• 23 اپریل, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ (اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب) (قسط 4۔ آخری)  

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 
اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب
قسط 4۔ آخری

اگر یہ تحریر کسی اشتراکی تاریخ نویس کی ہوتی اور یہ پالیسی مارکس یا لینن یا سٹالن کی طرف منسوب کی جاتی اور ’’مسلم پارٹی‘‘ کی جگہ ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے الفاظ ہوتے تو مجھے کچھ تعجب نہ ہوتا اور مَیں بغیر کسی قلبی ہیجان کے اس عبارت کو پڑھ کر آگے گزر جاتا اور خیال بھی نہ کرتا کہ یہ کسی نے کیا لکھا ہے۔ کاش ایسا ہی ہوتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ اور یہ ایک’’مسلم راہنما‘‘کی تحریر ہے جو واشگاف الفاظ میں اس مقدّس ذات پر اتّہام لگا رہا ہے جس کی غلامی کا دعویٰ کرتا ہے۔

یہ مولوی مودودی کی تحریر ہے……. الفاظ واضح اور غیر مُبہم ہیں۔ الزام سخت گھناؤنا اور بھونڈا ہے اور صرف ایک الزام نہیں بلکہ الزام پر الزام لگایا گیا ہے۔ اِس تحریر کا پڑھنا بھی مجھ پر سخت گراں ہے اور اس کا لکھنا بھی۔ اور ناقابلِ بیان اذیّت پہنچتی ہے جب اس فقرہ پر نظر پڑتی ہے کہ دعوت اسلام تو بھیجی مگر:
’’اِس کا انتظار نہ کیا کہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوّت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کردیا……‘‘

آنحضرتؐ کی پالیسی تو ایک معصومانہ پالیسی تھی جو ایک نوزائیدہ بچہ کے دل کی طرح پاک و صاف تھی۔ آپؐ نے تلوار اُسی وقت اُٹھائی جب آپؐ پر حدّ سے بڑھ کر مظالم توڑے گئے۔ آپؐ کے ہاتھ سلامتی کے ہاتھ تھے اور جارحیت کی تلوار سے سراسر نا آشنا تھے۔ شریف النّفس غیروں نے بھی جب آپؐ کی اِس پالیسی پر نگاہ کی تو اُسے کلیۃً سلامتی اور امن اور دفاع کی پالیسی قرار دیا۔چنانچہ مودودی صاحب کے مندرجہ بالا الفاظ پڑھنے کے بعد اب ایک سکھ معاصر کے الفاظ بھی مُلاحظہ فرمائیے:
’’اِبتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے جب آپؐ کا جینا اجیرن بنا دیا تو آپؐ نے اپنے پَیروکاروں سے کہا کہ اپنا وطن چھوڑ کر مدینے چلے جاؤ۔ یعنی اپنے کسی ہم وطن بھائی پر ہاتھ اُٹھانے کی بجائے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیارا وطن چھوڑنا منظور کرلیا۔ لیکن آخر کار جب اُن پر ظلم اور جبرکی حد کر دی گئی تو مجبوراً آپؐ نے اپنی اور اسلام کی حفاظت میں تلوار اُٹھائی….یہ پرچار کہ دین کی اشاعت کے لئے جبر کرنا جائز ہے اُن احمق لوگوں کا عقیدہ ہے جنہیں نہ دین کی سمجھ ہے نہ دنیا کی۔وہ حقیقی سچائیوں سے دُور ہونے کی وجہ سے اس غلط عقیدہ پر فخر کرتے ہیں۔‘‘

(’’نواں ہندوستان‘‘دہلی اشاعت 1949-11-17)

اس پر مَیں مزید تبصرہ نہیں کرتا قارئین کا دل خود گواہی دے گا کہ دونوں میں سے کون سچّا ہے، ایک سِکھ جریدہ نگار یا ’’مزاج شناس نبوت‘‘؟

(مذہب کے نام پر خون۔باب اشاعت ِ اسلام کے بارہ میں مولانا مودودی اور بعض غیروں کے نظریات صفحہ27-41)

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ہدایت کی ضرورت، اسلام کی حقانیت،رسول اللہؐ کے ناموس اور امّت میں مسیح موعود کی آمد کے نظریات کے خلاف کھڑے ہونے والے نام نہاد مفکر و مدبّر کے غیر اسلامی اور بودے نظریات کے جس طرح آپؒ بخئیےادھیڑتے تھے،اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔

لیکن قبل اس کے کہ آپ اس تحریر میں کھو جائیں،یہ مدّنظر رہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تحریر ایک گہرے مطالعہ،وسیع تحقیق اور دقیق پہلوؤں سے کبھی بھی تشنہ نہیں ہوئی۔ چنانچہ آپؒ کی جملہ تحریروں کا مطالعہ کریں تو وہ بتاتی ہیں کہ آپؒ جس مسئلہ کے اثبات پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے مخالف نظریات، فلسفہ، منطق اور دلائل پر بھی گہری نظر رکھتے ہوئے اور ان کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اپنی دلیل اوراپنے مؤقف کو ثابت فرماتے ہیں۔آپؒ کی تصنیف ہر سطح اور ہر طبقہ کے قاری کی نہ صرف تشنگی کی تشفّی کرنے والی ہوتی ہے بلکہ اسے لبالب سیراب کرنے والی ہے۔آپؒ کے بیان میں تشکیک کی کوئی دھند نہیں تھی۔آپؒ کا کلام حتمیّت سے معمور اورقطعی ہے جواپنی صداقت کو خود ثابت کرتا ہے۔چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔آپؒ امّت میں غیر تشریعی نبوّت کے اثبات کے نظریۂ حقّہ پر بحث کرتے ہوئے ’’کیا غیر تشریعی نبی آسکتا ہے؟‘‘کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’مسلم علماء اور مفکّرین کے طرف سے غیر تشریعی نبوت کے بند ہو جانے کے عقیدہ کو عقلاً ثابت کرنے کی دو بڑی کوششیں کی گئی ہیں۔ پہلی کوشش کا تعلق کسی بھی نئے معلّم کی ضرورت سے ہے۔ اس کی دلیل ان کے نزدیک یہ ہے کہ ہادیٔ کامل کتاب کے بعد کسی اور مصلح کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر اس بات کو ثابت کیا جاسکے کہ ایک مکمل کتاب اور ہادیٔ کامل کے بعد کبھی بھی اخلاقی اور روحانی انحطاط نہیں ہوگا تو لازماً کسی اور نبی کے آنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ لیکن افسوس کہ اس نظریہ کو نہ تو دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے نہ ہی تاریخی شواہد سے۔

