• 20 اپریل, 2024

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو حاصل ہونے والی تائیدات الہٰیہ اور قبولیت دعا کے نظارے

ہم پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آغاز سے ہی دو بیماریاں لاحق تھیں۔ سردرد اور کثرت پیشاب۔ اس کے علاوہ کئی دفعہ آپ شدید بیمار ہوئے۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ ایک دفعہ تو سورہ یٰس پڑھ دی گئی۔ مگر آپ زندہ رہے نہ صرف زندہ رہے بلکہ لمبی عمر پا کر بیشمار لوگوں کو روحانی زندگی کا تحفہ دیا اور کئی مخالفین کی ہلاکت پیشگوئیوں کے مطابق دیکھ کر اس دنیا سے طبعی موت کے ساتھ رخصت ہوئے۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ ’’تیری صحت کا ہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے‘‘

بالکل شفا تھی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ میں خود بیمار ہوگیایہاں تک کہ قرب اجل سمجھ کر تین مرتبہ مجھے سورہ یٰس سنائی گئی مگر خداتعالیٰ نے میری دعا کو قبول فرما کر بغیر ذریعہ کسی دوا کے مجھے شفا بخشی اور جب میں صبح اٹھا تو بالکل شفا تھی ۔

(روحانی خزائن جلد22صفحہ90،89بقیہ حاشیہ)

گمشدہ قوتیں واپس آگئیں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
مجھے دماغی کمزوری اور دوران سر کی وجہ سے بہت سی ناطاقتی ہوگئی تھی یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اب میری حالت بالکل تالیف و تصنیف کے لائق نہیں رہی اور ایسی کمزوری تھی کہ گویا بدن میں روح نہیں تھی۔ اس حالت میں مجھے الہام ہوا تُرَدُّ اِلَیکَ … یعنی جوانی کے نور تیری طرف واپس کئے۔ بعد اس کے چند روز میں ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری گمشدہ قوتیں پھر واپس آتی جاتی ہیں اور تھوڑے دنوں کے بعد مجھ میں اس قدر طاقت ہوگئی کہ میں ہر روز دو دو جزو نو تالیف کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں اور نہ صرف لکھنا بلکہ سوچنا اور فکر کرنا جو نئی تالیف کے لئے ضروری ہے پورے طور پر میسر آگیا۔

(روحانی خزائن جلد22صفحہ 319)

اس واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اردو کلاس مورخہ 20 ستمبر 1998ء میں فرمایا:
حضرت مولاداد خان صاحب کی رجسٹر روایات میں ایک روایت درج ہے کہ میرے بھائی بہت بیمار تھے۔ ان کے بھائی غالباً اس وقت احمدی نہیں تھے۔ ان کو اسسٹنٹ سرجن بہاولپور کے پاس لے جایا گیا۔ اس نے کہا کوئی علاج نہ کرواؤ خواہ مخواہ پیسہ برباد کر رہے ہو اس کی موت یقینی ہے اس لئے اگر تمہیں سرجن کہتے ہیں کہ ٹھیک کر دیں گے۔ بیوقوف بنارہے ہیں۔ میں ہمدردی سے کہہ رہا ہوں اس کو لے جاؤ اس نے مرنا ہی مرنا ہے۔ اس کی حالت دن بدن گرتی چلی گئی کچھ بھی نہ رہا بیچارہ۔ تب حضرت مسیح موعود کو خط لکھا اور اس میں لکھا کہ یہ حال ہوگیا ہے اب تو کسی قسم کی امید ہی نہیں رہی۔

حضرت مسیح موعود ؑنے جواباً تحریر فرمایا:
فکرمت کرو اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔ ہم دعا کریں گے تم بھی دعا کرو ان شاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس خط کے دوسرے دن میں نے دیکھا کہ ان کا تپ جاتا رہا۔ میں نے کہا اب آپ کا تپ نہیں رہا اور میں نے خود سہارا دے کر اٹھایا۔ تو بھائی صاحب نے کہا میرا سینہ جو جلتا تھا اب ٹھنڈا پڑ گیا ہے اس پر میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو لکھا تھا اور آپ نے جواباً تحریر فرمایا تھا یہ سن کر ان کے منہ سے نکلا۔

