• 18 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ کی کچھ یادیں اور کچھ باتیں

خاکسار اپنے والدین اور دادا ،دادی کے ساتھ چنی گوٹھ ضلع بہاولپور میں رہائش پذیر تھا۔ احمدپور شرقیہ ضلع بہاولپور میں دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔دسویں تک میں کبھی ربوہ نہیں آیا تھا اور نہ ہی کوئی جلسہ اٹینڈ کیا تھا۔ میرے والدین ہر سال ضرور جلسہ پر جاتے تھے اور جب ربوہ سے واپس آتے تو ربوہ شریف کی کچھ سوغات ضرور لاتے۔ جس میں لنگر کی روٹیاں، سرمہ نور، الیس اللّٰہ کی انگوٹھیاں وغیرہ ضرور ہوتی تھیں۔ مجھے ان دنوں سفر کے لئے چناب ایکسپریس اختیار کی جاتی تھی۔ اس میں احمدیوں کے لئے زائد بوگیاں بھی لگتی تھیں۔

چونکہ جلسہ سردیوں میں ماہ دسمبر کی آخری تاریخوں میں ہوتاتھا تو سفر کے لئے اباجان نے ایک بستر بند بھی خریدا تھا۔ اس میں رضائی اور گدا اور تکیہ وغیرہ جلسہ کے دنوں میں استعمال کے لئے ڈالا جاتا تھا یہ کافی مضبوط ہوتا تھا اور ایک لمبا عرصہ ساتھ دیتا رہا۔ بلکہ جامعہ سے خاکسار 1973ء میں فارغ ہوا تو اپنی پہلی تقرری جس گاؤں میں ہوئی (لاٹھیانوالہ ضلع فیصل آباد) اپنے دیگر سامان کے ہمراہ میری والدہ صاحبہ نے وہ جلسہ والا بستر بند بھی خاکسار کو رضائی ڈال کر دے دیا۔ خاکسار 1966ء میں میٹرک کے بعد پہلی مرتبہ ربوہ آیا اور جامعہ میں داخلہ لیا۔ جامعہ کے پرنسپل محترم سیدمیر داؤد احمد تھے اور وہی افسر جلسہ سالانہ بھی ہوتے تھے۔

جلسہ کے دنوں میں ربوہ کی رونق پہلی مرتبہ دیکھی۔ تمام جماعتی عمارتوں اور ادارہ جات، سکول کالج وغیرہ میں خیمے ہی خیمے مہمانوں کے لئے لگ جاتے تھے، بھرپور انداز میں مہمان نوازی کا جذبہ اہالیانِ ربوہ میں ابھر جاتا تھا۔ خیمے اور چھولداریاں مسجد مبارک کے سامنے بھی لگ جاتی تھیں۔

اس سے قبل والدین جب بھی جلسے پر آتے تھے تو وہ میرے تایا جان سید منیر احمد شاہ صاحب کے ہاں ٹھہرتے تھے، یا کبھی کسی اور عزیز کے گھر، مگر اس مرتبہ میں نے چاہا کہ وہ میرے ساتھ ہی ٹھہریں۔ اس کے لئے میں نے محترم افسر جلسہ سالانہ سید میر داؤد احمد کی خدمت میں درخواست دی اور مجھے بھی ایک چھولداری (خیمہ) الاٹ ہو گیا اور تھا بھی وہ مسجد مبارک کے سامنے والے پلاٹ میں۔

جامعہ احمدیہ کے تمام طلباء کی ڈیوٹیاں جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے لگتی تھیں۔ چنانچہ میری سب سے پہلی ڈیوٹی شعبہ استقبال میں لگی۔ اس کے ناظم محترم مولانا ابوالمنیرنورالحق تھے۔ شعبہ استقبال میں ڈیوٹی ربوہ ریلوے سٹیشن پر اور ربوہ کے اڈہ پر ہوتی تھی۔ ہر دو جگہ پر خیمہ لگ جاتا تھا اور آنے والے مہمانوں کا استقبال کرنے کے لئے انہیں اہلاً و سھلاً و مرحبا لاؤڈ سپیکر پر کہا جاتا تھا۔ ڈیوٹی دینے والوں کا کام ہوتا تھا کہ وہ سب مہمانوں کو دیکھیں کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو مدد کریں اگر کسی کا سامان اٹھا کر گھر بھی لے جانا پڑے وہ بھی کرنا ہوتا تھا۔ ہر قسم کی مدد کو فوری اور یقینی بنانا ہوتا تھا۔ جب گاڑیاں ریلوے اسٹیشن ربوہ پر آتی تھیں اور ان سے مہمان باہر نکلتے وہ منظر دل اور طبیعت پر ایک گہرا اثر چھوڑتا تھا۔ تلاوت ہو رہی ہے، نظمیں پڑھی جارہی ہیں، اہلاً و سھلاً کہا جارہا ہے، مہمانوں کو خوش آمدید ہو رہا ہے، ہر ایک دوسرے سے مل کر اتنا خوش کہ جس کا حساب ہی نہیں۔ یہ منظر ایک روحانی کشش اور تاثیر لئے ہوتا تھا۔

اور یہی کچھ منظر ربوہ بس اڈہ پر ہوتا تھا۔ وہاں بھی وافر مقدار میں کارکن ڈیوٹی دینے والے ہوتے تھے قریباً ہر بس سے ہی جلسہ کے ایام میں مسافر اترتے تھے جنہیں مدد کی ضرورت پڑتی تھی اور کارکن، معاون، ہمہ تن مصروف ہوتے تھے اور اپنے آپ کو خدمت کے لئے ہر وقت تیار!
1966ء کا جلسہ پہلا جلسہ تھا جس پر خاکسار نے استقبال کے شعبہ میں ڈیوٹی دی۔ پورا جلسہ تو ڈیوٹیوں کی وجہ سے کبھی سن نہ پایا۔ البتہ اپنے ناظم صاحب کی اجازت سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تقاریر جلسہ میں ضروری سنی ہیں۔ پہلے جلسہ پر ہی جب ضلع بہاولپور کی جماعت کی حضرت خلیفہ ثالثؒ سے ملاقات تھی اس میں بھی خاکسار شامل ہوا تھا۔ قصرِ خلافت میں اتنا ہجوم ملاقاتیوں کا خاکسار نے اس سے قبل کہیں نہیں دیکھا تھا۔

