• 20 اپریل, 2024

ایڈیٹر کے نام خطوط

  • مکرم رفیع رضا قریشی لکھتے ہیں:

آپ کی جانب سے باقاعدگی سے اس پرچہ کا ملنا ہی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔ اس بابرکت روز نامہ الفضل سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔ شام 4 بجے کے قریب اخبار کا ملنا اور باری باری سب کا مطالعہ کرنا روز کا معمول تھا۔ گو اخبار کے ابتدائی دور میں گول بازار،منڈی کی دوکانوں پر بھی پڑھنے کو مل جایا کرتا تھا۔پھر روزگار کے سلسلہ مجھے دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا تو کچھ عرصہ تعطل کے بعد محترم حافظ صدیق احمد کے توسط سے روز نامہ الفضل دوبارہ لگوالیا ۔اکثر اپنے دفتر بھی لے جاتاجہاں غیراز جماعت دوست احباب بھی استفادہ کرتے۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے الفضل سے بہت سی باتیں سمجھنے اور حقیقی اسلام احمدیت کی تعلیم کو پڑھنے کا موقع ملتا رہا۔اللہ تعالی کا بے حد شکر اور احسان ہے۔آج آن لائن ہونے کی بدولت یہ اخبار پڑھنے اور عمل کرنے کاموقع ملتا رہتا ہے۔ دعا ہے کہ یہ اخبار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقاصد عالیہ کو پورا کرنے میں معاون ہو اور پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت اور رہنمائی میں یہ اخبار ہر احمدی اور بنی نوع انسانوں کےلئے مشعل راہ بنتا چلا جائے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو مقبول خدمت دین کی توفیق عطا کرتا چلا جائے۔ آمین

  • مکرم ابن ایف آر بسمل لکھتے ہیں:

روزنامہ الفضل میں مکرم منور علی شاہد (جرمنی) کے مضامین دیکھ کر لاہور کی پرانی یادیں ابھر کر سامنے آگئیں۔ جب ہم 1962ء میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو چوہدری اسد اللہ خان صاحب (امیر جماعت لاہور) تھے ۔جمعہ ہم دارالذکر میں پڑھتے تھے ان کے خطبات ایسے پر زور ہوتے تھے کہ خود بھی رو پڑتے اور سامعین کو بھی رلا دیتے تھے۔ مربی شیخ عبد القادرصاحب سابق سوداگرمل تھے جو دہلی گیٹ والی مسجد میں جمعہ پڑھاتے تھے۔ شروع میں قائد (خدام الاحمدیہ) حضرت اللہ پاشا صاحب تھے ان کو جب فریکچر ہو ا توخدام ان کے پاس میو ہسپتال میں ڈیوٹی دیتے تھے۔ اللہ کے فضل سے مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ وہ جلد ہی ٹرانسفر ہوگئے اور شیخ ریاض محمود صاحب قائد بنے۔ وہ اکثر ہمارے ہوسٹل میں بھی آتے تھے ۔جہاں باقاعدہ زعامت قائم تھی ۔روح رواں تو ملک لال خان صاحب (کینیڈا) تھے۔

1966ء کی پہلی سہ ماہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ لاہور تشریف لائے اور امیر صاحب اور قائد صاحب کی موجودگی میں ایمبیسیڈر ہوٹل کے سامنے پام ویو میں حضورؒ سے کھڑے کھڑے ملاقات بھی ہوئی۔ مجھے لکنت کی شکایت تھی۔ میرے عرض کرنے پر فرمایا ’’تقریریں کیا کرو‘‘ اور شیخ صاحب کو ارشاد فرمایا کہ ان سے تقریریں کروایا کریں۔ 30 ستمبر 1966ء کو حضورؒ نے دارالذکر میں جمعہ پڑھایا اور ہمارے کلاس فیلو ملک طاہر احمد صاحب کے اول آنے کے انعام کے طور پر ان کا نکاح بھی پڑھا ۔لاہور تعلیم کے دوران میں اور تو کوئی خاص نیکی کا کام تو نہ کرسکا البتہ وصیت کے نظام میں شامل ہونے کی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے توفیق دی۔ گریجویشن کے بعد میں سروس میں رولنگ سٹون بنا رہا Rolling Stone gathers no moss کا مصداق ۔تاہم جب لاہور کا صد سالہ جوبلی سووینئر تیار ہورہا تھا تو اتفاق سے ان دنوں میری پوسٹنگ لاہور میں تھی ۔مبشر احمد دہلوی صاحب صدر سووینئر کمیٹی نے مجھے بھی شامل کر لیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لاہور کے دورہ جات کا assignment مجھے دیا۔ جو سووینئر کے صفحات 45 تا 49 پر شائع ہوا۔ writers کی تصاویر صفحہ 75 کے سامنے والے صفحہ پر دیں ۔ لاہور میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی چند تقاریر اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی ایک تقریر سننے کا بھی اتفاق ہوا ۔ہماری یونیورسٹی کی الوداعی تقریب میں مہمان خصوصی ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب تھے۔ایک بار لاہور میں پوسٹنگ کے دوران (صدر حلقہ گلبرگ) راجہ غالب احمد صاحب کی عاملہ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح خاکسار (قائد مجلس خدام الاحمدیہ) انجینئر مسعود اقبال صاحب کا نائب قائد مرکز کی طرف سے نامزد ہوا ۔قائد ضلع شیخ مظفر احمد صاحب تھے۔ اس وقت صدر مجلس مکرم محمود احمد صاحب (بنگالی) تھے انہوں نے ہی نامزد کیا تھا۔

1989ء میں جب میں راجہ غالب احمد صاحب کی عاملہ میں تھا تو میرا یکدم لاہور سے باہر ٹرانسفر ہوگیا۔طبعاً پریشانی تو ہوئی لیکن انہوں نے فرمایا۔ کسی کو کہہ کر ٹرانسفر کو رکوایا جا سکتا ہے ۔لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ چلے جائیں چھوٹے اضلاع میں شاید زیادہ ضرورت ہے وہاں آپ کو جماعتی خدمت کا زیادہ موقع ملے گا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ (الحمد للہ علیٰ ذالک)

اللہ تعالی نے اپنی صفت رحمانیت کے تحت 2003ء میں انتخاب خلافت کمیٹی تک تو پہنچا دیا تھا۔ دعا کریں خاتمہ بھی بالخیر ہو۔ آمین۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