• 20 اپریل, 2024

فقہی کارنر

مہر کی مقدار

مہر کے متعلق ایک شخص نے پوچھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہئے؟ فرمایا
تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی ۔ میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آ پڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آ مادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقررشدہ نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون۔

(بدر 8 مئی 1903ء صفحہ 123)

(داؤد احمد عابد ۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2022