’’ھن نئیں مردا (اب نہیں مرے گا)‘‘

اس کے بعد پھر وہ احمدی ہوگئے بیعت کرلی اور پھر آخر تک پوری صحت رہی۔

حالت روبصحت ہوگئی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ایسا اتفاق ہوا کہ نواب سردار محمد علی خان رئیس مالیرکوٹلہ کا لڑکا قادیان میں سخت بیمار ہوگیا اور آثار یاس اور نومیدی کے ظاہر ہوگئے۔ انہوں نے میری طرف دعا کے لئے التجا کی۔ میں نے اپنے بیت الدعا میں جا کر ان کے لئے دعا کی اور دعا کے بعد معلوم ہوا کہ گویا تقدیر مبرم ہے اور اس وقت دعا کرنا عبث ہے۔ تب میں نے کہا کہ یاالٰہی اگر دعا قبول نہیں ہوتی تو میں شفاعت کرتا ہوں کہ میرے لئے اس کو اچھا کردے۔ یہ لفظ میرے منہ سے نکل گئے مگر بعد میں میں بہت نادم ہوا کہ ایسا میں نے کیوں کہا اور ساتھ ہی مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی … یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی شفاعت کرے۔ میں اس وحی کو سن کر چپ ہوگیا اور ابھی ایک منٹ نہیں گزرا ہوگا کہ پھر یہ وحی الٰہی ہوئی کہ … یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی اور بعد میں پھر میں نے دعا پر زور دیا اور مجھے محسوس ہوا کہ اب یہ دعا خالی نہیں جائے گی۔ چنانچہ اسی دن بلکہ اسی وقت لڑکے کی حالت رو بصحت ہوگئی گویا وہ قبر میں سے نکلا… میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس قسم کے احیائے موتیٰ بہت سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آچکے ہیں۔

(روحانی خزائن جلد22صفحہ 88)

عبدالکریم کو شفا ہوئی

عبدالکریم ولد عبدالرحمن ساکن حیدرآباد دکن، مدرسہ قادیان میں زیرتعلیم تھا۔ اسے ایک دیوانہ کتے نے کاٹا۔ علاج کے لئے کسولی بھجوایا جہاں کتے کے کاٹنے کا علاج ہوتا تھا۔ پھر قادیان واپس آیا۔ اب اس بچے میں بھی دیوانگی کے آثار ظاہرہونے لگے۔ حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
’’تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بیقرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ ہوئی۔‘‘

ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ اب مرجائے گا۔ بورڈنگ ہاؤس سے اسے نکال دیا گیا۔ کسولی دوبارہ رابطہ کرکے ڈاکٹرز سے مشورہ مانگا گیا۔ انہوں نے بذریعہ تار کہا Sorry nothing can be done for Abdul Karim یعنی عبدالکریم کے لئے اب کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر حضرت مسیح موعود کی دعاؤں سے یہ روبصحت ہوا اور لمبی عمر پائی۔

(روحانی خزائن جلد18 صفحہ480)

آپ فرماتے ہیں:
’’میں کثرت قبولیت کا نشان دیا گیا ہوں۔کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کرسکے۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں 30 ہزار کے قریب قبول ہوچکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے۔‘‘‘

(روحانی خزائن جلد13 صفحہ 497)

پُرنور روحانی چہرہ سے شناخت

حضرت مسیح موعودؑ اپنا کشف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے۔ اس میں مجذوب (جس میں محبت الٰہی کاجذبہ ہے) میری طرف آرہا ہے۔ جب میرے پاس پہنچا تو اس نے یہ پڑھا

عشق الٰہی وسے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘

(البدر)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھنچی چلی آتی ہیں اور پاک فطرتیں خودبخود روبحق ہوتی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیرممکن ہے کہ ہر وقت ظہور کسی صاحب نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو‘‘

(روحانی خزائن جلد 1صفحہ646)

