• 25 اپریل, 2024

مکرم میاں محمد عمر صاحب


مکرم میاں محمد عمر صاحب
مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی ابتدائی تاریخ و قائدین ضلع لاہور

لاہور میں جماعت کی بنیاد کب پڑی؟ اور وہ کون سے خوش بخت احباب تھے جن کو اس کی تاسیس کی سعادت حاصل ہوئی، اس سوال کا جواب ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ کے اس خطبہ جمعہ سے ملتا ہے جو حضور نے 19فروری 1954 کو لاہور میں بمقام رتن باغ ارشاد فرمایا تھا، حضور فرماتے ہیں ’’چونکہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے والد صاحب کے زمانہ میں مقدمات کے لئے اکثر لاہور آتے تھے اور آپ کے والد صاحب کے تعلقات بھی زیادہ تر لاہور کے رؤساسے تھے ۔ اس لئے ابتدائی طور پر یہاں ایک ایسی جماعت پائی جاتی تھی جو حضرت مسیح موعود سے اخلاص رکھتی تھی‘‘۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ کا یہ خطبہ تاریخ احمدیت لاہور میں ’’جماعت احمدیہ لاہور کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے آغاز میں شائع شدہ موجود ہے جس میں حضور نے اس رئیس خاندان کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے اخلاص و محبت کے تعلق کا ذکر فرمایا ہے ۔ حضور فرماتے ہیں: میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کے لحاظ سے جو بیعت سے پہلے کے تھے، حضرت مسیح موعود کی نگاہ میں بہت قرب رکھتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے عقیقہ پر جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی ان میں میاں چراغ دین بھی تھے ۔ پس اس جگہ پر جماعت کی بنیاد ایسے لوگوں سے پڑی جو حضرت مسیح موعود سے اس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب ابھی آپ نے دعویٰ بھی نہیں کیا تھا ۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے‘‘۔ حضور مزید فرماتے ہیں کہ ’’پس لاہور میں یہی واحد اتنا بڑا رئیس خاندان تھا جو کہ اصل لاہور کے باشندگان پر مشتمل تھا جس نے قریباً اجتماعی طور پر بیعت کر لی تھی ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل تھا ۔ ۔ ۔ اس طرح خاندان میاں فیملی لاہور میں احمدیت کی تقویت کا باعث بنا اور یہاں ایک مضبوط مخلص جماعت بن گئی۔ (بحوالہ لاہور تاریخ احمدیت مولف شیخ عبد القادر صاحب سوداگر مل) منقول ازروزنامہ الفضل13 دسمبر1961 ۔

جماعت احمدیہ عالمگیر کے دوسرے خلیفہ اورمصلح موعودصاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا ۔ ۔ ۔ اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا ،جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا، ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا، قومیں اس سے برکت پائیں گی‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آج بھی اس شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے نئے نظام کی تشکیل نو کی غرض سے 1918 میں لاہور میں امارت کے نظام کا آغاز ہوا، اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کو لاہور کا پہلا امیر مقرر فرمایا تاکہ لاہور میں جماعت مستحکم اور منظم ہو سکے۔ (لاہور تاریخ احمدیت صفحہ 454مؤلف شیخ عبدالقادر سوداگرمل) لاہور میں امارت کے نظام کے قیام کے 20 سال بعد 1938 میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعدد مبارک تحریکوں کا اجراء فرمایا تو ان میں نوجوانوں کی تنظیم کا قیام بھی شامل تھا ۔ جنوری1938 میں احمدی نوجوانوں کی تنظیم کا فیصلہ کیا گیا اور 4فروری کو اس تنظیم کا نام مجلس خدام الاحمدیہ رکھا گیا جس میں 15سال سے لے کر 40سال تک کی عمر کے نوجوان شامل ہونگے۔ مجلس کی بنیاد رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا ’’میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے، آج ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں ، یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو‘‘۔

(دیباچہ مشعل راہ جلد اول مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان مئی 2004 شائع کردہ نظارت نشرو اشاعت قادیان)(منقول ازروزنامہ الفضل17 فروری 1939)