جلسہ سے ایک دو روز قبل گول بازار کے پیچھے جہاں دفتر جلسہ سالانہ ہے پہلے اس کی کوئی خاص عمارت نہ ہوتی تھی صرف دو تین چھوٹے چھوٹے کمرے اور باقی کھلی جگہ ہوتی تھی۔ جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف لا کرجلسہ کے کارکنان کا معائنہ اور اپنی ہدایات سے نوازتے تھے۔ تمام ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کے نام اس کے شعبہ کے نیچے لکھے ہوتے تھے۔

خاکسار کی ڈیوٹی اگلے سال 1967ء میں لنگر خانہ نمبر1 میں لگی۔ اس کے ناظم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد ہوتے تھے۔ یہاں پر پہلی ڈیوٹی معاون روٹی پکوائی اور روٹیوں کی گنتی پر تھی اور اس کے بعد سے 1978ء تک خداتعالیٰ کے فضل سے اسی لنگر خانہ نمبر 1 میں ڈیوٹی لگتی رہی۔’’ایں سعادت بزور بازو نیست۔‘‘

صرف ایک سال ناظر صاحب اصلاح وارشاد مولانا عبدالمالک خان نے اپنے ساتھ جلسہ سالانہ کے سٹیج پر لگائی تھی۔ لیکن دوبارہ مکرم مرزا خورشید احمد نے انہیں خط لکھ کر مجھے واپس لنگر خانہ 1 ہی میں اپنی ڈیوٹی پر لگوالیا۔

لنگر 1 کی منجملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ لنگر سب سے پہلے شروع ہوتا تھا اور سب سے آخر میں بند ہوتا تھا۔ جلسہ کے اختتام پر اس لنگر میں آخری دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شام کے وقت دعوت بھی ہوتی تھی۔ جس میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد افسر رابطہ، مکرم میر داؤد احمد افسر جلسہ سالانہ، مکرم چوہدری حمیداللہ، مکرم صاحبزادہ مرز اطاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) مکرم سید میر محمود احمد ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ، صاحبزادہ مرزا خورشید احمد ناظم لنگر، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد، مکرم پروفیسر نصیر احمد خان مرحوم، مکرم چوہدری سمیع اللہ سیال، مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی مکرم صوفی بشارت الرحمن، مکرم چوہدری بشیر احمد سابق صدر عمومی، مکرم چوہدری محمد علی وغیرہم کا شامل ہونا یاد ہے۔

اس وقت خصوصیت کے ساتھ مکرم رانا محمد دین کھانا بنایا کرتے تھے جس میں مغز پائے، آلو گوشت، دال، گڑ والے چاول اور گرم گرم تنور کی روٹیاں ہوتی تھیں۔ مٹی کے برتنوں میں کھانا پیش ہوتا تھا۔

قارئین کے ازدیاد علم کے لئے یہ لکھنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت جتنے بھی لنگر چلتے تھے سب میں کھانا پکانے کا کام لکڑیوں کے جلانے سے ہوتا تھا، مثلاً سالن دیگ میں جب پکتا تھا تو دیگیں مٹی کے چولہوں پر اور ان چولہوں میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ اسی طرح روٹی تنوروں میں پکتی تھی اور تنورروں میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ جب تنوروں میں لکڑی ڈالی جاتی اس کی وجہ سے شدید دھواں نکلتا تھا جس سے آنکھوں میں پانی کا آنا قدرتی بات تھی۔ محترم میر داؤد احمد نے لنگرخانوں میں گیس کے تنور لگانے کا انتظام کروایا۔ یہ غالباً 1968-69ء کا واقعہ ہے۔ اس کی الگ تفصیل ہے۔ لیکن پہلے تنوروں کی جگہ نئے تنور ڈالنے تھے، ان کے لئے کھدائی کا کام کرنا تھا۔ ادھر جلسہ بھی نزدیک آگیا تھا اور انہی دنوں عیدالاضحی بھی قریب تھی یہ ساری باتیں اکٹھی ہوگئیں تو میر صاحب نے جامعہ کے طلباء کی عید کی چھٹیاں منسوخ کر دیں سب طلباء کو لنگر 1 میں تنوروں کے لئے کھدائی پر وقار عمل پر لگایا۔ عید کے دن بھی عید کی نماز پڑھ کر سب طلباء جامعہ لنگر ایک میں حاضر ہو گئے جن میں خاکسار بھی شامل تھا، سارا دن وقار عمل کیا، زمین کھودی گئی، دوپہر کو محترم میر صاحب نے سب کے لئے عید کا کھانا جس میں قورمہ، پلاؤ اور زردہ تھا سب کو کھلایا گیا۔ سوئی گیس کے تنوروں اور روٹی کی مشینوں پر ان دنوں خاکسار کو یاد ہے مکرم مرزا لقمان حال پورٹ لینڈ اور مکرم ملک منور اپنی ٹیم کے ساتھ بڑی تندہی کے ساتھ کام کرتے تھے۔

ربوہ میں جلسہ کے دنوں میں جلسہ کی تقاریر کے پروگراموں کے علاوہ ایک دوباتیں اور ایسی ہیں جو ہر شخص کو متاثر کرتی تھیں ایک تو مساجد میں اور خصوصاً مسجد مبارک میں نماز تہجد کا قیام اور درس، دوسرے ہر جگہ بروقت کھانے کی ترسیل۔

