• 16 اپریل, 2024

نبی کریم ؐکو جو گالی دے اسے قتل کر دو؟

’’مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہُ‘‘
نبی کریم ؐکو جو گالی دے اسے قتل کردو؟

یہ روایت بڑی کثرت سے اور بار بارنہ صرف نعروں کی صورت میں ہر سمت اور ہر سُو بآواز بلند سُنی جاتی ہے بلکہ دینی مدرسوں میں نصاب میں داخل ہے اور یہ طلبہ کو انتہائی جذباتی طور پررٹائی بھی جاتی ہے۔ وہ روایت یہ ہے:

’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُوْحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنِ مُحَمَّدِبْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبَالَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ مُوْسٰی بْنِ جَعْفَرَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیّ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہُ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابِی فَاضْرِبُوْہُ۔‘‘

(الشفاء۔ القسم الرابع فی تصرف وجوہ الاحکام فیمن تنقّصہ او سبّہٗ علیہ السلام۔الباب الاوّل فی بیان ما ھو فی حقّہ ا سبٌّ او نقصٌ…. شرح ملّا علی قاری صفحہ304)

کہ حضرت حسینؓ نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ
رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جو کسی نبیؑ کو گالی دے اسے قتل کر دو اور جو میرے صحابیؓ کو گالی دے، اسے پیٹو۔

روایت کے ما ٔخذ اور اس کا زمانہ

یہ روایت گو متقدمین اور متأخرین کی تصنیف کردہ درجن بھر کتب میں درج ہے مگریہ صرف حضرت علیؓ سے مروی ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق یہ روایت حضرت علیؓ کی وفات کے کم وبیش اڑھائی سو سال بعد سب سے پہلے جس کتاب میں اوّل طور پر ظاہر ہوئی، المعجم الصغیر ہے جو امام ابوالقاسم طبرانی کی تصنیف ہے۔ امام طبرانی 360 ہجری میں فوت ہوئے۔ یعنی یہ روایت چوتھی صدی ہجری میں نمودار ہوئی ہے۔اس سے پہلے صحاح ستّہ میں اور احادیث کے دیگر ابتدائی مجموعوں میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ چنانچہ ملّا علی قاریؒ نے اپنی تصنیف’’شرح الشّفا‘‘ میں لکھا ہے کہ امام حلبی کہتے ہیں کہ یہ روایت صحاح ستّہ میں نہیں ہے اور امام طبرانی اسے ضعیف سند کے ساتھ لائے ہیں۔ یعنی یہ ایسی روایت ہے جو تین صدیوں کے بعد ایک ایسی سند کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے جس پر ائمہ فنِ روایت نے واضح بحث کے ساتھ اسے ردّکیا ہے۔ نیز یہ ان روایات میں سے بھی نہیں ہے جو بعد کے زمانوں میں اہل اللہ اور اولیاء اللہ نے براہِ راست رسول اللہؐ سے بذریعہ کشف سنیں۔

امام طبرانی کی تصنیف المعجم الصغیر کے بعد معروف کتابیں مثلاً المعجم الاوسط، الشفاء، فوائد، الاربعین المرتبۃ علی طبقات الاربعین، تاریخ دمشق (ابن عساکر)، تاریخ بغداد، مجمع الزوائد الفردوس بمأثور الخطاب، المواھب اللّدنّیہ، سبل الہدٰی، الفتاوٰی الکبرٰی اور الصارم المصلول ودیگر سب کتابیں جو اس روایت کو لئے ہوئے ہیں چوتھی صدی کی یا اس کے بعد کی ہیں۔

بالفرض اگر یہ روایت واقعۃ ًحضرت علیؓ کی اپنی روایت کردہ تھی اور ایک شرعی مسئلہ کی حامل تھی تو اسے احادیث کے اوّلین درجہ کی صحاح میں درج ہوجانا چاہئے تھا۔ حضرت امام حسینؓ اور حضرت علیؓ دونوں کبار صحابہؓ میں اور اوّلین اہل بیت میں سے تھے۔ ان کی روایت تو اپنے استناد اور علم روایت و درایت کے اعتبار سے مرفوع متّصل اور انتہائی اعلیٰ درجہ کی روایت ہونی چاہئے تھی۔ مگر یہ ایسی نہیں تھی۔ اس لئے اس پر اکثر ائمّہ فن نے بحث کر کے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

روایت کی سند کی حیثیت

اس روایت پر فنِ روایت اور علم اسماء الر ّجال اور جرح و تعدیل کے چوٹی کے علماء نے بحثیں کی ہیں۔ جن میں سے چند ایک امام ملّا علی قاریؒ نے کتاب ’’الشفاء‘‘ کی شرح میں درج کی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں۔

انہوں نے اس روایت کے ایک راوی عبد اللہ بن موسیٰ بن جعفر کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر یہ عبد اللہ بن موسیٰ ہاشمی ہے تو ابن ابی الفوارس نے کہا ہے کہ اس میں شدید تساہل پایا جاتا ہے یعنی لاپرواہی پائی جاتی ہے۔