دہلی دروازہ میں آمد اور مستقل قیام

1903 میں میاں فیملی لنگے منڈی سے نقل مقانی کرکے بیرون دہلی دروازہ آکر آباد ہوگئی تھی، حضرت میاں چراغ دین صاحب کا مکان مبارک منزل، جماعت کے لئے بطور مہمان خانہ، مرکز اور نماز سنٹر کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ لاہور میں سب سے پہلی مسجد خاندان میاں کو بنانے کا شرف حاصل ہوا تھا اور یہ بیرون دہلی دروازہ کی مسجد ہے جس نے بعد میں لاہور میں جماعتی نظام کو مستحکم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ لنگے منڈی میں ایک مسجد میاں فیملی کے بزرگ میاں الہٰی بخش صاحب جو کہ حضرت میاں چراغ دین صاحب کے دادا تھے ،نے تعمیر کرائی تھی، اور اس مسجد میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام، حضرت خلیفۃ المسیح الاول اور حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید نے بھی نمازیں پڑھی تھیں اور اس کا تذکرہ تاریخ احمدیت لاہور سمیت دیگر کتب سلسلہ میں بھی موجود ہے ۔

لاہور کے پہلے قائد مجلس ۔ فروری1938 میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے بعد لاہور میں بھی تنظیم قائم ہوئی اور مکرم میاں محمد عمر صاحب کو پہلا قائد خدام الاحمدیہ لاہور نامزد کیا گیا (مجلہ ہمارے سو سال، جماعت احمدیہ لاہور صفحہ نمبر136)۔ غیر مطبوعہ تاریخ ’’میاں فیملی لاہور‘‘ میں اس بارے کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ ’’ان دنوں جب میاں عمر صاحب وکالت کی پریکٹس کرتے تھے، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ نے تنظیم خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی تو لاہور میں آپ پہلے قائد نامزد ہوئے تھے، جبکہ مکرم عبدالراحمٰن صاحب مغل جنرل سیکرٹری، اور مرزا رحمت اللہ صاحب مجلس عاملہ کے ممبر تھے (غیر مطبوعہ ’’تاریخ میاں فیملی لاہور‘‘ باب سوم، مولف میاں محمد صادق صاحب ایم اے ادیب فاضل) (نوٹ۔ خاکسار نے اس فیملی سے رابطہ کرکے اس نوٹ بک سے یہ باتیں خود نوٹ کی تھیں)

اہم نوٹ ۔ تاریخ احمدیت لاہور مؤلف شیخ عبد القادر صاحب سوداگر مل نے ( نیا ایڈیشن) صفحہ نمبر614-615 پر قائدین مجالس خدام الاحمدیہ شہر لاہور کی ایک فہرست شائع کی ہے جس کے مطابق ’’لاہور میں قیادت کی داغ بیل رکھنے کا سہرا مکرم مرزا رحمت اللہ صاحب کے سر ہے‘‘۔ جماعت احمدیہ لاہور کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر جب لاہور جماعت احمدیہ نے یادگاری مجلہ کی اشاعت کے لئے تحقیقی کام کیا تو تب یہ بات تحقیق پر سامنے آئی کہ مکرم مرزا رحمت اللہ صاحب انتخاب کے ذریعے منتخب ہونے والے پہلے قائد تھے، اور صد سالہ مجلہ میں لاہور کے پہلے نامزد قائد کے طور پر میاں محمد عمر صاحب کا نام قائدین کی فہرست میں شامل ہوا تھا ۔

