• 19 اپریل, 2024

معاشرتی برائیوں کی جَڑ اور آکاس بیل بدظنی و بدگمانی

معاشرتی برائیوں کی جَڑ اور آکاس بیل بدظنی و بدگمانی
’’بدظنیاں جہنم میں دھکیلتی ہیں تو حسن ظن عبادت میں شمار ہوتا ہے‘‘

جب کوئی شخص کسی کے بارے میں نیک گمان رکھنے سے قاصر ہو اوراچھی رائے نہ رکھتا ہو تو اُس کے دماغ میں دوسرے کے بارے میں بُرے خیال شروع ہو جاتے ہیں۔ اِس طرح اچھے خیالات اورنیک گمانی جاتی رہتی ہے اور اُس کی جگہ بد گمانی اور بدظنی جنم لیتی ہے۔ انسان خیالاتِ فاسدہ کا شکار ہو جاتاہے اور وہم اور شک و شبہ اُس کے دماغ کامحور بن جاتے ہیں۔ بے سکونی ہونے لگتی ہے۔ پراگندگی کا شکار ہو جاتاہے۔ دوسروں سے تعلقات توڑ نے لگتاہے ۔اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر خیال کرتا ہے۔ تکبر اور نخوت آ جاتاہے۔ غرور اور گھمنڈ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بغض و عناد کی بُو پھیل کر حسد کو جنم دیتی ہے۔ اپنے آپ کو نیک پاک اور فرشتہ سیرت تصور کرتا ہے۔ دوسروں کو تنقید کا نشانا بناتاہے۔ خشک مزاج ہو جاتا ہے ۔زبان کی مٹھاس جاتی رہتی ہے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر دیکھائی نہیں دیتا۔ یہ بیماری پھر اور بھی کئی بیماریاں پید اکرتی ہے۔ اسں سے معاشرے کا امن و سکون خراب ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔ کئی گھر خراب ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ بیماری بغیر کسی ثبوت و صداقت کے معاشرے میں پھیلتی رہتی ہے اور جس طرح آکاس بیل پورے درخت کو کھا جاتی ہے ایسے ہی یہ بھی پورے معاشرے کا امن تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ یوں بد ظنی کرنے والا آہستہ آہستہ گنا ہوں میں مبتلا ہو جاتاہے۔ قرآنِ کریم نے اِس کا نقشہ یوں کھینچاہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ۔ (الحجرات:13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بکثرت ظن سے اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: بدظنی سے بچو، کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو۔ اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو۔ اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو۔ حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔

(مسلم کتاب البر وا لصلۃ باب تحریم الظن حدیث نمبر 6431)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام نے اس معاشرتی برائی کے نقصانات کا ذکر کئی پہلوں سے بیان کرتے ہوئے احباب کو اس سے بچنے اور دُور رہنے کی تلقین کی ہے ۔ صرف چند ایک کا ذکر ان سطور میں کیا جاتا ہے۔

‘‘اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے’’

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں۔ اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لئے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ اور اُنس پیدا ہوتا ہے۔ اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ بغض حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ 215تا214 ،ایڈیشن1988)

’’انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے اور پھر آپ اس سے بد تر ہوجاتا ہے‘‘

ایک دوسری جگہ آپؑ نے فرمایا:
’’دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کرسکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے۔ انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے اور پھر آپ اس سے بد تر ہوجاتا ہے۔ کتابوں میں مَیں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ مَیں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا۔ ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے(دیکھا) کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ان کو دُور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ مَیں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں مگر ان دونوں سے تو مَیں اچھا ہی ہوں۔ اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا ایک کشتی آ رہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور انکی جان بچ گئی۔ پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کرکے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہو۔ مَیں نے تو چھ کی جان بچائی ہے۔ اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جوان نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے۔ شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور مَیں ایک ہی اس کی اولاد ہوں۔ قویٰ اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظرآتی ہے۔ خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 568تا569، ایڈیشن 1988)

’’بدظنیاں جہنم میں دھکیلتی ہیں تو حسن ظن عبادت میں شمار ہوتا ہے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاس معاشرتی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس جہاں بدظنیاں جہنم میں دھکیلتی ہیں تو حسن ظن عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اس معیار کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ بدظنیاں جب پیدا ہوتی ہیں تو اپنی خود ساختہ کہانیوں میں زور پیدا کرنے کے لئے پھر انسان جھوٹ کا بھی سہارا لیتا ہے اور اپنی باتوں میں اس کی بے تحاشا ملونی کر دیتا ہے۔ اور جھوٹ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے، شرک کے برابر ٹھہرایا ہے۔ پس ہر احمدی کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ احمدی اس وقت کہلا سکتا ہے جب سچائی پر قائم ہو گا اور ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھے گا‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ؍ مئی 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16جون 2006 صفحہ8)

