• 20 اپریل, 2024

علم وحکمت کو فنا نہیں

علم وقدامت کی تجلی سے ہے نقش کائنات

صنعت ایجاد کا قبل اس کے راز افشانہ تھا ا؎

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں؛۔
’’علم و حکمت ایسا خزانہ ہے جو تمام دولتوں سے اشرف ہے۔ دنیا کی تمام دولتوں کو فنا ہے لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 ص161)

نیز آپؑ فرماتے ہیں؛۔

وانی سقیت المآء ماء المعارف
واعطیت حکما عافھا قلب احمق

اور میں معارف کا پانی پلایا گیا ہوں۔ اور وہ حکمتیں بھی مجھے عطاء کی گئی ہیں جو صرف احمق ان سے کراہت کرتا ہے

(حجتہ اللہ، روحانی خزائن جلد12 ص226)

قارئین

علم ایک لازوال دولت ہے۔ اس دولت کےلیے فنا نہیں ہے۔دنیا کا مال ودولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔ لیکن علم کی دولت لازوال اور غیر فانی ہے ۔ دنیا کی دولت خرچ کرنے سے گھٹتی ہے، لیکن علم کی دولت خرچ کرنے سے بڑھتی ہے۔ علم کی دولت کونہ تو گھن لگتا ہے اور نہ اسے چور چرا سکتا ہے، دنیا کی دولت سے انسان روحانی اطمینان وسکون حاصل نہیں کر سکتا، لیکن علم کی دولت انسان کو روحانی سکون سے مالا مال کر دیتی ہے۔ اس طرح علم کو مال ودولت پر برتری حاصل ہےنیز خدا تعالیٰ علم حاصل کرنے والوں کے درجات بھی بلند کرتا ہے جیساکہ قرآن مجید میں وہ فرماتا ہے؛۔

یَرْ فَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْ تُوا الْعِلْمَ دَرَجَا تٍ

(المجادلۃ۔12)

اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطاء کیا گیا ہے ۔

اسی طرح ہمارے پیارے آقاحضرت محمد ﷺ فرماتےہیں؛۔
’’بہترین چیز جو انسان اپنی موت کے بعد پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ تین ہیں۔نیک اولاد جو اس کیلئے دعا گو ہو۔صدقہ جاریہ جس کا ثواب اسے پہنچتا رہے اور ایسا علم جس پر اسکے بعد والے عمل کرتے رہیں۔‘‘

(ابن ماجہ باب ثواب معلم الناس الخیر)

چنانچہ اس حکم پرعمل کرتے ہوئے صحابہؓ حصول علم کے لئے شب وروز کوشش کرتے رہے، اسکے لئے لمبے لمبے سفر اختیار کئے، بھوک وپیاس کی شدت برداشت کی ہر صعوبتیں جھیلنے کو تیار رہتے اس نقشے کو کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مقام پر فرماتے ہیں؛۔
’’صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ رات اور دن تعلیم میں لگے رہتے اور پھر جو کچھ سیکھتے اسے اپنے سینوں میں ہی نہ رکھتے بلکہ لوگوں تک پہنچا دیتے۔ گو یا وہ ایک جاری چشمہ تھا جو دنیا کو سیراب کر رہا تھا۔ کتنی زبردست خواہش دوسروں تک علوم پہنچانے کی ہے جو اس صحابی کے دل میں پائی جاتی تھی جس نے کہا کہ اگر تلوار میری گردن پر چل رہی ہو تو اس وقت میری آخری خواہش یہ ہوگی کہ اگر رسول کریم ﷺ کی کوئی بات بیان کرنی مجھ سے رہ گئی ہو تو میں اسے جلد جلد بیان کردوں۔

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ467 مطبوعہ پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

گوکہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور صحبت قدسی نے صحابہ کرام کے اندر شوق علم اس قدر بھر دیا تھا کہ اب ایسے وحشی ملک کے نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے اس میں بہت محنت کی اور کوشش کر کے نہایت بلند مقام علمی میدان میں حاصل کئے۔حضرت ربیعہ بنت معوذ بن عفراء باوجود عورت ہونے کے ایسی عالمہ تھیں کہ بڑے بڑے جید عالم مثلا حضرت ابن عباس ؓ اور امام زین العابدین اکثر ان سے مسائل اسلامی دریافت کرتے تھے۔

قارئین

’’آنحضرت ﷺ کی ہدایت پر صحابہؓ نے Greek یعنی یونانی اور دوسری زبانیں سیکھنی شروع کردیں۔چنانچہ مسلمانوں کے علمی دور کا آغاز آنحضرت ؐ کے زمانہ سے ہوا ہے۔ پھر وہ خاص مقام تک پہنچا اور عروج کے بعد پھر تنزل پذیر ہوا اور پھر دنیا اس جہالت کے دور میں دوبارہ داخل ہوگئی جو عرب جہالت کا دور تھا یعنی قبل از اسلام جہالت کا دور۔تب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا آپؑ نے نہ صرف یہ دعائیں کیں بلکہ بڑی عظیم الشان خوشخبریاںسنائیں اور بتایا کہ میرے ماننے والوں اور میرے غلاموں میں سے خدا ایسے لوگ پیدا کریگا جو ہر علم اور ہر فلسفے میں بڑے بڑےدنیادار علماء کے منہ بند کر دیں گے‘‘

(مشعل راہ جلد سوم ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ ص116)