میاں محمد عمر صاحب کا تعارف ۔ آپ کے والد کا نام مکرم میاں عبدالحمید ہے آپ 1915 کو پیدا ہوئے تھے ۔ آپ کا تعلق لاہور کی اس مشہور و معروف میاں فیملی سے ہے جس کو لاہور میں جماعت احمدیہ کی بنیادیا داغ بیل ڈالنے کا شرف حاصل رہا ۔ بی ایس سی کے بعد آپ کا پروگرام ایم ایس سی کرنے کا تھا لیکن آپ کے نانا حضرت میاں چراغ دین صاحب کے کہنے پر وکالت کا امتحان پاس کرکے آپ وکیل بن گئے اور بعد میں ایک انتہائی کامیاب وکیل ثابت ہوئے ۔ بیرون دہلی دروازہ میں رہائش ہونے کی وجہ سے بچپن ہی میں دینی مجالس میں شامل ہونے کے بھرپور مواقع ملتے رہے تھے جس کی وجہ سے ان کے اندر بھی دین کی خدمت کا شوق پیدا ہوچکا تھا، اس کے علاوہ اپنے گھر کا ماحول بھی بہت دینی تھا ۔ حضرت میاں چراغ دین صاحب، حضرت میاں عبدالعزیز مغل صاحب، مکرم میاں محمد سعید صاحب سعدی، حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ جیسے بزرگوں کی دینی تربیت نے آپ کے اندر نکھار پیدا کردیا تھا، اسی تربیت نے ان کی طبیعت بحث و مناظرہ کی طرف مائل کردی تھی جس کی وجہ سے مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام خوب انفرادی اور اجتماعی بحث و مناظرے کی مجالس منعقد کیں۔ بیرون مسجد دہلی دروازہ میں منعقد مناظروں میں مسئلہ نبوت، مسئلہ خلافت اور مسئلہ کفرو اسلام خاص طور پر قابل ذکر ہوا کرتے تھے۔ مکرم میاں محمد عمر صاحب کا انداز گفتگو نہایت موثر اور مخالف فریق کا حیران کر دینے والا ہوتا تھا۔ بعد ازاں آپ نے پولیس کی پراسیکیوشن برانچ میں ملازمت کر لی تھی اور اپنی قابلیت کی وجہ سے پی پی ایس پی کے عہدہ تک پہنچ گئے تھے، بعد ازاں ایس پی بھی بن گئے تھے ،آخری دنوں میں آپ ساہیوال میں قیام پذیر رہے تھے اور آپ کا انتقال 1986میں ہوا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ نے محترم میاں محمد عمر صاحب قائد مجلس کی شادی پر دعوت ولیمہ میں بھی شرکت فرمائی تھی۔

(ڈائری تاریخ میاں فیملی غیر مطبوعہ)

ابتدائی اراکین مجلس عاملہ لاہور

ریکارڈ سے ابتدائی اراکین کے نام دستیاب نہ ہوسکے کیونکہ ابھی بیرون مجالس میں ریکارڈ رکھنے کے کام کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ خاکسار نے محترم عبد الرحمٰن صاحب مغل کا لاہور میں ایک طویل انٹرویو آصف بلاک وحدت کالونی لاہور میں کیا تھا جس میں انہوں نے ابتدائی تنظیم اراکین کے نام بتائے تھے جو درج ذیل ہیں:
1۔ مکرم میاں محمد عمر صاحب قائد مجلس 2۔ مکرم عبدالرحمن صاحب مغل سیکرٹری 3۔ مکرم مرزا رحمت اللہ صاحب 4۔ مکرم غلام محمد ثالث صاحب 5۔ مکرم میاں عبدالمنان ناصر صاحب 6۔ مکرم میاں احمد حسین چغتائی صاحب

ابتدائی آیام میں دہلی دروازہ ہی ایسا سنٹر تھا جہاں لاہور کے احباب نماز جمعہ کے علاوہ دیگر جماعتی پروگرامز خصوصاً خدام الاحمدیہ کے پروگرامز اسی جگہ پر ہوتے تھے۔ اس سلسلہ میں مکرم میجر(ر) عبد الرحمٰن صاحب مغل بیان کرتے ہیں کہ ’’ہمارا خاندان چونکہ بیرون دہلی دروازہ کے قریب ہی رہتا تھا جس میں پچیس، تیس افراد شامل ہوتے تھے اور خدام الاحمدیہ کے کسی بھی کام کے سلسلہ میں مکرم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور، مکرم میاں محمد عمر صاحب اور خاکسار (سیکرٹری) کو بلا کر ہدایات دیتے تھے۔ مکرم میاں محمد عمر صاحب سنجیدہ اور خاموش طبع قائد تھے۔ ان کو جو کہا جاتا وہ کردیتے تھے۔ شام کو تبلیغی اور تربیتی اجلاسات ہوا کرتے تھے‘‘۔