علامہ ابو العبّاس الہاشمی البرقانی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور وَلَہُ اُصُوْلٌ رَدْیَۃٌ کہ اس روایت کی بنیاد ٹھوس نہیں ہے۔

امام حافظ ذہبی نے لکھا ہے کہ اگر یہ (عبد اللہ بن موسیٰ) وہی ہے تو اس کی پیش کردہ حدیثیں منقطع ہیں۔اگر یہ اس کے علا وہ کوئی اور ہے تو پھر مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ (منقطع روایت وہ ہے جس کی سند میں صحابی کے علاوہ کوئی اور راوی رہ گیا ہو اور سند کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہو۔) مطلب یہ ہے کہ اگر یہ راوی وہی ہے جو اوپر کی سطور میں سمجھا گیا ہے تو یہ روایت مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر کمزور ہے۔اور اگر یہ راوی وہ نہیں ہے توپھر یہ کوئی مجہول الحال راوی ہے، یعنی جس کا روایت و سند کے ائمہ کو علم نہیں۔ لہٰذاروایت کے اصولوں کے مطابق اس راوی کی روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔

اس روایت کا دوسرا راوی علی بن موسیٰ ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’تَکَلَّمُوْا فِیْہِ‘‘ کہ اس کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے یعنی اعتراض کئے ہیں۔

علامہ ابن طاہر نے کہا ہے ’’یَأْتِی عَنْ اَبِیْہِ بِعَجَا ئِبَ۔‘‘ کہ وہ اپنے والد کی طرف سے عجیب عجیب باتیں پیش کرتا ہے۔

امام ذہبی نے کہاہے کہ اِنَّمَا الشَّأْنُ فِی ثُبُوْتِ السَّنَدِ وَ اِلَّا فَالرَّجُلُ قَدْ کُذِبَ عَلَیْہِ وَ وُضِعَ عَلَیْہِ نُسْخَۃٌ سَاءِرَۃٌ کَمَا کُذِبَ عَلَی جَدِّہِ جَعْفَرَ الصَّادِقَ کہ سند کا ثبوت محلّ نظر ہے۔ یا پھر اس پر جھوٹ باندھا گیا ہے اور اس کے نام پر ایک پورا پلندہ ڈال دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس کے اپنے دادا جعفر صادق ؒپر جھوٹ باندھا گیا تھا۔

(شرح الشفاء، ملّا علی قاری۔ القسم الرابع فی تصرف وجوہ الاحکام فیمن تنقّصہ او سبّہٗ علیہ السلام۔الباب الاوّل فی بیان ما ھو فی حقّہ ا ٌ…… صفحہ403)

اس روایت کے حامی اس تمام بحث کو جانتے ہیں جو اس روایت کو ضعیف ثابت کرتی ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ اسے ضعیف تو کہا گیا ہے مگر اسے موضوع قرار نہیں دیا گیا۔

ان لوگوں کو امام ذہبی کا یہ مذکورہ بالا بیان دیکھنا چاہئے کہ ’’فَالرَّجُلُ قَدْ کُذِبَ عَلَیْہِ وَ وُضِعَ عَلَیْہِ نُسْخَۃٌ سَا ئِرَۃٌ۔‘‘ پلندے تیار کر کے کسی دوسرے پر ڈال دینا یا اس کی طرف منسوب کر دینا، وضع کرناہی ہے۔ ایسے مواد کو ’’موضوع‘‘ ہی کہا جاتاہے۔ان کی اس حجّت کو توڑنے کے لئے امام ذہبی کا یہ ایک قول ہی بہت ہے۔

وہ روایت جس میں سچ، دیانتداری، حافظہ، نیک شہرت، عبادات وغیرہ میں شہرت اچھی نہ رکھنے والے راوی ہوں، ضعیف کہلاتی ہے۔ جبکہ موضوع روایت وہ کہلاتی ہے جو جھوٹی ہو یعنی ایک بات غلط یا جھوٹے طور پر آنحضرتؐ کی طرف منسوب کر دی گئی ہو۔ چنانچہ اس روایت میں یہ دونوں باتیں ہی واضح طور پر موجود ہیں۔یعنی یہ واضح طور پر ضعیف بھی ہے اور موضوع بھی۔

علمِ اسماء الرّجال اور جرح و تعدیل کے ائمّہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، کے علاوہ امام نسائی، امام نور الدین الہیثمی، امام ابن حجر عسقلانی، امام دار قطنی، علامہ ناصر الدین البانی، علامہ یحیٰ بن معین، امام ابو حاتم الرازی رحمہم اللہ نے اس روایت کے راویوں پر علم روایت کے اعتبار سے واضح اور سنگین شواہد پیش کئے ہیں، یعنی ان کو جھوٹا، کذّاب، غیر ثقہ، ضعیف، موضوع روایات بیان کرنے والے، احادیث کو خلط ملط کرنے والے، احادیث چوری کرنے والے، حافظے میں کمزور اور سمجھ بوجھ میں ناقص، لوگ ان کے بارہ میں باتیں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ بنیادی کمزوریوں والے قرار دیا ہے۔