پس دین کا میدان ہو یا دنیا کا الحمد للہ جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر میدان میں اپنی فتح ظفر کے جھنڈے گاڑدئے ہیں اور کوئی نہیں جو جماعت احمدیہ کے علم کلام کے مقابل کھڑا ہوسکے۔علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ہونہار سپوت عطاء فرمائے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے امام حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے موافق علم ومعرفت میں کمال حاصل کیا اور توحید اور ایمان پر قائم رہتے ہوئے دنیا سے اپنی قابلیت کا سکہ منوایا۔ چنانچہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ومحترم ڈاکٹر عبد السلام صاحب جماعت کے انہی سپوتوں میں سے دو ہونہار سپوت ہیں جنہوں نے نہ صرف دنیاوی علوم میں ترقیات کی رفعتوں کو چھوا بلکہ نہایت مخلص اور فدائی احمدی ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ سے والہانہ عشق رکھتے ہوئے اپنے روحانی علوم کے آسمان کی بلندیوں اور پاک فضاء میں بھی پرواز کی۔ان دونوں بزرگوں کی وفات پر حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان جیسے اور وجود جماعت میں پیدا ہونے چاہئیں۔

آپؒ نے حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وفات پر فرمایا؛۔
’’جماعت احمدیہ کو اس وصال پر صدمہ تو ہے بڑا گہرا صدمہ ہے لیکن اس صدمے کے نتیجہ میں مایوسی کا اثر نہیں ہونا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کی رحمتیں بے شمار وسیع ہیں۔ اسکی عطاء کے دروازے کوئی بند نہیں کرسکتا اور جن راہوں میں وہ کھلتے ہیں وہ لامتناہی راہیں ہیں اسلئے آپ۔۔۔اولاد دراولاد کو بتاتے چلے جائیں کہ حضرت مسیح موعودؑ سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ایک نہیں دو نہیں بکثرت ایسے غلام عطاء فرمائے ۔۔۔۔ جو عالمی شہرت حاصل کریں گے جو بڑے بڑے عالموں اور فلسفیوں کے منہ بند کردیں گے اور قومیں ان سے برکت پائیں گی۔‘‘

(بحوالہ ماہنامہ خالد حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نمبر دسمبر 1985،جنوری 1986 ص 9تا 10)

نیزآپؒ نے محترم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی وفات پر فرمایا؛۔
’’ایک عبد السلام تو پیدا کیا لیکن ایک عبد السلام سے تو بات نہیں بنتی جماعت احمدیہ کو ہر میدان میں سینکڑوں عبد السلام پیدا کرنے پڑیں گے‘‘

(الفضل22 فروری 1983ء)

پس اس زمانے میں ہم احمدی مسلمانوں کا فرض ہے کہ امام الزمان اور اسکے خلفاء کرام کے ارشادات کی روشنی میں اپنے آپ کو دینی ودنیاوی علوم حاصل کرنے کے لحاظ سے عین جاریہ ثابت کریں اور علم کے ہر میدان میں آگے بڑھیں ۔اس حوالے سے بعض اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں کہ؛
’’علم ایک بحرِبے کنار ہے اس لئے ایک انسان علم میں خواہ کس قدر ترقی کرجائے علم ختم نہیں ہوتا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد10 ص157)

نیزآپؒ فرماتے ہیں کہ؛۔
’’یہ بھی نہ بھولنا کہ انسان علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ خود اس سے فائدہ اُٹھائے اور دوسروں کی خدمت کرے۔ پس ہمیشہ عالم باعمل بننے کی کوشش کرو۔ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اورہمیشہ اپنے سایہ رحمت میں ہمیں رکھے۔‘‘

(حیاتِ ناصر ص219)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں؛۔
’’حق یہ ہے کہ درسگاہیں تو صرف علم کے دروازے تک پہنچاتی ہیں۔ اسکے آگے ایک بہت وسیع میدان ہے۔ ایسا وسیع جس کی کوئی حدوانتہا نہیں۔ اس میدان میں انسان سکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد خود اپنی کوششوں اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھلا رکھنے کے ذریعہ علم حاصل کرتا ہے۔ پس درسگاہوں سے فارغ ہونے کے بعد تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھو اور ضرور جاری رکھو کیونکہ یہ وہ علم ہے جو درسگاہوں میں حاصل ہونے والے علم سے بہت زیادہ وزن رکھتا ہے۔ میرے آقا ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے علم کے آسمان پر پہنچا دیا مگر پھر بھی آپ کی یہی پکار رہی۔ رب زدنی علماً یعنی خدایا! مجھے اور علم عطاء کر۔‘‘

(الفضل خاص نمبر ص38 ماخوذ از حیات بشیر ص402)

نیز آپؓ فرماتے ہیں؛۔
’’جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے آج ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولاد وں کے دلوں میں یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہوجائے ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کر لے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔‘‘

(الفضل 17 فروری 1939ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اور بندوں سے کچھ لینے کے لئے علم کا اظہار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر وقت اللہ کی رضاء پیش رہنی چاہئے اور جو علم سے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے ساتھ ساتھ اسکی مخلوق کی بھی خدمت ہوسکے۔ ایک روایت میں حضرت ابودرداؓء بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چاند کی دوسرے ستاروں پر۔ اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء روپے پیسہ ورثہ میں نہیں چھوڑتے بلکہ انکا ورثہ علم وعرفان ہے جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بہت بڑا نصیب اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے۔ (ترمذی)

(خطبہ جمعہ 18 جون 2004ء)

پس اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انبیاء کے وارث بنتے ہوئے دینی ودنیاوی علوم حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم حضرت مسیح موعودؑ کی اس پیشگوئی کے مصداق بنے جس میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے۔‘‘

(تجلیات الہٰیہ روحانی خزائن جلد20 ص409)

آمین اللّٰھم آمین

(مرسلہ: (حلیم خان شاہد، مہاراشڑا،انڈیا))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2020