یہ نظریہ اس لئے بھی ناقابل تسلیم ہے کہ انبیاء صرف شریعت ہی نہیں لاتے بلکہ نبوّت تو بہت سے فضائل کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔ کسی تشریعی نبی کے وصال کے بعد اس کی کتاب یا سنت نبوّت کی قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کی حالت سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور مسلسل انحطاط پذیر مسلم معاشرہ اس امر کا کافی ثبوت ہے۔ آنحضرتؐ کے صحابہؓ کی بلند اور ارفع اخلاقی حالت سے عصرحاضر کے مسلمانوں کی اخلاقی حالت کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ان کے پاس اب بھی وہی کامل اور ہر قسم کی تبدیلی اور تحریف سے پاک کتاب موجود ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھی۔

ہر قسم کی نبوّت کے کلّیۃً بند ہو جانے کے عقیدہ کے حق میں دی جانے والی دوسری دلیل کا تعلق انسان کی ذہنی بلوغت سے ہے۔ اس نظریہ کے سب سے بڑے علمبردار علّامہ اقبالؔ ہیں جو بعض کے نزدیک دور حاضر کے سب سے بڑے مسلم مفکّر ہیں۔ اس نظریہ کی بنیاد اس مفروضہ پر رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس وقت ہوا جب انسان ذہنی اور عقلی بلوغت کے معراج کو پہنچ چکا تھا۔ لہٰذا اب اسے مرسلین کی وساطت سے ہر وقت راہنمائی کی ضرورت نہیں جیسی اس کے آباء واجداد کو تھی۔ کیا خوب فلسفہ ہے! لیکن باریک بینی سے جائزہ لینے پر کتنا بودا اور حقیقت سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ یہ مفروضہ کہ انسان اتنی ذہنی بلوغت حاصل کر چکا ہے کہ وہ کسی کامل مذہب کے چیدہ چیدہ احکام کی روشنی میں اپنے فیصلے خود کر سکے اور اپنے لئے آپ کوئی ضابطہٴ اخلاق مرتّب کر سکے، کئی اعتبار سے قابل تنقید ٹھہرتا ہے۔

اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ ترقی کے ہر زینہ پر انسان نے اپنی دانست میں ہمیشہ یہی سمجھا ہے کہ وہ ذہنی بالیدگی کی آخری حدود کو چھورہا ہے۔تاریخ کے ہر دور میں ہر عہد کے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ انہوں نے انسانی ترقی کی معراج کو پالیا ہے۔ اپنے نسبتاً بلند مقام سے نیچے دیکھتے ہوئے انہیں گزشتہ نسلیں مقابلۃً یقیناً نا پختہ اور کم ترقی یافتہ معلوم ہوتی ہوں گی۔ لیکن اس کے باوجود ماضی میں کسی بھی مرحلہ پر انسان نے اتنی عقل و دانش کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے وہ اپنے لئے ہدایت کا راستہ خود متعین کر سکتا۔ فرعون جیسے خود سر لوگ ہمیشہ خداتعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے نبردآزمار ہے۔ اس قسم کے سرکش لوگوں نے ہمیشہ اپنی اَنا کے ہاتھوں وقت کے نبی کو ماننے سے انکار کیا۔ ان سب کا ہمیشہ سے یہی دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو سلجھانے کے لئے ایک پختہ شعور کے مالک ہیں۔ لیکن تاریخ نے ان سب کی خوش فہمی کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ بچگانہ سوچ اور کیا ہوگی کہ انسان کسی بھی مرحلہ پر یہ خیال کرے کہ اب وہ اپنی اخلاقی اور روحانی ضروریات سے عہدہ برا ہونے کے لئے خود کفیل ہو گیا ہے۔

جہاں تک ذہنی بالیدگی کا تعلق ہے تو تاریخی حقائق نے اسے بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ نبی کی وفات کے بعد فقہی اختلافات اور تفسیر میں باہمی فرق کی بنیاد پر ملت کا کئی فرقوں میں تقسیم ہو جانا ایک ایسا عالمگیر رجحان ہے جس سے اسلام سمیت کوئی مذہب محفوظ نہیں رہا۔ لہٰذا محض ذہنی پختگی ہی انسان کے لئے شریعت سے صحیح نتائج اخذ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے خود خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی بھی ضروری ہے۔ اگر انسان کی ذہنی پختگی سے یہ مراد لی جائے کہ وہ خود ہی آسمانی صحیفوں سے صحیح نتائج اخذ کرنے کے اہلیت رکھتا ہے تو پھر لازماً مذہبی تعلیمات کے تمام بنیادی مسائل پر کامل اتفاق ہونا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ عملی زندگی میں ہمیں یہ بات نظر نہیں آتی۔ اگر مسلمان بھی جنہیں آخری کامل کتاب کے پیروکار ہونے پر فخر ہے اس کی تفسیر کے بارہ میں باہمی اختلافات میں کسی سے پیچھے نہیں رہے تو پھر یہ نام نہاد ذہنی پختگی کس کام کی؟ تاریخ مذاہب اس امر پر شاہد ہے کہ جب کسی مذہب کے پیروکار ایک دفعہ مختلف فرقوں میں بٹ جائیں تو محض انسانی کوشش سے کبھی دوبارہ متحد نہیں ہوا کرتے۔ اور یہی بات آج کے مسلمانوں پر بھی پورے طور پر صادق آتی ہے۔ کسی آسمانی مصلح کے بغیر یہ لوگ بھی واحدانیت کے ایک جھنڈے تلے دوبارہ جمع نہیں کئے جاسکتے۔ افسوس کہ انہوں نے تو اس آسمانی ذریعہ کو جو اُن کیلئے امید کی واحد کرن تھی، سرے سے ہی ردّکر دیا۔

ہر اعتبار سے محفوظ کتاب اور نہایت حزم و احتیا ط سے ترتیب دی گئی احادیث کے ذخیرہ کے باوجود جس پر مسلمانوں کا فخر بجا ہے امت مسلمہ کہ بہتّر (72) فرقوں میں تقسیم اقبال کے انسانی ذہن کی پختگی پر مبنی فلسفہ کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔

مسلمانوں کے باہمی اختلافات محض فروعی نہیں بلکہ بنیادی اور گہرے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس میں اگر اسلامی دنیا کی اخلاقی زبوں حالی کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی یہ حالت اور بھی زیادہ قابلِ رحم اور افسوس ناک ہو جاتی ہے۔ اور اگر ان کی بقا کو ان کی ذہنی پختگی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو پھر تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔

کتنے دکھ کی بات ہے! آج کے دانشور کیوں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی مذہبی معاشرہ کی پاکیزگی کے لئے محض کامل کتاب کی موجودگی کافی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام کے پیروکاروں کے عقائد میں مثالی وحدت نظر آنی چاہئے تھی۔ لیکن بدقسمتی سے حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ڈاکٹر علّامہ سر محمد اقبال کے دفاع میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آسمانی روشنی کو لفظوں کے ہیر پھیر سے روکنے کا تصوّر دراصل ان کا اپنا نہیں تھا۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے عظیم جرمن فلسفی نیٹشےؔ (Nietzsche) کی اندھا دھند تقلید کی۔ یہ نیٹشے ہی تھا جس نے عہد حاضر میں سب سے پہلے الٰہی ہدایت کی ضرورت کے بالمقابل انسانی ذہن کی پختگی کا تصوّر پیش کیا۔ درحقیقت نیٹشے نے انسان کو ترغیب دلائی کہ وہ بالغ نظری سے اپنے حواسِ خمسہ کا استعمال کرے۔ اس نے ایسے آدمی کے لئے جو ذہنی بلوغت کو پہنچ چکا ہو اور اس کے حواس خمسہ مکمل طور پر نشوونما پا چکے ہوں superman, overman یا فوق البشر کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ایسے شخص کو رہنمائی کے لئے کسی ایسے خدا کی ضرورت نہیں ہے جو اس کے نزدیک محض ایک تصوّر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے نزدیک اس قسم کے مفروضے اس وقت قائم کئے گئے تھے جب انسان ابھی ذہنی طور پر اتنا بالغ نہیں ہوا تھا کہ اپنی تقدیر کا خود مالک بن سکے۔ نیٹشے نے اپنی کتاب ’ Thus spoke Zarathustra ‘ میں جو اس کے دانشکدہ کا علامتی ترجمان ہے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ اب انسان ذہنی پختگی کی معراج کو پہنچ چکا ہے اس لئے اسے مفروضوں کے ساتھ چمٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نٹیشے لکھتا ہے:
’’جب انسان دور تک پھیلے ہوئے سمندروں کو دیکھتا تھا تو خدا کو پکارا کرتا تھا لیکن اب میں نے تمہیں òvermanیعنی superman کہنا سکھا دیا ہے۔‘‘

’’خدا محض ایک تصوّر ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ تمہارے تصوّرات تمہارے تخلیقی ارادہ کی قوّت سے آگے نہ بڑھنے پائیں۔‘‘

’’تمہارے نزدیک خدا کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن اگر تم حقیقت تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہو تو اس کا مطلب ہونا چاہئے کہ ہر چیز ایسی صورت میں ہو جسے انسان سوچ سکے، دیکھ سکے اور محسو س کر سکے۔ تمہیں اپنے حواس کو بروئے کار لاتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ ان سے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔‘‘

’’خدا تو ایک تصوّر ہے لیکن کون ہے جو موت کا مزہ چکھے بغیر اس تصوّر کی اذیت سے نجات پا سکے؟

Thus spoke Zarathustra کالب لباب نیٹشے کی ایک خیالی خدا کے خلاف بغاوت ہے جو دراصل عیسائیوں کا تصوّر ہے اور Zarathustra کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے کہ اس نے کیوں خدا کی خلاف بغاوت کی، اس کتاب کے باب ریٹائرڈ (Retired) کا مطالعہ ضروری ہے۔ لیکن ہمارے موقف کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ نیٹشے کے دانشکدہ کے مطابق انسان آسمانی ہدایت سے مستثنیٰ ہو چکا ہے کیونکہ اب اس کی ذہنی بلوغت رہنمائی کے لئے کافی ہے۔

اقبال کا فلسفہ بھی بعینہٖ یہی ہے کہ چونکہ انسان کی ذہنی صلاحیت پختہ ہو چکی ہے اس لئے اب اسے کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مستعار فلسفہ کو خدا تعالیٰ کی ضرورت سے قطعی انکار کی صورت میں استعمال کرنے کے بجائے اقبال نے ذہنی پختگی کے تصوّر کو اسلام کے تناظر میں ڈھال کر اور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے اپنا الّوسیدھا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ انہیں یہ تو مسلّم تھا کہ انسان کو ایک کامل مصلح اور کامل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ایک دفعہ اس مقصد کے حاصل ہو جانے کے بعد ان کے خیال میں اسے آسمان سے مزید کسی دخل اندازی کے حاجت نہیں رہتی۔ لیکن صرف اسی پر بس نہیں۔ ذہنی پختگی کا یہ نظریہ جس میں اقبال نے کسی قدر ترمیم کی ہے نہ صرف ضرورتِ نبوّت کی نفی کرتا ہے بلکہ غیر انبیاء کے ساتھ بھی خدا کے مکالمہ مخاطبہ کا سرے سے انکار کرتا دیتا ہے۔ ان کے اس نظریہ سے صرف یہی ایک منطقی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ انسان کو خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مزید راہنمائی سے کلّیۃً آزاد کر دیتا ہے کیونکہ پہلے سے موجود رہنمائی کی روشنی میں اب وہ اپنے ہر قسم کے اہم فیصلے خود کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اقبال کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں جس کی انگلی کسی نبی کے ہاتھ میں دے کر اسے چلنا سکھایا جائے۔ کیا وہ اتنی بلوغت حاصل نہیں کرچکا کہ از خود چل سکے؟ بظاہر یہ منطق بڑی ٹھوس ہے مگر آج کے انسان کی روحانی زبوں حالی اور اخلاقی اقدار کی مکمل تباہی پر ایک نظرہی اس دلیل کو کلّیۃً بودا اور خیالی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

اقبال اور اس کے مفروضوں کے بارہ میں اتنا ہی کافی ہے۔ اب ذرا مودودیؔ صاحب کے نظریہ کا جائزہ لیں جو سنّی مسلمانوں کے ایک مشہور عالم ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوّت کلّیۃً بند ہو جانا بنی نوع انسان کے لئے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے لئے تویہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ کیونکہ اس طرح انہیں اب ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے کسی سچے پیغمبر کو جھٹلانے کا خطرہ مول لینے کی حاجت نہیں رہی۔ یوں وہ امتوں کے برعکس اپنے زمانہ کے نبی کو جھٹلانے کے جرم سے بال بال بچ گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے نظریہ کو ایک مذاق تو کہہ سکتے ہیں، اسے ایک سنجیدہ دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اگر مودودی صاحب کا فلسفہ درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نعمت کی بجائے نبوّت معاذ اللہ ایک لعنت ہے ورنہ اس کے بند ہو جانے کو نعمت اور انقطاع کو رحمت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ سوچ پولوسؔ کی سوچ کے قریب تر معلوم ہوتی ہے جس نے تورات کی شریعت کو لعنت قرار دیا تھا اور وہ حضرت مسیحؑ کو اس لئے نجات دہندہ مانتا تھا کیونکہ بقول اس کے مسیحؑ نے تورات کی شریعت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ جب کوئی قانون موجود ہی نہیں ہوگا جسے توڑا جائے تو گناہ بھی سرزد نہ ہوگا۔