ہر گھر میں کم از کم 25-20 مہمان تو ضرور ٹھہرے ہوتے تھے یہ کم سے کم والی تعداد ہے ورنہ اوسطاً تو 40-35 سے زائد ہر گھر میں مہمان ٹھہرے ہوتے تھے، باقی مہمانان کرام جماعتی ادارہ جات کی عمارتوں میں اور پھر جتنے گراؤنڈ تھے خواہ وہ عمارتوں کے ہوں یا باہر ہوں سب میں خیمہ جات نصب ہوتے تھے جن میں مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا تھا اور پھر دسمبر کی شدید سردی میں ہر جگہ کھانا پہنچایا جاتا تھا۔ یہ سارے مناظر دیدنی ہوتے تھے۔ اور جن گھروں میں مہمان ہوتے تھے وہ اتنے مہمانوں کی پرچی بنوا کر نزدیکی لنگر خانہ سے کھانا لے کر آتے تھے۔

ایک اور واقعہ جو ذہن میں نقش ہے کہ جب جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا تو ربوہ کی دیواروں پر جہاں جگہ جگہ کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ تحریر تھا یا قرآنی آیات اور الہامات حضرت مسیح موعودؑ یا تحریرات درج تھیں جن میں نماز کا، ذکر الٰہی کا، درود شریف کا، اچھے اخلاق اپنانے کا ذکر تحریر تھا حکومتی کارندوں نے اور مولویوں نے مٹانا شروع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یہ بھی تحریک کی کہ غیر ممالک سے نمائندگان جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آیا کریں۔ ان غیرملکی نمائندگان کے لئے جلسہ کی سٹیج پر بیٹھنے کا انتظام ہو تا تھا تو حضور انور نے اپنی تقریری میں بڑے جلالی انداز سے فرمایا کہ یہ لوگ کلمہ کو اور دیگر تحریرات کو دیواروں سے مٹا رہے ہیں آپ نے سارے نمائندگان کو جو غالباً 18ممالک سے تشریف لائے ہوئے کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا اور کہا کہ ’’دیواروں پر سے تو آپ کلمہ کو مٹاسکتے ہو، مگر ان لوگوں کے دلوں سے کلمہ کو اور اسلام کی صداقت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کو کیسے مٹاؤ گے۔‘‘

اس عاجز نے 1966ء سے 1977ء تک 11 سال جلسہ ربوہ دیکھا اور ایک سال شعبہ استقبال میں تو باقی سارے سالوں میں لنگر خانہ 1 میں ڈیوٹی کی سعادت نصیب ہوئی۔ مئی 1978ء میں خاکسار گھانا مغربی افریقہ خدمت دین کے لئے روانہ ہوا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں پر بھی جلسہ سالانہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ ہر سال ہوتا ہے اور بڑی شان کے ساتھ گھانا میں جلسہ سالانہ اپنے پرانے ہیڈکوارٹر سالٹ پانڈ میں سمندر کے کنارے پام کے درختوں کے نیچے ہوتا رہا ہے۔

1979ء کا پہلا جلسہ خاکسار نے وہاں دیکھا۔ ہزاروں کی تعداد میں مسیح موعود علیہ السلام کے پروانے جلسہ کے لئے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ وہاں پر بھی جلسہ پر آنے والوں کا ہجوم دیدنی ہوتا تھا۔ بسوں کے ذریعہ، گاڑیوں کے ذریعہ، ٹیکسی کے ذریعہ، نظمیں پڑھتے، درود شریف پڑھتے ہوئے، اپنی مقامی زبان میں نغمے الاپتے، نعرے مارتے جلسہ گاہ میں داخل ہوتے تھے۔

اس وقت وہاں پر لنگر خانے کا اس طرح انتظام تو نہیں تھا جس طرح قادیان یا ربوہ میں ہوتا ہے لیکن وہاں پر بھی بہت وسیع پیمانے پر کھانے کے انتظامات ہوتے تھے، مرد اور عورتیں کھانا پکانے میں شریک ہوتے تھے۔

ایک خاص بات جلسہ کے موقع پر ان دنوں کی یہ ہے کہ ان دنوں میں چندہ کی تحریک جلسہ کے دنوں میں کی جاتی تھی اور لوگ مالی قربانی دل کھول کر کرتے تھے بلکہ اس طور پر کہ بعض اوقات مالی قربانی کے جوش میں لوگ جو کچھ جیب میں ہوتا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیتے اور ان کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہ ہوتا تھا۔ پھر وہ کسی سے ادھار لے کر واپس جاتے اور قرض واپس کرتے تھے۔ اس اخلاص کا خاکسار خود عینی گواہ ہے۔

جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے گھانا کا دورہ فرمایا تو آپ نے یہ ترغیب دی اور چندوں کے صحیح نظام کو یعنی چندہ عام جلسہ سالانہ وغیرہ شرح کے مطابق اور آمدن کے مطابق ماہ بماہ ادا کرنے کی تحریک فرمائی۔

1979ء سے 1982ء تک خاکسار نے یہاں گھانا مغربی افریقہ میں جلسوں میں شمولیت کی جلسہ کے موقعہ پر دو سال نماز تہجد باجماعت پڑھانے اور دو سال درس دینے کا موقع بھی ملا۔

1982ء کے بعد خاکسار کو 2008ء میں امریکہ کے نمائندہ کے طور پر گھانا کے جلسہ میں دوبارہ شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ خلافت جوبلی کا جلسہ تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس میں شامل ہونے کے لئے بنفس نفیس تشریف لائے تھے۔ اکرا ایئر پورٹ پر استقبال کرنے کی سعادت بھی ملی۔

اس جلسہ میں تو ایسا لگتا تھا کہ ہم حج کے موقع پر عرفات کے میدان میں آگئے ہیں۔ بے حد گرمی نہ کوئی درخت کا سایہ، نہ کوئی سائبان، باغ احمد (سویڈرو کے نزدیک جگہ جو جلسہ گاہ ہے) میں اس جلسہ کا اپنا ہی نظارہ تھا۔ ایک لاکھ سے زائد حاضرین تھے، سب نے سفید لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔

ایک تو جوبلی کا جلسہ تھا پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد نے تو گویا چار چاند لگا دیئے تھے۔