اسی طرح انتہائی ابتدائی دور کی باتیں اور مساعی کا ذکر کرتے ہوئے مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب، سابق قائد مجلس لاہورنے اپنے گھر ماڈل ٹاؤن میں خاکسار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’1939ء میں ہم دہلی دروازہ کی مسجد کے قریب منتقل ہوئے تو میں اطفال الاحمدیہ تنظیم کا ممبر بن گیا تھا۔ اس زمانے میں مکرم عبدالمنان صاحب زعیم حلقہ ہوا کرتے تھے۔ بعد میں مکرم عبدالمنان صاحب قائد مجلس لاہورمنتخب ہوئے تھے)، اللہ کے فضل سے انہوں نے ہماری بہت شاندار تربیت کسی تھی۔ وہ نمازوں کی باقاعدہ حاضری لیا کرتے تھے اور انعامات بھی دیا کرتے تھے۔ کھیلوں اور تعلیم و تربیت کی طرف ان کی خاص توجہ ہوا کرتی تھی۔ ایک سلسلہ جس کا ہم خدام و اطفال کو بہت فائدہ ہوا تھا وہ یہ تھا کہ دہلی دروازہ کی مسجدمرکزی مسجد تھی لہٰذا ایک لائبریری بھی موجود تھی۔ لائبریری والے کمرے مہمان خانے کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے اور باہر سے آنے والے مہمان خصوصاً جید علمائے کرام وہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ اس عرصہ میں جن جن علماء کرام کو یہاں آنے کے مواقع ملے تھے ان میں مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب، مکرم مولانا ابو عطاء جا لندھری صاحب، مکرم مولانا محمد نذیر لائلپوری صاحب، مکرم مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ، مکرم ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب وغیرہ شامل تھے ۔ ان کے ساتھ شام کے وقت دہلی دروازہ میں مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں جس میں خدام و اطفال شامل ہوتے تھے اور ان سے سوالات کرتے تھے۔ ان محفلوں میں علمائے کرام اپنے تعلیمی واقعات اور دیگر ایمان افروز واقعات بیان کرتے تھے۔ اسی طرح ہفتہ میں کم از کم ایک بار تربیتی اجلاس لازمی ہوا کرتا تھا جہاں باقاعدہ حاضری لی جاتی تھی۔‘‘

ابتدائی زعماء حلقہ بیرون دہلی دروازہ
مجلس خدام الاحمدیہ

تنظیم کے قیام کے بالکل ابتدائی دور میں حلقہ دہلی دروازہ کے زعماء خدام الاحمدیہ کے جو نام سامنے آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

  1. مکرم میاں عبد المنان صا حب
  2. مکرم صوفی خدا بخش صاحب
  3. مکرم میاں عبدالرشید صاحب
  4. مکرم الیاس چغتائی صاحب

جیسا کہ پہلے لکھا چا چکا ہے کہ 1918ء میں لاہور میں امارت قائم ہوچکی تھی لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں احمدی رہتے تھے وہ علاقے جماعت کے نظام کے ساتھ منسلک ہونے لگے تھے۔ فروری 1938ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے وقت لاہور میں دہلی گیٹ، بھاٹی گیٹ اور مزنگ حلقہ جات میں جماعتیں قائم تھیں۔ جبکہ گنج مغلپورہ ابتداء ہی سے الگ مجلس کے طور پر موجود تھی۔ ان حلقہ جات میں مختلف کام سر انجام دیئے جاتے تھے۔جماعتی طور پر ان دنوں حلقہ چھاؤنی بھی موجود تھا لیکن وہاں مجلس خدام الاحمدیہ موجود نہ تھی۔ جون 1938ء میں لاہور کے دیگر حلقہ جات جن میں احمدیہ ہوسٹل اور گورنمنٹ کوارٹرز شامل ہیں، میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم ہوچکی تھی جو مرکز میں رجسٹرد ہوچکی تھیں۔ (الحکم 28جون 1938ء صفحہ8) 1939 میں جماعتی طور پر لاہور جماعت 12 حلقوں پر مشتمل تھی ان میں سے 9 حلقہ جات میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم ہوچکی تھی (روزنامہ الفضل قادیان سولہ مئی 1939ء) بعد میں حلقہ جات سول لائن اور چھاؤنی بھی قائم ہوئے تھے۔ ریکارڈ کے مطابق 1940ء میں درج ذیل جماعتی حلقے لاہور میں وجود تھے:
حلقہ باغبانپورہ، توپ خانہ، داتا دربار، اسلامیہ پارک، محمد نگر، چابک سواراں اور حلقہ احمدیہ ہوسٹل جبکہ جماعت شاہدرہ پہلے سے موجود تھی

