آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس عہد کو نبھانے والے ہیں جس کی تلقین ہمارے بزرگوں نے ہمیں کی تھی یا جس راستے پر ہمارے بزرگ ہمیں ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا حقیقت میں ہم اپنا عہد بیعت نبھا رہے ہیں یا صرف روایتاً اپنے بڑوں کے بزرگوں کے دین پر قائم ہیں۔ صرف رشتہ داری اور معاشرتی تعلقات کی وجہ سے جماعت میں شامل ہیں اور ابھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔

اسی طرح جنہوں نے خود احمدیت قبول کی ہے وہ یہ جائزے لیں کہ کیا ہم نے اپنے ایمان میں بڑھنے اور اپنے عملوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے یا کر رہے ہیں یا وہ ایک وقتی جذبہ تھا جس کی وجہ سے احمدیت کو قبول کر لیا۔ کسی بات سے متأثر ہو کر احمدیت قبول کر لی اور ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن تھے۔ فائدہ تو ہمیں تبھی ہو گا جب ہمارا ہر قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا ہو گا۔ جو ترقی یافتہ ملکوں میں ہجرت کر کے آئے ہیں ان ممالک میں انہیں مسلسل یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں بہتر حالات نے انہیں دین سے دُور تو نہیں کر دیا؟ یورپ کی ترقی سے متأثر ہو کر دین کو بھول تو نہیں گئے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کوسوو، مشرقی یورپ سے آئے ہوئے بھی بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مانا ہے، انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے۔

غرض کہ یہاں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں کو جو احمدیت میں شامل ہوئے، چاہے پیدائشی ہیں، چاہے بعد میں بیعت کر کے آنے والے ہیں، چاہے ہجرت کر کے آنے والے ہیں یا یہاں کے رہنے والے ہیں سب کو ان باتوں پر غور کرنا ہو گا کہ اب انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت میں آنے کا حق ادا کر سکیں۔

پس جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا پیدائشی احمدی ہوں، پرانے احمدی ہوں یا نئے آنے والے احمدی ہوں، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ بیعت کا حق ادا کر رہے ہیں یا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم پر جو ذمہ داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ڈالی ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا اپنی حالتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا شعور ابتدا سے ہی پیدا ہو جائے؟ کیا ہمارے اپنے عمل اسلامی تعلیم کے مطابق ہمارے بچوں کے لئے نمونہ ہیں؟ کیا ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں اور ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ہے؟ یہ باتیں ہر ایک اپنے جائزے لے کر خود بہتر طور پر جان سکتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 6؍مئی 2016ء صفحہ253-254)

اللہ کے حکموں کو
اپنے اوپر لاگو کرنے کا جائزہ لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’کہا اگر ہم جائزہ لیں تو یہ صرف اُس زمانے کے لوگوں کا نقشہ نہیں ہے جب آپ علیہ السلام اپنے زمانے کے لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے بلکہ آج بھی ہمیں یہی باتیں نظر آتی ہیں۔

ہم میں سے کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہیں؟ دوسروں کو تو چھوڑیں، ہم جو آپؑ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم میں سے کتنے ہیں؟ یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنّوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ کیا ہم اپنے دنیاوی کاموں کو اپنی عبادت پر قربان کرتے ہیں یا اس کے الٹ ہے کہ ہماری عبادتیں ہمارے دنیاوی کاموں پر قربان ہو رہی ہیں؟ ایسے بھی ہیں جو اگر وقت پر نماز پڑھ بھی لیں تو گلے سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا حال تو علیحدہ ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا۔ ہم میں سے بھی ایسے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے معاملات میں احسان کا سلوک کرو۔ لیکن بہت سے ایسے ہیں جو احسان کا سلوک تو ایک طرف رہا دوسرے کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ایسے بھی ہیں جو دنیا کا نقصان تو برداشت نہیں کرتے لیکن دین کا نقصان ہو رہا ہو تو برداشت کر لیتے ہیں۔ کتنے ہی ہم میں سے ایسے ہیں جو جذبات پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جاتے ہیں۔ اگر غیر یہ کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں۔ لیکن اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرے تو بہرحال یہ قابل افسوس بات ہے۔ پس ہر کوئی خود ان باتوں میں اپنا جائزہ لے سکتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس ہم نے ان زندوں میں شامل ہونے کے لئے بیعت کی ہے اس لئے اس کا حق ادا کرنے کے لئے آپ کی باتوں پر ہمیں توجہ دینی ہو گی تا کہ زندوں کی قوم میں شامل ہو سکیں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 6؍مئی 2016ء صفحہ255-256)

ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ بات ہمیں بھی اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ہم نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے مانا ہے کہ دین بگڑ گیا اور اسلام کی صحیح تعلیم پر کوئی نہیں چل رہا تھا۔ اگر اسلام کی صحیح تعلیم پر ہم نے چلنا ہے تو مسیح موعود کو مانو۔ ہم نے اس لئے مانا ہے۔ اس کے بعد پھر کیا ہم نے اپنی برائیاں چھوڑ دی ہیں؟ جھوٹ ایک ایسی برائی ہے جو بظاہر معمولی لگتی ہے لیکن بہت بڑی ہے اور اگر اس واقعہ کے معیار پر پرکھیں تو اکثر شاید اس برائی میں مبتلا ہوں۔ پس بیعت اور تقویٰ کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اس برائی سے بچیں اور یہاں باہر کے ممالک میں جو آرہے ہیں ان میں بہت سارے ایسے ہیں جو آئے بھی اس لئے ہیں کہ دین کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔ اپنے ملک میں ان کو دین پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آزادی سے اپنے دین کے اظہار کی اجازت نہیں تھی۔ تو ہمیں خاص طور پر مغربی ممالک میں رہنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے کہ ہمارا ہلکا سا بھی کوئی فعل ایسا نہ ہو جس سے یہ اظہار ہوتا ہو یا ہماری زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے یا اپنی اس غلط بیانی کرنے کی وجہ سے ہم غلط قسم کے فائدے اٹھا رہے ہیں۔ پس تقویٰ کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 10؍جون 2016ء صفحہ334)

دعائیں قبول نہ ہونے پر شکوہ کرنے والوں کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کہاں تک خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم دعا کرتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ اپنے جائزے بھی لیتے ہیں؟ کہ انہوں نے کہاں تک خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا ہے؟ اگر ہمارے عمل نہیں۔ ہمارا ایمان صرف رسمی ہے تو پھر ہمارا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو پکارا لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے کیا شرائط رکھی ہیں: فرمایا کہ پہلی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ مَیں ان کی آواز سنوں۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ261)

تقویٰ پیدا ہو۔ خدا سے ڈریں۔ خدا کا خوف ہو تو پھر اللہ تعالیٰ آواز سنتا ہے۔ دوسری بات کہ مجھ پر ایمان لائیں۔ کیسا ایمان؟ اس بات پر ایمان کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔ خدا کے وجود اور اس کے تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھنے کا تجربہ چاہے انسان کو ہؤا ہے یا نہیں ہؤا یا خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی تمام طاقتوں کے مالک ہونے کی معرفت عطا ہوئی ہے یا نہیں ہوئی۔ اگر نہیں بھی ہوئی تب بھی ایسا ایمان ہو کہ خدا تعالیٰ ہے اور سب طاقتوں کا مالک ہے۔ گویا ایمان بالغیب ہو۔ اگر پہلے یہ ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا عرفان بھی ملے گا جس سے خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کے تمام طاقتوں کے مالک ہونے، اس کا دعاؤں کا جواب دینے کا تجربہ بھی ہو جائے گا۔ پہلے انسان کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہو گا پھر اللہ تعالیٰ قدم بڑھاتا ہے اور پھر ثبوت بھی مہیا ہو جائے گا۔’’

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 17؍جون 2016ء صفحہ341)

عمل اور قول میں تضاد کو سامنے رکھ کر ہمارے عہدیداران کو سب سے زیادہ اپنے جائزے لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کھول کر بتایا کہ ہمارے عمل اور قول میں تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ پس اس بات کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لینے والے سب سے زیادہ ہمارے عہدیدار ہونے چاہئیں۔