تا ہم مودودی صاحب کے اس پورے فلسفہ کا ما خذصرف پولوس ہی معلوم نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا ہے جیسے بہاء اللہؔ کے تصوّر کے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی ہو۔پولوس کے نزدیک جس طرح حضرت مسیحؑ نے تورات کی شریعت منسوخ کر دیا تھا اسی طرح بہاء اللہ کی بھی قرآنی شریعت کے بارہ میں یہی دعویٰ ہے۔ اس نے بزعم خود بنی نوع انسان کو قرآن کریم کی غلامی سے آزاد کر دیا ہے البتہ اس نے کلّیۃً پولوس کی پیروی نہیں کی۔ کیونکہ پولوس نے کبھی مجسّم خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ اس نے خدا ئی کو کلّیۃً حضرت مسیحؑ کی طرف منسوب کیا۔ اس کے نزدیک مسیح ایک ایسا نجات دہندہ تھا جس نے خدا باپ کی طرف سے بنی نوع انسان کے خلاف کی جانے والی غلطی کا ازالہ کر دیا۔ اس کے نزدیک شریعت کا نفاذ بذاتِ خود گناہ کو پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا شریعت کو منسوخ کر کے مسیحؑ نے گناہ کے بیج کو ہی ختم کر دیا۔ بنی نوع انسان کو نجات دلانے کے ساتھ ساتھ گویا اس نے خدا باپ کو بھی گنا ہ پیدا کرنے کی غلطی سے نجات دلادی۔

بہاء اللہ اس فلسفہ کا جزوی طور پر اطلاق کرتے ہوئے یہ دلیل دیتا ہے کہ قرآنی شریعت چونکہ بہت سخت اور مشقت میں ڈالنے والی ہے لہٰذا دورحاضر کے انسان کے لئے قابل عمل نہیں رہی۔ یوں بزعم خود اس نے بنی نوع انسان کو اس تکلیف دہ بوجھ سے اگر چہ نجات تو دلا دی مگر مکمل نجات نہیں۔ اس نے پہلی شریعت منسوخ کر کے ایک نئی شریعت گھڑلی لیکن آخر کار وہ خداتعالیٰ کا اور خود اپنا تمسخر اڑانے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ اس نے قرآنی شریعت کو منسوخ کر کے جو شریعت پیش کی وہ عقل سلیم، تفکر اور معقولیت کے کھلی توہین کے سوا کچھ نہیں۔

یوں لگتا ہے کہ پولوس کے ان دونوں جدید شاگردوں یعنی بہاء اللہ اور مودودی صاحب نے مل کر اسلام کے خاتمہ کی پوری کوشش کی ہے۔ جہاں تک قرآنی شریعت کا تعلق ہے تو جس طرح بہاء اللہ نے اسے آزادی کے نام پر قربان کر دیا اسی طرح نبوّت کو مودودی صاحب نے پولوسی فلسفہ کی بھینٹ چڑھانے کی جسارت کی۔ دونوں ہی خدا کی نظر میں اپنے اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہے۔ دونوں ہی ان لوگوں کی نظر میں ہیرو قرار پائے جو خود روحانی امراض کا شکار تھے۔لیکن مودودی صاحب نے پورے طور پر پولوس کی پیروی نہیں کی۔ انہوں نے یہ تجویز کرنے کی جرأت تو نہیں کی کہ خدا تعالیٰ کو چاہئے کہ قرآنی شریعت ہی کو منسوخ کر دے تاکہ لوگ اس کی نافرمانی کرکے مغضوب نہ بنیں۔ مودودی صاحب نے پولوس کے اصول کے اطلاق کو صرف نبوّت کے منصب تک محدود رکھا۔ چنانچہ ان کے نزدیک اگر اسلام کے مقدّس بانیؐ کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے امّتی نبی بھی بھیجے گئے تو غالب امکان ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ان کا انکار کر دے جیسے ان سے پہلے نبیوں کا انکار ہوتا چلا آیا ہے۔ اس طرح مودودی صاحب کی منطق کے مطابق خدا تعالیٰ کی لعنت کا خطرہ دو دھاری تلوار کی طرح ان کے سروں پر لٹکتا رہے گا۔ مودودی صاحب کی نظر میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوّت کا سلسلہ کلّیۃً بند کرکے بنی نوع انسان پر بے انتہا رحمتیں نازل کی ہیں خصوصاً مسلمانوں پر۔

لوگوں کو لعنت سے بچانے کے لئے نبوّت کے سلسلہ کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ تو خود نبوّت کو لعنت قرار دینے کے مترادف ہے۔ اس طرح مودودی صاحب کا یہ جدید پولوسی فلسفہ خدا تعالیٰ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ نبوّت کی لعنت کو سرے سے ہی ختم کر دے۔ کیسی نجات اور گناہوں سے کیسی آزادی۔ خس کم جہاں پاک!

لیکن اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ فلسفہ ماضی اور مستقبل دونوں پر یکساں اطلاق پاتا ہے۔ آنحضرتؐ سے پہلے حضرت مسیحؑ کو کیوں مبعوث کیا گیا؟کیا قرآن کریم حضرت مسیحؑ کے انکار کی وجہ سے یہودیوں کا کلّیۃً ملعون قرار نہیں دیتا؟ اور پہلی قوموں کا کیا حشر ہوا؟ کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے فرستادوں کا انکار نہیں کیا اور ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کا سلوک نہیں کیا گیا؟ بنی نوع انسان کے کبر اور نخوت کا یہ کیسا افسوس ناک منظر ہے! چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔

یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۳۱﴾

(یٰسٓ:31)

ترجمہ: وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ خداتعالیٰ کو اس لعنت کو ختم کر دینے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا۔ انبیاءؑ کے ساتھ واسطہ پڑنے کے لمبے تاریخی سفر کے دوران یہودیوں کا کیا حشر ہوا؟ کیا ان پر حضرت داؤدؑ کی زبان سے لعنت نہیں ڈالی گئی؟ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے درمیانی عرصہ میں اہلِ کتاب کا کیا حال ہوا؟