سینکڑوں لوگ اس نورانی مکھڑا کو دیکھ کر انوار ماموریت بھانپ گئے اور اس سے خود بھی نور لیا۔
جیسے حضرت مولانا حکیم نورالدین ۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا: یہی مرزا ہے اور اس پر سارا ہی قربان ہوجاؤں۔

پھر فرمایا:
’’دیکھو خداتعالیٰ کا مامور ہمارے سامنے موجود ہے اور خود اس مجلس میں موجود ہے۔ ہم اس کے چہرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گزرے جن کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرہ کو دیکھ سکتے پر انہیں یہ بات حاصل نہ ہوئی اور ہزاروں ہزار اس زمانہ کے بعد آئیں گے جو یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مامور کا چہرہ دیکھتے۔ پر ان کے واسطے یہ وقت پھر نہ آئے گا۔‘‘

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی گواہی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’چہرہ دیکھتے ہی مجھے انہوں نے قبول کرلیا اور کمال انشراح سے میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے پر ایمان لائے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد21صفحہ 329)

آپ نے خود فرمایا: ’’میں نے ایسا پُرنور حسن کبھی بھی نہیں دیکھا‘‘

ابوسعید عرب نے بیان کیا۔
میں نے ایک دفعہ ایک چینی کے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر پیش کی۔ وہ کچھ دیر دیکھتا رہا اور بولا یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے۔

پھر ابوسعید بیان کرتے ہیں میں نے دیگر بادشاہوں کی تصویریں پیش کیں۔ جنہیں وہ دیکھ کر خاموش رہا اور آپ کی تصویر کو دیکھ کر بار بار یہی کہتا یہ ہرگز جھوٹ بولنے والا نہیں۔

ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ ڈلہوزی پہاڑ پر جارہے تھے۔ راستے میں بارش نے آلیا۔ میرے ساتھی یکہ سے اتر کر ایک مکان کی طرف بڑھے کہ بارش سے بچاؤ ہو جائے۔ مالک مکان اور اس دوست میں تکرار ہو گئی اور وہ اندر جانے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ اس تکرار کو سن کر ذرا آگے بڑھے۔ مالک مکان کی نظر جونہی آپ پر پڑی فوراً سرنیچا کرلیا اور کہنے لگا کہ دراصل میری جوان بیٹی گھر میں ہے۔ ایک اجنبی کو میں اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ آپ بے شک اندر آجائیں۔

مردان سے ایک شخص حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی طب کا شہرہ سن کر قادیان آیا۔یہ شخص حضرت مسیح موعودؑ کا سخت ترین دشمن تھا۔اس شرط پر قادیان آیا کہ مرزا صاحب سے ملاقات نہ ہوگی۔ اس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدیہ محلہ سے باہر لیا۔ علاج سے افاقہ ہوا۔ جب واپس جانے لگا تو کسی دوست نے اسے کہا کہ مسجد تو دیکھ جاؤ۔ یہ اس شرط پر راضی ہوا کہ نماز کا وقت نہ ہو تاکہ میں مرزا صاحب کو دیکھ نہ سکوں۔ چنانچہ اس دوست کو ایسے وقت بیت الذکر لے جایا گیا جو نماز کا وقت نہ تھا۔ مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا جونہی یہ بیت الذکر میں داخل ہوا حضور کھڑکی کھول کر اچانک بیت الذکر آگئے۔

جب اس کی نظر حضور کے نورانی چہرہ پر پڑی وہ فوراً قدموں میں آگرا اور بیعت کرلی۔

کسی نے سچ کہا ہے:

’’فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے‘‘

20 مارچ 2012ء کے اخبار روزنامہ جنگ لندن میں تازہ تحقیق یہ شائع ہوئی کہ انسان کے اندر کی حرکات کے انسانی چہرے پر آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔

ماہرین نفسیات نے مختلف ملکوں کے ٹیلی ویژن پر آنے والے 52 افراد کے چہروں کا باریک بینی سے تجزیہ کیا۔ ان میں سے نصف یعنی 26 جھوٹ اور 26 سچ بول رہے تھے۔ جھوٹ بولنے والے 26 لوگوں کو سزائیں بھی ہوئیں۔