’’بدظنی بہت بُری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے‘‘

اس زمانے کے خاتم الخلفاء حضرت مسیح موعوداس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے ۔۔۔ بدظنی بہت بُری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنّی شروع کر دیتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 375 ،ایڈیشن 1988)

’’بدظنی کی وجہ سے ایک دوسرے کے عیب تلاش کئے جاتے ہیں تاکہ اس طرح اسے نیچا دکھایا جائے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’دنیا میں برائیاں پھیلانے میں بدظنی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ بدظنی کی وجہ سے ایک دوسرے کے عیب تلاش کئے جاتے ہیں تاکہ اس طرح اسے نیچا دکھایا جائے، اسے بدنام کیا جائے۔ اس لئے فرمایا کہ آپس کے تعلقات کے جو معاملات ہیں لوگوں کے ذاتی معاملات ہیں، ان کے معاملہ میں تجسس نہ کرو۔ یہ تجسس خداتعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس تجسس کے بعد پھر اگلا سٹیپ (Step) کیا ہوگا، اگلا قدم کیا ہوگا کہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر پھر ہجو کرو گے، دوسرے کی چغلیاں کرو گے۔ وہ باتیں جو دوسرے کے بارہ میں معلوم ہوتی ہیں اور جو دوسرے شخص کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔۔ راز کی باتیں تلاش کرکے لوگوں کو بتائی جائیں گی۔ اس کا ردّعمل سختی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے جس سے پھر دشمنیاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپس میں پیار اور محبت کے نمونے قائم کرو۔ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کے نظارے تم میں نظر آنے چاہئیں۔ دوسرے، ان رازوں کے فاش ہونے سے جن لوگوں کے بارہ میں باتیں کی گئیں، جن کے راز فاش کئے گئے ان کی باتوں کی بناء پر آپس میں تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ پہلی بات، جب ایک فریق کی پردہ دری کرو گے تو دوسرا فریق بھی غصہ میں آئے گا فساد اور لڑائیاں پیدا ہوں گی۔ دوسری بات، جو باتیں کی گئیں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کسی میں پھوٹ ڈالنے والی ہوتی ہیں ان کے تعلقات خراب ہوں گے۔ دو دلوں میں پھوٹ ڈالنے والے بنو گے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ مارچ 2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17اپریل 2009ء صفحہ 7تا8)

’’بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے‘‘

ایک اورخطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے ۔پس فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے، جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو معاشرے کے امن کو بھی برباد کردیتا ہے۔ دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس خداتعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا گناہ جو انسان بعض اوقات اپنی اَنا کی تسکین کے لئے کررہا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو، تجسس بھی بعض اوقات بدظنی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کسی کے بارہ میں تجسس کررہا ہوتا ہے اس کے بعد بھی جب پوری معلومات نہیں ملتیں تو جو معلومات ملتی ہیں انہی کو بنیاد بنا کر پھر بدظنّیاں اور بڑھ جاتی ہیں اور بدظنی میں بعض اوقات انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں، خدمت کرنے والے بھی ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جاہل اجڈ عورتیں بھی نہیں کرتی ہوں گی۔ چھوٹے چھوٹے شکووں کو اتنا زیادہ اپنے اوپر سوار کر لیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اس سے بڑی بات ہی کوئی نہیں ہے۔ اور اس سے نہ صرف اپنے کاموں میں حرج کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسی سوچوں کے ساتھ اپنی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں بلکہ اِدھر اُدھر باتیں کرکے جس کے خلاف شکوہ ہوتا ہے اس کی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسے معاملات میرے پاس بھی آجاتے ہیں اور جب تحقیق کرو تو کچھ بھی نہیں نکلتا۔ بڑی معمولی سی بات ہوتی ہے۔ پھر بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا شکایت کرنے والے کے ساتھ براہ راست معاملہ بھی نہیں ہوتا۔ ادھر سے بات سنی ادھر سے بات سنی، تجسس والی طبیعت ہے شوق پیدا ہوا کہ مزید معلومات لو اور ادھ پچدی جو معلومات ملتی ہیں ان کو پھر فوراً اپنے پاس سے حاشیہ آرائی کرکے اچھالا جاتا ہے۔ تو جب کسی کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں اور انہیں اچھالا جاتا ہے تو اس شخص بیچارے کی زندگی اجیرن ہوئی ہوتی ہے کیونکہ اس ماحول میں اس کو دیکھنے والا ہر شخص ایسی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے وہ بہت بڑا گناہگار انسان ہے۔ وہ چھپتا پھرتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہئے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ فروری 2010ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26فروری 2010 صفحہ7)

