• 19 اپریل, 2024

گرداب سے میرا بچ جانا بطفیل برکات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوا تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بالکل نوجوان تھا۔ کپورتھلے میں ایک رات مجھے ایک خواب آیا کہ ایک ہاتھی ہے۔ میں اُس کے نیچے آ گیا ہوں اور اس کا پیٹ میرے اوپر ہے۔ جب صبح ہوئی تو خانصاحب عبدالمجید خان صاحب نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! آج دریائے بیاس میں طغیانی آئی ہوئی ہے اور ہم ہاتھیوں پر بغرضِ سیر و تفریح وہاں دریا کا نظارہ دیکھنے کے لئے جانے کے لئے تیار ہیں۔ آپ بھی ضرور تشریف لے چلیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں نہیں جا سکتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج رات میں نے ایک سخت منذر خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں ہاتھی کے نیچے آ گیا ہوں۔ لیکن وہ یہ خواب سن کر بھی برابر اصرار ہی کرتے رہے اور میں بار بار انکار کرتا کیونکہ میرے قلب پر اس خواب کا بہت برا مہیب اثر مستولی ہو رہا تھا۔ اور جب میں نے خانصاحب سے یہ فقرہ سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ دریا پر جانے کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر جانا ہے تو ہاتھیوں کا نام سن کر اور بھی میرے دل پر اس خواب کا شدید اثر محسوس ہوا۔ پھر تو میں نے شدت کے ساتھ انکار کیا اور ساتھ جانے سے اعراض کیا۔ پھر خانصاحب کے ساتھ اور کئی دوست بھی جانے کے لئے مصر ہوئے (اصرار کرنے لگے۔) اُن دوستوں کے بے حد اصرار کی وجہ سے آخر میں نے سمجھا کہ قضا و قدر یہی مقدر معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ وقوع میں آنا ہے وہ ہو کر رہے۔ تب میں با دل نخواستہ اُن کے ساتھ تیار ہو گیا اور دوستوں نے کئی ہاتھی تیار کئے اور تین ہاتھی تھے یا چار جن پر دوست سوار ہوئے۔ مجھے بھی خانصاحب موصوف نے اپنی معیت میں ایک ہاتھی پر سوار کیا۔ جب دریا پر گئے تو قضاء و قدر نے ظاہری ہاتھیوں کی صورت میں تو اس منذر خواب کی حقیقت ظاہر نہ ہونے دی بلکہ اس کے لئے ایک دوسرا پیرایہ اختیار کیا کہ جب ہم ہاتھیوں سے اُتر کر بر لبِ دریا کھڑے ہو کر نظارہ کرنے لگے تو ایک نوجوان کو دیکھا کہ اس طغیانی کے موقع پر دریا کا پل جو اپنے نیچے کئی درے رکھتا تھا، وہ اس کے قریب کے دَر سے پل کے اوپر سے چھلانگ لگا کر کود پڑتا، پھر پل کے نیچے سے قریب کے دَر سے گزر کر دوسری طرف نکل آتا۔ میں بھی کچھ کچھ تیراکی جانتا تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ بھائی! آپ قریب کے دَر سے گزرتے ہیں، بات تب ہو کہ آپ کسی دور کے دَر سے گزریں۔ اُس نے کہا دریا زوروں پر ہے کیونکہ طغیانی کا موقع ہے۔ اس لئے کسی دور کے در سے پُل کے نیچے سے گزرنا اس وقت بہت مشکل ہے۔ میں نے کہا تیراکی آتی ہے تو پھر کس بات کا خوف ہے؟ اُس نے کہا کہ آپ تیراکی جانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ! کچھ جانتا ہوں۔ اُس نے کہا پھر آپ ہی گزر کے دکھائیں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میں نے لنگوٹ پہن کر دور کے دَر سے گزرنے کی غرض سے پل کے اوپر سے چھلانگ لگائی۔ پہلی دفعہ تو میں درے کے پل کے نیچے سے صاف گزر گیا لیکن دوسری دفعہ پھر اَور دُور کے دَر سے گزرنے کے لئے چھلانگ لگانے لگا۔ جب پل کے اوپر سے میں نے چھلانگ لگائی تو اتفاق سے جہاں میں نے چھلانگ لگائی اور گرا وہ سخت بھنور اور گرداب کی جگہ تھی۔ (یعنی اُس جگہ میں بہت زیادہ بھنور تھا۔) جہاں پانی چکی کی طرح بہت ہی بڑے زور سے چکر کھا رہا تھا۔ میں گرتے ہی اس گرداب میں پھنس گیا اور ہر چند کوشش کی کہ وہاں سے نکل سکوں لیکن میری کوشش عبث ثابت ہوئی۔ آخر میں اسی گرداب میں کچھ وقت تک پانی کی زبردست طاقت کے نیچے دب گیا اور میرے لئے بظاہر اس گرداب سے نکلنا محال ہو گیا۔ اور میری مقابلہ کی قوتیں سب کی سب بیکار ہونے لگیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ دو تین منٹ کے اندر اندر اب میری زندگی کا نظام درہم برہم ہو کر میرا کام تمام کر دیا جائیگا۔ اُس وقت سب احباب جو پل کے اوپر سے میری اس حالت کا نظارہ کر رہے تھے وہ شور کرنے لگے کہ ہائے افسوس! مولوی صاحب گرداب میں پھنس کر اپنی زندگی کے آخری دم توڑنے کو ہیں۔ اُس وقت عجیب بات قضاء و قدر کے تصرف کی یہ تھی کہ احباب باوجود واویلا کرنے اور شور مچانے کے کہ میں ڈوب رہا ہوں، اُنہیں یہ بات نہ سوجھ سکی کہ وہ سر سے پگڑی اتار کے ہی میری طرف پھینک دیتے، تا میں اس پگڑی کا ایک سرا پکڑ کر کچھ بچاؤ کی صورت اختیار کر سکتا۔ مگر یہ خیال کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ اب میری حالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ عالمِ اسباب کے لحاظ سے بالکل مایوس کن حالت ہو رہی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میری زندگی کا سلسلہ اب صرف چند لمحوں تک ختم ہو جانے والا ہے اور مَیں آخری سانس لے رہا ہوں۔ اتنے میں قضاء و قدر نے ایک دوسرا سین بدلا اور حضرت خالق الاسباب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طفیل برکت، جن کی اجازت اور ارشاد کے تحت خاکسار نے کپور تھلے کا سفر اختیار کیا تھا، میری حفاظت اور بچاؤ کے لئے بالکل ایک نئی تجلی قدرت کی نمایاں فرمائی اور وہ اس طرح کہ میں جس گرداب میں غوطے کھا رہا تھا اور کبھی نیچے اور کبھی اوپر اور کبھی پانی کے اندر اور کبھی پانی سے باہر سر نکالتا تھا اور جو کچھ یہ ہو رہا تھا میری طاقت اور اختیار سے باہر کی بات تھی، اُس وقت پانی اپنی طغیانی اور طاقت کے ساتھ مجھ پر پورے طور پر متصرف نظر آتا تھا کہ ناگاہ کسی زبردست ہاتھ نے مجھے اُس گرداب کے چکر سے باہر پھینکا اور زور کے ساتھ اتنا دور پھینکا کہ میں کنارے کی طرف ایک ببول کا بہت بڑا درخت جو دریا کے کنارے سے دریا کے اندر دور تک گھرا پڑا تھا اُس کی شاخ میرے ہاتھ میں محض قدرت کے تصرف سے آ گئی اور میں سنبھل گیا اور شاخوں کا سہارا لے کر دیر تک آرام کی خاطر وہاں خاموش کھڑا رہا۔ پھر خدا کے، ہاں محض حضرت خیر الراحمین کے فضل و کرم سے میں باہر سلامتی کے کنارے تک پہنچ گیا۔ اُس وقت مجھے وہ خواب اور اُس کی یہ تعبیر آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ اور مجھے اُس وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ قضاء و قدر رؤیا میں ہاتھی کے نیچے آنے کی تعبیر میں کبھی ہاتھی کی جگہ کوئی دوسری آفت بھی ظاہر کر دیتی ہے۔ حالانکہ اس سفر میں ہاتھی پر ہی ہم سوار ہو کر دریا پر پہنچے لیکن رؤیا کا انذاری پہلو ہاتھی کی جگہ دریا کے حادثہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دوسرے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ گرداب سے میرا بچ جانا بطفیل برکات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوا تھا اور آپ کی اجازت اور ارشاد کے ماتحت میرا کپور تھلے میں آنا اور خدمتِ سلسلہ میں تبلیغ کا کام کرنا، اس کی وجہ سے میں ہلاکت سے بچایا گیا ورنہ اسباب کے لحاظ سے حالات بالکل مایوس کن نظر آتے تھے۔‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد10 صفحہ19, 25, 28)

تو یہ واقعات بھی صحابہ کی ایمانی حالت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یقین کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے جس طرح بیان فرمایا ہے اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو اس کو اتفاقی بات قرار دیتا کہ اتفاق ایسا ہوا کہ دریا نے مجھے پھینک دیا۔ لیکن حضرت مولوی صاحب نے دین کی خاطر سفر کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو اس کی وجہ قرار دیا۔ تو یہ ہے جو ایمانی حالت ہے جو ہم سب میں پیدا ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 20 ؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2021