(الفضل قادیان 18مئی 1941ء صفحہ5)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں خدام اکھٹے ہوتے رہے وہاں تنظیمیں بنتی رہیں اور یوں جماعت احمدیہ لاہور کی وسعت ہوتی گئی اور اس وقت کی کچھ مجالس آج بھی قائم ہیں۔ روزنامہ الفضل قادیان 16 مئی 1939ء میں ایک رپورٹ بعنوان ’’رپورٹ کارگزاری بیرونی مجالس خدام الاحمدیہ‘‘ بابت مارچ 1939ء شائع ہوئی ہے اس میں لاہور سے متعلق کچھ مساعی قابل ذکر ہیں جس اختصار کے ساتھ تذکرہ یہاں درج ہے۔ رپورٹ کے مطابق مجلس دہلی دروازہ کے زیر اہتمام لائبریری کی کتب کی فہرست تیار کی گئی۔ ہفتہ وار اجلاس باقاعدہ ہوتے رہے۔ کتب سلسلہ کا درس باقاعدگی سے جاری رہا۔ بھاٹی گیٹ میں تین ہفتہ وار اجلاس ہوئے جن میں خدام نے تقاریر کی مشق کی۔ ایک تبلیغی پبلک جلسہ منعقد کیا گیا جس کے جملہ انتظامات خدام نے سرانجام دیئے۔خدام کے پانچ وفود سلسلہ کی مختلف تحریکات کی طرف توجہ دلانے کے لئے احباب کے پاس گئے۔ اجتماعی حیثیت سے تین دفعہ خدام نے بیمار پرسی کی۔ ایک غیر احمدی بیوہ کے لئے گھروں سے آٹا اکٹھا کیا گیا۔ تین دفعہ خدام نے اکٹھا کھانا کھایا۔ خطبات حضرت امیرالمومنین آٹھ دفعہ سنائے گئے۔ نماز فجر کے لئے احباب کا جگایا جاتا رہا۔خدام کے دو وفود نے گلیوں میں پبلک کو اخلاق، صفائی اور نماز کی تلقین کرنے کے لئے چکر لگایا۔ انفرادی طور پر بھی خدام سڑکوں سے تکلیف وہ اشیاء اٹھاتے رہے ۔

پاکستان بننے کے بعد 1949ء۔1950ء کی خدام الاحمدیہ کی ایک رپورٹ سے کچھ ابتدائی معلومات جو ملی تھیں ان کے مطابق اس سال تک مجلس شہر لاہور کے حلقہ جات کی تعداد 15ہو چکی تھی۔ ہر حلقہ کا ایک زعیم ہوتا تھا اور ہر شعبہ کا ایک ناظم ہوتا تھا۔ اس طرح مجلس شہر میں کل 15زعماء حلقہ جات، 10ناظمین، قائد مجلس شہر اور معتمد مجلس سمیت یوں 27رکنی مرکزی عہدیدار ہوتے تھے جو پوری مجلس کو چلاتے تھے۔

