• 20 اپریل, 2024

(12؍نومبر 2021ء) This week with Huzur

This week with Huzur
12؍نومبر 2021ء

اس ہفتے کینیڈا اور فِن لینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ورچوئل ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

پہلی ملاقات

نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کینیڈا کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ورچوئل ملاقات

اس ہفتے نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کینیڈا کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔ اس آفیشل میٹنگ کے دوران قائد صاحب تربیت سے گفتگو کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ’’دعا کے بغیر تو کام میں برکت نہیں پڑ سکتی۔ اگر اُن کا خیال ہے کہ اُن کی اپنی لیاقت کی وجہ سے، اُن کے اپنے علم کی وجہ سے، اُن کی اپنی محنت کی وجہ سے کام میں کوئی برکت پڑ جائے گی تو وہ نہیں پڑ سکتی جب تک دعا ساتھ نہ ہو۔ اس لیے اچھی طرح ان کے ذہنوں میں یہ چیزیں ڈالیں‘‘ اس پر قائد صاحب تربیت نے عرض کیا۔ جی حضور ہم لوگ منتظمین اور ریجنل ناظمین کے ساتھ بھی باقاعدہ میٹنگز وغیرہ کرتے ہیں۔ حضور نے فرمایا۔ ’’جب تک نتیجہ سامنے نہیں آتا میٹنگز کا کوئی فائدہ نہیں۔ نماز تو سو فیصد ہونی چاہیے۔ ایک عام مسلمان بھی 100 فیصد نماز پڑھنے والا ہونا چاہیے کجا یہ کہ عاملہ کے ممبران یہ کہہ دیں کہ ہم نے اتنے فیصد نماز پڑھی یا رزلٹ اچھا ہو گیا۔ یہ تو اچھا رزلٹ نہیں ہے۔ ایک دفعہ جب یو کے کا اجتماع ہو رہا تھا آپ لوگ یہاں آئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ اُس اجتماع پر آخری دن جو میرا خطاب تھا۔ اُس وقت بھی میں نے آپ لوگوں کو توجہ دلائی تھی کہ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ یاد ہے؟ جس پر قائد صاحب تربیت نے کہا کہ جی حضور2015 میں۔ یا د ہے۔ حضور نے فرمایا۔ اُس تقریر کو دوبارہ سن لیں۔ موصوف نے جواب دیا۔ جی حضور بہتر ہے نیز دعا کی درخواست ہے کیونکہ آگے اب کووِڈ کے کچھ حالات بہتر ہو رہے ہیں تو لوگوں کو واپس مسجد بھی بُلانا ہے۔ جس پر حضور نے فرمایا۔ اللہ فضل کرے۔

ایک ناصر نے عرض کیا کہ حضور! بعض دوستوں کو جب کوئی ذمہ داری دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ معذرت کر لیتے ہیں؟

حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا: آپ ذمہ داری دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ معذرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی تو آپ کے لیے چیلنج ہے کہ کس کی کوشش کامیاب ہوتی ہے؟ اس کے بعد فرمایا: بات یہ ہے کہ پہلے دیکھا کریں کہ انسان ذمہ داری اُٹھانے ولا ہے بھی کہ نہیں۔ وہاں قحط الرجال تو نہیں پڑا ہو ا۔ کینڈا میں لوگوں کی کمی تو نہیں ہے۔ لوگ تلاش کریں۔ بعض لوگ بڑی باتیں کرنے والے ہیں تو ا ٓپ سمجھتے ہیں کہ ان کو ذمہ داری دوجبکہ بعض لوگ صرف باتیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے کام پر تنقید کرنے والے اور مشورے دینے والے۔ اس کو ایسے ہونا چاہیے اس کو ایسے ہونا چاہیے۔ جب آپ ان کو کہو کہ سامنے آؤ تم کام کرو تو کہتے ہیں کہ نہیں نہیں میرے پاس وقت نہیں کہ میں اس کام کو پورا کر سکوں۔ تو اُن لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے صرف باتیں کرنی ہوتی ہیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہاں نئے نئے لوگوں کو تلاش کریں نئے آنیوالوے تلاش کریں۔ یہاں بھی میں نے دیکھا ہے آپ نے بعض صف ِدوم کے انصار لیے ہوئے ہیں۔ اگر بڑی عمر کے نہیں آتے تو صف دوم کے انصار کو کہیں کہ وہ آگے آئیں اور ان سے کام لیں۔ آپ کی سیکنڈ لائن بھی تیار ہوجائے گی اور ان کی ٹریننگ بھی ہو جائے گی۔ اسی طرح آپ نے جو ایڈیشنل لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ بہت سارے نائبین بھی لگائے جا سکتے ہیں تو اس طرح بھی تربیت ہو جائے گی اور آئندہ آپ کو کام کرنے والے لو گ بھی مل جائیں گے۔ آپ کسی سے زبردستی کام تو نہیں لے سکتے۔ آپ کا معیار کیا ہے؟ کیوں آپ ان کو زبردستی دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ جس کی خواہش ہی نہیں کہ وہ دین کی خدمت کرے اس سے آپ زبرستی خدمت نہیں لے سکتے۔ اس لیے ایسے لوگ تلاش کریں جو واقعی دین کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہوں۔ صرف باتیں کرنے والے نہ ہوں۔ آپ لوگ باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی باتوں سے متاثر نہ ہوا کریں۔ ان میں سے ہر شخص کا اچھی طرح گہرائی میں جا کر مطالعہ کیا کریں۔ اور پھر دیکھیں کہ ان سے کس قسم کا کام لیا جا سکتا ہےاور پھر کام لینے کی کوشش کریں۔

ایک ناصر نے عرض کیا کہ حضور! ہمیں ایک چیلنج ہوتا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں سے صف دوم میں جو نئے انصار آتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے لیے سپورٹس ٹیم میں جیسے کہ وہ خدام الاحمدیہ میں کھیلتے آرہے ہیں ان کے لیے اس طرح کی کوئی (Activity) کی جائے۔ حضور! آپ کی اس بارے میں کیا ہدایت ہے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: انتظام ہو نا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ آتے ہیں اور کھیلنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے تو انصار اللہ کا کام ہے کہ ان کو گراؤنڈ مہیا کرے جس طرح خدام الاحمدیہ انتظام کرتی ہے۔ آپ کا صحت ِجسمانی اِسی لیے بنایا گیا ہے۔ آپ قائد ذہانت و صحت ِجسمانی ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی حضور۔ اس پر حضور انور نے فرمایا۔ بس یہی تو سارا مسئلہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہی فرمایا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی ایک شخص جب تک خادم ہوتا ہے بڑا اچھا ایکٹو ہوتا ہےکام کر رہا ہوتا ہےاور جونہی وہ چالیس سال کا ہوتا ہے انصار اللہ میں داخل ہوتا ہے اس میں سستی پید اہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر وہ چاہے بھی کہ سستی پیدا نہ ہو تو پھر بھی انصاراللہ کے جو بڈھے بیٹھے ہوئے ہیں وہ سست کرنےمیں بڑا کردار ادا کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب 48 سال کوئی عمر تو نہیں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ میرا کھیلنے کو دل نہیں کرتا۔ لوگ تو 55 ساٹھ سال تک کچھ نہ کچھ کھیلتے رہتے ہیں۔ فٹبال نہیں تو بیڈ منٹن کھیل لیں، وہ نہیں تو سائیکلنگ کر لیں، واک کر لیں یا jogging کریں، صفِ دوم اسی لیے بنائی گئی تھی۔ پس ان کی فٹ بال یادوسری کھیلوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو کھلوائیں۔ ان کے لیے دوسری Activities کا سامان مہیا کریں۔ یہ تو صدر صاحب صف دوم کا بھی کام ہے۔ مولانا صاحب آپ بھی کچھ ہمت کریں اور ان کو مہیا کریں۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ ان کے لیے سہولتیں مہیا کرنا کہ وہ کھیلیں۔ کیوں آپ لوگ سست بناتے ہیں۔ ابھی تو آپ لوگ جوان ہیں۔ آپ نے یہ سوچ لیا کہ آپ چالیس سال کہ ہو گئے ہیں اور بڈھے ہو گئے۔ صف دوم اس لیے بنائی گئی تھی کہ آپ بو ڑھے نہیں ہوئے۔ 55 ساٹھ تک تو آپ کوئی بوڑھے نہیں۔ 55 سال کے بعد سوچا جائے گا کہ آپ بوڑھے ہوئے بھی ہیں کہ نہیں۔ تو جوانوں کو جوان بننا ہے۔ تو اس طرح بنیں کہ اپنی Activities کو تازہ رکھیں۔ جو خدام الاحمدیہ میں کرتے آئے ہیں ان کو جاری رکھیں۔ اس پر جواب دیا گیا کہ حضور ہم سائیکل سفر کرتے ہیں۔ حضور نے فرمایا:سائیکل سفر کے علاوہ بھی تو کام ہیں۔ سائیکل سفر تو ایک آئٹم تھاباقی کام بھی توہیں۔ کھیلیں وغیرہ مہیا کریں،گراؤنڈ مہیا کریں۔ انصار اللہ کا اتنا بجٹ توہے کہ اس میں سے مہیا کرسکیں۔ پس ان کاموں کے لیے بھی کچھ بجٹ مختص کریں۔