’’بدظنی کی وجہ سے ۔۔۔ الزام لگانے میں بعض لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے‘‘

پھر فرمایا:
’’بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے کسی ناراضگی یا کسی غلط فہمی یا بدظنی کی وجہ سے اس حد تک اپنے دلوں میں کینے پالنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے شخص کا مقام اَوروں کی نظر میں گرانے کے لئے، معاشرے میں انہیں ذلیل کرنے کے لئے، رسوا کرنے کے لئے۔ ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرکے پھر اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور اس بات سے بھی دریغ نہیں کرتے کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی باتیں مجھے پہنچائیں تاکہ اگر کوئی کارکن یا اچھا کام کرنے والا ہے تو اس کو میری نظروں میں گرا سکیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بڑے اعتماد سے بعض لوگوں کے نام گواہوں کے طور پر بھی پیش کر دیتے ہیں اور جب ان گواہوں سے پوچھو، گواہی لو، تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ گواہ بیچارے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں جس کی گواہی ڈلوانے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے۔اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ مَیں ان جھوٹی باتوں پر یقین کرکے جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے ضرور اسے سزا بھی دوں۔ گویا یہ شکایت نہیں ہوتی ایک طرح کا حکم ہوتا ہے۔۔۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ حسد کی وجہ سے یہ کوشش کی جا رہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچا یا جائے۔ یہ حسد بھی اکثر احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس خیال کے دل میں نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا جھوٹے اور حاسد کی مدد نہیں کرتا۔ اور حسد کی وجہ سے یا بدظنی کی وجہ سے دوسرے پر الزام لگانے میں بعض لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ آج کل کے معاشرے میں یہ چیزیں عام ہیں اور خاص طور پر ہمارے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں تو یہ اور بھی زیادہ عام چیز ہے۔ اور اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بعض دفعہ ایسی گھٹیا سوچ رکھ رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں یہ لوگ کہیں بھی چلے جائیں اپنے اس گندے کریکٹر کی کبھی اصلاح نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ مئی 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 جون 2006 صفحہ5)

’’بعض لوگ بعض کے بارے میں بدظنیاں صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ذلیل کیا جائے‘‘

حضور اقدس ایک اور خطبہ میں اس معاشرتی بیماری کا اس طرح ذکر کرتے ہیں:
’’پھر ایک برائی بدگمانی ہے، بدظنی ہے، خود ہی کسی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دو آدمی فلاں جگہ بیٹھے تھے اس لئے وہ ضرور کسی سازش کی پلاننگ کر رہے ہوں گے یا کسی برائی میں مبتلا ہوں گے۔ اور پھر اس پر ایک ایسی کہانی گھڑ لی جاتی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر اس سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ دوستوں کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ معاشرے میں بھی فساد پیدا ہوتا ہے۔۔۔ بعض لوگ بعض کے بارے میں بدظنیاں صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ذلیل کیا جائے اور دوسروں کی نظروں سے گرایاجائے اور اگر کسی جماعتی عہدیدار سے یا خلیفہ ٔوقت سے اس کا خاص تعلق ہے تو اس تعلق میں دُوری پیدا کی جائے اور اکثر پیچھے ذاتی عناد ہوتا ہے۔ جب بدظنیاں شروع ہوتی ہیں تو پھر تجسس بھی بڑھتا ہے اور پھر ہر وقت یہ بدظنیاں کرنے والے اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسرے کے نقائص پکڑیں اور اسکی بدنامی کریں۔ ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا۔ بڑا قریبی آدمی تھا۔ اس کا نام ایاز تھا۔ انتہائی و فادار تھا اور اپنی اوقات بھی یاد رکھنے والا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ مَیں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یاد رکھنے والا تھا۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جود وسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کوبادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں۔ اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو۔ بادشاہ کو بہرحال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا۔ بدظن نہیں ہوا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں۔ آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب مَیں گیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیرکمان تھی تاکہ جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیرا کا وار آپ پر چلائے۔ تو جو سب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ مئی 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16جون 2006 صفحہ7)