اس کے علاوہ چند الگ مجالس خدام الاحمدیہ بھی موجود تھیں جن کے قائد ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کی وجہ سے ہر طرف افراتفری کا عالم تھا اور ابھی تک لاہور میں مقیم احمدیوں کا مستقل ٹھکانہ بھی نہ تھا۔ کچھ عارضی طور پر تھے اور کچھ مستقل رہائش اختیار کرچکے تھے۔ اسی رپورٹ کے مطابق اس سال350 خدام اور 80اطفال تنظیم کے ریکارڈ میں رجسٹرڈ ہو چکے تھے لیکن ابھی مزید نئے خدام کی تلاش کا کام جاری تھا۔ دھیرے دھیرے وقت گزرتا رہا، قائدین مجلس شہر تبدیل ہوتے رہے اور مجلس خدام الاحمدیہ لاہور دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہی۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے رہے اورخدمت دین میں مجلس کے قدم آگے کی طرف ہی بڑھتے چلے گئے۔

لاہور شہر بہت پھیل چکا تھا اور مجلس میں خدام الاحمدیہ کے ممبران کی تعداد بھی بہت زیادہ ہو چکی تھی۔ مؤثر رابطوں اور بہتر تعلیم و تربیت کی غرض سے شہر لاہور کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

نومبر 1971ء میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور شہر کی پہلی بار تقسیم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی ہدایت پر ہوئی تھی اور اس وقت لاہور مجلس کے حلقہ جات کی تعداد 24تک ہو چکی تھی۔ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور شہر کو پانچ نئی مجالس خدام الاحمدیہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نئی بننے والی مجالس میں مجلس دارالذکر، مجلس ماڈل ٹاؤن، مجلس وحدت کالونی، مجلس دہلی گیٹ، مجلس اسلامیہ پارک اور مجلس مغلپورہ شامل تھیں۔ (مجلس ماڈل ٹاؤن پہلے سے موجود تھی تاہم اس میں نئے حلقوں کا اضافہ کیا گیا تھا) اس وقت مکرم چوہدری حمیداللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے جبکہ لاہور مجلس کے قائد مکرم مجیب الرحمٰن صاحب درد تھے ۔

دیہی مجالس کی نگرانی

مجلس خدام الاحمد یہ لاہور کی جب بھی بات ہوگی تب دیہی مجالس کا تذکرہ اور ذکر لازمی ہوگا۔ لاہور شہر کے ارد گرد کے دیہی علاقوں میں کثیر تعداد میں جماعتیں قائم اور موجود تھیں اور لازمی تھا کہ وہاں خدام اور اطفال کی مجالس بھی قائم ہوں۔ ان دنوں آج کے اضلاع قصور اور اوکاڑہ کے بیشتر گاؤں اور تحصیلیں مجلس لاہور کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔

1960ء کی دہائی میں جو دیہی مجالس لاہور کا حصہ تھیں وہ یہ ہیں: 1۔ باٹا پور، 2۔ہانڈوگجر، 3۔اڈہ چھبیل 4۔شاہدرہ ٹاءون، 5۔فیکٹری ایریا، 6۔ہڈیارہ، 7۔اصل گروکے، 8۔جاہمن، 9۔للیانی، 10۔لدھیکے، 11۔نیوین، 12۔کماس، 13۔رکھ شیخ کوٹ، 14۔رائے ونڈ، 15۔کھڑی پڑ، 16۔جوڑا، 17۔سانگڑہ، 18۔کھڈیاں، 19۔قصور، 20۔پتوکی، 21۔چونیاں، 22۔شمش آباد، 23۔دھوپ سڑی، 24۔پھلیر، 26۔کوٹ امیر محمد، 27۔علی پور۔ سرکاری طور پر نئے اضلاع قصور اور اوکاڑہ بنے تواس طرف کی مجالس ان نئے اضلاع میں شامل ہو گئیں تھیں۔ پرانی 27 جماعتوں میںسےکچھ مجالس آج بھی لاہور جماعت کا حصہ ہیں ۔