دوسری ملاقات

نیشنل مجلس عاملہ فِن لینڈ کی حضور انور ایدہ اللہ سے ورچوئل ملاقات

km5

اگلے دن فن لینڈ جماعت کو حضور انور ایدہ اللہ سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔ جس میں ممبرانِ عاملہ کو مختلف ایشوز پر حضور انور ایدہ اللہ سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔

ایک ممبر عاملہ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ حضور میرا نام ارسلان اعجاز ہے اور بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا:اچھا۔ ماشاءاللہ اس کے بعد فرمایا کہ وصایا میں لوگ حصہ آمد کا فارم صحیح فِل کرتے ہیں؟جس پر موصوف نے جواب دیا کہ حضور اس میں کچھ confusion ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا لگتا ہے کہ چندہ زیادہ ہونا چایئے۔ بجٹ صحیح نہیں ہے۔ انہیں اس طرف توجہ بھی دلائی جاتی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :انہیں کہو کہ اگر وصیت کی ہے تو سچ بول کر اپنی آمد پر چندہ اد اکرو۔ اگر مجبوری ہے چندہ صحیح طرح اد انہیں کر سکتے تو وصیت منسوخ کروا لو پھر بعد میں جب حالات بہتر ہوں گے تو وصیت کر لینا۔ وصیت کرنے سے زیادہ سچائی ضروری ہے۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا۔ اور جو چندہ عام دینے والے ہیں وہ؟ اس پر سیکرٹری صاحب مال نے عرض کیا کہ حضور! چندہ عام دینے والوں میں کچھ کمزوری ہے۔ ان میں سے اکثر نہ کمانے والے افراد ہیں اور اکثر کا یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ہمیں بہت تھوڑا سا وظیفہ ملتا ہے جس میں پورا نہیں ہوتا۔ تو اس حوالے سے چندوں میں تھوڑی کمزوری ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر رخصت لے لیں۔ جتنا دے سکتے ہیں بیشک اتنا ہی د یں لیکن اپنی آمد کم نہ لکھوائیں۔ کہہ دیں کہ ہماری جو آمد ہے ہم اس کے مطابق چندہ نہیں دے سکتےپس ہمیں کم شرح سے چندہ دینے کی اجازت دی جائے۔ تو اجازت لے لیں۔ میں ہر ایک کو اجازت دے دیا کرتا ہوں۔ لوگوں کو سچائی پر قائم کریں۔ زبردستی نہ کریں۔ یہ کوئی ٹیکس تو نہیں ہے۔ جن کی مجبوریاں ہیں ان کی مجبوری کو ہم مان لیتے ہیں لیکن پھر وہ یہ لکھیں کہ ہمارے لیے ان حالات میں آمد کے مطابق چندہ دینا مشکل ہے پس ہمیں چھوٹ دی جائے کہ ہم اس کے مطابق اتنی شرح سے چندہ دے دیں۔ تو لے لیا کریں۔