میاں اللہ دتہ صاحب کی حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں بد ظنی اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں خیر محمد صاحب سہرانی احمدی سکنہ بستی رِنداں ڈیرہ غازی خان کہتے ہیں کہ 1902ء یا 1903ء کا واقعہ ہے کہ مَیں قادیان شریف گیا۔ موقع عید کا تھا اور لنگر خانے میں لنگر چلا تو عام و خاص کی تجویز ہونے لگی۔ (لنگر چلا تو عام اور خاص کی تجویز ہونے لگی کہ یہ لوگ خاص مہمان ہیں یہ عام مہمان ہیں)۔ کھانے کی تقسیم کے لئے، تو میری نیت میں فرق آنے لگا۔ فوراً مجھے یہ بد ظنی پیدا ہوئی کہ جو مہدی معہود ہو گا وہ حکم عدل ہو گا مگر اس لنگر خانے میں رِیا ہونے لگا ہے، مساوات نہیں ہے۔ پھر صبح کو مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعود اذان سے پہلے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا: مولوی نورالدین صاحب کہاں ہیں؟ حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور! مَیں حاضر ہوں۔ حضرت اقدس نے فرمایا رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیرا لنگر خانہ ناخن کی پشت برابر بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ لنگر خانے میں رات کو ریا کیا گیا ہے اور اب جو لنگر خانے میں کام کر رہے ہیں اُن کو علیحدہ کر کے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں۔ (اتنی سختی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی کہ جنہوں نے مہمانوں کے درمیان امتیاز کیا تھا، اُن کو نہ صرف فارغ کرو کام سے بلکہ چھ ماہ کے لئے قادیان سے نکال دو) اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں اور فرمایا کہ فجر کی روٹی (یعنی صبح کا کھانا جو ہے ناشتہ) میرے مکان کے نیچے چلایا جائے اور مَیں اور میاں محمود احمد اوپر سے دیکھیں گے۔ اِن کوجو بد ظنی پیدا ہوئی تھی کہ یہ ریاہونے لگ گیا ہے، کہتے ہیں مَیں نے فجر کی نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار پڑھی کہ مَیں نے بدگمانی کی، یااللہ مجھے معاف کر دے۔ یہ کرامات حضرت اقدس کی مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ (مأخوذ ازروایات حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 194، 195) پس یہ بدظنیاں ہیں جو بعض دفعہ بہت دور لے جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت پر رکھنا چاہے اُس کے لئے فوراً وہ سامان پیدا کر دیتا ہے تا کہ بد ظنیاں دور ہو جائیں، اس سے بچنا چاہئے اور انسان عمومی طور پر استغفار اگر کرتا رہے تو بدظنیوں سے بچتا چلا جاتا ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ جون 2011۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشل 15 جولائی2011صفحہ7)

محمود غزنوی کا ایک مشہور جرنیل ایاز پر بدظنی کرنے کا واقعہ اور پھر احساسِ ندامت

حضرت مصلح موعود رضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس واقعہ کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ایاز ایک مشہور جرنیل محمود غزنوی کا تھا لوگوں نے محمود کے پاس اُس کی شکایتیں کیں۔ ایاز ایک غلام تھا مگر اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے جرنیل ہو گیا حتیّٰ کہ وہ فنانس منسٹر (وزیر خزانہ) ہو گیا۔ لوگوں کو کچھ حسد تھا اس لئے انہوں نے محمود کے پاس شکایتیں کیں کہ وہ رات کو ہمیشہ اکیلا خزانے میں جاتا ہے اور قیمتی اشیاء وہاں سے چُرا لیتا ہے۔ یہ شکایتیں محمود کے پاس اس کثرت سے پہنچیں کہ اُسے ایاز پر بدظنی ہو گئی۔ ایک دن بادشاہ رات کے وقت خزانہ میں داخل ہو گیا اور باہر سے تالا لگوا دیا اور ایک پوشیدہ جگہ پر چُھپ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد ایاز آیا اور اندر داخل ہو گیا۔ بادشاہ کی بدظنّی اَور بھی بڑھ گئی اور سمجھا کہ لوگوں کی شکایتیں صحیح ہیں مگر اس نے اپنے دل میں کہا کہ ابھی دیکھنا چاہئے کہ یہ کیا کرتا ہے۔ ایاز نے ایک کنجی لی اور اس سے ایک ٹرنک کھولا، پھر اس میں سے ایک اور صندوقچی نکالی اور اسے کھولا اور اس میں سے ایک بُغْچہ (چھوٹی گھٹڑی) نکالا۔ جس کے اندر ایک پھٹی ہوئی گدڑی تھی، ایاز نے اپنا شاہی لباس اُتارا اور وہ گدڑی پہن لی۔ اس کے بعد اس نے مصلّٰی بچھایا اور نماز پڑھنی شروع کر دی اور اس نے نماز میں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! مَیں اِس گدڑی میں اس شہر میں داخل ہو ا تھااور آج تُونے اپنے فضل سے مجھے وزارت کا عہدہ عطا فرمایا ہے اور اتنی عزت دی ہے کہ اس جگہ پر آنے سے مجھے محمود غزنوی کے سِوا اور کوئی نہیں روک سکتا۔ مَیں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے مجھے اپنے فضل سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور اے خدا! مجھے اِس بات کی بھی توفیق عطا فرما کہ جس بادشاہ نے مجھ پر اتنا رحم کیا ہے اُس کی دیانتداری سے خدمت کروں۔ محمود نے جب ایاز کی یہ دعا سُنی تو اس کے پاؤں سَوسَو من کے ہو گئے اور اُس نے دل میں کہا کہ میں نے کتنے قیمتی جوہر پر بدظنی کی ہے۔ ایاز نماز پڑھ کر اور گدڑی کو پھر اسی جگہ رکھ کر اور اپنا لباس پہن کر چلا گیا بعدازاں محمود وہاں سے اُٹھا اور واپس آیا اور اس نے پہرہ داروں کو کہا کہ خبردار میرے آنے کا ایاز کو علم نہ ہو‘‘۔

