• 19 اپریل, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرمودہ 27،دسمبر 1938ء

الفضل کا کام ہے کہ وہ سلسلہ کی خبریں مہیا کرنے میں زیادہ مستعدی سے کام لے

مضامین کے متعلق میں نے توجہ دلائی ہے کہ ان میں تنوّع ہونا چاہئے۔ سارا اخبار دینی مضامین سے نہیں بھرنا چاہئے

میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ مضامین میں تنوّع پیدا کرو۔ علمی اور تاریخی مضامین لکھو، مختلف عناوین پر مختصر نوٹ لکھو اسی طرح تعلیمی، صنعتی، مذہبی اور اقتصادی مضامین لکھو، مختلف اقوام میں جو رسوم پائی جاتی ہیں ان پر وقتاً فوقتاً روشنی ڈالو، غیر مذاہب کے حالات لکھو، دلچسپ خبریں شائع کرو اور ان کےدَوران میں مذہبی مضامین بھی لکھو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری کونین شکر میں لپٹی ہوئی ہوگی اور ہر کوئی شوق سے اسے کھانے کے لئے تیار رہے گا

میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے اخبارات خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کا مذاق علمی ہو جائے

میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ سلسلہ کے اخبارات نہیں خریدتے ان کے بچے احمدیت کی تعلیم سے بالکل ناواقف رہتے ہیں

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بصیرت افروز خطاب فرمودہ 27،دسمبر 1938ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان کا دوسرا حصہ

حضرت مصلح موعودؓ اپنے خطاب میں فرماتے ہیں۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اخبار ’’الفضل‘‘ کو چلانے میں عملہ پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور چونکہ وہ صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت ہے اس لئے صدرانجمن احمدیہ پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ آج کل تجارتی زمانہ ہے اور اخبار کو تجارتی لائنوں پر چلانا چاہئے۔ مگر باوجود اس کے کہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے اخبار چلانے کے لئےتجارتی رنگ اختیار نہیں کیا جاتا اور میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ جب تک تجارتی لائن اختیار نہیں کی جائے گی اس وقت تک اخبار والوں کو کامیابی نہیں ہو گی۔ میں نے یورپ کے اخبار نویسوں کو دیکھا ہے۔ ان کو خبریں جمع کرنے کی اتنی حرص ہوتی ہے کہ بسااوقات جن کا معاملہ ہوتا ہے انہیں اتنی خبر نہیں ہوتی جتنی اخبار والوں کو ہوتی ہے۔ وہ بے شک بعض دفعہ جب ان کی قوم کا فائدہ ہو تو جھوٹ بھی بول لیتے ہیں مگر بِالعموم سچائی سے کام لیتے ہیں اور خبریں جمع کرنے کیلئے انتہائی جدوجہد کرتے ہیں۔

مَیں جب ولایت گیا تو باوجودیکہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے پھر بھی ہر اخبار کا نمائندہ ہمارے پاس آتا اور کُرید کُرید کر ہم سے حالات پوچھتا ۔ہم برائٹن گئے تو اس وقت اخبار کے نمائندے ہمارے ساتھ تھے۔ پیرس گئے تو وہاں موجود تھے۔ غرض دن رات ان اخبارات کے ایڈیٹر ہمارے حالات معلوم کرنے کے لئے پھرتے رہتے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمارے اخبار کے ایڈیٹروں سے دس دس بیس بیس گنا زیادہ تنخواہ لینے والے ہوتے ہیں۔