کیا ہر زمانہ کے لوگوں کا خدا تعالیٰ کے تمام انبیاءؑ کے ساتھ ایسا غیر انسانی سلوک خداتعالیٰ کو یہ باور کرانے کے لئے کافی نہیں تھا کہ نبوت رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے؟ پھر حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، اور حضرت لوطؑ کی بعثت کا کیا مقصد تھا؟ کیا ان کی تکذیب کی وجہ سے ان کی اقوام پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل نہیں ہوا؟ سوائے چند بظاہر بے حیثیت لوگوں کے کیا انہیں صفحہء ہستی سے مٹانہیں دیا گیا؟ تاہم جو خیال مودودی صاحب کو سوجھا وہ خدا کو کیوں نہ سوجھ سکا۔ خدا تعالیٰ کے بارہ میں یہ دیو مالائی تصوّر کہیں مودودی صاحب کے دماغ نے خود ہی تو نہیں گھڑ لیا؟ ایسی ناقص رائے انہیں کے دماغ کا شاخسا نہ ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ پیغمبر پر پیغمبر بھیجتار ہا لیکن متکبر لوگ ایک کے بعد دوسرے فرستادہ کا انکار کرتے رہے۔ اس طرح وہ لوگ جس لعنت کے مورد ہوئے اس کی ذمہ داری نبوّت پر عائد نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ لوگ خود ہی اس کے ذمہ دار تھے۔

اگر یہ دلیل ایک زمانہ کے لئے قبول کر لی جائے تو پھر اسے حضرت آدمؑ کے وقت سے لے کرہر زمانہ کے لئے قبول کرنا پڑے گا۔اس امر کا احتمال کہ آدمؑ کی قوم انبیاءؑ کو جھٹلا کرمغضوب ہو جائے گی کیا خدا تعالیٰ کے لئے کافی جواز تھاکہ وہ حضرت آدمؑ کو مبعوث ہی نہ فرماتا۔اگر یہ خوف کہ لوگ امّتِ محمدیہ میں سے مبعوث کئے گئے نبی کا انکار کر دیں گے، نبوّت ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کا مناسب جوا زہے تو اس کو اور بھی زیادہ شدّت کے ساتھ خود اسلام کے مقدّس بانیؐ کی بعثت کی راہ میں روک بن جانا چاہئے تھا۔کیا آپؐ سب نبیوں سے افضل نہیں؟ یقیناً ہیں۔ اور سارا عالم اسلام اس پر گواہ ہے،تو سب انبیاء سے افضل ہونے کے باعث آپ اکا انکار خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ قہر کا موجب ہونا چاہئے۔افسوس! مودودی صاحب نے اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے کہ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دنیا بھر کی بیشتر آبادی نے آپؐ انکار کر دیا تھا بلکہ آج بھی بنی نوع انسان کی تین چوتھائی آبادی آپؐ کی سچائی کی منکر ہے۔ زیادہ سے زیادہ انسانی آبادی کے ایک چوتھائی حصہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو کار کہا جا سکتا ہے لیکن کیا وہ بھی صحیح معنوں میں مسلمان کہلا سکتے ہیں؟ کیا ان کا آپؐ اپر ایسا سچا ایمان ہے کہ وہ حقیقی مومن شمار ہوں۔ مودودی صاحب کاخیال اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کی ایک ارب کی آبادی میں سے 999 فی ہزار پر انہوں نے عملاً مسلمان نہ ہونے کا فتو ٰی لگا رکھا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان کہا جاتا ہے اس کا یہ حال ہے کہ اس کے 999فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں۔نہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر اورذہنی رویّہ اسلام کے مطابق تبدیل ہواہے۔ باپ بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لئے یہ مسلمان ہیں۔‘‘

(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش صفحہ 130 جلد3پہلا ایڈیشن
ناشر مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام پٹھانکوٹ)

مودودی صاحب کے اس فلسفہ کے مطابق تو بہتر تھا کہ خد اتعالیٰ نہ تو کوئی کتاب بھیجتا اور نہ کوئی پیغمبر تاکہ بیچاری مخلوق کو ہمیشہ لعنت سے چھٹکارا مل جاتا۔

بایں ہمہ مودودی صاحب حضرت آدمؑ سے لے کر خیر الانبیا تک خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں کے سلسلہ کو جائز ٹھہراتے ہیں۔اگر فرستادوں کی تکذیب کی وجہ سے منکرین پر خد اکی لعنت پڑتی ہے تو ایک اور نبی کے اضافہ سے کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ مودودی صاحب کا تضاد اس وقت اور بھی کھل کے سامنے آجاتا ہے جب ان کے اس عقیدہ کا علم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی بطور نبی اللہ آمد ثانی کے بھی قائل ہیں۔

اگر پہلے مسیح کی بجائے امتِ مسلمہ میں سے ہی ایک غیر تشریعی نبی مبعوث ہو تو اس کے آنے سے لعنت کے اس دائمی فلسفہ پر کیا فرق پڑے گا؟ صرف امتی نبی کے آنے پر اعتراض کیوں جبکہ بقول مودودی صاحب حضرت آدمؑ سے لے کر اب تک تمام انبیاءؑ دائمی لعنت کے اس قانون کے اطلاق کا باعث بنتے چلے آئے ہیں!

(الہام، عقل،علم اور سچائی صفحہ589 تا 598 اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز مطبوعہ2007ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی پیش کردہ اس ناقابل تردید اور اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں پیوستہ بحث سے یہ واضح ہے کہ آپ ؒ کی تحریر کی یہ بھی ایک نمایاں خوبی ہے کہ جہاں آپؒ کی دلیل اور منطق شستہ و ملائم ہے اور طبیعت پر نہایت گداز اثر چھوڑتی ہے،وہاں وہ مکذّب و مفتری کو بھگانے کے لئے شہاب ثاقب بھی ہے۔ آپؒ مدّمقابل کی دلیل کی نہ صرف خاک اڑا دیتے ہیں بلکہ وہ خاک اس کے سر پر بھی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔

چنانچہ یہ منظر بھی ملاحظہ فرمائیں کہ دیوبندی ٹولے کے ایک سرخیل مولوی محمد یوسف بنوری صاحب اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوّت کی علمبرداری کے پرلے درجہ کے جھوٹے دعویدار تھے۔ باوجود دینی مدرسوں سے تحصیلِ علوم کے، صفات بوجہلی کے اکمل و اتمّ شاہکار تھے۔انہوں نے غالباً1975ء میں کذب و افتراء سے لبریز ایک کتابچہ لکھا جس کا نام تھا ’’ربوہ سے تل ابیب تک‘‘۔اس میں انہوں نے جس حد تک ممکن تھا یا جس انتہاتک ان کی پہنچ تھی، یہودیت اور احمدیت کی مماثلت ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کے پُل پر پُل باندھ دئیے۔وہ یہ چھل کتابچہ لکھ تو بیٹھے مگر حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کے ہتھے چڑھ گئے۔ آپؒ نے کس طرح ان سے معاملہ کیا،اس کے ایک دو نمونے ملاحظہ ہوں۔مولوی بنوری صاحب نے لکھا تھا کہ:
’’اسرائیلی سٹیٹ یہود، برطانیہ اور امریکہ کی سازش سے قائم ہوئی اور ربوہ سٹیٹ انگریز گورنر کی سازش سے۔‘‘