اس بحث سے یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ اس روایت کی سند میں ایسے راوی ہیں جونہ صرف یہ کہ غیر مستند ہیں اور مجہول یعنی نا معلوم ہیں بلکہ علمِ روایت حدیث کے حوالے سے بہت عیب دار ہیں۔ان بنیادوں پر یہ روایت اپنا استناد، اعتماد، مقام اور حیثیت کھو دیتی ہے۔ چنانچہ کسی نے اسے موضوع قرار دیا ہو یا نہ، عملاً یہ روایت ’’موضوع‘‘ کے مقام پر ہے۔

علاوہ ازیں یہ موضوع کیوں ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارشاد فرمایا تھا یا نہیں؟ اس کی وضاحت اگلی سطروں میں بھی ملاحظہ فرمائیں۔

علاوہ ازیں اس روایت کے موضوع ہونے کا واضح اور کھلا کھلا ثبوت یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم اور رسول اللہؐ کے ارشادات اور آپؐ کے پاک اُسوے کے خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ امرِ واقع یہ ہے کہ نبی کریمؐ کی مکّے کی گلیوں میں مسلسل تیرہ سال توہین و تنقیص ہوتی رہی اور صحابہؓ کی تذلیل کی جاتی رہی۔ اسی طرح مدینے کے کوچے بھی آپؐ، ازواج مطہراتؓ اور صحابہؓ کی توہین و تحقیر کے گواہ ہیں۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ کبھی ایسا کرنے والے کسی کو نہ قتل کیا گیا نہ کوڑے مارے گئے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ روایت عملاً رسول اللہؐ اور صحابہؓ کی زندگیوں میں رونما ہونے والے بکثرت واقعات کے کلیۃ ًخلاف ہے۔

دوسرا بیّن ثبوت یہ بھی ہے کہ یہ روایت حضرت علیؓ کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن حضرت علیؓ کا اپنا عمل کلّیۃ ًاس کے خلاف ہے۔آپؓ نے کبھی صحابیؓ کو ’’سبّ‘‘ کرنے والے کسی شخص کو کوڑے نہیں مارے۔ اسی طرح کسی اور صحابیؓ نے بھی ایسا کرنے والوں کو سزا نہیں دی۔ یہ روایت جو دراصل اپنے حکم کے لحاظ سے ایک شرعی قانون کی حامل معلوم ہوتی ہے، اگر درست ہوتی اور صحابہؓ کے وقت موجود ہوتی تو حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کیوں اس سے پہلو تہی کرتے؟ پس ثابت ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ روایت وضعی ہے۔ اس لئے نہ تویہ کوئی اسلامی اصول ہے اور نہ ہی کوئی شرعی قانون۔

روایت کا نا قابل عمل حصّہ

امام ابن تیمیہ کی کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کی جلد2 صفحہ173 پر یہ روایت بھی درج ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو ’’گالی‘‘ دی۔ (یہ واقعہ آنحضرتؐ کے سامنے ہوا یا آپؐ کو اس کی اطلاع کی گئی، جو بھی صورتحال تھی اس پر آپؐ نے حضرت خالدؓ کو کوڑے نہیں مروائے۔ بلکہ) آپؐ نے فرمایا: ’’لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِی فَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَوْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَا اَدْرَکَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہُ‘‘ کہ میرے صحابہ کو گالی نہ دو کیونکہ اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر لے تو بھی ان میں سے کسی ایک کے ایک مُدّ (غلّہ ماپنے کا ایک پیمانہ جو غالباً 68 تولے وزن کے برابر ہے)تو کجااس کے آدھے کے برابر بھی نہ پہنچے گا۔

اگر یہ روایت درست ہوتی تو آنحضرتؐ خود حضرت خالد بن ولیدؓ کو کوڑے مروا کر یا کوئی بدنی سزا دے کراپنے عمل سے ایک اصول کا نفاذکر کے شریعت کاایک قانون پختہ طور پر قائم فرما جاتے۔ مگر آپؐ نے ایسا نہیں کیا بلکہ نصیحت کے طور پرصحابہؓ کے بلند مقام کے بیان پر ہی اکتفا فرمایا۔

پھر الصارم المسلول میں ابراہیم النخعی سے یہ روا یت درج کی گئی ہے: ’’شَتْمُ اَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ الْکَبَائِرِ‘‘ اور ابو اسحٰق السبیعی سے یہ روایت درج کی ہے: ’’شَتْمُ اَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ الْکَبَا ئر الَّتِیْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی، اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ‘‘ (جلد2 صفحہ 174) کہ حضرت ابوبکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کوگالی دینا ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ جن بڑے گناہوں سے تمہیں روکا جاتا ہے ان سے باز آجاؤ۔ (یہ سورۃ النسآء کی آیت 32کا ایک جزء ہے)