پیشگوئی مصلح موعود

حضرت مسیح موعودؑ نے دنیا کے تمام مذاہب کو یہ دعوت دی کہ تم میرے پاس قادیان آکر کچھ عرصہ رہو۔ اس دوران میرا خدا کی طرف سے ہونا آپ پر کھل جائے گا۔

اس پر قادیان کے آریہ ہندوؤں نے حضرت مسیح موعود سے درخواست کی کہ ہم جو آپ کے ہمسائے ہیں ایسا نشان دیکھنے کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس مطالبہ پر آپ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوئے اور ہوشیارپور جا کر عبادت اور دعاؤں میں منہمک ہوئے اور خداتعالیٰ سے نشان مانگا۔ 40 روز کی گریہ و زاری کے بعد خدا نے بشارت دی کہ
’’میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو تیرے لئے مبارک کردیا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد5 صفحہ 647)

اس کے بعد عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی خبر دی اور اس کی صفات بیان کیں۔ جسے آپ نے 20 فروری 1886ء کو شائع فرمایا۔ 3سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور 12 جنوری 1889ء کو یہ عظیم بیٹا آپ کے ہاں پیدا ہوا۔ جس کی 52 علامات اس پیشگوئی میں بیان ہوئی ہیں۔ اس عظیم شخص نے 51 سال سے زائد عرصہ جماعت کی قیادت کی۔

لیکھرام کی پیشگوئی کا پورا ہونا

حضرت مسیح موعود ؑنے 1885ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ دنیا کے تمام مذاہب کے رہنماؤں کو آسمانی بشارتوں کے تحت نشان نمائی کی دعوت دی۔ ان میں سے ایک پنڈت لیکھرام نے قادیان میں 2 ماہ تک قیام کرکے حضرت مسیح موعودؑ سے یہ مطالبہ کیا کہ
’’رب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو۔‘‘

(روحانی خزائن جلد12 صفحہ115)

پنڈت لیکھرام، آنحضور ﷺ کو تو بُرا بھلا کہتا ہی تھا۔ اس نے پیشگوئی مصلح موعود کی تضحیک کرتے ہوئے گستاخانہ اشتہار دیا۔ حضرت مسیح موعود نے جب اس کے متعلق دعا کی تو خدا نے خبر دی۔ ’’یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کومل کر رہے گا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد18 صفحہ563)

بعدازاں حضرت مسیح موعودؑ نے 20 فروری 1893ء سے 6 برس کے اندر اندر اس کے انجام کو پہنچنے کی پیشگوئی کی۔ حضور نے فارسی اشعار میں لکھا کہ خداتعالیٰ اس رذیل کیڑے کو خود جلا دے گا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا دشمن ہے۔ خبردار اے نادان اور گمراہ دشمن! تو محمد ﷺ کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر۔

لیکن یہ بدبخت دشمن اسلام اپنی اسلام دشمنی میں آگے بڑھتا چلا گیا اور بالآخر 20 فروری 1893ء سے 4سال ہی گزرے تھے کہ 5 مارچ 1897ء کو اپنے ہی مکان میں کسی نامعلوم شخص کے ہاتھوں قتل ہو کر انجام کو پہنچا۔ قاتل نہ پکڑا گیا۔

حضرت مسیح موعودؑ کو قتل کا مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ مگر تحقیق کے بعد آپ بری ٹھہرے۔

یہاں یہ معلومات دینا بھی مفید ہوگا اور تائیدات الٰہیہ کا ایک نظارہ ہی ہے کہ لیکھرام کی نسل اور نام و نشان ختم ہوگیا۔ جبکہ اس کے مقابل پر ’’اک سے ہزار ہوویں‘‘ کی پیشگوئی کی جسمانی لحاظ سے تکمیل کا وقت آپہنچا ہے۔ روحانی لحاظ سے تو حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد اب 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔

پیشگوئی مصلح موعود میں چونکہ ایک ایسے وجود کے آنے کی خبر تھی جو مصلح موعود کہلایا۔ جس کے مقابل پر آکر لیکھرام نے حضرت مسیح موعود کی نسل کے خاتمے کی پیشگوئی کروائی تھی۔ صرف حضرت مصلح موعود کی جسمانی اولاد 450 سے تجاوز کرچکی ہے اور لیکھرام ختم ہوچکاہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا … خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا … وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد5 صفحہ 648)

ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی

اس کی ہلاکت بھی حضرت مسیح موعودؑ کی دعا کی قبولیت اور صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے۔
ڈاکٹر ڈوئی بھی لیکھرام کی طرح ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کا شدید دشمن تھا اور اسلام کو بدنام کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتا تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے 8،اگست 1902ء کو مباہلہ کو چیلنج دیا۔
’’ڈوئی بار بار کہتا ہے کہ عنقریب یہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ بجز اس گروہ کے جو یسوع مسیح کی خدائی مانتا ہے۔ عیسائیوں کو چاہئے کہ وہ ڈوئی کو مان لیں تا ہلاک ہونے سے بچ جائیں۔‘‘

آپ نے لکھا کہ میں 70 برس کے قریب ہوں اور ڈوئی 50سال کا جوان ہے۔ لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا۔ اب خدائی فیصلہ ہوگا۔ اگر ڈوئی بھاگ بھی گیا تو یقینا سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔ ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کرنے سے احتراز کیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ مگر ڈوئی پر دباؤ بڑھنے لگا۔ اخباروں میں شور مچ گیا۔ بالآخر اس نے اپنے اخبار میں یوں لکھا۔
’’ہندوستان میں ایک بیوقوف مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ میں مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں اگر میں ان پر پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مارڈالوں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد22 صفحہ509)

خدا کی غیرت جوش میں آئی۔ یکم اکتوبر 1905ء کو اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ فالج کے دوسرے حملہ پر صیہون کو چھوڑ کر جزیرہ کی طرف چلا گیا۔ اس پر ناپاک، شرابی، کبابی تمباکو نوشی کے الزام لگے۔ عورتوں کا الزام بھی لگا۔ بیوی بچے چھوڑ گئے۔ جسم سے بُو آنے لگی۔ بے حد عدالتی کوششوں کے صیہون پر قبضہ واپس نہ لے سکا۔ واپسی پر صیہون میں کوئی آدمی استقبال کے لئے موجود نہ تھا۔ اس طرح وہ بڑے درد، دکھ اور حسرت کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر گیا۔

حضرت مسیح موعودؑ اس نشان کے پور اہونے پر فرماتے ہیں:
’’اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہوسکتا ہے۔ وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے۔ کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدودتھے اورامریکہ اور یورپ سے کسی شخص کو ان کے ظہور کی خبرنہ تھی۔ لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پور اہوا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا۔‘‘

یہ ڈوئی معمولی آدمی نہ تھا۔ ملبورن چرچ میں منسٹر کے عہدے پر نامزد ہوا اور 1878ء میں انٹرنیشنل ہیلنگ ایسوسی ایشن بنا کر شہرت پائی۔ یعنی بیماروں کو شفا دے گا۔ 1896ء میں کرسچن کیتھولک چرچ کی بنیاد ڈالی اور 1901ء میں صیہون (زائن) شہر کی بنیاد ڈالی۔ اس کا انگریزی اخبار Leavs of Healing تھا۔

دیکھو! خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گُم نام پا کے شہرہ عالم بنا دیا
اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا
میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی
اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا
اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا

قاضی، حکم، بادشاہ

اب میں آخر پر ایک ایسی تائید الٰہیہ کے نظارے کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جو آج بھی ہم دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو جنوری 1907ء میں یہ خبر دی گئی تھی کہ
’’شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور 2 آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ دوسرے نے کہا کہ ’’ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے‘‘ فرمایا: قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رد کرے۔‘‘