اس کے جواب میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے ’’ربوہ سے تل ابیب تک پر مختصر تبصرہ‘‘ کے نام سے چھوٹی سی کتاب مرتّب فرمائی۔ آپؒ کی تحریرملاحظہ فرمائیں کہ آپؒ کس طرح عقلی دلیل دیتے ہوئے معترض کے گِردا گِردمنطقی منظر کشی کی ایسی باڑ باندھ دیتے ہیں کہ اس کے لئے کوئی جائے فرار نہیں چھوڑتے۔آپؒ فرماتے ہیں:
’’افسوس کہ مولانا صاحب کو سٹیٹ یعنی ریاست اور ٹاؤن یعنی قصبہ کے درمیان بھی فرق معلوم نہیں۔اسرائیل ایک باقاعدہ خود مختار ریاست اور حکومت ہے جسے سامراجی طاقتوں نے بزورِ شمشیر نہایت ظالمانہ اور غاصبانہ طور پر سرزمینِ فلسطین میں قائم کیا اور ربوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو شہر چنیوٹ سے چھ میل مغرب کی طرف دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔اس کا کل رقبہ1034/ایکڑہے۔ یہ رقبہ اتنا چھوٹا ہے کہ گزشتہ زرعی اصطلاحات سے قبل کثیر تعدادمیں درمیانی درجہ کے زمینداروں کے پاس اس سے بڑھ کررقبہ موجود تھا۔یہ چھوٹا سا قصبہ سب تحصیل لالیاں، تحصیل چنیوٹ، ضلع جھنگ، صوبہ پنجاب میں حکومت پاکستان اور پنجاب کی عملداری میں اسی طرح شامل ہے جس طرح پاکستان کی ایک ایک انچ دوسری زمین۔ حکومت پاکستان کے کَل پُرزے یہاں اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح پاکستان کے دیگر دیہات قصبات اور شہروں میں۔اس قصبہ کو ایک آزاد مملکت کا نام دے کر اسرائیل کی ریاست سے تشبیہہ دینا سادگی یا مکاری کی انتہاء ہے۔ اگر ایک ہزار ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس چھوٹے سے قصبے کو اسرائیل کی طرح آزاد ریاست کہنا جائز ہے تو لاہور شہر کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا روس کی سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک سے تشبیہہ دینا کسی طرح مبالغہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ باقی رہا عظیم شہر کراچی تو وہ ایک عظیم آزاد بر اعظم سے کم نہیں۔ پس پاکستان میں اگر لاہور جیسی عظیم آزاد ریاست قائم ہو سکتی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی استعماری طاقت کے مشابہ ہے اور کراچی جیسا عظیم تر براعظم سما سکتا ہے تواسرائیل کے برابر چھوٹی سی ریاست ربوہ پر کیا اعتراض ہے؟واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں ربوہ سے بہت بڑی اور طاقتور اتنی عظیم مملکتیں موجود ہیں کہ اگر دنیا میں ان کی نظیر ڈھونڈی جائے تو سب دنیاختم ہو جائے گی لیکن پاکستان کی آزاد ریاستیں باقی رہیں گی۔ربوہ کے مغرب میں ایک عظیم ریاست لالیاں ہے۔مشرق میں کئی گنا بڑی مملکت چنیوٹ ہے۔28میل مغرب میں ریاست ہائے متحدہ سرگودہا واقع ہے اور 28میل مشرق میں ریاست ہائے متحدہ لائلپور(فیصل آباد) رونق افروز ہے۔معلوم نہیں کیوں مولانا کوربوہ کا تنکا تو نظر آگیا۔یہ بڑے بڑے شہتیر نظر نہیں آئے۔جناب مولانا صاحب شاید یہ پڑھ کر ہم پر الزام لگائیں کہ تم اس بات کو مذاق میں ٹال گئے ہو۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ اگریہ مذاق ہے تو اس مذاق کی ابتداء آپ نے فرمائی ہے اور آپ ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اگر آپ ربوہ کو ’’اسٹیٹ‘‘ قرار دینے میں سنجیدہ تھے تو پھر سمجھ لیجئے کہ ہم بھی سنجیدہ ہیں۔اب یہ ذمہ داری آپ کی ہے کہ ثابت فرمائیے کہ حکومتِ پاکستان کو لالیاں، چنیوٹ،سرگودہا، لائلپور، لاہور اور کراچی وغیرہ پر کونسی ایسی سیاسی طاقت حاصل ہے جو ربوہ پر نہیں؟کیوں ربوہ پاکستان کا حصہ نہیں؟ پاکستان کے وہ کونسے قوانین ہیں جو اس ہزار ایکڑ رقبہ پر اطلاق نہیں پاتے؟دنیا میں کون کون سے ممالک ہیں جو ’’ربوہ سٹیٹ‘‘ کو ایک خود مختار ریاست کے طو رپر تسلیم کر چکے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور اس قسم کے بیسیوں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔آپ اگر ان کا تسلی بخش جواب دے دیں تو پھر پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے کہ حکومت پاکستان سے پوچھے کہ ’’ریاست ِ ربوہ‘‘ کو کیوں حکومت پاکستان نے تسلیم کر رکھا ہے اور قومی اسمبلی کے کس فیصلہ کے مطابق پاکستان کا یہ ٹکڑا پاکستان کی عملداری سے نکال کرخود مختار’’ریاست ِ ربوہ‘‘ کے نام منتقل کیا گیا تھا؟…

(’’ربوہ سے تل ابیب تک‘‘ پر مختصر تبصرہ۔ صفحہ 47 تا49۔ شائع کردہ مکتبہ الفرقان ربوہ جون1976ء)