اسی طرح الفضل کا بھی کام ہے کہ وہ سلسلہ کی خبریں مہیا کرنے میں زیادہ مستعدی سے کام لے۔ پھر مَیں جو خطبے پڑھتا ہوں اگر ان خطبوں کو ذہانت سے پڑھا جاتا ہو تو ہر شخص جانتا ہو گا کہ ہمیشہ میرا ایک خطبہ لمبا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا ہوتا ہے۔ جس طرح باری کا بخار ایک روز زیادہ زور سے چڑھتا ہے اور ایک روز کم ہو جاتا ہے اسی طرح ہمیشہ میرا ایک خطبہ لمبا ہوگااور ایک چھوٹا۔ اگر پہلے کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی تو وہ اب جا کر ’’الفضل‘‘ کی فائل کھول کر دیکھ لے۔ ہمیشہ اسے یہی دکھائی دے گا کہ میرا ایک خطبہ لمبا ہے اور ایک چھوٹا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک زودنویس تو میرا خطبہ صحیح طور پر لکھتا ہے اور ایک زود نویس ایسا ہے جو میرے الفاظ چھوڑتا چلا جاتا ہے اور کبھی مکمل خطبہ نہیں لکھتا۔ دوست اگر چاہیں تو اب واپسی پر اپنے گھروں میں جا کر مقابلہ کر لیں ہمیشہ دو خطبوں میں انہیں نمایاں فرق نظر آئے گا اور باقاعدہ ایک خطبہ لمبا ہوگا اور ایک چھوٹا بلکہ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے جس خطبہ پر میں نے دس منٹ کم خرچ کئے ہوتے ہیں وہ لمبا ہوتا ہے اور جس خطبہ پر میں نے زیادہ وقت صرف کیا ہوتا ہے وہ چھوٹا ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک خطبہ نویس ایسا ہے جسے لکھنے کی قابلیت نہیں۔ ہر شخص زود نویس نہیں ہو سکتا ممکن ہے وہ ایڈیٹر ہو مگر زود نویس نہ ہو۔ مگر باوجود یکہ میں سالہا سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور ہر پانچویں چھٹے خطبہ پر مجھے اس قسم کے نوٹ لکھنے پڑتے ہیں کہ خطبہ یہاں سے حذف ہو گیا ہے، یا یہ بات اپنے پاس سے لکھ دی گئی ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ لازمی طور پر ان کا خریداری پر اثر پڑتا ہے۔ میں نے اپنا تجربہ اس وقت دوستوں کو بتا دیا ہے ممکن ہے باہر کی جماعتوں کو اس کا علم نہ ہو لیکن اگر وہ چاہیں تو اب گزشتہ خطبے نکال کر دیکھ سکتے ہیں۔ بغیر کسی فرق کے برابر ایک خطبہ لمبا ہوگا اور ایک چھوٹا۔ ممکن ہے کوئی ایک خطبہ ایسا بھی نکل آئے جو اس مختصر نویسی کے زمانہ میں مَیں نے خاص طور پر بہت زیادہ لمبا دیا ہو اور وہ چھوٹا دکھائی نہ دے لیکن عام طور پر باقاعدہ میرا ایک خطبہ بڑا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا۔ یہی بے توجہی باقی کاموں میں بھی ہے حالانکہ روزانہ اخبار تبھی چل سکتے ہیں جب وہ روزانہ ضرورتوں کو مہیا کریں۔ اسی طرح مضامین کے متعلق میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ ان میں تنوع ہونا چاہئے اور سارا اخبار ہی دینی مضامین سے نہیں بھرنا چاہئے مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں کی جاتی۔ اگر ہم سارا دن نمازیں نہیں پڑھتے رہتے بلکہ اور بھی بیسیوں کام کرتے ہیں تو سارے اخبار میں دینی مضامین ہی اگر ہوں تو وہ کب لوگوں کے لئے دلچسپی کا موجب بن سکتے ہیں۔ قرآن کریم کو بھی دیکھ لو اس میں صرف خدا اور اس کے رسولوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ کہیں پانیوں کا ذکر ہے، کہیں بادلوں کا ذکر ہے، کہیں ہواؤں کا ذکر ہے، کہیں زمین کی حرکتوں کا ذکر ہے، کہیں حیوانات کا ذکر ہے، کہیں لڑائیوں کا ذکر ہے، کہیں سیاسیات کا ذکر ہے ۔غرض مختلف قسم کے اذکار اس میں پائے جاتے ہیں مگر کیا الفضل قرآن سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے کہ اگر وہ علمی اور تاریخی اور اقتصادی اور صنعتی مضامین لکھے تو اس کی زبان صاف نہیں رہے گی۔ میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ مضامین میں تنوع پیدا کرو۔ علمی اور تاریخی مضامین لکھو، مختلف عنوانات پر مختصر نوٹ لکھو ۔اسی طرح تعلیمی، صنعتی، مذہبی اور اقتصادی مضامین لکھو، مختلف اقوام میں جو رسوم پائی جاتی ہیں ان پر وقتاً فوقتاً روشنی ڈالو، غیر مذاہب کے حالات لکھو، دلچسپ خبریں شائع کرو اور ان کے دَوران میں مذہبی مضامین بھی لکھو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری کونین شکر میں لپٹی ہوئی ہوگی اور ہر کوئی شوق سے اسے کھانے کے لئے تیار رہے گا۔ مگر باوجود اس کے کہ میں نے ایک دو دفعہ نہیں بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے اور متواتر توجہ دلائی ہے کبھی میرے توجہ دلانے کے مطابق عمل نہیں ہوتا۔ میں نے یہ توجہ براہِ راست عملہ کو بھی دلائی ہے اور بڑوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا ہے مگر ہمیشہ ’’مرغ کی ایک ٹانگ والا‘‘ معاملہ رہتا ہے۔ کوئی ہُشت ہی نہیں کرتا کہ اس مرغ کی دوسری ٹانگ نکلے۔ میں تو سمجھا ہی سکتا تھا سو میں نے چھوٹوں کو بھی سمجھا دیا اور بڑوں کو بھی سمجھا دیا۔ میں نے افسروں کو بھی کہا کہ اگر ان تجاویز پر عمل نہیں ہوگا تو ہُشت ہی کر دو۔ مگر افسر ہیں کہ انہیں ہُشت کرنا بھی نہیں آتا حالانکہ یہ اخبار یقینا ًایسا دلچسپ بنایا جا سکتا ہے کہ باوجود روزانہ ہونے کے اور باوجود دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ہماری دنیوی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتا ہے بلکہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اگر ’’الفضل‘‘ والے ہمت کریں تو روزانہ خبریں بھی مہیا کر سکتے ہیں مگر اس کے لئے پوری محنت کی ضرورت ہے۔