جس دن جمعہ تھا لوگ گرمی میں کھلے آسمان تلے، صبح 10 بجے سے بھی پہلے آکر بیٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ حضور کو نزدیک سے دیکھے۔ ان کا یہ شوق اور اشتیاق دیدنی تھا۔ جمعہ پڑھانے کے بعد جب حضور واپس تشریف لے کر گئے ہیں اپنی رہائش گاہ کی طرف تو وہ منظر تو ایسا جذباتی تھا کہ الفاظ میں بھی بیان نہیں ہو سکتا۔ عورتوں نے اپنے بچوں کو کاندھوں پر بٹھایا ہوا تھا، بھاگ رہی تھیں کہ کسی طرح ان کے بچوں کی نظریںحضور پر پڑجائیں۔

1982ء میں خاکسار گھانا سے سیرالیون گیا۔ وہاں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال بو (Bo) میں جلسہ ہوتا ہے۔ احمدیہ سیکنڈری سکول کے وسیع و عریض احاطہ میں۔

یہاں کی بھی ایک خاص بات یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح سے اتوار کی صبح تک 3دن تہجد میں اور فجر کی نماز میں اتنی ہی حاضری ہوتی ہے جتنی کہ جلسہ کے وقت۔

یہاں پر بھی لنگر کا اس طرح انتظام نہیں ہوا تھا ہر قبیلے کے لوگ یا جماعتوں کے لوگ اپنا اپنا کھانا خود پکاتے تھے۔ مالی قربانی کا یہاں بھی اسی طرح رواج تھا جس طرح خاکسار نے گھانا کے بارے میں میں ذکر کیا ہے کہ جلسہ کے موقع پر ہی مالی قربانی زیادہ تر اکٹھی کی جاتی تھی۔ ماہانہ چندے بھی لئے جاتے تھے مگر زیادہ زور مالی قربانی کا جلسہ کے ایام میں ہی کیا جاتا تھا۔

جلسہ پر آنے والوں کا یہاں بھی اسی طرح استقبال ہوتا ہے، اسی طرح شعبے کام کرتے ہیں۔

خاکسار کو 2013ء میں مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے سیرالیون کے جلسہ میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے ترقی کی نئی نئی راہیں کھل چکی ہیں، جلسہ کے انتظامات میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ کافی سالوں سے ہیڈ آف دی سٹیٹ صدر مملکت اپنی کابینہ کے ساتھ پورے سیشن میں شامل ہوتے ہیں۔ جماعتی خدمات کو سراہتے ہیں۔ جلسہ کے موقع پر احمدیہ سیکنڈری سکول میں صدر مملکت کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا جاتا ہے، سارے شہر کے لوگ اسے دیکھنے کے لئے امڈ پڑتے ہیں اور یہ ساری مفت میں تبلیغ ہو جاتی ہے۔ شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہے جسے جماعت احمدیہ کا پتہ نہ ہو اور خداتعالیٰ کے فضل سے شاملین جلسہ بھی خداتعالیٰ کے ان فضلوں سے پورا حظ اٹھاتے ہیں اور شکر خداوند بجالاتے ہیں، کہاں وہ وقت جبکہ ہمارے پرانے مبلغین کرام سروں پر سامان اٹھائے گاؤں گاؤں پھرتے تھے، بعض اوقات مہمان نوازی کرنے کا سوال ہی نہیں، اپنے گاؤں میں رہنے کی اجازت بھی دینا گوارا نہ کرتے تھے، مگر اب خداتعالیٰ کی شان کہ صدر مملکت کو وہاں گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے اور جماعت کا نام بار بار دہرایا جاتا ہے۔ نعرہ تکبیر بلند ہوتا ہے غلام احمد کی جے کا نعرہ افریقن لوگوں کی زبان سے سن کر عجب وجد طاری کرتا ہے۔

اگرچہ یہ جلسہ کے بارے میں اپنی یادداشت لکھ رہا ہوں، سیرالیون میں جلسہ کے تعلق میں ایک عجیب روحانی واقعہ بھی پیش آیا اس کا ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا۔

گھانا میں 4سال خاکسار بغیر فیملی کے رہا۔ سیرالیون میں خاکسار کی فیملی جب آئی تو اگلے سال ہم نے جلسہ پر جانا تھا سوچا کہ دونوں بچوں کے لئے (عزیزم سید ممتاز احمد اور عزیز سید سعادت احمد) جو اس وقت علی الترتیب 5اور 6 سال کے تھے، کے لئے نئے کپڑے جلسہ کے لئے بنوا لوں۔ ان دنوں مگبور کا نارتھ ریجن میں متعین تھا۔ خاکسار نے بچوں کے کپڑے ایک درزی کو جو مشن ہاؤس کے پاس تھا، سلنے کے لئے دیئے اور وعدہ کیا کہ ہمارے سفر پر روانہ ہونے سے 3 دن قبل وہ کپڑے دے دے گا۔ مگر کپڑے نہ سلے تھے۔ خاکسار نے انہیں وعدہ یاد دلایا تو کہنے لگا کہ کل لے جائیں، میں اگلے دن گیا مگر پھر بھی کپڑے تیار نہ تھے۔ کہنے لگا کہ اچھا کل ضرور مل جائیں گے، جب پھر گیا تو وہ کپڑے سی رہا تھا تیار نہ تھے، بلکہ ایک نوجوان آدمی جو مجھے بڑا بھلا مانس شریف النفس لگا اس کی کپڑے سینے میں مدد کر رہا تھا۔ خیر میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میں اب سفر پر جارہا ہوں جب میں واپس آجاؤں گا تو مجھے ملنا۔ جلسہ کے بعد واپس آیا اور نوجوان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اور کیا کام کرتا ہے؟ کہنے لگا کہ میرا نام ڈیوڈ فوفانا ہے اور میں یہاں کے مشن کے ساتھ ہی جو ’’مراناتھا‘‘ چرچ ہے اس میں پادری ہوں۔ میں نے کہا اور؟ کہنے لگا کہ میرے والدین مسلمان ہیں اور فلاں جگہ میرا گاؤں ہے۔ میرا دادا بھی گاؤں کا چیف ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم پادری کیسے بنے؟ کہنے لگا کہ میں دل سے مسلمان ہی ہوں لیکن میں غریب آدمی ہوں میرے پاس تعلیم کے لئے اخراجات نہ تھے، ان چرچ والوں نے میری مدد کی اور مجھے جاب دی ہے اس چرچ میں، جس کی وجہ سے میں اب ان کا پرچار کر رہا ہوں، میں نے کہا کیا تم دل سے مسلمان ہو کہنے لگا بالکل مسلمان ہوں، میں نے کہا کہ اگر میں تمہیں نوکری دوں تو کیا تم چرچ کی ملازمت اور عیسائیت چھوڑ سکتے ہو، کہنے لگا کہ ہاں۔ میں نے کہا ذرا بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں۔