ایک اور ممبر نے سوال کیا کہ :حضور، بڑھتے ہوئے عائلی مسائل کو کس طرح سے بہتر کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا:میری ایک کتاب ہے ’’عائلی مسائل اور ان کا حل‘‘ اس کو پڑھیں۔ اور اس کے اقتباس نکال کے گھروں میں دیں۔ دوسرے یہ کہ صبر اور حوصلہ۔ مردوں میں بھی صبر کی کمی ہےاور عورتوں میں بھی صبر کی کمی ہے۔ ذرا سی بات ہوتی اور انتہا پہ پہنچ جاتی ہے تو مردوں کو بھی نرمی اور پیار کا سلوک کرنا چاہیے اور عورتوں میں بھی برداشت پیدا ہونی چاہیے۔ اس لیے چاہیے کہ سیکرٹری تربیت اور اصلاحی کمیٹی مختلف وقتوں میں مختلف پروگرام بناتے رہیں تا کہ مردوں اور عورتوں دونوں کی ٹریننگ ہوتی رہے۔ امور عامہ کے پاس تو تب آتے ہیں جب معاملے بگڑتے ہیں۔ اگر اس سے پہلے پہلے سیکرٹری تربیت کو فعال کر دیں اور اگر آپ کے سیکرٹری تربیت اچھا کام کرنے والے ہیں تو آپ کے پاس مسائل کم آئیں گے اور حل ہو جائیں گے۔

