• 23 اپریل, 2024

عاجزی و انکساری

’’مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہوبلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتاہے۔ ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔

یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردو پیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لئے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے۔ بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمت گا ر سے ذرا کوئی کام بگڑا۔ مثلاً چائے میں نقص ہواتو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کردیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا تو بس بیچارے خدمتگاروں پر آفت آئی۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ438،437 ایڈیشن 1988)

پھر آپ فرماتے ہیں:
’’عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے۔ انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کیلئے ہی پیداکیا گیا ہے۔ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (اَلذَّاریات: 57)

(ملفوظات جلد سوم صفحہ232 ایڈیشن 1988)

اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان فرماتے ہیں ؎

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