میں کمرے میں گیا اور اپنے ایک احمدیہ سکول کے ہیڈماسٹر کے نام خط لکھا کہ اس نوجوان کو سکول میں فوری طور پر جاب دے دو۔ ’’استاد رکھ لو‘‘۔ ہیڈماسٹر صاحب نے اسے جاب دی اور سکول میں ٹیچر رکھ لیا۔ مجھے یہ احساس تھا کہ ایک مسلمان محض پیسوں اور جاب نہ ہونے کی وجہ سے عیسائیت کی آغوش میں آگیا ہے۔ چنانچہ اسے جاب مل گئی۔ قریباً دس بارہ دن کے بعد وہ مجھے خود ملنے آیا کہنے لگا کہ کیا آپ مجھے احمدیت کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے جاب نہیں دلوائی کے تم احمدی ہو جاؤ۔ وہ میرا اخلاقی فرض تھا، کہنے لگا کہ نہیں میں روزانہ سکول جاتا ہوں پڑھاتا ہوں، وہاں دیگر اساتذہ سے ملتا ہوں اور ماحول کو دیکھ رہا ہوں جس سے میں بہت متاثر ہوں اس لئے میں احمدیت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ خاکسار نے اس پر یہ بات دوبارہ وضاحت سے بیان کی کہ آپ کو جو نوکری دی گئی ہے اس سے یہ نہ سمجھو کہ میں تمہیں احمدی کرنا چاہتا ہوں۔ بہرحال اسے میں نے احمدیت کی ابتدائی باتیں بتائیں وہ سن کر چلا گیا۔ خاکسار نے ایک خط حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں اس سارے واقعہ کے بارے میں لکھ دیا اور دعا کی درخواست کی۔ یہ نوجوان کچھ دنوں کے بعد پھر آیا اور پھر احمدیت کے بارے میں مزید معلومات لیں۔ اتنے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی طرف سے دعاؤں بھرا خط ملا اور اس میں ساتھ لکھا تھا کہ ’’ان شاء اللہ یہ نوجوان احمدیت قبول کرے گا۔‘‘ جس دن یہ خط ملا اسی دن سہ پہر کے قریب یہ نوجوان آیا کہ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں۔ اور اس طرح یہ نوجوان مسٹر ڈیوڈ فوفانا حلقہ بگوش احمدی ہو گیا۔ الحمدللہ میرے حساب میں یہ بھی جلسہ سیرالیون کی ایک برکت تھی، لیکن یہ برکت یہیں پر ختم نہیں ہوتی اس کے نیک اثرات آگے بھی چلتے ہیں۔

پھر ہم نے اس کے گاؤں میں احمدیت کی تبلیغ کا پروگرام بنایا۔ وہ ایک الگ ایمان افروز واقعہ ہے پھر ذکر ہو گا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے وہ سارا گاؤں احمدی ہوا۔ اور مکرم چوہدری حمیداللہ وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے اپنے دورہ سیرالیون کے موقعہ پر اس گاؤں کا وزٹ بھی کیا تھا اس گاؤں کا نام روکمبی (Rokombi) ہے۔ جومائل 91 کے ساتھ ہے۔

چند سال پہلے خداتعالیٰ کے فضل سے خاکسار اور خاکسار کی فیملی کو یہاں برلب سڑک جو فری ٹاؤن اور بو کے درمیان ہے ایک اچھی خوبصورت مسجد حضور انور خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے تعمیر کرنے کی بھی توفیق ملی۔

سیرالیون میں جلسہ کے حوالہ سے ایک اور بات بلکہ واقعہ کا ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا کہ ان دنوں جلسوں کے موقعہ پر ہی زیادہ چندہ اکٹھا کیا جاتا تھا، مالی قربانی پر ایک تقریر ہوتی تھی پھر جماعت کے بڑے سرکردہ احباب آکر مالی قربانی پیش کرتے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا تانتا بندھ جاتا تھا اور مالی قربانی ہوتی تھی۔ خاکسار نے جیسا کہ بتایا ہے کہ ’’مگبورکا‘‘ میں متعین تھا، اور یہ نارتھ ریجن میں واقع ہے۔ اس سے قبل ساؤتھ، ویسٹ کے ریجن جن میں فری ٹاؤن، بو اور کینمار شہروں کی جماعتیں ہمیشہ مالی قربانی میں احمدیہ فلیگ Flag علم انعامی کے طور پر لے جاتی تھیں، اس ریجن کی باری کبھی نہیں آئی۔ چنانچہ خاکسار نے اپنی جماعتوں کا بار بار دورہ کیا اور ہر احمدی سے ملاقات کی مالی قربانی کی اہمیت و برکات بتائیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے 1984ء سے جلسہ میں ہمارے ریجن نے پہلی مرتبہ علم انعامی مالی قربانی میں حاصل کیا۔ فالحمدللّٰہ علی ذلک۔