جہاں فاصلے زیادہ ہیں یا چند گھر ہیں اور مسجد یا سینٹر کی سہولت موجود نہیں وہاں گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہو سکتا ہے اور عملاً یہ مشکل نہیں ہے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی باقاعدہ خدمت بھی نہیں ہے۔ کسی عاملہ کے ممبر بھی نہیں ہیں لیکن اپنے گھروں میں اردگرد کے احمدیوں کو جمع کر کے نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ پس اگر احساس ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور ہمارے ہر عہدیدار میں نماز باجماعت کی ادائیگی کا احساس ہونا چاہئے ورنہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوں گے جس کی قرآن کریم میں بار بار تلقین کی گئی ہے۔

پس ہمیشہ عہدیداران کو یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی نشانی ہی یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ان کی نگرانی کرنے والے ہیں۔ یہ دیکھنے والے ہیں کہ کہیں ہمارے سپرد جو امانتیں کی گئی ہیں اور جو ہم نے خدمت کرنے کا عہد کیا ہے اس میں ہماری طرف سے کوئی کمی اور کوتاہی تو نہیں ہو رہی؟ کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: 35) کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی۔ یہ عبادت تو ایک بنیادی چیز ہے اور یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور اس کا حق تو ہم نے ادا کرنا ہی ہے۔ اس میں سستی تو، خاص طور پر عہدیداروں کی طرف سے بالکل نہیں ہونی چاہئے بلکہ کسی بھی حقیقی مومن کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے۔

اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کا عہدیداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور یہ باتیں لوگوں کے حقوق اور افراد جماعت کے ساتھ عہدیداروں کے رویّوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اسی طرح یہ باتیں عہدیداروں کے عَہدوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔

کوئی عہدیدار افسر بننے کے تصور سے یا بنائے جانے کے تصور سے کسی خدمت پر مامور نہیں کیا جاتا بلکہ اسلام میں تو عہدیدار کا تصور ہی بالکل مختلف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔

پس ایک عہدیدار کا لوگوں کے معاملے میں اپنی امانت کا حق ادا کرنا اس کا قوم کا خادم بن کر رہنا ہے۔ اور یہ حالت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان میں قربانی کا مادہ ہو۔ اس میں عاجزی اور انکساری ہو۔ اس کا صبر کا معیار دوسروں سے اونچا ہو۔ بعض دفعہ عہدیداروں کو بعض باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ اگر سننی پڑیں تو سن لینی چاہئیں۔ اپنا یہ جائزہ تو عہدیدار خود ہی لے سکتے ہیں کہ ان کا برداشت کا یہ پیمانہ کتنا اونچا ہے، کس حد تک ہے اور عاجزی کی حالت ان کی کس حد تک ہے۔

بعض دفعہ ایسے عہدیداران کے معاملات بھی سامنے آ جاتے ہیں جن میں برداشت بالکل بھی نہیں ہوتی اور اگر کوئی دوسرا بدتمیزی کر رہا ہے تو یہ بھی تُوتکار شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی عام شخص بدتمیز ہے تو اس سے اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے اخلاق تو یہی کہیں گے بڑا بداخلاق ہے۔ اس کے اخلاق گرے ہوئے ہیں۔ لیکن جب عہدیدار کے منہ سے غلط الفاظ لوگوں کے سامنے نکلتے ہیں تو عہدیدار کی اپنی عزت اور وقار پر حرف آتا ہے اور ساتھ ہی جماعت کے افراد پر بھی اثر پڑتا ہے۔ جماعت کا جو معیار ہونا چاہئے اور جس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں اس میں اگر کہیں بھی ایک بھی ایسی مثال ہو جائے تو جماعت کی بدنامی کا موجب بنتی ہے اور بن سکتی ہے اور یہ مثالیں بعض جگہوں پہ ملتی ہیں۔ مسجدوں میں بھی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ باتیں بچوں اور نوجوانوں پر انتہائی برا اثر ڈالتی ہیں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد14 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 15؍جولائی 2016ء صفحہ392-393)

(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2023