سوال یہ ہے کہ اگر صحابہؓ کو گالی دینے سے انسان گناہ کبیرہ کا مجرم ٹھہرتا ہے تو اس میں سے دو خلفائے راشدین حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ اور دیگر تمام صحابہؓ کیوں مستثنیٰ ہیں۔ صرف حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو کیوں اختیار کیا گیا ہے اورباقی سب صحابہؓ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر ایک اصول بنایا گیا تھا تو وہ سب پر یکساں اطلاق پانا چاہئے تھا۔ یہ کیسا شرعی اصول ہے کہ دو خلفاء پر تو لاگو ہوتا ہے، مگر دیگر دو پر نہیں۔ دیگر صحابہؓ پر بھی نہیں۔پھر یہ بھی تو ہے کہ اگر دو صحابہؓ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے تواس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ پر سبّ و شتم کو خود آپؐ کی طرف سے اکبر الکبائر قرار دیا ہوتا۔ مگر سب جانتے ہیں شارعؐ نے ایسا نہیں کیا۔

دوسرے یہ کہ اگریہ مسئلہ اتنا ہی سنجیدہ تھا کہ صحابہؓ کو گالی دینے سے انسان گناہ کبیرہ کا مجرم ٹھہرتا ہے اور صحابہؓ کو گالی دینے والے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے کوڑے مارو تو اہلِ تشیّع تو بلااستثناء اس کی زد میں آتے ہیں۔ انہیں گزشتہ پندرہ صدیوں میں کیوں کسی حکومت نے کسی بھی دَور میں توہین صحابہؓ کی وجہ سے انفرادی طور پر باجماعت کوڑوں کی سزا نہیں سنائی۔ ان کے دین کی فروعات میں تبرّا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تمام صحابہؓ کو بالعموم اور شیخین جو صحابہؓ کے بھی سردار اور پہلے دو راشد خلیفے ہیں، ان کی غیر محدود اور غیر منقطع تسلسل کے ساتھ توہین و تحقیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس روایت کے پہلے حصے پر پُرتشدد رویّے اختیار کرنے والے اس کے دوسرے حصّے کو کیوں ترک کر دیتے ہیں؟

جہاں تک صحابہؓ پر ’’سبّ‘‘ کی سزا کا تعلق ہے، اگر یہ مسئلہ دین کے اہم اور بنیادی قوانین سے تعلق رکھتا تھا تو تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے ائمّہ سلف کو اس زیرِبحث روایت کی روشنی میں درج ذیل روایات کا حل بھی تلاش کرنا چاہئے تھا۔ یہ معدودے چند روایات ہیں جو صرف صحیح بخاری سے بطور نمونہ پیش ہیں۔جبکہ صحیح بخاری میں اور دیگر کتب میں اس نوع کی متعدد روایات موجود ہیں۔ چنانچہ

صحیح بخاری کتاب الھبۃ و فضلھا…. باب من اھدٰی الیٰ صاحبہٖ و تحرّٰی بعض… میں ایک تفصیلی واقعہ درج کیا گیا ہے اور اس میں حضرت زینبؓ کے بارے میں لکھا ہے ’’فَسَبَّتْھَا‘‘ کہ آپؓ نے حضرت عائشہؓ پر ’’سبّ‘‘ کیا۔

بخاری کتاب المغازی باب الافک میں ہشّام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ’’سَبَبْتُ حَسَّانَ‘‘ میں نے حسّان بن ثابتؓ پر ’’سبّ‘‘ کیا۔

بخاری کتاب الادب باب قول الضیّف لصاحبہٖ۔ ۔۔ میں لکھا ہے: ’’فَغَضِبَ اَبُوْبَکْرٍ فَسَبَّ‘‘ کہ ابوبکرؓ نے غصہ کیا اور ’’سبّ‘‘ کیا۔

ان روایات میں لفظ ’’سبّ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ان کے اردو تراجم میں اس کا عام معنٰی گالی ہی کیا گیا ہے۔ ان صحابہؓ یا صحابیاتؓ کو کیوں کوڑوں کی سزا نہیں دی گئی؟ کیوں پیٹا نہیں گیا؟ یہ سب کبار صحابہؓ اور صحابیاتؓ ہیں۔ اگر گالی دینے کی سزا وہی ہے جو زیرِ بحث روایت میں قرار دی گئی ہے توصحیح کتب کی صحیح روایتوں میں مذکوران تاریخی حقیقتوں کو کیوں چھپایا جاتا ہے؟

بات یہیں نہیں ٹھہر جاتی کہ صحابہؓ نے صحابہؓ پر ’’سبّ‘‘ کیا بلکہ روایات میں رسول اللہؐ کے بارہ میں لکھا ہے کہ آپؐ نے بھی ’’سبّ‘‘ کیا۔ چنانچہ درجِ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں۔

’’فَسَبَّ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ الْوَاصِلَۃَوَالْمُسْتَوْصِلَۃَ‘

(بخاری کتاب اللّباس باب وصل الشَّعر)

کہ رسول اللہؐ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر ’’سبّ‘‘ کیا۔

(اس کے معنے ترجموں میں ’’لعنت‘‘ کئے گئے ہیں۔)

’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ أَیَّمَا مُؤُمِنٌ سَبَبْتُہُ أَوْ لَعَنْتُہُ أَوْ جَلَدْتُہُ فَاَجْعَلُھَا لَہُ زَکَاۃً وَ رَحْمَۃً‘‘

(تاریخ مدینۃ دمشق (ابن عساکر) الجزء الرابع باب ذکر تواضعہ لربّہ و رحمتہٖ لأمّتہ…..)

کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اگر کسی مومن کو میں نے ’’سَبّ‘‘ کیا ہو (برا کہا ہو) یا لعنت کی ہو یا اسے پیٹا ہو تو میں اسے اس کے لئے اس کی پاکیزگی اور رحمت قرار دیتا ہوں۔

اسی باب میں اس کے ساتھ متعدد روایات درج ہیں جن میں اس لفظ کے علاوہ ’’شَتَمْتُ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ تبوک کے سفر میں دو آدمیوں کے بارے میں آتا ہے: ’’فَسَبَّھُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ‘‘

(مسند احمد بن حنبل مسند الانصار، حضرت معاذبن جبلؓ )

کہ رسول اللہ ﷺ نے (منع کرنے کے باوجود چشمے پر آپؐ سے پہلے پہنچنے والے) دو افراد پر ’’سبّ‘‘ کیا۔

اس مسئلے کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ ایک روایت ’’الصارم المسلول‘‘ میں یہ بھی درج کی گئی ہے کہ ’’مَنْ سَبَّ اَصْحَابِی فَقَدْ سَبَّنِی، وَمَنْ سَبَّنِی فَقَدْ سَبَّ اللّٰہ‘‘

(الصارم المسلول الجلّد الثانی صفحہ1082 مطبوعہ رمادی للنشر الموتمن للتوزیع)

کہ جس نے میرے صحابی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی۔

اس کا براہِ راست مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صحابہؓ میں سے کسی کو برابھلا کہتے ہیں وہ دراصل رسول اللہ ﷺکو (نعوذ باللہ) برا بھلا کہتے ہیں بلکہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ اگر لفظ ’’سبّ‘‘ کے معنے عرفِ عام والی گالی کریں تو اس کی زد میں کون کون آتا ہے۔ پس اس زیربحث خود ساختہ روایت کے حصے ’’مَنْ سَبَّ اَصْحَابِی فَاضْرِبُوْہُ‘‘ کا قانون اگر انصاف اور عدل کے تقاضوں کے تحت جاری کیا جائے تو دیکھیں کہ بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ صحابیؓ کو ’’سبّ‘‘ کرنے سے اگر بدنی سزا دینا رسول اللہؐ کا بیان فرمودہ اور قائم کردہ ایک قانون تھا تو ان تمام ’’سبّ‘‘ کرنے والوں کو کیوں زدو کوب نہیں کیا جاتا رہا؟ نیز اس زیرِ بحث روایت کے خلاف کھڑی ان متعدد صحیح حدیثوں کوعمداً کیوں نظر انداز کر دیا گیا ہے جو عفو و درگزر اور گستاخی کرنے والوں کو معاف کرنے کا سبق دیتی ہیں؟

ظاہر ہے کہ ایسے سوالوں کا سوائے اس کے اور کوئی جواب نہیں ہے کہ یہ زیربحث روایت ہی بتمام وجوہ قابل ردّ ہے۔ سبّ و توہین خواہ رسول اللہ ﷺ پر کی جاتی تھی یا صحابہؓ پر، اس کی سزا قتل یا کوڑے لگانا نہیں تھی، لہٰذا تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کبھی بھی یہ سزا نہیں دی گئی۔

روایت کے متن کا تجزیہ

اس زیربحث روایت کے پہلے حصہ میں چار الفاظ ہیں:
مَنْ: جو۔ یعنی کوئی بھی ہو۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ مسلمانوں میں بھی وہ کسی بھی فرقے یا مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو، بلا استثناء ’’مَنْ‘‘ کے احاطہ میں آتا ہے۔

2۔ سَبّ: اس لفظ کا عام معنیٰ گالی کیا گیا ہے اور عرب لغات میں بھی بنیادی معنیٰ یہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ اس کے معنے اَلعَارُ یعنی عیب زنی اور تَقَاطُع یعنی تعلق منقطع کرنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنے بے عزّتی کے بھی کئے گئے ہیں۔ امام راغبؒ نے اس کے معنوں میں ’’بیہودہ‘‘، ’’بے مقصد بات‘‘ اور ’’نامناسب الفاظ‘‘ بھی تحریر کئے ہیں۔

احترام، عقیدت، تقدّس اور بلند مقام کا تقاضا ہے کہ اگر صحابہؓ کی طرف سے لفظ ’’سبّ‘‘ ادا ہو تو اس کے نرم ترین معنے لینا ہی مناسب ہیں۔وہاں گالی کے معنے نہیں لئے جا سکتے۔