یہ انداز تحریر بتاتا ہے کہ آپؒ جھوٹے کی دلیل کو شمشیر منطق سے ایسی ملائمت سے کاٹ دیتے ہیں کہ چند ثانیوں میں ہی وہ روئے خجلت آلودہ ہوکر بے وقعت ہو جاتاہے۔ اس کے بعد بنوری صاحب کی بیان کردہ ’’دسویں حیرت انگیز مماثلت‘‘ کے عنوان کو لے کر حضرت صاحبزادہ صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا الزام عائد کرنے کے معاًبعدجناب مولاناصاحب کو خود ہی یہ خیال آیاکہ انگریز گورنر نے سازش کر کے ربوہ سٹیٹ تو قائم کر دی لیکن بعد کے مسلمان گورنروں نے اسے آج تک قائم کیوں رہنے دیا؟ اور کیوں بعدمیں قائم ہونے والی مختلف مرکزی حکومتوں نے اس بستی سے ایک خود مختار آزاد ریاست کے اختیارات چھین نہیں لئے؟ قسمت کی یاوری دیکھئے کہ اس پیچیدہ سوال کا حل تلاش کرتے ہوئے ’’مولانا‘‘ صاحب کو نہ صرف جواب مل گیا بلکہ ایک بے نظیر دسویں مماثلت بھی ہاتھ آئی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا صاحب فرماتے ہیں:
’’یہودی سٹیٹ عالم اسلام کے عین قلب میں امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے اور اگر اس کا یہ سہارا ختم ہو جائے تو وہ ایک دن بھی باقی نہیں رہ سکتی۔اسی طرح قادیانی سٹیٹ بھی اپنے مغربی آقاؤں کے بل بوتے پر عالم اسلام کے مایہ ناز ملک پاکستان کے عین قلب میں باقی ہے۔اگر اس کا یہ سہارا ختم ہو جائے تو وہ ایک دن بھی باقی نہیں رہ سکتی۔‘‘

دیکھئے! مماثلتوں کی دنیا میں کیا بات پیدا فرمائی ہے مولانا صاحب نے!بھلا ہے کوئی اس کی مثال؟

یہودی سٹیٹ نے اردگرد کے مسلمان ممالک پر خطرناک حملے کئے یا ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ خود ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے مگر تین نہایت ہولناک اور تباہ کن جنگوں کے باوجود استعماری طاقتوں کی فوجی امداد کی وجہ سے اسرائیل کو فیصلہ کن شکست نہ دی جا سکی۔ بلکہ ہر جنگ کے اختتام پر پہلے سے زیادہ مسلمان علاقوں کو اس نے غصب کر لیا۔ یہ ہے چند لفظوں میں اسرائیل کے باقی رہنے کی داستان۔

یہ داستان کہ بالکل اسی طرح ربوہ سٹیٹ نے کتنی بار پاکستان، ایران اور افغانستان کی مسلمان ریاستوں پر حملے کئے یا ایسے حالات پیدا کئے جن سے یہ عظیم مسلمان ریاستیں خود ربوہ سٹیٹ کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئیں۔جناب مولانا صاحب ہی سنائیں کیونکہ کوئی دوسرا پاکستانی شہری خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی، اس سنسنی خیز تاریخ کے حالات سے واقف نہیں۔

مولانا! مماثلت کو مکمل کرتے ہوئے از راہ شفقت اعداد و شمار سے پردہ اٹھاتے ہوئے کیا یہ بھی بتائیں گے کہ ان جنگوں کے دوران ربوہ سٹیٹ کو کتنے ہوائی جہاز، کتنی دور مار توپیں، کتنے ٹینک اور کتنی میزائلیں اپنے ‘‘مغربی آقاؤں’’ سے ملیں اور ان جنگوں کے دوران برسرِپیکار ریاستوں کا کیا جانی و مالی نقصان ہوا۔ نیز ان جنگوں کے اختتام پر کتنے ایکڑ اور کتنی کنال مزید اراضی ربوہ سٹیٹ نے ان مسلمانوں سے چھین لی؟ مولانا کی یہ رپورٹ جب شائع ہو گی اس زمانے کا سب سے زیادہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا۔کیونکہ یہ تاریخ کے عہد ِ حاضر کا ایک ایسا باب ہے جس سے روئے زمین پر تمام بنی نوع انسان میں سے مولانا کے سوا کوئی واقف نہیں۔یہ تو تھا اس مماثلت کا حال۔ اب رہا یہ سوال کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت ِ پاکستان جب بھی ربوہ سٹیٹ پر فوج کشی کا ارادہ کرتی تھی، مغربی طاقتیں مثلاً انگریز وغیرہ حکومت پاکستان کو اسی قسم کی دھمکیاں دے کر اپنے ارادہ سے باز رکھتی رہیں کہ اگر تم نے ربوہ سٹیٹ پر فوج کشی کی تو ہم تم پر فوج کشی کریں گے۔

یہ معاملہ چونکہ یا تو صرف مولانا کو معلوم ہے یا پھر پاکستان کی گزشتہ اور موجودہ حکومت کے اربابِ حلّ وعقد کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لئے جب تک اس منظر سے وہ پردہ نہ اٹھائیں ہم کیا عرض کر سکتے ہیں۔ مولانا ایک دینی رہنما ہیں۔عام اخلاقی اصولوں کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو ان سے یہ توقع رکھنی چاہئے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں پوری ذمہ داری سے کہتے ہیں۔ہم پاکستان کے شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اگرمولانا ہماری درخواست کو در خور اعتنا نہ سمجھیں تو پاکستان کے دوسرے شہری ان کو اس بات پر آمادہ کریں کہ تاریخ کے مذکورہ بالا دونوں ابواب سے پردہ اٹھائیں۔ ہاں ایک شرط ہے کہ اپنے بیان میں اعداد و شمارضرور دیں اور ان دستاویزات کی تصویریں بھی شائع فرمائیں جن کی بناء پر مولانا یہ سنسنی خیز انکشافات فرمائیں گے۔‘‘

(’’ربوہ سے تل ابیب تک‘‘ پر مختصر تبصرہ۔ صفحہ53 تا55۔ شائع کردہ مکتبہ الفرقان ربوہ جون1976ء)

ان تحریروں کے شیشے میں ذرامولوی بنوری صاحب کو اتار کر تو دیکھیں! انہوں نے کذب و افتراء کے اوٹنگے کو اپنی مہا مکاری کے ازار سے باندھنے کی کوشش تو کی مگراس کی گرہ نہ باندھ سکے۔ لہٰذا چوراہے میں عریاں ہو گئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تحریروں میں ادب کی ایک گوناں لذّت ہے۔چنانچہ آخر میں اس ذکر سے نکلتے ہوئے چند ادب پاروں کا مزہ لیتے چلتے ہیں۔ آپؒ صبح و مسا اور شب وروز کی گھنی مصروفیات کی تھکن کو بھی محسوس فرماتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ماضی کی آزاد فضا کی یاد کے جھونکے یوں لگتے ہیں جیسے پسِ زنداں کسی قیدی کو روزن زنداں سے نسیم سحر کا جھونکا پہنچ جائے۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ اَلدُّنْیَا سِجْنٌ لِّلْمُؤْمِنِ کی حدیث کتنی گہری اور وسیع ہے۔ ایک غیر مرئی قید خانے میں زندگی بسر کرنا جس سے باہر کی دنیا صاف دکھائی دیتی ہو اور کوئی ٹھوس دیوار راہ میں حائل نہ ہو، مومن کی ایک ایسی تعریف ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور احسان کے سوا کسی پر صادق نہیں آسکتی۔‘‘

