• 20 اپریل, 2024

تو ہمیشہ اللہ کا فضل اور صرف اس کا فضل ہی ہے جو انسان کو بچائے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
…پھر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ سے بڑھ کر کوئی حسین اخلاق والا نہیں تھا۔ آپ کے صحابہ میں سے یا اہل خانہ میں سے جب بھی کسی نے آپ کو بلایاتو ہمیشہ آپ کا جواب یہ ہوتا تھا کہ میں حاضر ہو ں۔ تب ہی تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ آپ عظیم خلق پر قائم تھے۔

(الوفاء باحوال المصطفی از علامہ ابن جوزی صفحہ ۴۶۷ حامد اینڈ کمپنی لاہور)

پھر اپنی عاجزی کے اظہار اور اپنے خاندان کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لئے اور ان کو عباد الرحمن بنانے کے لئے آپ ؐ نے کیسی خوبصورت نصیحت فرمائی۔ ایک موقع پر آپ نے اپنی پھوپھی صفیّہ کو فرمایا اے میری پھوپھی صفیّہ بنت عبدالمطلب اور اے میری لخت جگر فاطمہ، میں تم کو اللہ کے عذاب سے ہر گز نہیں بچا سکتا۔ اپنی جانوں کی خود فکر کر لو۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الشعراء زیر آیت وانذر عشیرتک الاقربین)

تو ہمیشہ اللہ کا فضل اور صرف اس کا فضل ہی ہے جو انسان کو بچائے اور ہر وقت اس کے آگے جھکے رہنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ہر وقت تعمیل کرتے رہنا چاہئے اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتے رہنا چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دلوں کے پاس تلاش کرو۔ اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے یا تمہارا خاندان کیا ہے بلکہ سوال یہ ہو گاکہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے اپنی بیٹی کو فرمایا کہ اے فاطمہ !خداتعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا اگر تم کوئی برا کام کرو گی توخدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگذر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۷۰ الحکم ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء)

پھر دیکھیں آج کل اگرکسی کو کوئی عہدہ مل جائے یامالی حالت کچھ بہتر ہو جائے تو زمین پر پاؤں نہیں ٹکتے۔ اپنے آپ کو کوئی بالا مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ماتحتوں سے یا غریب رشتہ داروں سے اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کوئی انتہائی کم درجہ کے لوگ ہوں۔ لیکن اسوۂ رسول ؐ دیکھیں کیا ہے۔

ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ؐ کے پاس ایک شخص آیا آپ اس سے گفتگو فرما رہے تھے تو اسی دوران میں اس پر آپ کا رعب اور ہیبت طاری ہوگئی اور اس وجہ سے اس کو کپکپی طاری ہو گئی کانپنے لگ گیا وہ۔ تو آپؐ اسے فرمانے لگے۔ کہ دیکھو اطمینان اور حوصلہ رکھو، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے میں کوئی جابر بادشاہ تھوڑا ہی ہو ں میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔

(ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب القدید)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہوبلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ اللّٰہم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰل مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔ تو یہ ہے وہ نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا اور یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردو پیش حاضر رہتے ہیں۔ فرمایا اس لئے اگر کسی کے انکسار اور فروتنی اور تحمل اور برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمت گا ر سے ذرا کوئی کام بگڑا۔ مثلاً چائے میں نقص ہو اتو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کردیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا تو بس بیچارے خدمتگاروں پر آفت آئی۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۳۷، ۳۴۸ الحکم ۱۰ ؍نومبر ۱۹۰۵)

ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ ایک کم سن لونڈی کو بازار میں روتے دیکھا جو گھر کے مالکوں کا آٹا پیسنے نکلی تھی مگر درہم گم کر بیٹھی۔ آپ ؐ نے اسے درہم بھی مہیا کئے اور اس کے مالکوں کے گھر جا کر سفارش بھی کی۔ اس بات پر کہ آنحضرتﷺ سفارش کرنے کے لئے آئے ہیں مالکوں نے اس کو آزاد بھی کر دیا۔

(مجمع الزوائد ازعلامہ ھیثمی جلد ۹ صفحہ ۴۱ مطبوعہ بیروت)

حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور ایک مجلس میں اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا، ذرا پاگل پن تھا تھوڑا۔ تو حضور کے پاس آئی اور عرض کیاکہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے لیکن میں آپ سے ان لوگوں کے سامنے باتیں نہیں کروں گی۔ علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ حضور نے فرمایا ٹھیک ہے جہاں بھی مدینہ کے راستوں میں سے جس رستہ پہ چاہو یا سڑک پہ چاہو یاجو بیٹھنے کی جگہیں ہیں وہاں چاہو مجھے بتادو میں وہاں جا کر بیٹھتا ہوں اور تم بات کرو اور میں تمہاری بات سنوں گا۔ اور فرمایا جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کردوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں حضور کی بات سن کر وہ حضور کو ایک راستہ پر لے گئی پھر وہاں جا کر بیٹھ گئی حضور بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اس کی بات سن کر اس کا کام نہیں کر دیا حضور وہیں بیٹھے رہے۔

(الشفا لقاضی عیاض باب تواضعہ صفحہ 192)

تو اس زمانہ میں یہی مثال یہی اسوہ ٔ ہمیں آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے تو درکنا ر میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو اور لاابالی مزاج ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ پھر اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سیر کو جارہا تھا تو ایک پٹواری میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستے میں ایک بڑھیا 70، 75 سال کی ملی پہلے ان پٹواری صاحب کو اس نے خط پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ پھر اس بڑھیا نے وہ خط مجھے دیا تو فرماتے ہیں کہ میں اس کو لے کرٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر پٹواری کو بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 82، 83 الحکم 31 جولائی تا 10 اگست 1904ء)

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

قرآن کریم میں اطاعت کا مضمون

اگلا پڑھیں

گھٹا کرم کی، ہجومِ بلا سے اُٹھی ہے