درحقیقت روزانہ اخبار کا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اور اسے وہی شخص برداشت کر سکتا ہے جو زندگی کی تمام لذتوں کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یورپ کے اخبار والوں کو تو کام کی اتنی کثرت ہوتی ہے کہ انہیں دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے گویا وہ پاگل ہیں۔ میں جب ولایت گیا تو میں نے چاہا کہ ایک مشہور اخبار نویس سے ملوں۔ میں نے اپنے اس ارادہ کا ایک دوست سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مسٹر میکڈانلڈوزیر اعظم برطانیہ کے ساتھ آپ آسانی سے ملاقات کر سکتے ہیں لیکن اس اخبار نویس سے آپ کا ملاقات کرنا مشکل ہے کیونکہ بعض دفعہ کئی کئی مہینے لوگ اس کی شکل نہیں دیکھتے۔ وہ جسے ہماری پنجابی میں ’’مَچ مارنا‘‘ کہتے ہیں وہ اخبار نویس کی حالت ہوتی ہے اور اس کے لئے بہت بڑی محنت اور بہت بڑی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُسے کسی خبر کے سنتے ہی منٹوں میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے اور اس کی نظر کو ایک ایک خبر پر یوں تیرتے چلے جانا چاہئے جیسے بحری جانور سمندر کی لہروں پر اپنا سر اٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے دو تین سال سے الفضل کے مضامین میں کچھ تنوع پایا جاتا ہے مگر اس میں زیادہ تر کچھ مجلس انصارِ سلطانُ القلم کا دخل ہے جو میاں بشیر احمد صاحب نے بنائی تھی اور کچھ اس میں میر محمد اسماعیل صاحب کے مضامین کا حصہ ہے۔ چنانچہ چند دن ہوئے مجھے ایک شدید متکبر عالم کا خط آیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اب ایک دو سال سے یہ اخبار دلچسپ ہو گیا ہے اور اس کے مضامین میں کسی حد تک تنوع پیدا ہو گیا ہے۔ مگر پھر بھی جس حد تک اسے بڑھایا جا سکتا اور اس کے ذریعہ اپنی جماعت کو دوسرے اخبارات سے مستغنی کیا جا سکتا ہے وہ بات ابھی اس میں پیدا نہیں ہوئی۔ اشتہارات کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ پوری توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ اس سے بھی اخبار کو بہت کچھ مدد ملتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ صحیح ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دنیا کی ہر اخبار کو اچھے اشتہار مل جاتے ہیں مگر ہمارے الفضل میں سوائے مخصوص امراض کی دوائیوں کے اور کوئی اشتہار ہی نہیں ہوتا گویا تمام لوگ دنیا میں اب انہی بیماریوں کے ہی مریض ہیں۔ میں تو اس سے اتنا تنگ آ گیا ہوں کہ اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ایسا کوئی اشتہار اخبار میں چَھپنے نہیں دوں گا۔ چنانچہ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ہمارے اخبار میں اس قسم کا کوئی اشتہار نہیں نکلنا چاہئے۔ دنیا میں بیماریوں کی کمی نہیں، کئی ایسی بیماریاں ہیں جو نہایت خطرناک ہوتی ہیں اگر ان بیماریوں کے متعلق اپنی مجرب دوائی لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر اس قسم کی مخصوص بیماریوں کے متعلق ہی کوئی اشتہار دینا ہو تو یہ لکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی دوائیں تیار ہیں ضرورت مند فہرست منگوا کر دیکھ لیں۔ یورپین اخبارات میں بھی یہی طریق ہوتا ہے۔ وہ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بعض چیزیں دایہ گری وغیرہ کے متعلق ہیں جو لوگ تفصیل معلوم کرنا چاہیں وہ خط لکھ کر ہم سے فہرست منگوا لیں۔ پھر جب انہیں کوئی خط لکھتا ہے تو وہ فہرست بھیج دیتے ہیں۔ اسی رنگ میں ہمارے اخبار میں بھی اس قسم کے اشتہارات شائع ہونے چاہئیں اور انہیں صرف یہ لکھ دینا چاہئے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی ادویات موجود ہیں دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہم سے فہرست منگوا لیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسی دوائیاں ہمیشہ ہسٹیریا والے منگوایا کرتے ہیں اور ان کے لئے کسی لمبے چوڑے اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف اتنا لکھنا ہی ان کے لئے کافی ہوتا ہے کہ ایک مسیحا پیدا ہو گیا ہے اس سے دوائی منگوا کر تجربہ کرو۔ ایسے لوگوں کو سچے مسیح کا ماننا تو مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر انہیں کہہ دیا جائے کہ فلاں مسیحائے وقت ہے جس کی دوائیں بڑی زود اثر ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف خط لکھ دیں گے۔ پس اس قسم کا مزاج رکھنے والوں کیلئے کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ایک اشارہ ہی کافی ہے وہ فوراً فہرست منگوالیں گے اور مشتہرین کی ادویات بِک جائیں گی لیکن میں نہیں سمجھتا دنیا میں یہی ایک مرض رہ گیا ہے جس کے علاج کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ بہتیرے ایسے امراض ہیں جن میں اکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں اور جن کے صحیح علاج کے وہ واقعی محتاج ہوتے ہیں مگر صحیح علاج انہیں میسر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں کھانسی کی عام شکایت پائی جاتی ہے، اسی طرح سِل دِق ایک عام مرض ہے جو ہندوستان میں پایا جاتا ہے، اسی طرح انتڑیوں کے کئی امراض ہیں جن میں لوگ مبتلا رہتے ہیں، بواسیر ایک ایسا مرض ہے جس کے کثرت سے مریض ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں بلکہ میں نے ڈاکٹروں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں ہندوستان میں ساٹھ فیصدی بواسیر کے مریض ہیں۔ اسی طرح کثرت سے مرض پیچش کے مریض ہمارے ہاں نظر آتے ہیں۔ چونکہ گھی لوگوں کو کم ملتا ہے اس لئے ان کی انتڑیوں میں چکنائی نہیں رہتی جس کی وجہ سے انتڑیوں میں مستقل طور پر خراش پیدا ہو جاتی ہے اور پیچش کا مرض مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ کام کی کثرت کی وجہ سے امراض مزمن ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ سُستی اور غفلت کی وجہ سے یعنی یا تو ایسا ہوتا ہے کہ بیماری محسوس بھی ہوتی ہے مگر چونکہ کام کی کثرت ہوتی ہے اس لئے انسان بیماری کی طرف توجہ نہیں کرتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری جڑ پکڑ جاتی ہے اور یا پھر سُستی کی وجہ سے انسان مرض کو بڑھا لیتا ہے۔ تیمار دار سرہانے بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے دوائی پی لو مگر مریض ہے کہ دوائی پینے کا نام ہی نہیں لیتا بہرحال کسی نہ کسی وجہ سے امراض مزمن ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسی امراض کے مجرب علاج دنیا کو بتلائے جائیں تو یقینا اس میں لوگوں کا فائدہ ہے۔ اسی طرح دانتوں کی کئی بیماریاں ہیں، جگر کی کئی بیماریاں ہیں، طحال کی کئی بیماریاں ہیں ان امراض کے اگر مجرب نسخے شائع کئے جائیں اور کسی مفید دوائی کا اشتہار بھی دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اسی طرح صنعت و حرفت کی کئی چیزیں ہیں جن کے اشتہارات الفضل میں شائع ہو سکتے ہیں مگر وہ چیزیں جن کا اشتہار لوگوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے اس طرف تو توجہ نہیں کی جاتی اور مخصوص امراض کی دوائیوں کے اشتہارات دھڑا دھڑ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں کے اشتہارات بھی مل سکتے ہیں بشرطیکہ یہ لوگ وہ طریق اختیار کریں جو اخبار نویس اختیار کیا کرتے ہیں۔