جلسہ یو ایس اے

خاکسار کو 10ستمبر 1987ء کو امریکہ خدمت دین کے لئے بھیجا گیا اور ڈیٹن میں متعین ہوا۔ اور پچھلی تین دہائیوں سے یہاں امریکہ کے جلسہ میں شمولیت کی توفیق مل رہی ہے۔ پہلے تو یہاں یہ جلسہ یونیورسٹیوں میں ہوتا تھا۔ حاضری بھی اس وقت کے لحاظ سے مناسب ہی ہوتی تھی۔ کھانے کا بندوبست یونیورسٹی کے کچن سے ہی ہوتا تھا جو کہ بہت مہنگا پڑتا تھا۔ پھر مکرم ڈاکٹر صلاح الدین کی تگ و دو سے محترم مرزا مظفر احمد کی امارت میں لنگرخانہ کا انتظام شروع ہوا جو اب تک خداتعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور اس انتظام میں ہر سال مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔

اس وقت امریکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ اپنا 71 واں جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

خاکسار نے جیسا کہ بتایا ہے کہ ستمبر 1987ء میں آیا۔ پہلا جلسہ 1988ء میں مشاہدہ کیا۔ اس وقت امریکہ کے امیر و مشنری انچارج مکرم مولانا شیخ مبارک احمد تھے۔ ان ایام میں مکرم مشنری مبشر احمد جلسہ گاہ کے افسر تھے اور ان کے ساتھ ساتھ مکرم ملک مسعود احمد افسر جلسہ سالانہ ہوتے تھے۔ ہر دو کو ایک لمبا عرصہ اس خدمت کا موقع ملا ہے۔ مکرم مبشر احمد جب افسر جلسہ گاہ تھے تو خاکسار کو ان کے ساتھ دو دفعہ ناظم پروگرام، دو دفعہ نائب افسر جلسہ گاہ بھی خدمت کا موقع ملا۔

جلسہ جو خاکسار نے شروع میں دیکھا وہ بالٹی مور کی ایک یونیورسٹی میں پھر ڈیٹرائٹ میں اور پھر نیویارک میں اور اس کے بعد مسجد واشنگٹن میں ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہمارے جلسوں کو برکت اور رونق بخشی۔ مسجد بیت الرحمان میں جلسے باہر پارکنگ لاٹ میں ٹینٹ لگا کر ہوتے تھے۔ شدید گرمی، جگہ تھوڑی بلکہ واش روم کی کمی بھی اس موقع پر بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ مگر مسیح موعودؑکے یہ پروانے ہر قسم کی تکلیف کو بالائے طاق رکھتے اور جلسہ میں شامل ہوتے، نہ صرف جلسہ میں شامل ہوتے بلکہ مغرب و عشاء کے وقت مجلس عرفان ہوتی اور حضورؒ اس میں احباب کے سوالوں کے جواب دیتے اور آمین کی تقاریب منعقد ہوتی تھیں۔

ورجینیا کے Expo سینٹر میں بھی کچھ عرصہ ہمارا جلسہ ہوا، ہر جگہ ہر سال جگہ کی قلت محسوس ہوتی رہی۔ جلسہ سالانہ کے افسران میں مکرم عبدالشکور احمد نے بھی کافی خدمت کی ہے۔ ان کے بعد مکرم وسیم حیدر کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بطور افسر جلسہ سالانہ ایک لمبے عرصہ تک خدمت کی توفیق ملی اور اب کئی سالوں سے مکرم ملک بشیر احمد یہ خدمات بجا لارہے ہیں۔

جیسا کہ خاکسار نے بتایا ہے کہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد 1989ء میں امریکہ کے امیر بنے اور ان کے دورِ امارت میں یہ جلسہ اکثر مسجد بیت الرحمان میں ہی ہوتا رہا۔ اس کے بعد مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر امیر بنے، ان کے دور امارت میں جلسہ ہیرس برگ کے Expo سینٹر میں ہونا شروع ہوا۔ اور اب صاحبزادہ مرزا مغفور احمد گزشتہ 3سالوں سے جماعت کے امیر ہیں اورجلسہ کی مناسب جگہ کی بھی تلاش ہو رہی ہے اورجلسہ فی الوقت یہیں پر ہو رہا ہے۔ گزشتہ 3دہائیوں میں جلسہ ترقیات کی منازل چھو رہا ہے۔ حاضری بڑھ رہی ہے انتظامات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔

مکرم مرزا احسان نصیر احمد افسر جلسہ گاہ کے طور پر کئی سالوں سے خدمات بجالا رہے ہیں جن کے ذمہ جلسہ کا پروگرام مرتب کروانا ہے۔آپ امیر صاحب کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جلسہ کا تھیم اور پھر جلسہ کے مقررین کا انتخاب کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ تقاریر کے لئے مواد کی فراہمی بھی کرتے ہیں۔ خاکسار کو بھی ان کے ساتھ کئی سالوں سے بطور نائب افسرجلسہ گاہ خدمت کی توفیق اور سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تلاوت، تقاریر اور نظموں کا معیار بھی بہت اچھا ہو رہا ہے۔

دراصل جلسہ کی دو ہی چیزیں ہیں جو اسے معراج دیتی ہیں۔ ایک تو حضرت مسیح موعود ؑ کا قائم کردہ لنگرخانہ یعنی ضیافت جس کا دوسرا مطلب ہے کہ ہر مہمان کو اچھا کھانا بروقت مل جائے اور پھر تقاریر کا پروگرام۔ باقی ساری چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔

اس ضمن میں میں دوبارہ پہلے کی طرف جاتا ہوں۔ میں نے بتایا ہے کہ جب میں امریکہ آیا تو اس وقت کچھ جلسے یونیورسٹی کے ماحول میں ہوئے اور کھانے کا انتظام بھی کچھ پسندیدہ نہ تھا اور مہنگا بھی بہت تھا۔ لیکن سب کی مجبوری تھی۔ ابھی یہاں پر لنگر کا باقاعدہ انتظام نہ چلا تھا۔ مناسب کارکن بھی نہیں مل رہے تھے۔

1991ء میں جب جلسہ ڈیٹرائٹ میں ہوا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شرکت فرمائی تھی۔ اس جلسہ کے اختتام پر حضورؒ نے فرمایا۔
’’آئندہ امریکہ میں لنگر چلنے چاہئیں۔‘‘