حدیث اورسیرت کی کتابوں میں درج ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے بھی یہ لفظ ِ ’’سبّ‘‘ ادا ہوا ہے۔ لیکن یہ ایک سچّائی ہے کہ جب یہ لفظ رسول اللہ ﷺ استعمال فرماتے ہیں تو اس کے نرم ترین معنی ہی لینے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہاں عام گالی والے معنی لئے جائیں گے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺتو کجا، کوئی نبی بھی گالی نہیں دیتا۔ لہٰذا ’’سبّ‘‘ کے محاوراتی معنے اختیار کرنے ضروری ہیں۔ اسی طرح کوئی شخص اگر نبی کریمؐ یا کسی اور نبیؑ پر ’’سبّ‘‘ کرتا ہے تو اس جگہ بھی ان کے لئے نرم ترین معنے لینے ہوں گے۔ کیونکہ کوئی گالی رسول کریمؐ کو یا دیگر انبیاء علیہم السلام کو نہیں پہنچتی۔

نَبِیًّا:۔ یہاں ’’نبیًّا‘‘ نکرہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی بھی نبی۔ یعنی صرف رسول کریم ﷺنہیں بلکہ تمام نبی۔ اگر یہاں مقصود صرف رسول اللہ ﷺ ہوتے تو لفظ نَبِیًّا کی بجائے ’’النَّبِيَّ‘‘ یعنی معرفہ ہوتاتو فقرہ یوں ہوتا ’’مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ فَاقْتُلُوْہ‘‘۔ پس اس کی نحوی ترکیب کی وجہ سے یہاں معنے یہ لئے جائیں گے کہ کسی بھی نبی کو کوئی برا بھلا کہتا ہے یا گالی دیتا ہے تو فَاقْتُلُوْہ۔ اس روایت کے یہ لازمی معنے ہیں۔ چنانچہ ہر اس شخص کو جو آنحضرتؐ اور آپؐ سے پہلے یا بعد میں آنے والے نبیوں میں سے کسی کو گالی دیتا ہے تو اس سے فَاقْتُلُوْہ کے معنوں کے مطابق سلوک ہونا چاہئے۔

فَاقْتُلُوْہُ: اس لفظ کے عام معنی تو جان سے مار دینے کے ہیں۔ مگر قرآن کریم، حدیث نبویؐ، عربی زبان اور محاورے کے مطابق قتل کے حقیقی معنوں کے ساتھ اس کے مجازی اور محاوراتی معنے بھی دیکھنے ضروری ہیں۔ چنانچہ

آیت کریمہ ’’قُتِلَ الْانْسَانُ مَا اَکْفَرَہٗ‘‘ (عبس: 18) کے بارہ میں مفسّرین نے کہا ہے کہ یہاں قُتِلَ کا مطلب لُعِنَ ہے۔ یعنی (ایسے) انسان پر اللہ کی لعنت ہو۔

اسی طرح ’’قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ أَنَّی یُؤْفَکُوْنَ‘‘ (التوبۃ: 30) اس کا معنیٰ یہ کیا گیا ہے کہ خدا منافقوں پر لعنت ڈالے۔

حدیث میں ہے ’’قَاتَلَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ‘‘ کہ اللہ یہود کو ہلاک کرے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت ڈالے۔ اور بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا دشمن ہو۔

رسول اللہ ﷺنے نمازی کو حکم دیا ہے کہ اگر نماز میں اس کے آگے سے کوئی گزرے تو ’’قَاتِلْہُ فَاِئنَّہُ لَشَیْطٰنٌ‘‘ کہ وہ شیطان ہے اسے سامنے سے ہٹا دو۔ یہاں اس کے معنے موت کے گھاٹ اتارنے کی بجائے اسے ہٹا دینے کے لئے جاتے ہیں۔ یہ حدیثیں لغت کی کتابوں میں نظیر کے طور پر اس لفظ کے معنوں کے تعیّن کے لئے درج ہیں۔

اسی طرح کہتے ہیں: ’’قَتَلَ اللّٰہُ فُلَانًا‘‘ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اللہ اس کے شر سے بچائے۔ چنانچہ آنحضرتؐ کے وصال کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کی مجلس میں خلافت کے بارے میں جو ماحول قائم ہوا اس منظر میں حضرت عمرؓ نے کہا: ’’قَتَلَ اللّٰہُ سَعْدًا‘‘ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سعد (بن معاذؓ) کے شرّ سے بچائے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؓ نے فرمایا: ’’اُقْتُلُوْا سَعْدًا قَتَلَہُ اللّٰہُ۔‘‘

(الطبری۔جزء الثالث مطبوعہ دارالمعارف مصر، واقعات سنۃ 11ھ، ذکر الخبر….. سقیفۃ بنی ساعدۃ)