ایک ممبر نے سوال کیا کہ حضور میرا سوال تعلیم کے نظام کے متعلق ہے؟ یہاں سکولوں میں اسلام کی تعلیم بطور مضمون سکھائی جاتی ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے کوئی نصاب مقرر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اساتذہ اپنی مرضی سےاسلام کے غلط عقائد جیسے کہ قرآن مجید میں تحریف ہو چکی ہے اور اس طرح کی چیزیں معصوم بچوں کو سکھاتے ہیں۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:۔ آپ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو لکھیں کہ یہ غلط ہے۔ اسلام یہ نہیں ہے۔ آپ غلط پڑھا رہے ہیں۔ آپ کی وہاں جماعت قائم ہے اب تک تو آپ کا منسٹری آف ایجوکیشن میں اتنا اثر و رسوخ ہو جانا چاہیے۔ آپ ان کو بھی اور اخباروں میں بھی لکھیں کہ بچوں کو جوپڑھایا جا رہا ہے یہ غلط طریقے سے پڑھایا جا رہا ہے اور اصل اسلام کی تعریف یہ ہے اور یہ ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم اپنی اصلی حالت میں برقرار ہےاور اب تو ان کے اپنے بہت سارے لوگوں کی بھی گواہیاں پیش ہیں۔ برمنگھم میں بھی ان کے ہاں ایک نمائش ہوئی تھی جس میں انہوں نے ثابت کیا اور دکھایا۔ اور جگہوں پر بھی آرٹیکل آ چکے ہیں۔ غیروں کے بھی آ چکے ہیں۔ اور ثابت کر سکتے ہیں اور یہ قرآن مجید کا اپنا دعویٰ بھی ہے۔ تو اسکے لیے آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے اور اگروہ کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں؟اب جرمنی میں انہوں نے کوشش کی ہے تو وہاں انہوں نے کہا کہ اچھا پھر ہمیں سکولوں میں پڑھانے کے لیے سلیبس بنا نا ہے تو ہمیں بتائیں۔ مختلف فرقوں نے اپنے اپنے سلیبس بھیجے لیکن جماعت احمدیہ نے بھی اپنا سکول کے لیے اسلام کی تعلیم کا بنیادی سلیبس بھیجا تھا۔ انہوں نے اس کو قبول کر لیا تھا۔ اور وہی پڑھایا جاتا ہے۔ اور میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ ہم نے کوئی اختلافی مسئلہ نہیں چھیڑنا۔ اسلام کی تعلیم، بنیادی تعلیم، بنیادی عقائد، ارکان اسلام،ارکان ایمان۔ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کا مقام اور حدیثیں جو مشہور ہیں۔ اس قسم کی باتیں اور جومستند تاریخ ہے جہاں کسی فرقے کا کوئی بیان نہ ہو۔ یہ چیزیں دی جائیں۔ اور انہوں نے پھر اسے قبول بھی کیا۔ اور وہ ہر ایک کو منظور ہوا۔ اور پھر اس کے بعد قبول ہو گیا۔ اسی طرح آپ لوگ بھی کو شش کریں۔ کیوں وہاں کوشش نہیں کرتے؟اور پہلی بات تو یہ ہے کہ اخباروں میں لکھیں اور بار بار مختلف ا حمدیوں کی طرف سے لکھا جائےکہ اس طرح سے یہ پڑھایا جا رہا ہے اور اس طرح تو آپ غلط تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں پتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ ہم سے تو پو چھا نہیں جا تا۔ آپ لوگ کس طرح یہ پروگرام بنا رہے ہیں؟تو اس پر کوشش کرنی پڑے گی۔ ا سکے لیے پوری طرح مہم چلائیں۔ اس پر سیکرٹری صاحب تعلیم و تربیت نے جواب دیا کہ جی حضور۔ اس سلسے میں ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا ہے۔ اب ان شاء اللہ اخباروں میں بھی لکھیں گے۔ حضور نے فرمایا:ہاں اخباروں میں بھی لکھیں۔ بار با ر لکھیں۔ شور شُور مچاؤ۔ احتجاج سننے کی ان کو عادت ہے۔ جب شور مچائیں گے اور بچوں کی طر ف سے بھی اور والدین کی طرف سے بھی لکھا جائے گا۔ جتنا بھی ان کا مختلف میڈیا ہےجب ان کو بے شمار خط آئیں گے تو خود ہی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پریشرائز ہو جائے گا۔