ایک مرتبہ ائیر پورٹ پر جہاز کی پرواز سے قبل اور پھر اس کی تأخیر میں انتظار کی کوفت سے بچنے کے لئے ان الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے لکھا:
’’وقت بھی عجیب الٹی کھوپڑی کی چیز ہے۔دل چاہے کہ ٹھہر جائے تو ایسا بگٹٹ دوڑنے لگتا ہے کہ قابو کا نہیں رہتا۔ جتنا روکو اتنا تیز، یہاں تک کہ آناً فاناً سارے کا سارا ہاتھ سے نکل یہ جا وہ جا، ماضی میں ڈوب جاتا ہے۔ جیسے کسی شاعر کی آس کا پنچھی افق میں ڈوبنے کا مصمم ارادہ کئے سینہ پھاڑ کر نکل بھاگا ہو۔

جب دل چاہے کہ وقت ذرا ہلے جلے،کچھ دو چار قدم چلے،کچھ ٹانگیں سیدھی کرے، کوئی گز بھر فاصلہ طے کرے تو کم بخت ایسا اٹکتا ہے جیسے خچر اڑ جاتا ہے۔آگے کو دھکیلو تو پیچھے کو چلنے لگتا ہے۔ ایسا دھرنا مار کر بیٹھ جاتا ہے جیسے زندگی بھر وہیں بیٹھا رہے گا،وہیں مرے گا وہیں گاڑا جائے گا۔ہاتھ پاؤں تو الگ رہے انگلی تک ہلائی نہیں جاتی۔جیسے گنٹھیا کا پرانا مریض ہو۔ ایسے میں انسان کی کچھ پیش نہیں جاتی،وقت کا لاشہ گھسیٹ گھسیٹ کر تھوڑا سا دم لے کر پھر کچھ زورآزمائی کرکے ہانپتاکانپتا انسان بالآخر اس دلدل سے باہر آہی جاتا ہے۔

چاروناچار میں بھی اس دلدل سے باہر آہی گیا۔ لیکن آگے دیکھا تو جہاز میاں لیٹ ہوئے ہوئے تھے۔ وقت کی دلدل کے کنارے بیٹھ گیا تو وقت نے میرا وہ منہ چڑایا کہ کیا بتاؤں، ہنستا تھا اور کہتا تھا اور گھسیٹو مجھے،اب کرلو صبر۔ہوائی جہاز پر اچھا ساتھ مل گیا تووقت بھی ہوا کے دوش پر سوار اڑنے لگا۔‘‘

استاذی المکرم محترم سیّد میر محمود احمد صاحب1982ء اور اس کے چند سال بعد تک سپین میں مبلغ انچارج کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔آپؒ نے انہیں احمدیت اسلام کی آغوش میں آنے والی روحوں کی حفاظت اورنگہداشت کے بارے میں تحریرفرمایا:
’’اللہ تعالیٰ آپ کو بکثرت مسلمان بنانے کی توفیق بخشے۔میری تاکیدی نصیحت یہ ہے کہ نو مسلموں کو کبھی سپرداری کے بغیر نہ چھوڑیں ورنہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔خصوصاً سپین میں تبلیغ اسلام کی گزشتہ تیس چالیس سالہ جدو جہد سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔کیسا درد ناک منظر ہے کہ اندر آنے اور باہر جانے کے دونوں راستے یکساں گزرگاہ بنے ہوئے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے کوئی شکاری خوفناک درندوں سے بھرے ہوئے جنگل میں ہرنوں اور بھیڑیوں کو زیر دام لا لا کر درختوں سے باندھتا ہوا گزرتا چلا جائے اس امید پر کہ بعدفرصت کسی دن ان کے ریوڑ بناؤں گا۔کیا ایسے شکاری کا ماحصل حسرت کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟

پس اسلام میں آنے والی کسی معصوم روح کوسپرداری کے بغیر مادہ پرستی کے ہولناک جنگل میں تنہا نہ چھوڑیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے بہتر اور کس کی سپر داری ہو سکتی ہے۔اس وقت تک اُ ن کی تربیت کرتے رہیں،اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے والے روح پرور واقعات انہیں سناتے رہیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کی سیرت کا سب سے نمایاں پہلو یعنی اپنے ربّ کی محبت اُن کے سامنے بار بار پیش کریں۔خود اُن سے دعائیں کروائیں اور ساتھ ہی اُن کے لئے دعاؤں میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبولیت دعا کا چسکا ڈال دے۔وہ اللہ سے محبت اور پیار کی باتیں کئے بغیر رہ نہ سکیں۔دعا اُن کا اوڑھنا، بچھونا،ان کی روح کی غذا،اُن کا مشرب بن جائے۔ تب آپ سمجھیں کہ سپرداری کا حق ادا ہوا۔‘‘

زبان کی فصاحت و بلاغت اور تحریر و تقریر کی تأثیر کے اصل راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا:
’’بارہا میں نے سوچا کہ فصاحت و بلاغت کس کو کہتے ہیں اور ہر بار اس کے سوا کوئی جواب نہ پایا کہ ’’سچائی‘‘ کو۔ سچی عبارت سے بڑھ کر فصیح و بلیغ عبارت اور کوئی نہیں ہوتی۔ جو دل سے اٹھتی ہے اور سیدھا دل میں اتر جاتی ہے اور پھر بسا اوقات دعا کے بخارات بن کر اٹھتی اور آنکھوں سے برستی ہے۔‘‘

قارئین کرام! یہ مضمون اس حقیقت کی شہادت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ایک ایسے آفاقی عالم، متکلّم اور ادیب تھے جن کا ایک ایک حرف،لفظ، فقرہ، تحریر اور کلام سچّائی پر اوراللہ تعالیٰ کی خاص عطا پر استوار تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے:
ایک ایک لفظ آپؒ کا اترا ہو عرش سے

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ریجنل اجتماع لجنہ اماءاللہ این۔بی۔آر۔ گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2023