مراد یہ تھی کہ اسے مقتول سمجھو کہ گویا یہ زندہ ہی نہیں۔اس کی بات نہ مانو، اسے یوں سمجھو کہ وہ گویا قتل ہی ہو گیا، وہ گویا کالعدم ہو گیا ہے، بے حیثیت ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب فرمایا ’’اُقْتُلُوْہُ تو کسی ایک صحابیؓ نے بھی اس سے موت کے گھاٹ اتارنا مراد نہیں لیا۔

لغت و محاورہ ٔعرب میں سے حسبِ ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔جو لغتِ عرب میں سے ، تاج العروس، لسان العرب اور ، المعجم الوسیط وغیرہ سے ما خوذ ہیں۔چنانچہ لکھا ہے:

قَتَلَ الشَّیءَ خَبْرًا وَ عِلْمًا۔ اس نے کسی بات کو علم کے لحاظ سے قتل کر دیا یعنی اس چیز کے بارے میں مکمل علم حاصل کیا۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں۔

قِیْلَ لِلْخَمْرِ مَقْتُوْلَۃٌ: اس شراب کو مقتولہ کہا جاتا ہے، جب اس میں پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کر دی گئی ہو۔

قَتَلَ فُلَانًا کہا جائے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے دوسرے کو ذلیل و رسوا کردیا۔

تَقَتَّلَ الرَّجُلُ لِلْمَرْأَۃِ کا مطلب ہے کہ مرد عورت کا مطیع ہو گیا۔

نَاقَۃٌ مُقَتَّلَۃٌ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جو مالک کے اشارے پر چلتی ہو۔

ان چند مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے معنے عربی میں صرف جان سے مارنے اور موت کے گھاٹ اتارنے کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ اپنی صرفی ترکیب، صورتحال اور تناظر کے لحاظ سے اپنے مجازی اور محاوراتی معنے بھی اپناتا ہے۔ اسے اکثر مجازی معنوں میں بھی لیاجاتا ہے۔ اس لئے فَاقْتُلُوْہُ سے ہر جگہ جان سے مار دینا آیاتِ قرآنیہ، سنّتِ رسولؐ اور عربی محاورہ کے خلاف ہے۔

پس جب قرآن کریم، احادیث نبویہؐ، لغت و محاورۂ عرب میں قتل کے دیگر معانی موجود ہوں تو ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی یقینی حدیث بھی جس میں ’’اُقْتُلُوْہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہو تو اس میں اس لفظ کا یہ ترجمہ کرنا کہ اس کو موت کے گھاٹ اتار دو، جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ قرآن کریم کی صریح آیات اور سنّت و اسوہ ٔرسول ﷺکے منافی ہوگا۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺکی تمام زندگی سے قطعی طور پر اور حتمی طور پر ثابت ہے کہ آپؐ نے آپؐ کی کھلی کھلی توہین کرنے والوں کو کبھی بھی قتل نہیں کیا،نہ گردن مارنے کا حکم دیا اور نہ ہی کسی صحابیؓ کے غیرت کے تحت اجازت طلب کرنے پر اسے اس کی اجازت دی۔ بلکہ آپؐ تو ایسے بدزبانوں کے لئے ہدایت کی دعا کرتے تھے۔ پس ان حقائق کی بنیاد پر اس زیرِ بحث روایت کو جہاں ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا، وہاں اس میں لفظ ’’فَاقْتُلُوْہُ‘‘ کے معنے جان سے مار دینا بھی کسی طور پر اختیار نہیں کئے جا سکتے۔ اس روایت کو اگر بفرضِ محال اخذ کر بھی کیا جائے تو رسول اللہ ﷺکی متواتر سنّت کے تحت اس فقرے کے صحیح، واضح اور متوازن معنے یہی بنتے ہیں کہ جو بھی کسی نبیؑ کے بارے میں نازیبا یا اس کی شان کے منافی کلام کرے اس کو اس سے روکو اور اس کی اس بدتمیزی کو کالعدم سمجھو۔ کیونکہ اس کی فضول حرکت سے اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی شان میں ایک تنکا برابر فرق بھی نہیں پڑتا۔

پس یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ زیرِ بحث روایت میں ’’فَاقْتُلُوْہُ‘‘ سے جان سے مارنا یا گردن مارنا یا عرفِ عام کے مطابق قتل کردینا مراد نہیں ہے۔