ایک ممبر نے سوال کیا کہ حضور! تبلیغی حوالہ سے ایک سوال تھا کہ جب مختلف پروگرامز کے ذریعےرابطے بنتے ہیں۔ تو لوگوں کی طبعیت میں کم گوئی کی وجہ سے رابطے قائم رکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ تو اس کے متعلق حضور کی کیا رہنمائی ہے کہ کس طرح رابطے قائم رکھے جائیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: کون کم گو ہے؟سننے والا یا بولنے والا؟ جس پر مو صوف نے جواب دیا کہ حضور! جو Finnish عوام ہے۔ ان کی طبعیت میں کافی shyness ہے۔ یہ اپنے آپ کو جلدی open نہیں کرتے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:ٹھیک ہے پھر ان سے ذاتی رابطے بنائیں، دوستیاں بنائیں اور تعلق رکھیں۔ اپنے ہمسایوں سے تعلق رکھیں۔ آپ کے ہمسایوں کو پتا لگے۔ اس پر مختلف سیمینار کریں اور ان کو بلائیں۔ چھوٹے موٹے پیمانے پر سیمینار کریں تا کہ مہینے میں،دو مہینے میں،تین مہینے میں ایک سیمینار ہو جائے۔ interfaith پروگرام ہو جائے یا کوئی اس طرح کی چیز ہو جائے۔ وہاں ان کو بلائیں اور یہ آپ کی باتیں سنیں۔ جب سنیں گے تو خود ہی سوال کریں گے۔ آہستہ آہستہ تعارف ہو جائے گا۔ پھر اخباروں میں خط لکھیں۔ لکھیں کہ اسلام کیا چیز ہے؟ اسلام کی تعلیم کیا چیز ہے؟امن کیا چیز ہے ؟ امن دنیا میں کس طرح قا ئم ہو سکتا ہے؟ اسلام کا امن کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟اور پھر حالات ِ حاضرہ کے جو موجودہ ایشوز ہیں ان پر اصل رائے کیا ہونی چاہیے؟ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری کیارائے ہے ؟وہ لکھیں تو پھر ان کو توجہ پیدا ہو گی کہ یہ لوگ صرف پرانی باتیں ہی نہیں کر رہے۔ دقیانوسی لوگوں کی طرح صرف مذہب کی بات نہیں کر رہے۔ بلکہ حالات حاضرہ پر بھی بات کر کے ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں تو پھر وہ آہستہ آہستہ کھلیں گے۔ اورپھر ان شاء اللہ واقفیت پیدا ہو جائے گی۔ Finnish لوگ بھی جن کے ساتھ ان کی دوستیاں ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ ان کی ذاتی دوستی ہے۔ بعضوں کو میں جانتا ہوں جن کے ساتھ ان کی ذاتی دوستیاں ہیں ان سے تو بڑے کھل کر بات کرتے ہیں۔ وہ تو ذاتی تعلق بنانے کی بھی بات ہے۔ لیکن ذاتی تعلق بنانے کے علاوہ مجموعی طور پر آپ کو اسلام کی ایک تصویر دینی پڑے گی اور وہ سوشل میڈیا اور اخبار اور مختلف طریقوں سے دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر gathering اور سیمینار اور اس طرح کی باتیں کریں۔

ایک ممبر نے سوال کیا کہ حضور لوگوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب پڑھنے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: مختلف موضوعات پرچھوٹے چھوٹے اقتباس نکال کر ان کو ٹائپ کر کے پرنٹ نکال کے لوگوں میں دیں۔ ان لوگوں کو جنہیں پڑھنے کا شوق ہی نہیں ایک کتاب کو لگاتار پڑھنا مشکل ہے۔ پس اگر اقتباسات دیں گے تو کچھ نہ کچھ اس موضوع پر توجہ پیدا ہوجائے گی۔ انگلش میں،اردو میں،ٹائپ کر کے گھروں میں دیا کریں۔ اس سے کم از کم اگر کتابیں نہیں تو اقتباسات ہی پڑھنا شروع کر دیں گے۔ الفضل میں جو اقتباسا ت آتے ہیں۔ روزنامہ الفضل اور انٹرنیشنل الفضل کے شروع میں ہی پہلے صفحہ پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے جواقتباسات آتے ہیں وہی نکال کے ان کو دے دیا کریں۔ اس سے کم از کم کچھ نہ کچھ تو لوگوں کو پتا لگ جائے گا۔ باقی آج کل پڑھنے کا رجحان ہی نہیں ہے آج کل تو رجحان یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دیکھ لو سن لو۔ 30 سیکنڈ کے اندر اندر جو بات کان میں پڑ جائے وہ دیکھ لو یا بیٹھ کر ٹی وی پر پروگرام دیکھ لو۔ اس کی طرف رجحان ہو گیا ہے۔ پھر آڈیو کتابیں بنائیں۔ وہ بنا کر دیں تاکہ سفر کرتے ہوئے،ٹیکسی چلاتے ہوئے،اِدھر اُدھر جاتے ہوئے کانوں میں لگا لیں اورسُن لیں۔ وہ بھی دلچسپی کا سامان ہو جاتا ہے۔ عموماَ ویسے ہی پڑھنے کا رواج کم ہو گیا ہے ا س لیےایک تو مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے اقتباسات لیں۔ آج کل کے جو موضوع ہیں نمازوں کی روح،خدا کی وحدانیت،اللہ تعالیٰ کا وجود ہے کہ نہیں ہے۔ Existence of Allah اور اس کے علاوہ بہت سارے موضوع ہیں تو ان کے اوپر اقتباس نکال کے وہ پرنٹ لے کر لوگوں کو بھیجیں۔ پھر آڈیوبنا کے بھیجیں۔ کم از کم اس طرح سے کچھ نہ کچھ تو لوگوں کے کان میں آواز پڑے گی۔ کتابیں پڑھنے کا اب رواج نہیں رہا۔ کتابیں سننے کا رواج ہے۔ کتابیں آڈیو Books بنا دیں۔ اسی لیے alislam نے بھی بہت سی ساری آڈیو کتابیں بنائی ہوئی ہیں۔ ان کو بھی دیکھیں۔ ڈاؤن لوڈ کرکے سن سکتے ہیں یا ریکارڈ کر کے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔

ایک عاملہ ممبر نے یہ سوال کیا کہ معاشرہ میں پائی جانےوالی وہ معاشرتی اور اخلاقی سر گرمیاں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان کا جواب کس طرح دینا چاہیے؟

اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: لوگوں سے بیان کرنے سے پہلے آپ اپنے گھروں میں بیان کریں۔ پہلے تو بچوں کے ساتھ اتنی دوستی رکھیں کہ بچے جب سکول سے آئیں تو وہ بتائیں کہ ا ٓج ہمیں سکول میں اس بارے میں کیا پڑھایا ہے؟اور پھر آپ اس کو بتائیں کہ تمہاری عمر کیا ہےاور بعض باتیں جو ابھی تمہیں بتائی جا رہی ہیں تمہیں تو اس کا شعور بھی نہیں ہےاور تمہیں سمجھ بھی نہیں آسکتی کہ کیا چیز ہے اور کیا چیز نہیں ہے؟جب تم بالغ ہو گے تمہیں سمجھ آئے گی۔ پھر تم دوبارہ سوال پوچھنا پھر تمہیں سمجھایا جائے گا۔ اور پھر جو سوال تمہارے ذہن میں اُٹھیں ان کے جواب بھی تمہیں مل جائیں گے۔ پھر مذہب اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اگر پانچ سال،آٹھ سال،دس سال،بارہ سال اور پندرہ سال کا بچہ ہے تو بچوں کو اُن کے لیول پر رکھ کر بے تکلف ہو کر باتیں کرنی ہوں گی۔ اصل فکر یہ کرنی چاہیے کہ دوسروں کی اصلاح کرتے کرتے کہیں آپ اپنے بچوں کو ضائع نہ کر دیں۔

ایک عاملہ ممبر نے سوال کیا کہ حضور !بعض دفعہ بعض افراد قرآن کریم صحیح تلفظ سے ادا نہ کرنے کا عذر یہ بیان کرتے ہیں کہ عربی زبان ہماری مادری زبان نہیں ہے تو انہیں اس طرف کیسے توجہ دلائی جا سکتی ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا:ان سے کہو کہ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہو عربی آپ کی مادری زبان نہیں ہےاس لیے ہم آپ کی کلاسیں شروع کروا دیتے ہیں تا کہ آپ کا تلفظ ٹھیک ہو جائے۔ دیکھو ایک چیز ہے گلے سے آوزیں نکالنا ”ْقاف،ضواد،دال“ وغیرہ۔ حافظوں کی طرح وہ کوئی بھی نہیں پڑھ سکتا۔ میں بھی نہیں پڑھ سکتا۔ صرف یہ ہے کہ صحیح تلفظ زبر،زیر،پیش،مد وغیرہ جو ہے نا اس کی ادئیگی صحیح ہونی چاہیے۔ یہاں قرات کا سوال نہیں ہے۔ ترتیل اور تجوید سکھانے کا سوال ہے۔ وہ آپ نے سکھانی ہے۔ وہ سکھائیں۔

(ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 دسمبر 2021