(بدر 10 جنوری 1907ء)

اس خبر کے مطابق آج ہمارے امام ہمام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہی بادشاہ اور حکم ہیں۔ جو اس وقت 212 ممالک کی سلطانی کر رہے ہیں اور اس شجر خلافت کی شاخوں کے نیچے 25کروڑ طیور بسیرا کرتے ہیں۔ جو اس بادشاہ کا نورانی چہرہ دیکھنے اور اس کی زندگی بخش اور دل نواز آواز کو سننے کے لئے ہر وقت بیتاب رہتے ہیں۔ ہاں ہاں یہ روحانی پرندے ہر جمعہ کو اپنے پیارے امام کے السلام علیکم یعنی Live سلامتی وصول کرکے اس کا جواب دینے کے منتظر نظر آتے ہیں۔ 1907ء کا سال کیسا مبارک سال تھا کہ اس کے آغاز پر بادشاہ اور قاضی کے آنے کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور اسی سال کے آخر پر دسمبر 1907ء میں اِنّی مَعَکَ یَامَسرُورُ کا نعرہ بلند کرکے اس پیشگوئی اور خبر کی تائید کردی۔ جس کا نظارہ آج ہم ہمہ جہت کررہے ہیں اور ائمہ اہل بیت کی اس خبر کی تائید ہوتی دیکھتے ہیں۔
’’دنیا کی تمام اقوام میں نداء بلند ہوگی جو مشرق و مغرب میں ہر شخص اپنی زبان میں سنے گا۔ ساری دنیا اس کی زیارت کرے گی۔ مشرق کے مومن، مغرب کے مومنین کو اور مغرب کے مومن، مشرق کے مومنین کو دیکھ سکیں گے۔

یہی وہ نمائندہ مسیح و مہدی ہے جو سُرَّ مَن رَأَی کے غار سے جلوہ گر ہو رہا ہے یعنی جو بھی اس برگزیدہ کو دیکھے گا وہ بھی مسرور ہو گا۔

ہاں یہ اپنی ذات میں مسرور اور دوسروں کو مسرور کرنے والا ایک غار میں چھپا بیٹھا تھا۔ نہ کبھی منظر عام پر آیا نہ کبھی تقریر کی۔ انتخاب کے وقت بیت الفضل کے مشرقی جانب سرجھکائے اس جگہ پر بیٹھا تھا۔ جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒاپنے جوتے اتار کر خدا کے گھر میں اپنا قدم رکھتے تھے۔

یہ مقام یا اس اعلیٰ مقام سے اطاعت اور وفا کے تعلق کو استوار کرنے کے لئے عاجزی اپنانی پڑتی ہے۔ حضرت سیدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ لکھتی ہیں خلیفۃ المسیح کے فون کے وقت بھی جھک جایا کرتے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ جب ناظر اعلیٰ تھے تو ہر جمعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکا Live خطبہ سننے اور امام وقت کی السلام علیکم کی صورت میں سلامتی وصول کرنے کے لئے ٹی وی کے سامنے باوضو ہو کر ایسے بیٹھ جاتے جیسے کسی بیت الذکر میں خطبہ جمعہ میں خطیب کے سامنے بیٹھا جاتا ہے اور آج اس کی طرف سے Live سلامتی کا ہم میں سے ہر ایک کو انتظار رہتا ہے۔ یہ سلامتی اسی طرح ہمارے لئے سلامتی بن سکتی ہے کہ ہم اس کی آواز پر لبیک کہیں۔ اللہ والے بن جائیں۔ یہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نمائندہ حضرت مسیح موعود کے توسط سے ہم سے مخاطب ہوتا ہے۔

آئیں! سَمِعنَا وَ اَطَعنَا کا عزم کرکے اس کی پُکار پر کان دھریں نمازی بن جائیں۔ قرآن پڑھ کر عمل کرنے والے ہوں۔ اپنے اعمال کو دینی بنالیں۔

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

اگر خدا کی رؤیت چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز کی خوب پابندی کرو

اگلا پڑھیں

’’دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا‘‘