ہمارا مقابلہ اس وقت کسی ایک قوم یا ایک مُلک سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے ہے اس لئے ہمیں ہمیشہ یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ عیسائی کیا کر رہے ہیں، یہودی کیا کر رہے ہیں اور کس رنگ میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ کی تیاری کر رہے ہیں تا جماعت ان مفاسد کی اصلاح کرتی رہے جو ان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اس کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ روزانہ اخبارات کا مطالعہ کیا جائے اور ان میں سے ایسی خبریں نکال کر جلد سے جلد جماعت کے سامنے رکھی جائیں تا جماعت کو اپنے فرائض کا احساس رہے۔ اگر ’’الفضل‘‘ والے ان ہدایات کے مطابق کام کریں اور محنت اور توجہ سے کام لیں تو نہ صرف اخبار دلچسپ ہو جائے گا بلکہ جماعت کے دوستوں میں بھی مسابقت کی روح پیدا ہو جائے اور وہ کوشش کرتے رہیں کہ دوسری قوموں سے بڑھ کر رہیں۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے اخبارات خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کا مذاق علمی ہو جائے۔ میں نے دیکھا ہے جو لوگ سلسلہ کے اخبارات نہیں خریدتے ان کے بچے احمدیت کی تعلیم سے بالکل ناواقف رہتے ہیں۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اخبارات اور رسالے ضرور خریدیں بلکہ جو اَن پڑھ ہیں وہ بھی لیں اور کسی پڑھے لکھے سے روزانہ تھوڑا تھوڑا سنتے رہا کریں تا کہ ان کی علمی ترقی ہو اور سلسلہ کے حالات سے وہ باخبر رہیں۔‘‘

(الفضل 16 نومبر 1960ء)

پچھلا پڑھیں

اگر خدا کی رؤیت چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز کی خوب پابندی کرو

اگلا پڑھیں

’’دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا‘‘