(احباب ِجماعت اور اپنی اولادسے ایک اہم خطاب صفحہ13تا 14 ، انوارالعلوم جلد 15، تحریر فرمودہ11نومبر 1938)

یاد رکھو بہت بدیوں کی اصل جڑ سوء ظن ہوتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سوء ظن کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے کا ایک گر بتایا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ ایماندارو! ظن سے بچنا چاہئے کیونکہ بہت سے گناہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں- اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث (بخاری کتاب الوصایا) ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے- لیکن اس کے گھر کی حالت اور اس کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے- اپنی حاجت براری ہوتے نہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی اور میری دستگیری سے منہ موڑا- تب محض ظن کی بنا پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہئے تھی‘ عداوت کا بیج بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں- کئی لوگوں سے میں نے پوچھا ہے کہ جب تم نے میرا نام سنا تھا تو میری یہی تصویر اور موجودہ حالت کا ہی نقشہ آپ کے دل میں آیا تھا یا کچھ اور ہی سماں اپنے دل میں آپ نے باندھا ہوا تھا- تو انہوں نے یہی جواب دیا ہے کہ جو نقشہ ہمارے دل میں تھا اور جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ نقشہ نہیں پایا- یاد رکھو بہت بدیوں کی اصل جڑ سوء ظن ہوتا ہے- میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری تعلیم فرمادی کہ بات اس کے خلاف نکلی- میں اس میں تجربہ کار ہوں اس لئے نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوءظنیوں سے بچو- اس سے سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے۔ اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے و لاتجسسوا تجسس نہ کرو۔ تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے۔جب انسان کسی کی نسبت سوء ظنی کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گااپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1907، خطبات نور صفحہ258تا259)

بدگمانیوں سے بچو ۔۔۔اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے

پھر ایک اور جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ تمسخر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ بدظنی سے- اس لئے فرماتا ہے اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ (الحجرات:۱۳) بدگمانیوں سے بچو- حدیث میں بھی آیا ہے ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث (بخاری کتاب الوصایا) اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے-

میں نے ایک کتاب منگوائی- وہ بہت بے نظیر تھی- میں نے مجلس میں اس کی اکثر تعریف کی- کچھ دنوں بعد وہ کتاب گم ہو گئی- مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر یہ خیال ضرور آیا کہ کسی نے اٹھا لی ہے- پھر جب کچھ عرصہ نہ ملی تو یقین ہوگیا کہ کسی نے چرا لی- ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے- جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور وہ پیچھے جا پڑی- اس وقت مجھ پر دو معرفت کے نکتے کھلے- ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی؟ دوم میں نے صدمہ کیوں اٹھایا؟ خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیزاور عمدہ میرے پاس موجود تھی-

اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ تہیں ہوں گی- ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا- ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی- اسے اس کام کا بہت شوق تھا- اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی- تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی- مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی نہ میرے بچوں کے سر پر- مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آ گئی ہو گی- مدت گزر گئی- اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کے لئے کھولا گیا تو اس کی ایک تہ میں سے نکل آئی- دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے- اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میری رہنمائی کی- اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گے مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 نومبر 1908، خطبات نور صفحہ427تا428)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: جاوید اقبال ناصر مربی سلسلہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2020