روایت کے الفاظ میں تبدل

یہاں یہ بھی قابل ذکرا ور قابل فکر بات ہے کہ کتاب المعجم الصغیر جس میں سب سے پہلے یہ روایت نمودار ہوئی وہاں ’’مَنْ سَبَّ الاَنَبِیَآءَ‘‘ کے الفاظ ہیں۔چنانچہ لکھا ہے: ’’مَنْ سَبَّ الاَنَبِیَآءَ قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابِی جُلِدَ۔‘‘ یعنی سب سے پہلی رونما ہونے والی اس روایت میں سب انبیاءؑ کا ذکر ہے، صرف رسول اللہ ﷺکا نہیں ہے۔ اس سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اگر بفرض محال اس وضعی روایت کو ایک لمحہ کے لئے مان بھی لیا جائے تو اس میں صرف رسول اللہ ﷺ کی بات نہیں، بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ تیسری صدی ہجری سے چوتھی صدی میں داخل ہوتے ہوئے یہ روایت کس طرح بدل گئی اور ’’اَلْاَنْبِیَاء‘‘ کی بجائے ’’نَبِیًّا‘‘ کا لفظ اختیار کر لیاگیا۔ الغرض جو بھی ہوا وہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ اس روایت کو بنایا گیا ہے اور بعد میں اس کے مضمون پر کسی کو تسلّی نہ ہوئی تو اس کے الفاظ کو بھی بدل دیا گیا۔ جبکہ راوی دونوں میں حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ ہی ہیں۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ ’’المعجم الصغیر‘‘ والی روایت میں الفاظ ’’قُتِلَ‘‘ سے مراد جان سے مار دینا نہیں بلکہ ایمانی لحاظ سے ایسا ہو جانا مراد ہے کہ گویا وہ اپنا ایمان ختم کر چکا ہے، وہ اپنے ایمان کو مار چکا ہے یا خود ہی مر چکا ہے، کالعدم ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’جُلِدَ‘‘ سے مراد ہے کہ جو صحابیؓ کو گالی دے وہ گویا ایمانی لحاظ سے از خود پِٹ چکا ہے۔ کیونکہ نبیوں کوہر گالی دینے والا پکڑا جا سکتا ہے نہ پکڑا گیا ہے۔ تو اس طرح یہ روایت کالعدم اور بے معنے ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ’’قُتِلَ‘‘ میں ایک حتمیّت پائی جاتی ہے کہ وہ لازماً قتل ہو گیا، وہ قتل ہو چکا ہے۔ اسی طرح تاریخ شاہد ہے کہ کسی صحابیؓ یا صحابیہؓ کو کوڑے مارے گئے نہ پیٹا گیا۔ تو اس ثابت شدہ واقعاتی حقیقت کی وجہ سے اس کے یہ معنے نہیں لئے جا سکتے کہ نبیوں کو گالی دینے والے کو جان سے مار دیا جائے اور کسی صحابیؓ کو گالی دینے والے کو ظاہری کوڑوں سے مارا پیٹا جائے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ
1: یہ روایت ابتدائی صحیح اور مستند مجموعہ ہائے احادیث میں شامل نہیں ہے۔یہ چوتھی صدی ہجری میں منصہ شہود پر ابھری ہے۔

2: ائمّہ فن کے مطابق یہ روایت علم سند اور علم درایت کے لحاظ سے ضعیف روایت ہے بلکہ عملاً موضوع ثابت ہوتی ہے۔

3: اس روایت میں جوتغیّر و تبدل ہواہے، اس سے اس کے معنوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔

4: آنحضرت ﷺ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہؓ کے اپنے عمل سے ثابت ہے کہ یہ بات ان کے زمانے میں بالکل بھی موجود نہیں تھی۔نہ ہی اس پر کبھی ان معنوں میں عمل ہوا ہے جو معنے آج متشدد لوگ لیتے ہیں۔

5: اس روایت کے تمام الفاظ اُن معنوں کو ردّ کرتے ہیں جو ایک مخصوص طبقہ محض کشت و خون کے لئے اختیار کرتا ہے۔

6: اس روایت کی نحوی ترکیب بتاتی ہے کہ اس میں صرف رسول اللہؐ مخصوص نہیں ہیں،بلکہ تمام انبیاء مراد ہیں۔

7: اس روایت کا ایک جزو یعنی صحابہؓ کو گالی دینے والے کی سزا والا حصّہ ہمیشہ ناقابلِ عمل رہا ہے۔

الغرض اس ساری بحث کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ یہ روایت خلافِ قرآن کریم، خلافِ احکام و سنّت رسولؐ، خلافِ عمل خلفائے راشدین و صحابہؓ، خلافِ اجماع و طریق ائمّہ اورخلاف عقل ہے۔ اس کی اندرونی شہادت ثابت کرتی ہے کہ یہ روایت وضعی ہے اور ناقابل عمل ہے۔ ایسی وضعی روایات خوبصورت دین اسلام پر الزام قائم کرتی ہیں، اس کی دلکش تعلیم کو متہم کرتی ہیں اور اس سے اس کی بنیادی کشش چھین کر عالمگیر نفرتوں میں اتار دیتی ہیں۔لہٰذا ان کا ترک کرنا ضروری ہے۔ ان کا دینِ اسلام کی خوبصورت، پُرکشش اور پاک تعلیمات سے قطعی طور پر کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اسلام ایک پُررحمت، سچا، مثبت اور عملی مذہب ہے۔ یہ قتل و غارت جیسے وحشیانہ، جھوٹے، منفی اور مہلک نظریات کو ترک کر کے پُر امن اور مثبت راہوں پر آگے سے آگے چلنے کی تلقین کرتا ہے۔

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