1951ء کی مجلس شوریٰ میں باقاعدہ طور پر تجویز منظور ہونے کے بعدبڑے اضلاع میں دوردراز کی دیہی مجالس کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کے لئے باقاعدہ عہدیداران کی منظوری لینے کی ہدایات جاری کی گئیں تھیں جن پر بعد میں وقتا فوقتا عمل درآمد ہوتا رہا ۔ 1960ء کی ابتداء میں نائب قائد ضلع برائے دیہی مجالس کی تقرری ہوئی اور اسی دور میںحضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے بحیثیت نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ لاہور کے کامیاب دورے کئے تھے اور تین تین دن تک ان دیہی مجالس میں قیام فرمایاتھا۔ پیدل اور سائیکلوں کے ذریعے مجالس تک سفر کیا تھا،یہ بات ریکارڈ پر ہے اور پرانے رسائل اور روزنامہ الفضل گواہ ہیں کہ ان دیہی مجالس نے تنظیم کو مضبوط کرنے اور جماعت احمدیہ کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ لاہور کے نظام میں دیہی مجالس کی نگرانی اور نظام سے وابسطہ رکھنے کے لئے ضلع کی مجلس عاملہ میں نائب قائد ضلع برائے دیہی مجالس، نگران اعلیٰ دیہی مجالس اور نگران دیہی مجالس کے عہدوں پر مرکز سے منظوریاں لی جاتی رہیں ہیں ۔

فہرست قائدین مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور

درج ذیل احباب کو تنظیم کے قیام کے بعد سے (1938ء۔2020ء) اب تک مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کی قیادت کرنے کی توفیق ملی :
1938ءتا1939ء مکرم میاں محمد عمر صاحب (پہلے نامزدقائد)
1939ءتا1940ء مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب(پہلے منتخب قائد)
1940ءتا1941ء مکرم میر مشتاق احمد صاحب
1941ءتا1948ء مکرم قریشی محمود احمد صاحب ایڈوکیٹ
1948ءتا1949ء مکرم خواجہ محمد اکرم صاحب اور مکرم میاں عبدالمنان صاحب
1949ءتا1952ء مکرم شیخ خورشید احمد صاحب
1952ءتا1953ء مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب
1953ءتا1954ء مکرم محمد سعید احمد صاحب
1954ءتا1955ء مکرم عبدالجلیل عشرت صاحب اورمکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب
1955ءتا1958ء مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب
1958ءتا1960ء مکرم محمود احمد قریشی صاحب معتبر
1960ءتا1961ء مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب
1961ءتا1963ء مکرم حضرت اللہ پاشا صاحب
1963ءتا1967ء مکرم شیخ ریاض محمود صاحب
1967ءتا1968ء مکرم حمید اسلم قریشی صاحب
1968ءتا1976ء مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب
1976ءتا1978ء مکرم شیخ مظفر احمد صاحب
1978ءتا1980ء مکرم ظاہر احمد خان صاحب شہید
1980ءتا1982ء مکرم مجیب الرحمٰن درد صاحب
1982ءتا1985ء مکرم ملک طاہر احمد صاحب
1985ءتا1986ء مکرم اعجاز احمد صاحب
1986ءتا1989ء مکرم چوہدری محمد احمد صاحب
1989ءتا1994ء مکرم عبد الحلیم طیب صاحب
1994ءتا1995ء مکرم ڈاکٹر عبد الوحید صاحب
1995ءتا2003ء مکرم چوہدری منور علی صاحب
2003ءتا2009ء مکرم سردار نسیم الغنی صاحب
2009ءتا2016ء مکرم عبدالعلی صاحب (انہی کے دور میں 28 مئی 2010ء کودارالذکر، ماڈل ٹاؤن پر دہشتگردی کے حملے ہوئے تھے)
2016ءتا2019ء مکرم مشہود احمد صاحب
2019ء تاحال مکرم وقاص اشرف صاحب

نوٹ ۔ مذکورہ بالا فہرست قائدین، لاہور تاریخ احمدیت میں 1963ء تک کی شائع شدہ موجود ہے۔ جماعت احمدیہ لاہور کے صد سالہ مجلہ کی اشاعت پر اس میں اضافہ ہوا اور 2003ء تک یہ فہرست شائع ہو ئی تھی۔ نیز خاکسار کو بھی مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور میں مختلف شعبوں میں خدمت دین کی توفیق ملی اور یہ عرصہ خدمت 1979ء سے 2003ء تک کا ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

(مرسلہ: منور علی شاہد سابق معتمد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور (جرمنی))

پچھلا پڑھیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش معیّن ہوگئی

اگلا پڑھیں

آج کی دعا