بس خلیفۂ وقت کی اس خواہش اور اظہار میں خداتعالیٰ نے ایسی برکت رکھی کہ صحیح مخلص خادم سلسلہ کارکن میسر آگیا اور ان کا نام تھا ڈاکٹر صلاح الدین پی ایچ ڈی تھے۔ ان میں لنگر خانہ مسیح موعودؑ کی خدمت کی ایک تڑپ، لگن پائی جاتی تھی۔

پھر 1992ء میں لنگرخانہ اور جلسہ کے انتظامات کے لئے ایک میٹنگ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد کے گھر ہوئی جس میں لنگر خانہ کا انتظام چلانے کے لئے بڑی دیر تک بحث ہوئی۔ بالآخر مکرم ڈاکٹر صلاح الدین نے سب کے دل جیت لئے یہ کہہ کر کہ: ’’خداتعالیٰ کے فضل اور مدد کے ساتھ، انشاء اللہ ضرور۔‘‘

ڈاکٹر صلاح الدین نے اس کام کو تادم واپسی جس محنت اور انتھک کوششوں سے نبھایا میرے پاس الفاظ نہیں کہ ان کا تذکرہ کروں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔آج بھی یہ لنگر مسیح موعودؑ بڑی کامیابی کے ساتھ اور اپنے نظام کی وسعتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اجر عظیم سے نوازے۔ لنگر کا کام چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پھر ہزاروں مہمانوں کے لئے۔ پھر سب کام رضاکارانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ مگر ڈاکٹر صلاح الدین نے بڑی سادگی، عاجزی اور دعاؤں سے اخلاص کے ساتھ اپنی ٹیم کے ساتھ یہ کام کیا اور اپنے بعد ایک تیار شدہ ٹیم چھوڑی جو اس سارے کام کو نبھا رہی ہے۔

یہ لنگر خانے کے بارے میں وسعت کی بات ہوئی ہے لیکن جب ہم عمومی جائزہ لیتے ہیں تو امریکہ میں جلسہ سالانہ کے انتظامات میں بہت وسعت اور تیزی پیدا ہوئی ہے۔ 1988ء کے جلسہ کا آج کے جلسہ سے مقابلہ کریں تو وسعت کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک تو یہی کہ یونیورسٹی کے محدود انتظامات اور جگہ سے نکل کر Expo سینٹر میں جلسہ ہو رہا ہے۔ Expo سینٹر رقبہ کے لحاظ سے بہت وسیع رقبہ ہے۔ ان میں کھانے کے انتظامات کے لئے بالکل الگ ایک جگہ بنائی جاتی ہے، جو جا بجا قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے سجائی جاتی ہے۔ بازار الگ طور پر لگتے ہیں۔ بک سٹور اور پھر جلسہ کی تقاریر کا سپینش اور اردو میں ترجمہ کا نظام بھی خداتعالیٰ کے فضل سے گزشتہ 3سالوں سے جاری ہو چکا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ آڈیو ویڈیو کے سسٹم میں تو بہت ہی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ نائب امیر اور ان کی ٹیم بڑی محنت سے یہ فریضہ گزشتہ کئی سالوں سے سرانجام دے رہی ہے۔

ہمارے پیارے امام بھی ہمارے جلسوں میں شریک ہوئے ہیں۔ حضور کی آمد سے جلسہ کی رونق ، جلسہ کی حاضری اور لنگرخانہ کے انتظامات میں مزید وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی سب کا مشاہدہ بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر حاضری بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں اور جلسہ پر مشکل سے پہنچتے ہیں مگر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت شمولیت سے ایسے لوگ اور فیملیز بھی حضور کی زیارت سے مشرف ہونے اور حضور کے خطبات سننے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ ستمبر 1987ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب امریکہ تشریف لائے تو ساری ملاقاتیں ساری مجلس عرفان واشنگٹن کی مسجد فضل میں ہو گئے تھے کیونکہ تعداد ہی اتنی تھی۔ اب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی آمد پر مسجد بیت الرحمن بھی چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ ابھی گزشتہ اکتوبر 2019ء میں جب حضور یہاں تشریف لائے تو اگرچہ جلسہ نہ تھا مگر حضور کی آمد کی وجہ سے یہ بھی ایک مِنی جلسہ کا رنگ ہی رکھتا تھا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جماعت نے ترقی کرنا ہے اور کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خلافت کے سایہ تلے بڑھتے چلے جائیں گے۔ حضور کی آمد پر انی معک یا مسرور کی معجزانہ برکتیں دیکھنے میں آئیں۔ ان کی تفاصیل بھی انٹرنیشنل الفضل اور بدر میں مکرم عبدالماجد طاہر کی رپورٹس میں شائع ہو چکی ہیں۔

اب صاحبزداہ مرزا مغفور احمد گزشتہ 3 سالوں سے جماعت کے امیر ہیں۔ خاکسار ہر سال آپ کی جلسہ کے کارکنوں کو ہدایت دیتے ہوئے سنتا ہے جس میں ہر موقع پر درد دل کے ساتھ آپ یہی بات دہراتے ہیں کہ

’’دیکھنا کھانا کم نہ ہو جائے، دیکھنا ایک بھی مہمان بھوکا نہ رہے۔ دیکھنا ایک بھی ایسا مہمان نہ ہو جسے کھانا نہ ملے۔ اور آپ کا طریق بھی یہی ہے کہ جب سب مہمان کھا چکتے ہیں پھر ڈائننگ ایریا میں جاتے ہیں۔ تاپتہ لگ جائے کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا۔ کوئی ایسا شخص تو نہیں جسے اب تک کھانا نہ ملا ہو یا کہیں کھانا کم تو نہیں تھا۔‘‘

21 جولائی 2017ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مہمان نوازی ایک بہت اہم شعبہ ہے، مہمان نوازی صرف کھانا کھلانا یا پانی پلا دینا یا زیادہ سے زیادہ رہائش کا انتظام کر دینا نہیں بلکہ جلسہ سالانہ کا ہر شعبہ مہمان نوازی ہے۔ چاہے اسے کوئی بھی نام دیا گیا ہو۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اقتباس بھی سنایا:

’’میرا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہاتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جائے۔‘‘ فرمایا: ’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اس بات کو یاد رکھنا چاہئے اور اپنی طبیعت پر جبر کر کے بھی اگر کوئی بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہوں ہمیں مہمان کو آرام اور سہولت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’جلسہ میں شامل ہونے والا ہر شخص حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان ہونے کی وجہ سے ہم نے ہر مہمان کو خاص مہمان سمجھنا ہے اور اس کی مہمان نوازی میں بھرپور کوشش کرنی ہے۔‘‘

(ماخوذ از احمدیہ گزٹ النور مئی جون 2018ء مضمون امتیاز راجیکی)

صاحبزادہ مرزا مغفور احمد خداتعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی انہی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کارکنان کو جلسہ کی خدمت اور مہمان نوازی کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔

یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا افضال اور تحدیث نعمت کا ذکر ہوا ہے، جلسہ کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خاکسار کو جون 2014ء میں برازیل کے جلسہ میں بھی مکرم فلاح الدین شمس نائب امیر امریکہ کے ساتھ وہاں کے جلسہ میں بطور نمائندہ امریکہ شامل ہونے کی سعادت ملی اور وہاں کی پہلی مسجد احمدیہ (بیت الاوّل) کے سنگِ بنیاد میں اینٹ رکھنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔

یہاں کا جلسہ بھی خاکسار نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ وہاں پر جماعت کے لحاظ سے تو ابھی اتنی وسعت نہیں ہوئی تاہم برازیل کے لوکل حکومتی اداروں سے مہمانان کرام تشریف لائے تھے۔ جن میں میئر، کونسل کے ممبران اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے غیرازجماعت، پادری صاحبان، بینک مینجرز، پروفیسرز، ڈائریکٹرز وغیرہ شامل تھے۔

یہاں پر امیر و مشنری انچارج مکرم وسیم ظفر کے ساتھ خاکسار کا اور کریم شریف صاحب کا برازیل کے TV چینل پر Live انٹرویو بھی نشر ہوا۔ جس میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیمات کا پرچار کیا گیا۔

خاکسار کو خداتعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کے ایک جلسہ میں بھی بطور مرکزی نمائندہ شامل ہونے کی توفیق ملی۔ ڈھاکہ بخشی بازار میں ہماری 6 منزلہ عمارت خداتعالیٰ کے فضل سے بہت سارے اہم اداروں کو سموئے ہوئے ہے۔ احاطہ میں جلسہ ہوتا ہے۔ مخالفت کی وجہ سے ابھی تک باہر جلسہ نہیں ہو رہا۔ لیکن عاشقان احمدیت یہاں پر بھی ہر تکلیف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شامل ہو رہے ہیں اور دور دراز علاقوں سے مخلصین جماعت جلسہ میں شامل ہونے آتے ہیں۔ یہاں ہی کھانا پکتا ہے، لنگر چلتا ہے، صبح کے وقت ناشتہ میں یہاں کھچڑی کھلائی جاتی ہے مہمانان کرام کو۔ اس کھچڑی میں چاول کے ساتھ بعض اوقات دال ،چکن اور بعض اوقات مچھلی بھی ڈالی جاتی ہے۔ چائے اور قہوہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔

چھوٹی جگہ پر ہونے کے باوجود بھی ان کے دل بڑے کشادہ ہیں۔ مہمان نواز ہیں۔ جیسا کہ خاکسار نے بتایا کہ جگہ چھوٹی ہے پھر 4 ہزار سے زائد احباب جلسہ میں شامل ہو جاتے ہیں، پھر ریجنل جلسہ جات بھی ہوتے ہیں، اس مرکزی جلسہ کے فوراً بعد ایک ریجنل جلسہ سندر بن میں بھی ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو آسان فرمائے تا آسانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ اور دقت کے سب ایک جگہ جلسہ کے لئے اکٹھے ہو سکیں۔ ان شاء اللہ یہ سب کچھ ہو کر رہے گا۔

آخر میں یہ لکھنا چاہتا ہوں کہ ایک بات یقینی ہے ۔خواہ ہم کچھ کریں یا نہ کریں یہ خداتعالیٰ کی تقدیر ہے کہ جماعت نے بھی ترقی کرنا ہے انشاء اللہ۔ اور جلسہ کے انتظام نے بھی۔ اور ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ کا الہام ہمیں ہر آن بڑی شان و شوکت کے ساتھ ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ یہ ترقی ہونی ہی ہونی ہے۔

جلسہ خواہ گھانا میں ہو ،سیرالیون میں ہو، امریکہ میں ہو، بنگلہ دیش میں ہو، دنیا کے کسی خطہ، دنیا کے کسی ملک میں ہو، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کی روایات، جلسہ کے انتظامات سب ایک ہی طرز پر ہیں۔ ہاں وقت کے ساتھ ساتھ ضرورتیں تبدیل ہونے کے ساتھ بھی روایات ایک ہی ہیں۔

اور یہ سب کچھ صداقت حضرت مسیح موعود ؑ پر دلالت کرتی ہیں۔ ایک جماعت ہونے پر دال ہیں، للّہی جماعت ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں اور ایک ہاتھ پر جمع ہوکر ایک ہی نظام میں پروئے جانے اور ایک ہی قسم کے خیالات اور ایک ہی قسم کے اوڑھنا بچھونا ہماری جماعت کی صداقت کی دلیل بن جاتا ہے۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے آپ کو خدمت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ اب جلسہ سالانہ نزدیک آرہا ہے۔ تمام احباب دوست،بچے، خواتین جلسہ میں شرکت کو یقینی بنائیں اور اپنے اپنے کاموں کا ہرج کر کے بھی جلسہ میں شامل ہوں۔ یہ خواہش حضرت مسیح موعودؑ کی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ جلسہ کے سارے پروگراموں کو تسلی کے ساتھ بیٹھ کر سنیں۔ اور اس مقصد کو پورا کریں جس کے لئے یہ جلسے منعقد کئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین


(سید شمشاد احمد ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2020